سنگ آئے کہ کوئی پھول ، اٹھا کر رکھئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سنگ آئے کہ کوئی پھول ، اٹھا کر رکھئے
جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے

سجدہء عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی
سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے

دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے
اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے

گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم
ہے وہی خاکِ شفا اُس کو اٹھا کر رکھئے

ہم یوں کھلتے نہیں دوچار ملاقاتوں میں
ایک دو روز ہمیں پاس بلا کر رکھئے

۔ ۔۔ ۔ ۔ ۲۰۰۳ ۔۔ ۔ ۔ ۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سجدہء عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی
سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے
بہت خوب ۔۔۔

کیا کہنے ظہیر صاحب۔ کیا ہی عمدہ کہا ہے

بہت عمدہ ظہیر بھائی واہ واہ​

کیا خوب اشعارنکالے ہیں۔ مزا آ گیا۔ واہ
بہت سی مبارک باد

نوازش! بہت بہت شکریہ ! بہت ممنون ہوں آپ تمام صاحبانِ ذوق کا ! خدا آپ سب کو سلامتی میں رکھے !
 
Top