سلیم احمد زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیم احمد

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے

روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہمسفَری لگتی ہے

آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے

گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے

سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بُری لگتی ہے

میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے

بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں
آج ہر آنکھ کوئی ابرِ تہی لگتی ہے

شورِ طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم
لوٹ آؤ، یہ کوئی اور گلی لگتی ہے

گھر میں کچھ کم ہے، یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ
یہ بھی کھُلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے
سلیم احمد​
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوبصورت انتخاب۔
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بُری لگتی ہے
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
کیا خوب باندھی ہے حقیقت ۔۔۔۔۔
آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے

بہت خوبصورت انتخاب
بہت دعائیں محترم بہنا
 

طارق شاہ

محفلین

میرے شیشے میں اُتر آئی ہے جو، شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے

شورِ طفلاں بھی نہیں ہے، نہ رقیبوں کا ہجُوم
لوٹ آؤ، یہ کوئی اور گلی لگتی ہے


کیا ہی کہنے !

بہت تشکّر ایک بہت اچھی غزل شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں صاحبہ
 
سبحان اللہ
کیا خوب باندھی ہے حقیقت ۔۔۔ ۔۔
آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے

بہت خوبصورت انتخاب
بہت دعائیں محترم بہنا
شکریہ نایاب بھائی کہ آپ کو غزل اچھی لگی ۔سلامت رہیں :)
 
میرے شیشے میں اُتر آئی ہے جو، شامِ فراق
وہ کسی شہرِ نگاراں کی پری لگتی ہے

شورِ طفلاں بھی نہیں ہے، نہ رقیبوں کا ہجُوم
لوٹ آؤ، یہ کوئی اور گلی لگتی ہے

کیا ہی کہنے !

بہت تشکّر ایک بہت اچھی غزل شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں صاحبہ
انتخاب کو سراہنے پر ممنون ہوں شاہ صاحب ۔سلامت رہیں :)
 
Top