سرابِ شب بھی ہے ، خوابِ شکستہ پا بھی ہے۔۔۔۔۔شاہدہ حسن

زرقا مفتی

محفلین
سرابِ شب بھی ہے ، خوابِ شکستہ پا بھی ہے
کہ نیند مانگتے رہنے کی کچھ سزا بھی ہے

تمام عمر چنوں گی میں ریزہ ریزہ تجھے
پسِ غبارِ نگہ ایک آءینہ بھی ہے

سپردِ رقص کیا میں نے ہر تمنا کو
لہو کے شور کی اب کوءی انتہا بھی ہے

میں کیوں نہ ایک ہی قطرہ سے سیر ہو جاءوں
کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا بھی ہے

میانِ راہ کڑی دھوپ میں نہ چھوڑ مجھے
بتا تو دے کہ کہیں گھر کا راستہ بھی ہے

میں اس چراغ کو دشمن کی صف میں کیوں رکھوں
یہ میرے نام پہ کچھ دیر کو جلا بھی ہے

ہزار لذتِ خاموش کے نشے میں ہو دل
سخن کے نام پہ کچھ حرف مانگتا بھی ہے

مرے خلاف گواہوں کی کچھ کمی بھی نہیں
مگر ہر ایک مرے حق میں بولتا بھی ہے

سمٹ کے رہ گءے دیوارِ شہرِ خوف میں لوگ
کسے خبر ہو کہ زندہ کوءی بچا بھی ہے

ہجومِ تشناں لباں کا سراغ دو مجھ کو
وراثتوں میں مری دشتِ کربلا بھی ہے
 
Top