طارق شاہ
محفلین
غزلِ

شفیق خلش
ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات
تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات
عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات
اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار بھی ہو
لِئے وہ خود میں جہنّم کی ایسی آگ تھی رات
رُکی رُکی کبھی سانسیں، کبھی نہ ہوش کوئی
گُزر رہے تھے عجَب مرحَلوں سے ہجر کی رات
برابراب بھی مِرے ذہن و دِل کو ڈستی ہے
تمھارے وعدۂ آمد سے ٹھہری مُوذی رات
اُمیدِ وصْل سے چَھٹتی نظر نہیں آتی !
جو زندگی پہ ہے طاری خلِش کی رات ہی رات
شفیق خلش