طارق شاہ
محفلین
آئے جو وہ ، تو دل کے سب ارماں مچل گئے
بُجھتے ہُوئے چراغِ وفا پھر سے جل گئے
مِلتے توسب سے آ کے ہیں اِک ہم ہی کو مگر
مِلتی نہیں خبر وہ کب آکر نکل گئے
پیمان وعہد کیا ہُوئے، سوچوں کبھی کبھی
کیوں قربتوں کے ہوتے وہ اِتنے بدل گئے
ویراں تھی زندگی، مِری اِک دِید کے بغیر
اب ایسی زندگی سے وہ کیسے بہل گئے
وارفتگیِ شوق کا عالم نہ پُوچھیے
ہم لوگ انتظار کے سانچوں میں ڈھل گئے
ہے اشتیاق دل کو خلش جاننے کا اب
کیونکر وہ اپنی باتوں سے پہلو بدل گئے
شفیق خلش
بُجھتے ہُوئے چراغِ وفا پھر سے جل گئے
مِلتے توسب سے آ کے ہیں اِک ہم ہی کو مگر
مِلتی نہیں خبر وہ کب آکر نکل گئے
پیمان وعہد کیا ہُوئے، سوچوں کبھی کبھی
کیوں قربتوں کے ہوتے وہ اِتنے بدل گئے
ویراں تھی زندگی، مِری اِک دِید کے بغیر
اب ایسی زندگی سے وہ کیسے بہل گئے
وارفتگیِ شوق کا عالم نہ پُوچھیے
ہم لوگ انتظار کے سانچوں میں ڈھل گئے
ہے اشتیاق دل کو خلش جاننے کا اب
کیونکر وہ اپنی باتوں سے پہلو بدل گئے
شفیق خلش
آخری تدوین: