سایہ تھا مرا، اور مرے شیدائیوں میں تھا - راشد آزر

کاشفی

محفلین
غزل
(راشد آزر)

سایہ تھا مرا، اور مرے شیدائیوں میں تھا
اک انجمن سا وہ مری تنہائیوں میں تھا

چھنتی تھی شب کو چاندنی بادل کی اوٹ سے
پیکر کا اُس کے عکس سا پرچھائیوں میں تھا

کوئل کی کُوک بھی نہ جواب اُس کا ہوسکی
لہرا ترے گلے کا جو شہنائیوں میں تھا

جس دم مری عمارتِ دل شعلہ پوش تھی
میں نے سنا کہ وہ بھی تماشائیوں میں تھا

اُٹھا اُسی سے زیست کے احساس کا خمیر
جو درد دل کے زخم کی پہنائیوں میں تھا

جب شہر میں فساد ہوا تو امیرِ شہر
دیکھا گیا کہ آپ ہی بلوائیوں میں تھا

بے حد حسین تھا، مگر آزر، مجھے تو بس
یاد اِس قدر رہا کہ وہ ہرجائیوں میں تھا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ کاشفی صاحب! دو مصرعوں کو دیکھ لیجیے گا ان میں کچھ ٹائپو لگ رہا ہے۔
میرا کی جگہ شاید مرا ہونا چاہیے۔
سایہ تھا میرا، اور مرے شیدائیوں میں تھا

اس مصرع میں کوئی لفظ کم ہے۔ شاید "کا" کم ہے۔
لہرا ترے گلے جو شہنائیوں میں تھا
 
Top