شفیق خلش شفیق خلش ::::: منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
khalish_small.jpg

شفیق خلش

منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے

مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے

بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے

اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب تصوّرِخوش دِید کے رہے

خود پر اُداسیوں کا سبب کیا کہیں، بُجز
کچھ کم کرَم نہ ہم پہ وہ خورشید کے رہے

اپنا خیال رکھنا، خبر بھیجنا ضرور !
منظر نظر میں روتے بھی تاکید کے رہے

کم گو بِچھڑ کے اُس سے ہیں احباب پر خلِش
اب دن کہاں وہ قصّے، وہ تمہید کے رہے

شفیق خلش
 
Top