محسن نقوی شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی - محسن نقوی

فرخ منظور

لائبریرین
شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی

ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی

مجھے تنہائیوں کا خوف کیوں ہے
وہ مرے پیار کو سمجھے تو سہی

وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی

سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی

اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی

دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کبھی دیکھے تو سہی

اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
 

مغزل

محفلین
بہت خوب جناب کیا کہنے !
اسلاف کو یادکرنے کا عمل یوں بھی تہذیب کے استمرار کی علامت ہے ۔۔
خوش رہئے جناب ۔۔
والسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی



بہت ہی خوب۔ عمدہ غزل ہے۔
بہت شکریہ محمد احمد صاحب!

بہت خوب جناب کیا کہنے !
اسلاف کو یادکرنے کا عمل یوں بھی تہذیب کے استمرار کی علامت ہے ۔۔
خوش رہئے جناب ۔۔
والسلام

قبلہ میں نے محسن نقوی کی غزل پوسٹ کی ہے اسلاف کو یاد نہیں کیا -
 
Top