سفر

ماہی احمد

لائبریرین
افق کے اس پار بادل سورج کی پردہ کشائی کر رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ سحر طبیعت کو نہایت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے قدموں کے نیچے موجود گھاس اوس کے باعث نم تھی۔ اور یہی گھاس کی نمی گویا پیروں کے تلوؤں سے ہوتی ہوئی ہر ہر رگ تک جا پہنچی تھی۔ ایک خوبصورت احساس تھا جو روح و جان کو سکون بخش رہا تھا۔ اس نے نیچے دیکھا، اس کے پاؤں ننگے تھے۔ وہ ایک ایسی وادی میں کھڑی تھی جہاں حدِ نگاہ اونچا نیچا سا ایک میدان تھا جس میں گویا کسی نے گھاس کا سبز قالین بچھایا ہو۔ درمیان میں نسبتاً کم گھاس سے بنا ہوا ایک بل کھاتا رستہ تھا جس کے اطراف خوشنما پھولوں کی قطار تھی، اور ان پھولوں سے ذرا پیچھے چند ایک درخت، اور اس پورے میدان میں یونہی کہیں کہیں کوئی درخت نظر آ رہا تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ صبح کا ایک ایسا نغمہ تھی کہ من چاہے سنتے جاؤ۔

اس نے قدم قدم چلنا شروع کیا۔ ایک عجب احساس تھا جو دل و دماغ پر طاری تھا، ایک سرشاری کی سی کیفیت، خوشی کا احساس۔ وہ اردگرد کے پھولوں پر ہاتھ پھیرتی آگے بڑھ رہی تھی، سورج نہایت تیزی سے اپنا سفر شروع کر چکا تھا۔ اب اس کی نرم گرم کرنیں ماحول کو ایک نیا رنگ دے رہی تھیں، جو پہلے سے بھی زیادہ دلفریب تھا۔ سب کچھ اب زیادہ واضح تھا وہ بھی جو صبح کی ملگجی سی روشنی نے چھپا رکھا تھا۔ وہ اس وادی کے سحر میں مکمل طور پر گرفتار آگے بڑھ رہی تھی۔ پھولوں کو غور سے دیکھتے انہیں محسوس کرتے اچانک اسے احساس ہوا کہ جو پھول اس کی پسند کے ہیں وہ کہیں نہیں، باقی سب ہیں مگر، وہ نہیں۔ نجانے کیوں مگر یہ بات اسے اچھی نہ لگی، اس کے دل نے ضد کی کہ وہی پھول چاہیں جو پسند ہیں، ڈھونڈو انہیں، دماغ نے کہا ارے رہنے دو، جو ہیں انہیں ہی غنیمت جانو۔

دل و دماغ کی اس جنگ میں محو وہ آگے بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ سورج بھی سر پر پہنچنے لگا۔ نجانے یہ کیسی دنیا تھی کہ وقت سر پر پیر رکھے دوڑ رہا تھا۔ بدن کو بھلی لگتی نرم گرم کرنیں اب چبھنے لگیں اس نے آس پاس دیکھا تو سب درختوں کے پتے پیلے ہوتے پائے۔ وہ حیران تھی کہ کیسے ممکن تھا، ہلکی ہلکی چلتی ہوا زور پکڑنے لگی اور لو کی شکل اختیار کر گئی، وہ رکنا چاہتی تھی، یہ مشکل دوپہر اس کے حواس پر گراں گزر رہی تھی مگر اس کے قدم رک نہیں پا رہے تھے۔ اسے محسوس ہوا رستہ اونچائی کی طرف جا رہا ہے اور اس وجہ سے تھکن زیادہ ہونے لگی۔ پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگے، ہونٹوں پر پپڑیاں جمنے لگیں۔ دھوپ کی حد سے بڑھتی تمازت اب تکلیف دینے لگی تھی۔ اسے اچانک اپنے پاؤں میں کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے دیکھنا چاہا، وہ ایک کیکر کا کانٹا تھا۔ شدید تکلیف کے باعث آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے کیونکہ ایک کے بعد ایک کئی کانٹے اس سفر کے چند ہی لمحوں میں اس کے پیروں کو زخمی کر چکے تھے۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ پیروں کے نیچے محسوس ہوتی نمی وہ صبح والی شبنم نہیں بلکہ اس کے چھالوں سے رستا خون ہے۔ روتی بلکتی بحرحال بڑھتی گئی کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا، یہاں ایک لمحہ بھی رکا نہیں جا سکتا ، ہر حال میں بس چلتے ہی جانا ہے۔

سورج کی پستی کا سفر شروع ہوا تو موسم میں ذرا تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ مگر تھکن سے ٹوٹ چکے بدن اور تکلیف دے حالات سے شل ہوتے دماغ نے کچھ بھی مزید محسوس کرنے سے انکار دیا تھا۔ اچانک کہیں سے زوردار گرج کی آواز آئی۔ اس نے دائیں دیکھا تو گہرے گہرے بادل آسمان کو تیزی سے گھیرتے نظر آئے، اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ بادل جیسے جیسے آسمان پر چھاتے جا رہے تھے ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور یہی خنک ہوا گویا اس کے بدن سے ساری تھکاوٹ کھینچنے لگی۔ سورج کی روشنی کو بادلوں نے مات دی اور آسمان پر پورا تسلط جما لیا، اب ایک ملگجا سا اندھیرا ہر سو چھا گیا اور ساتھ ہی ہلکی ہلکی بارش ہونے گئی۔ اسے لگا گویا ساری تکالیف ختم ہو گئیں۔ کچھ دیر کی اس برستی بارش نے سفر کو پھر سے خوشگوار بنا دیا، سارے زخم دھلنے لگے، پیروں کے سب کانٹے آہستہ آہستہ نکلنے لگے۔ وہ بہت مسرور تھی کہ سفر کی سختی اب ختم ہوگئی اور یہ جزا یقیناؐ سفر کی وہ سختی برداشت کرنے پر ہی ملی ہے۔ اچانک اس کے سر پر کوئی چیز زور سے آکر لگی۔ اس نے دیکھنے کی کوشش کی۔ ایک عام آلو کے سائز کا برف کا گول سا ٹکڑا خوفزدہ نظروں سے اس نے ارد گرد دیکھا اور تب ہی اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ژالہ باری شروع ہو چکی تھی اور برف کے وہ پتھر جیسے گولے اسے لہو لہان کر رہے تھے۔ درد کے معانی شاید بہت پیچھے کہیں رہ گئے تھے، اب اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ جسم پر تیز گولیوں کی طرح برستی ژالہ باری، ٹھنڈی یخ ہوا کا ایک طوفان، بادلوں کی گھن گھرج اور اونچائی کی طرف کو جاتا رستہ۔ اسے لگا وہ یہیں مر جائے گی۔ مگر نہ تو قدم تھمے، نہ سانس رکی۔ دل تھا کہ دھڑک رہا تھا، دماغ تھا کہ ہر ہر ریشے سے اُٹھتی درد کی شدت کا احساس دلا رہا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے ژالہ باری تھمنے لگی، بادل اب بھی خوب گرج رہے تھے مگر اب یہ ملگجا سا اندھیرا بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک اسے خوفزدہ نہیں کر پارہے تھے، یہ سب شاید ایک معمول سا بن گیا تھا۔

افق کے اس پار مغرب کی طرف سے بادلوں کا گھونگھٹ پھر سے اٹھنے لگا۔ ہوا دوبارہ نرم پڑنے لگی۔ زخموں پر کھرنڈ آنے لگا۔ اب جب اچھے کی امید اس میں سے بالکل ختم ہو چکی تھی، تب اسے دور آسمان پر قوس قزح نظر آنے لگی۔ ایک تکلیف دہ مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی اور پورے بدن میں خون کے ساتھ دوڑنے لگی۔ سورج کی الوداعی کرنیں زمین پر پڑنے لگیں ایک اور جادو تھا جس کا کمال شروع ہو چکا تھا، مگر اسے لگا وہ اب اس سحر میں گرفتار نہیں ہوگی۔ اسے صحیح لگا تھا، شفق رنگ سا آسمان اوپر بادلوں کو رنگ بخشتی سورج کی آخری کرنیں، ایک نگاہ اپنے ارد گرد ڈالی تو اس کے من پسند پھول ہر جانب کھلے تھے، گھاس کی نرمی پہلے سے بھی زیادہ تھی۔ اسے لگا، سب نے اس کے خلاف ایکا کر رکھا تھا اور اب سب مل کر اس پر ہنس رہے تھے بادل سورج پھول گھاس اور اس میں چھپے کانٹے اور ہوا! اس نے تو کبھی ساتھ دیا ہی نہیں۔ شدید منفی سوچوں کے حصار میں تھکے تھکے قدم اُٹھاتی وہ ابھی بھی اس چڑھائی پر چڑھ رہی تھی جس کے اختتام پر کیا تھا، اسے معلوم نہیں۔

اندھیرا پھر سے چھانے لگا تھا، شام کا ستارہ آسمان پر جگمگانے لگا تھا۔ اور پھر ہولے ہولے آسمان نے رات کی چادر اوڑھ لی۔ اس چادر پر سجے ڈھیر سارے ستاروں کے درمیاں چاند پوری آب و تاب سے روشن تھا ، ادھار لی ہوئی روشنی۔ اسے کوئی بھی چیز اب متاثر نہیں کر رہی تھی، یوں لگا جیسے ساری حقیقت کھل گئی ہو۔ وہ اب جلد از جلد اس سفر کا اختتام چاہتی تھی۔ اور پھر اسے دور اپنے راستے پر کچھ دکھائی دینے لگا لمحہ لمحہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی یہ دیوار مانند چیز آخر ہے کیا۔ اور جب اس کے اور دیوار کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا تو اس نے محسوس کیا کہ چاند بھی ڈوبنے کی تیاری میں تھا۔ اور اس کی ڈھلتی بجھتی چاندنی میں اس نے دیکھا وہ ایک بڑی سی دیوار تھی، شیشے کی دیوار جو قریب سے قریب تر ہونے پر یوں لگنے لگی گویا آسمان سے لگی ہوئی ہے، ہو طرف سے۔ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے؟ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی، کہ پانچ قدم کے فاصلے پر ہی وہ دیوار دہیرے دھیرے اوپر کو اٹھنے لگی، مارے تجسس کے اس نے دیکھنا چاہا مگر دوسری طرف اتنا اندھیرا تھا کہ کچھ نہ دکھا، چاند کی آخری مرتی ہوئی روشنی اس کی مددگار نہیں تھی، اٹھتے اٹھتے دیوار اس کے قد سے اوپر ہو گئی، بڑھتے ہوئے قدم بڑھتے گئے، چاند ڈوب گیا، ہر سو گھپ اندھیرے میں دیوار کی جانب یہ اس کا آخری قدم تھا، اس کے بعد کیا تھا، وہ خود نہیں جانتی تھی۔ اس نے جب پاؤں اٹھا کر رکھا تو اسے محسوس ہوا اس کا پاؤں سطح کو نہیں چھو پارہا، اس پہلے کہ وہ اس خلا کا اندازہ کر سکتی جو اسے اپنی آغوش میں سمونے والی تھی وہ اپنا دوسرا پاؤں بھی اٹھا چکی تھی جو ایک نئے سفر کی جانب پہلا قدم تھا۔
ماہی احمد​
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی اچھی تحریر ہے۔ اپنی گرفت میں لے لینے والی۔

ماشاءاللہ۔

بقول ذوالقرنین بھائی "اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ"
 

بھلکڑ

لائبریرین
صحیح جم کر ساتھ دیا ہے لفظوں نے مُدعا بیان کرنے میں! :)
لاجواب !!! انٹی جی بہت اچھا لکھا ہے !:)
 
۔۔۔۔۔
افق کے اس پار بادل سورج کی پردہ کشائی کر رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ سحر طبیعت کو نہایت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے قدموں کے نیچے موجود گھاس اوس کے باعث نم تھی۔ اور یہی گھاس کی نمی گویا پیروں کے تلوؤں سے ہوتی ہوئی ہر ہر رگ تک جا پہنچی تھی۔ ایک خوبصورت احساس تھا جو روح و جان کو سکون بخش رہا تھا۔ اس نے نیچے دیکھا، اس کے پاؤں ننگے تھے۔ وہ ایک ایسی وادی میں کھڑی تھی جہاں حدِ نگاہ اونچا نیچا سا ایک میدان تھا جس میں گویا کسی نے گھاس کا سبز قالین بچھایا ہو۔ درمیان میں نسبتاً کم گھاس سے بنا ہوا ایک بل کھاتا رستہ تھا جس کے اطراف خوشنما پھولوں کی قطار تھی، اور ان پھولوں سے ذرا پیچھے چند ایک درخت، اور اس پورے میدان میں یونہی کہیں کہیں کوئی درخت نظر آ رہا تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ صبح کا ایک ایسا نغمہ تھی کہ من چاہے سنتے جاؤ۔

افق کے اس پار ۔ عام طور پر ہم ’’ اُس پار ‘‘ کہا کرتے ہیں۔ یہاں اگر مشرق کا حوالہ دے دیا جاتا تو اچھا ہوتا۔
طبیعت کو بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی ۔۔ یہاں طبیعت کا لفظاً ذکر اتنا ضروری تو نہیں تھا۔ میں تو شعر ہو یا نثر الفاظ کی کفایت کا قائل ہوں۔
معلوم ہو رہی تھی؟ یا محسوس ہو رہی تھی، لگ رہی تھی۔ قدموں کے نیچے موجود گھاس ۔ موجود جب گھاس کہہ دیا تو ظاہر ہے موجود کا کہا۔
گھاس کی نمی ۔۔ گھاس یہاں زائد ہے کہ اس سے پہلے جملے میں تو اس کا ذکر ہوا۔ پیروں کے تلوے ۔ تلوے تو ہوتے ہی پیروں کے ہیں، ہاتھوں کی تو ہتھیلیاں ہوتی ہیں اور ’’انگلیاں اس کی سہیلیاں ہوتی ہیں (جملہ معترضہ)‘‘۔ ہر ہر رگ کی بجائے ہر رگِ جاں کہا ہوتا تو نثر میں شاعری ہو جاتی۔
اس کے بعد کا جملہ بہت اچھا ہے۔ تاہم ’’روح و جاں‘‘ کی بجائے ’’جسم و جان‘‘ پر سوچئے گا ضرور۔ اپنے ننگے پاؤں کا تو پتہ ہوتا ہے، دیکھنا کیا لازم تھا؟ جہاں حدِ نگاہ ’’تک‘‘ رہ گیا۔ بعد کا جملہ بہت عمدہ ہے۔ اور ’’نسبتاً کم گھاس سے بنا ہوا‘‘ اس ٹکڑے کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔
اطراف کے ساتھ ’’میں‘‘ لگائیے، بلکہ ’’دونوں طرف‘‘ بہتر رہے گا۔ جب چند ایک درخت کہہ دیا تو بعد والا جملہ از خود زائد ہو گیا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
۔۔۔۔۔۔۔
اس نے قدم قدم چلنا شروع کیا۔ ایک عجب احساس تھا جو دل و دماغ پر طاری تھا، ایک سرشاری کی سی کیفیت، خوشی کا احساس۔ وہ اردگرد کے پھولوں پر ہاتھ پھیرتی آگے بڑھ رہی تھی، سورج نہایت تیزی سے اپنا سفر شروع کر چکا تھا۔ اب اس کی نرم گرم کرنیں ماحول کو ایک نیا رنگ دے رہی تھیں، جو پہلے سے بھی زیادہ دلفریب تھا۔ سب کچھ اب زیادہ واضح تھا وہ بھی جو صبح کی ملگجی سی روشنی نے چھپا رکھا تھا۔ وہ اس وادی کے سحر میں مکمل طور پر گرفتار آگے بڑھ رہی تھی۔ پھولوں کو غور سے دیکھتے انہیں محسوس کرتے اچانک اسے احساس ہوا کہ جو پھول اس کی پسند کے ہیں وہ کہیں نہیں، باقی سب ہیں مگر، وہ نہیں۔ نجانے کیوں مگر یہ بات اسے اچھی نہ لگی، اس کے دل نے ضد کی کہ وہی پھول چاہیں جو پسند ہیں، ڈھونڈو انہیں، دماغ نے کہا ارے رہنے دو، جو ہیں انہیں ہی غنیمت جانو۔

قدم قدم چلنا ۔۔ عام طور پر بچوں کے لئے مستعمل ہے، اگر آپ کا اشارہ اس طرف ہے کہ آپ ایک ننھی سی لڑکی کو ساتھ لے کر چل رہیں ہیں، تو بہت مناسب ہے۔ ملگجی روشنی میرے لئے نئی ترکیب ہے، ملگجا اندھیرا البتہ مانوس ہے۔ چھپانا ویسے بھی اندھیرے کا کام ہے روشنی کا نہیں۔
’’سحر میں مکمل طور پر گرفتار آگے بڑھ رہی تھی‘‘ یہاں لفظیات کا چناؤ سیاق و سباق سے کسی قدر ڈھیلا محسوس ہوا۔ ’’انہیں محسوس کرتے ہوئے، اچانک اسے احساس ہوا‘‘ یہاں بھی کچھ عجزِ بیان در آیا ہے۔ اور جملے کے بہاؤ میں لفظ ’’اچانک‘‘ میرے لحاظ سے بے موقع وارد ہوا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل و دماغ کی اس جنگ میں محو وہ آگے بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ساتھ سورج بھی سر پر پہنچنے لگا۔ نجانے یہ کیسی دنیا تھی کہ وقت سر پر پیر رکھے دوڑ رہا تھا۔ بدن کو بھلی لگتی نرم گرم کرنیں اب چبھنے لگیں اس نے آس پاس دیکھا تو سب درختوں کے پتے پیلے ہوتے پائے۔ وہ حیران تھی کہ کیسے ممکن تھا، ہلکی ہلکی چلتی ہوا زور پکڑنے لگی اور لو کی شکل اختیار کر گئی، وہ رکنا چاہتی تھی، یہ مشکل دوپہر اس کے حواس پر گراں گزر رہی تھی مگر اس کے قدم رک نہیں پا رہے تھے۔ اسے محسوس ہوا رستہ اونچائی کی طرف جا رہا ہے اور اس وجہ سے تھکن زیادہ ہونے لگی۔ پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگے، ہونٹوں پر پپڑیاں جمنے لگیں۔ دھوپ کی حد سے بڑھتی تمازت اب تکلیف دینے لگی تھی۔ اسے اچانک اپنے پاؤں میں کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے دیکھنا چاہا، وہ ایک کیکر کا کانٹا تھا۔ شدید تکلیف کے باعث آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے کیونکہ ایک کے بعد ایک کئی کانٹے اس سفر کے چند ہی لمحوں میں اس کے پیروں کو زخمی کر چکے تھے۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ پیروں کے نیچے محسوس ہوتی نمی وہ صبح والی شبنم نہیں بلکہ اس کے چھالوں سے رستا خون ہے۔ روتی بلکتی بہرحال بڑھتی گئی کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا، یہاں ایک لمحہ بھی رکا نہیں جا سکتا ، ہر حال میں بس چلتے ہی جانا ہے۔
لفظ ’’محو‘‘ کا یہ مقام نہیں ہے۔ سر پر پہنچنے لگا؟ بلند ہوتا گیا؟ بات الفاظ کی ہو رہی ہے، مفاہیم میں کوئی مسئلہ نہیں۔ نجانے یہ کیسی دنیا تھی ۔۔ یوں زائد الفاظ سمجھے جائیں گے کہ ان کا پورا مفہوم ایک دو لفظوں میں اگلے جملے میں آ سکتا ہے۔ ’’وقت نہ جانے کیوں سر پر ۔۔۔ ‘‘ آگے محاورے کا استعمال ’’سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا‘‘۔ ہلکی ہلکی چلتی ہوا ۔۔ یہاں جملہ نیا شروع ہونا چاہئے تھا، اور یہ الفاظ بھی محلِ نظر ہیں۔ ’’نسیم سحر اب لو میں ڈھل رہی تھی، یا بن گئی تھی وغیرہ؟ ۔۔۔ یہاں کہیں ہونا چاہئے تھا کہ اس کا سفر جاری رہا۔ وہ رکنا چاہتی تھی، مگر ۔۔۔ یہ مشکل دوپہر ۔۔ یہاں سے بھی نیا جملہ ہوتا تو تاثر مضبوط تر ہوتا۔ ’’اسے اچانک اپنے پاؤں میں کچھ چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے دیکھنا چاہا‘‘ سیدھا سیدھا کہئے اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا یا ایک ٹیس کے سے احساس کے ساتھ اس کے نرم تلوے میں اتر گیا۔ ’’کیونکہ‘‘ کا بھی محل نہیں ہے۔ درست تلفظ میں نے نیلے رنگ میں لکھ دیا ہے۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا؟ یا ۔۔ وہ جانتی تھی؟ ۔۔۔

ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ جو آپ کی پوری تحریر میں جا بجا آ رہی ہیں۔ یہاں تک میں نے تقریباً لفظاً لفظاً لکھ دیا ہے، اب اتنی تفصیل میں جائے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک بات صاف طور پر کہنا چاہتا ہوں۔
میرا مقصد کسی بھی انداز میں آپ کی حوصلہ شکنی کرنا نہیں اور نہ ہی آپ کی تحریر میں کیڑے نکالنا ہے۔ بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی لیکن دور رس باتیں ہوتی ہیں جن کا حوالہ محض زیرِ بحث نمونے سے نہیں ہوتا۔ مجھے آپ کی پختہ نگاہی کا یقین ہے اور یہ بھی کہ آپ میرا مقصد بخوبی سمجھ رہی ہیں۔
 
فی الحال میرے سامنے ایک سوال اور بھی ہے۔ کہ آپ کی یہ تحریر فنی طور پر کیا ہے!
کہانی؟ افسانہ؟ انشائیہ؟ شذرہ؟ یا کچھ اور؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا انداز انشائیے جیسا ہے، وقائع نگاری اور بہاؤ کہانی کا سا ہے، تاثرات افسانے کی نہج پر ہیں۔
اس لئے وقتی طور پر اس کو ’’تحریر‘‘ ہی کہہ رہا ہوں۔
 
Top