طارق شاہ
محفلین
غزلِ
بات چلتی نظر نہیں آتی
کچھ بھی بنتی نظر نہیں آتی
رنگِ اُلفت بَرنگِ قِسمت ہی
کُچھ چَمکتی نظر نہیں آتی
جس پہ تکیہ تھا اب وہی مجھ کو
میری بنتی نظر نہیں آتی
عمر بھر کی نہ ہو یہ تنہائی
پَل کو ہٹتی نظر نہیں آتی
کھوچُکا میں نظر کی شادابی
راہ چلتی نظر نہیں آتی
شوخ اُس شوخ کی تمنّا بھی
کب مچلتی نظر نہیں آتی
رُوح افزا ہیں خواہشیں دِل کی
عُمر ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا تمنّا اب اُس سَمَن کی خلِش
رُت بدلتی نظر نہیں آتی
شفیق خلش