سفر

سورج کی پستی کا سفر ۔۔۔ اس پیراگراف میں دیکھئے۔
سورج کا پستی کا سفر ۔۔ تکلیف دِہ ۔۔ تھکن سے چُور ۔۔
حالات سے شل ہوتے دماغ نے کچھ بھی مزید محسوس کرنے سے انکار دیا تھا۔ یہاں مبالغہ کی صنعت غلو کو چھونے لگی ہے۔
آپ کے ہاں لفظ ’’اچانک‘‘ بہت آتا ہے اور ’’اچانک آتا ہے (جملہ معترضہ)‘‘ ۔
اسے لگا گویا ساری تکالیف ختم ہو گئیں۔ کچھ دیر کی اس برستی بارش نے سفر کو پھر سے خوشگوار بنا دیا، سارے زخم دھلنے لگے، پیروں کے سب کانٹے آہستہ آہستہ نکلنے لگے۔ ۔۔ ان سطور میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے۔
اچانک اس کے سر پر کوئی چیز زور سے آکر لگی۔ اس نے دیکھنے کی کوشش کی۔ ایک عام آلو کے سائز کا برف کا گول سا ٹکڑا خوفزدہ نظروں سے اس نے ارد گرد دیکھا اور تب ہی اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ۔۔۔ عام آلو کے سائز کا اولا بھئی سچی بات ہے ہم نے نہ دیکھا نہ سنا، اور اگر وہ سر پر زور سے آ لگے (خدانخواستہ) تو کھوپڑی چٹخ جائے۔ ابھی ضمناً بات ہوئی ہے۔ مبالغہ ایک صنعت ہے اور اس کا استعمال بہت چابک دستی سے کرنا ہوتا ہے، خاص طور پر نثر میں مبالغہ کی گنجائش شعر کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔ دوسرا اہم نکتہ، کہ آپ جو کچھ بھی لکھئے، جیسے بھی لکھئے، خلافِ واقعہ نہ لکھئے۔ یہیں، جب آپ نے بادلوں نے چھا جانے کی بات پہلے کر دی تو پھر اس تسلسل کو فطرت کے قریب قائم رکھئے۔ اتنا کچھ بھی ’’اچانک‘‘ نہیں ہوا کرتا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تضاد بیانی سے بچئے۔ ایک ہی پیراگراف میں پہلے آپ نے کہا: دماغ نے کچھ بھی محسوس کرنے سے انکار کر دیا ۔
اور اب: مگر نہ تو قدم تھمے، نہ سانس رکی۔ دل تھا کہ دھڑک رہا تھا، دماغ تھا کہ ہر ہر ریشے سے اُٹھتی درد کی شدت کا احساس دلا رہا تھا۔
میں یہاں صرف سوالیہ نشان لگا سکتا ہوں۔
سانس رکنے سے آپ کی مراد شاید سانس پھولنا ہے، تو وہی لکھئے، بے چاری کا سانس روکئے نہیں۔ ہاں یہ سانس بھی عجیب شے ہے، کوئی اس کو مذکر لکھتا ہے کوئی مؤنث لکھتا ہے اور کوئی میری طرح کبھی کچھ کبھی کچھ۔ حل اس کا یہ ہے کہ آپ روزمرہ کو دیکھے: مثلاً ۔۔۔ اس کا سانس پھول گیا۔ سانسیں گنی جا چکیں۔ ۔۔۔ یہ سب شاید ایک معمول سا بن گیا تھا۔ ۔۔۔۔ نہیں! یوں کہئے کہ وہ اس سب کچھ سے مانوس سی ہو گئی تھی؛ معمول بالکل مختلف چیز ہے۔ دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ ژالہ باری عام طور پر اچانک شروع ہوتی ہے اور اچانک رک جاتی ہے۔ یہاں آپ نے ’’دھیرے دھیرے‘‘ کا اہتمام کیا ہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سلمان حمید

محفلین
بہت خوب، پورا پڑھے بغیر رہ نہیں پایا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ بیالوجی کہیں نہ کہیں سے بیچ میں ٹپک ہی آتی ہے :p
 

سلمان حمید

محفلین
علامتی سطح پر اس کا مطالعہ موقوف ۔۔ اب بہت تھک گیا ہوں۔
محمد یعقوب آسی بھائی میں نے بھی سوچا تھا کہ نثر لکھنا شروع کروں کیونکہ شاعری کا شوق ختم ہو گیا ہے ۔ لیکن اب آپ نے ڈرا دیا ہے۔
آسان الفاظ میں کہوں تو ادب ہی میرے بس کا کام نہیں ہے :(
 
محمد یعقوب آسی بھائی میں نے بھی سوچا تھا کہ نثر لکھنا شروع کروں کیونکہ شاعری کا شوق ختم ہو گیا ہے ۔ لیکن اب آپ نے ڈرا دیا ہے۔
آسان الفاظ میں کہوں تو ادب ہی میرے بس کا کام نہیں ہے :(

ایسی بھی کیا بات ہو گئی، سلطانِ معظم! اگر آپ ڈرے نہیں تو سب کچھ آپ کے بس میں ہے۔ اور ڈریے بھی نہیں!!
اپنا ایک شعر، آپ کی نذر

چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​
۔۔۔۔۔۔
 

سلمان حمید

محفلین
ایسی بھی کیا بات ہو گئی، سلطانِ معظم! اگر آپ ڈرے نہیں تو سب کچھ آپ کے بس میں ہے۔ اور ڈریے بھی نہیں!!
اپنا ایک شعر، آپ کی نذر

چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​
۔۔۔ ۔۔۔
بہت خوب شعر کہا ہے آپ نے :)
ڈرنا تو میرے جیسے انسان کی فطرت میں شامل ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایک کام تو ٹک کے کر لوں :biggrin:
 
اک مرے دل سے محبت کی خطا ہوتے ہی
بھول بیٹھا ہے مجھے تْو بھی خدا ہوتے ہی

سر بسجدہ ہوں، ترے در پہ میں نادم ہو کر
اب نھیں جاؤں گا حاجت کے روا ہوتے ہی

تْو ملا کس کو مری جان نھیں پرواہ اب
میں ملا خود سے مگر تجھ سے جدا ہوتے ہی

دشمنِ جان تجھے جب بھی بھلانا چاہا
ذہن و دل ایک ہوئے مجھ سے خفا ہوتے ہی

میں تو مجرم بھی اسی وقت بنا ملزم سے
چل دیا اُٹھ کے مجھے جب وہ سزا ہوتے ہی

سلمان حمید
 

سلمان حمید

محفلین
اک مرے دل سے محبت کی خطا ہوتے ہی
بھول بیٹھا ہے مجھے تْو بھی خدا ہوتے ہی

سر بسجدہ ہوں، ترے در پہ میں نادم ہو کر
اب نھیں جاؤں گا حاجت کے روا ہوتے ہی

تْو ملا کس کو مری جان نھیں پرواہ اب
میں ملا خود سے مگر تجھ سے جدا ہوتے ہی

دشمنِ جان تجھے جب بھی بھلانا چاہا
ذہن و دل ایک ہوئے مجھ سے خفا ہوتے ہی

میں تو مجرم بھی اسی وقت بنا ملزم سے
چل دیا اُٹھ کے مجھے جب وہ سزا ہوتے ہی

سلمان حمید
آسی بھائی، کیوں شرمندہ کر رہے ہیں پرانی غلطیوں کا ذکر کر کے :p
 

نایاب

لائبریرین
نسائیت سے بھرپور اک بہترین استعاراتی تحریر
صنف نازک پر گزرنے والے کرب نارسائی کو
زندگی بھر کی آبلہ پائی کو
بہت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے ۔
بہت دعائیں
 

ساقی۔

محفلین
علامتی سطح پر اس کا مطالعہ موقوف ۔۔ اب بہت تھک گیا ہوں۔

جواب نہیں آپکا سر جی۔۔۔۔آپ تو ہمیں ادیب بنا کے ہی چھوڑیں گے ۔۔۔۔۔ بہت گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں آپ۔۔۔
مطالعہ کرتے وقت کن چیزوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے؟
ہمیں بھی بتایئے ہم کیسے مطالعہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔؟
 
Top