زندگی

شمشاد

لائبریرین
اپنے حصے میں طوفان کی تقدیر تھی
زندگی اپنی موجوں کی زنجیر تھی

ڈوب جانے کا اپنے ہمیں غم نہ تھا
اس کا ساحل پے آنا غضب ہو گیا
(شیوان بجنوری)
 

قمراحمد

محفلین
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لطفِ زندگی کم ہے
غم دل حس سے بڑھ کر ہے میسر اب خوشی کم ہے
اب اس کے بعد جسم و جاں جلنے سے بھی کیا حاصل
چراغوں میں لہو جلتا ہے پھر بھی روشنی کم ہے
 

تیشہ

محفلین
اے زندگی اب اور کوئی تجربہ کہ ہم
تریاقِ عشق و زہرِ زمانہ چشیدہ ہیں
فرصتُ ملے تو آ میرے خلوت کدے میں سنُ
دیوان کہاں جو سخن چیدہ چیدہ ہیں
ہم اہلِ دل سے اہل جہاں کے تعلقات
ہیں تو سہی فراز مگر خط کیشدہ ہیں ۔ ۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اوہو شعر بھی لکھنا ہے ۔ ۔ ۔ اتنے پیچیدہ اشعار زندگی پر لکھ گئے سب شاعر :happy: دیکھیں کسی تخلیق کار نے اتنے آرام سے کہہ دیا :



زندگی کیا ہے
غم کا دریا ہے



ویسے کیا معلوم کسی کے لیے سمندر بھی ہو ، میرا تو خیال ہے کہ دریا اور سمندر دونوں کی رعایت رکھ دیتے ہیں اگر کسی کا واسطہ سمندر سے پڑ گیا ہے تو بے شک دریا کی جگہ سمندر لکھ دیں :happy:

 

تیشہ

محفلین
السلام علیکم بوچھی ، فراز کو پڑھ رہی ہیں ان دنوں ؟ یا زندگی کے عنوان پر یہ اشعار منتخب کیے


جی میں رات ہاتھ میں غزل بہانہ کروں لئے ہوئے تھی ، ہزار بار پڑھ پڑھ کر رکھی ہوئی ہیں ،مگر شاعری کی طرف آتی ہوں تو کوئی نا کوئی شاعری بکُ ہاتھ میں ہوتی ہے ۔

کروں نہ یاد مگر کسطرح بھلاُؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے ،
 

تیشہ

محفلین
اوہو شعر بھی لکھنا ہے ۔ ۔ ۔ اتنے پیچیدہ اشعار زندگی پر لکھ گئے سب شاعر :happy: دیکھیں کسی تخلیق کار نے اتنے آرام سے کہہ دیا :



زندگی کیا ہے
غم کا دریا ہے



ویسے کیا معلوم کسی کے لیے سمندر بھی ہو ، میرا تو خیال ہے کہ دریا اور سمندر دونوں کی رعایت رکھ دیتے ہیں اگر کسی کا واسطہ سمندر سے پڑ گیا ہے تو بے شک دریا کی جگہ سمندر لکھ دیں :happy:


:grin::grin:
:grin:
 

تیشہ

محفلین
اس شعر میں زندگی کہاں ہے :worried:


مرے ہمدم یہ کوئی زندگی ہے
جہاں ہر سانس جینے کی سزا ہو

(سرور)


یہ تو میں نے شگفتہ کو سنایا ہے ناں ۔۔کہ احمد فراز کی بکُ ہے ہاتھ میں ،غزل کروں بہانہ ۔ ۔ اور پھر میں نے شگفتہ کو پورا دو لائن شعر لکھ دیا :battingeyelashes:
اب یہ تو مجھے بھی پتا تھا اس میں زندگی لفظ نہیں ہے ، ،
 

S. H. Naqvi

محفلین
یہ نظم میں پہلے بھی محفل پہ پوسٹ کر چکا ہوں۔

فرحت کی فرمائش پر دوبارہ۔

[align=right:1d2fc98794]
زندگی کیا ہے، جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں
ساری وادی اُداس بیٹھی ہے
موسمِ گُل نے خودکشی کر لی
کس نے بارود بُویا باغوں میں
آؤ ہم سب پہن لیں آئینے
سارے دیکھیں گے اپنا ہی چہرہ
سب کو سارے حسیں لگیں گے یہاں
ہے نہیں جو دِکھائی دیتا ہے
آئینے پر چھپا ہوا چہرہ
تجربہ آئینے کا ٹھیک نہیں
ہم کو غالب نے یہ دُعا دی تھی
تم سلامت رہو ہزار برس
یہ برس تو فقط دنوں میں گیا
لب میرے میر نے بھی دیکھے ہیں
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
بات سُنتے تو غالب ہوجاتے
ایسے بکھرے ہیں رات دن جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا
تم نے مجھ کو پیرو کے رکھا تھا ۔۔۔[/align:1d2fc98794]

Buhat Khoob Dear Keep it Up. I like it
 
Top