زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
حسان خان بھائی۔
آمدید اگر جمع حاضر کا صیغہ ہے تو جملہ ’خوش آمدید‘ واحد حاضر کے لیے کیوں استعمال ہوتا ہے؟
فارسی میں واحد حاضر کے لیے «خوش آمدی» استعمال ہوتا ہے، جبکہ اردو میں مُفرد و جمع دونوں ہی کے لیے «خوش آمدید» استعمال میں آتا ہے۔
 
چابهار که «نگین توسعه شرق ایران» نام گرفته روز پنجشنبه با بمبگذاری مورد حمله قرار گرفت.

قرار گرفتن کا ویسے تو معنی استوار شدن، محکم گشتن اور ساکن شدن ہے، لیکن مندرجہ بالا جملے میں اس کا معنی کیا ہوگا؟
 

حسان خان

لائبریرین
چابهار که «نگین توسعه شرق ایران» نام گرفته روز پنجشنبه با بمبگذاری مورد حمله قرار گرفت.

قرار گرفتن کا ویسے تو معنی استوار شدن، محکم گشتن اور ساکن شدن ہے، لیکن مندرجہ بالا جملے میں اس کا معنی کیا ہوگا؟
اِس جملے میں یہ "موردِ حملہ بنا/واقع ہوا" کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
x مترس=کھیتوں میں پرندوں کو ڈرانے کے لئے ایک انسان نما پُتلا جو چوب، سنگ یا کپڑے سے بنا ہوتا ہے۔
مُعاصر ایران میں اِس چیز کو «مَتَرْسَک» (متَرْس + کافِ تصغیر) کہتے ہیں۔ ماوراءالنہر میں یہ لفظ رائج نہیں ہے (اِلّا ایرانی فارسی سے مُتأثر ادیبوں کی تحریروں میں)۔ ماوراءالنہر کے مختلف فارسی گو خِطّوں میں مختلف علاقائی فارسی و تُرکی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، لیکن معیاری کتابی زبان کا لفظ «خوسه» (хӯса) ہے۔
ماوراءالنہر میں استعمال ہونے والے مختلف الفاظ کے لیے یہ گُفتگو دیکھیے۔

20257950_1753846514633351_7336924866499369841_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
معیاری کتابی زبان کا لفظ «خوسه» (хӯса) ہے۔
فرهنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی میں «خوسه» کے مدخل کے ذیل میں یہ معنی درج ہے:
"هیکلِ آدم‌مانندی، که از چوب و لتّه ساخته، در باغ‌ها و پالیزها برایِ ترساندنِ پرندگان می‌شِنانند"
ترجمہ: وہ مثلِ انسان پُتلا کہ جس کو چوب اور کپڑے سے بنا کر باغوں اور کِشت زاروں میں پرندوں کو ڈرانے کے لیے نصب کیا جاتا ہے۔

«خوسه» لُغت نامۂ دہخُدا میں بھی موجود ہے۔
 
url
کرسی کے لئے افغانستانی فارسی میں یہی واژہ یعنے "کرسی" ہی کاربردہ ہوتا ہے جبکہ ایرانی فارسی میں "صندلی" استعمال ہوتا ہے ". وہ تخت، جس کے گرد کمبل بچھایا جائے اور اندر زغال(کوئلیں) رکھیں جائیں، اسے اردو اور افغانستانی فارسی میں ’’صندلی‘‘ اور ایرانی فارسی میں ’’کرسی‘‘ کہا جاتا ہے۔

181340322471322200
 

حسان خان

لائبریرین
میرے محلّے میں کام کرنے والے ایک فارسی گو افغان مہاجر بچّے - جس کا آبائی تعلق ولایتِ تخار سے ہے - سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ اُن کے فارسی زبانچے میں «بِلّی» کے لیے «گُربه» کی بجائے «پِشَک» استعمال ہوتا ہے، جو بہ احتمالِ اغلب کُل افغانستان میں رائج ہے۔ یہ شاید تُرکی الاصل لفظ ہے، اور یہ لفظ ماوراءالنہری زبانچوں میں بھی دیر زمانے سے «پِشَک» اور «پُشَک» کی شکلوں میں رائج ہے۔
آذربائجانی، عراقی، اور مشرقی اناطولیائی تُرکی زبانچوں میں «گُربه» کو «پیشیک» کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
مولانا محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب سخن دانِ فارس (۱۸۸۷ء) میں ترکستانی ترکوں اور ازبکوں کے ساتھ فارسی زبان میں گفتگو کرنے کی دو حکایتیں بیان کی ہیں:

"ایک دفعہ جوانی کی ہمت اور شوقِ سیاحت مل کر مجھے ترکستان کے ملک میں لے گئی۔ بلخ سے چند منزل آگے بڑھ کر ہمارا قافلہ اترا۔ اُن ملکوں کے لوگ کم علم، کم معلومات ہوتے ہیں۔ اپنی آرام طلبی اور رستوں کی دشواری انہیں ادھر کے سفر میں سدِ راہ ہوتی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک کے آدمیوں کے ساتھ شوق سے ملتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات معلوم کر کے خوش ہوتے ہیں۔ چنانچہ گاؤں کے لوگ آ کر قافلہ میں پھرنے لگے۔ دستور ہے کہ اہلِ آبادی روٹیاں، گھی، دودھ، دہی، انڈے، گوشت، مرغیاں، قالین (اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے) لاتے ہیں۔ قافلہ والے قیمت میں کپڑا، سوئیاں، رانگ، پیتل کی انگوٹھیاں، جگنیاں، کانچ اور شیشہ کے دانے دے کر خریدتے ہیں۔ ایک ترک بچّہ طالبِ عالم میرے بستر کے پاس آ بیٹھا۔ دو تنگے (۱) میرے ہاتھ میں تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے اُس نے پوچھا۔ در ملکِ شما ہمیں تنگہ رواج دارد۔ ایک افغان کا بستر برابر تھا۔ وہ بولا کہ در ہند روپیہ کلدار است فرنگی براں تصویرِ خود را نقش میکند۔ طالبِ علم نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ چہ طور؟ میں نے کہا راست (۲) میگوید۔ روپیۂ ہند سہ برابرِ تنگۂ شماست۔ اُس نے پوچھا۔ تصویر چرا نقش میکند؟ میں نے کہا۔ سکۂ سلطنت است۔ در دورِ دائرہ نام و میانہ اش تصویرِ شاہ است۔ آں ہم تمام نیست۔ کلّہ اش را نقش میکنند۔ ترک بچّہ بولا۔ آرے بہ ہمیں سبب روپیہ را کلہ دار نام کردہ باشند۔ کلدار کو کلّہ دار کا مخفف سمجھا۔ خوب سمجھا۔ مگر غلط سمجھا۔
ایک دن میں کوکان میں چند اشخاص کے ساتھ بیٹھا تھا۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ ایک بڈھے فرتوت نے پوچھا کہ در ملکِ شما فرنگی سلطنت مے کند؟ میں نے کہا۔ بلے۔ اس نے کہا؟ او چہ نام دارد؟ میں نے کہا۔ بادشاہ در ملکِ فرنگ بہ پایۂ تختِ خود است۔ برائے ما نائبے فرستادہ است۔ او حکم میراند۔ بادشاہِ ما ہمانست۔ پوچھا۔ آخر او چہ نام دارد؟ میں نے کہا۔ بعدِ ہر چند سالے عوض میشود۔ البتہ بہ اعتبارِ عہدہ و منصب آن را لات میگوند۔ ایک بولا گوبرناس (۳) باشد (یہی گورنر)۔ میں نے کہا۔ بلے۔ ہمچنیں۔ ایک اور ترک نے کہا۔ لات چہ معنی دارد؟ میں نے تامّل کیا کہ کیا کہوں۔ دوسرا بولا۔ ہماں لات و منات است۔ دوسرا بولا۔ نے! فرنگ بت پرست نیست۔ بڈھے ازبک نے کہا۔ آخر کافر است۔ کفر بہ ہر جا یکیست۔ لاتشاں ہماں لات و منات باشد۔
اب تم غور سے خیال کرو۔ ہندُستان میں جو انگریزی روپیہ کے لیے کلدار کا لفظ پیدا ہوا۔ یہ بھی ایک عجیب اور اتفاقی ولادت تھی۔ پھر بھولے بھالے ترک نے جو اس کے لیے وجہ نکالی یہ عجیب در عجیب اتفاق ہے۔
لاٹھ کو اور لارڈ کے معنوں کو دیکھو کہ ہندُستان میں آ کر لفظ میں کیا تغیر پیدا ہوا؟ اور معنی اس کے یہاں کیا خیال پیدا کرتے ہیں؟ پھر اُس اُزبک کو دیکھو کہ کیا سمجھا اور اور دلیل کیا خوب پیدا کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصلیتِ الفاظ کی تحقیق بہت نازک کام ہے۔ قیاس و انداز ہمارا ہرگز قابلِ اطمینان نہیں۔ اندھیرے میں تیر پھینکنے ہیں۔ لگا تو لگا ورنہ یا قسمت۔"

۱) تنگہ۔ ترکستان بخارا میں چاندی کا سکّہ ہوتا ہے۔
۲) افغان کا مطلب یہ تھا کہ تصویر کے ذکر سے ہماری بت پرستی ثابت کرے اور ترک بچّہ کے خیالاتِ اسلامی کو چمکا دے۔
۳) روس کی بدولت یہ لفظ وہ بھی جان گئے تھے۔ گورنر کو 'گوبرناس' کہتے تھے۔

افغانستان کی وہ ولایتیں، جو پاکستان کی سرحد پر واقع ہے، وہاں پاکستانی روپے مستعمل ہے اور اسے کالدار کہا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دوستِ محترم علی صہیب نے چند روز قبل یہ سوال بھیجا تھا۔ اب وقت مِلا ہے تو جواب دے رہا ہوں۔

"سلام برادر۔۔۔ میں سوال پوچھنے سے ہچکچا رہا تھا کہ آپ کا قیمتی وقت صرف کرنے کے بجائے خود "فضائے مجازی" میں گھوم پھر کر جوئے زبانِ شیرین سے اپنی پیاس بجھاتا رہوں بلکہ طلب و تشنگی میں اضافہ کروں مگر "دنیائے مجازی" پر مختلف مقامات سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ اس کتابچے کا مطالعہ کیا تو ماضی و مضارع استمراری میں "مے" اور "می" وغیرہ نے چونکا دیا۔۔۔
کیا قدیم فارسی میں "ے" استعمال ہوتا تھا؟
آج کل مختلف علاقہ جات میں فقط تلفظ کا فرق ہے (e/i) یا معنیٰ میں بھی فرق ہے؟
ایک افغانی دوست کے بقول (اگر میں اس کو سمجھنے میں خطا نہیں کر رہا) "می" دری میں متکلم کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں شاید۔۔۔ اس نے غالباََ کچھ یوں مثال دی کہ "می کنید" اور ایرانی فارسی میں "می کنیدم" (آپ وضاحت کر دیجیے اس سے دوبارہ گفت و شنید کر لوں گا)۔۔۔
مزید اینکہ آپ اس "علامتِ استمرار و امتداد و تکرار" کے متعلق مزید لبِ گہر فشاں وا کیجیے یا اپنے کسی مضمون کا حوالہ ارسال کر دیجیے۔۔۔
(یا اگر میں کم فہمی کے باعث سوال میں کوئی غلطی کر رہا ہوں تب بھی بتا دیں)"
 

حسان خان

لائبریرین
وعلیکم السلام!
کیا قدیم فارسی میں "ے" استعمال ہوتا تھا؟
اگر آپ کا اشارہ یائے مجہول کی آواز (e) کی جانب ہے، تو یہ آواز قدیم زمانے میں کُل فارسی گو خِطّے کی فارسی میں موجود تھی، اور تا ہنوز افغانستان، تاجکستان اور پاکستان کی فارسی میں یہ آواز رائج ہے، لیکن اگر آپ اُس حَرف کے بارے میں پوچھ رہے تھے جس کو اردو میں «بڑی یے» کہا جاتا ہے، تو نہیں، یہ حَرف کبھی معیاری فارسی حروفِ تہجّی کا حصّہ نہیں رہا، اور فقط فارسی خطّاطی میں 'ی' کی ایک مُتبادل شکل کے طور پر، یا پاکستان میں اردو رسم الخط اور طرزِ نوِشتار میں لکھی جانے والی فارسی میں استعمال ہوا ہے۔
آج کل مختلف علاقہ جات میں فقط تلفظ کا فرق ہے (e/i) یا معنیٰ میں بھی فرق ہے؟
«می» میں فقط تلفُّظ کا فرق ہے۔
ایک افغانی دوست کے بقول (اگر میں اس کو سمجھنے میں خطا نہیں کر رہا) "می" دری میں متکلم کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں شاید۔۔۔ اس نے غالباََ کچھ یوں مثال دی کہ "می کنید" اور ایرانی فارسی میں "می کنیدم" (آپ وضاحت کر دیجیے اس سے دوبارہ گفت و شنید کر لوں گا)۔۔۔
یہ سوال میں سمجھ نہیں پایا۔ «می» تو ہر طرح کی فارسی میں متکلّم کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے، مثلاً: می‌روم، می‌گُفتم وغیرہ۔
مزید اینکہ آپ اس "علامتِ استمرار و امتداد و تکرار" کے متعلق مزید لبِ گہر فشاں وا کیجیے
مُختصراً یہ کہ «می» کلاسیکی فارسی میں عموماً اِن معنوں کے لیے استعمال ہو سکتا تھا:
جو کام ماضی/حال میں تکراراً کیا جاتا ہو (میں جاتا تھا/ہوں)
جو کام ماضی/حال میں در حالِ انجام ہو، یا کیا جا رہا ہو (میں جا رہا تھا/میں جا رہا ہوں)
جو کام ماضی/حال میں یکے بعدِ دیگرے یا مُسلسل وُقوع پذیر ہوتا تھا/ہو/ہو رہا ہو (میں کیے جا رہا ہوں)
جو کام مُستقبِل میں انجام پانے جا رہا ہو (میں کرنے جا رہا ہوں/میں کروں گا)

مُستقبِل کا مفہوم عموماً سیاق و سباق کی مدد سے لایا جاتا تها/ہے۔

«می» بُنیادی طور پر فعل کی ناتمامیت ظاہر کرتا تھا/ہے، یعنی وہ عمل یا حالت جو اِتمام تک نہ پہنچ گئی ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«مولانا جلال‌الدین رومی» کی «مثنویِ معنوی» کی ایک بیت میں "گِرِہ بر آب بستن" (آب بر گِرہ باندھنا) عبارت نظر آئی ہے جس کا مفہوم "کوئی کارِ مُحال انجام دینا" ہے۔ کیونکہ آب پر گِرہ باندھنا نامُمکِن کار ہے۔

او وزیری داشت گبر و عِشوه‌دِه
کو بر آب از مکر بربستی گِرِه
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اُس کے پاس ایک کافر و حیلہ‌گر و فِریب‌کار وزیر تھا جو اپنی شِدّتِ مکّاری و حیلہ‌گری سے آب پر گِرِہ باندھتا تھا۔ یعنی ایسے کار انجام دیتا تھا کہ جو دیگروں کی نظر میں مُحال ہوتے تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
معلوم ہوا ہے کہ ہماری زبانِ فارسی میں مسیحی کتابِ مُقدّس «اِنجیل» کے لیے لفظِ «اَنگَلیُون» بھی استعمال ہوا ہے۔ «مولانا جلال‌الدین رومی» نے «مثنویِ معنوی» میں ایک داستان میں لِکھا ہے:
"صد هزاران مردِ ترسا سُویِ او
اندک اندک جمع شد در کُویِ او
او بیان می‌کرد با ایشان به راز
سِرِّ اَنگَلیون و زُنّار و نماز"

(مولانا جلال‌الدین رومی)
صد ہزاراں مسیحیان بہ تدریج اُس کے کُوچے میں اُس کے گِرد و اطراف میں جمع ہو گئے۔۔۔ وہ اُن مردُم کو مخفیانہ و رازدارانہ، اِنجیل و زُنّار و [مسیحی] نماز کے اَسرار و و حقاق بیان و تشریح کرتا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگرچہ «یحییٰ خان» کی شخصیت پاکستان وَ پاکستانیوں کے لیے قابلِ افتخار نہیں ہے، اور پاکستانی تاریخ میں اُن کو خوب الفاظ سے یاد نہیں کیا جاتا، لیکن اُن کی شخصیت کا ایک جالِب پہلو ایسا ہے جس سے بیشتر پاکستانیان ناواقف ہیں۔ وہ پہلو یہ ہے کہ وہ ایک فارسی‌گو قِزِلباش خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اور فارسی بولتے تھے۔ «روئداد خان» نے اپنی انگریزی کتاب «پاکستان: ایک تُرش‌شُدہ خواب» میں صراحتاً لکھا ہے کہ اُن کی زبان فارسی تھی۔ یعنی پاکستان پر ایک فارسی‌گو قِزِلباش شخص حُکومت کر چکا ہے۔ مُتَأسّفانہ، جس قدر ہماری اور «یحییٰ خان» کی زبانِ فارسی شیریں ہے، اُسی قدر «یحییٰ خان» کی شخصیت اور اُن کا دورِ اِقتِدار اکثر پاکستانیوں کی نظر میں تلخ رہا ہے!
 
آخری تدوین:
معاصر نوشتاری فارسی میں ڈرون کے لئے واژہ "پَهپاد" کاربردہ کیا جاتا ہے جو مخفف ہے "پرنده‌ی هدایت‌پذیر از دور" کا۔
یک هواپیمایِ دیگرِ آمریکایی در لحظه‌ی ساقط شدنِ پهپاد در آسمان بود
ڈرون گرتے وقت ایک دیگر امریکی طیاره آسمان میں موجود تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ہماری زبانِ فارسی میں «غُلام و چاکَر» کے لیے لفظِ «رَهی» بھی استعمال ہوا ہے۔ کلاسیکی فارسی شاعری میں اِس کے استعمال کی دو مِثالیں دیکھیے:

=========

«جمشید» کی پادشاہی کا ذکر کرتے ہوئے ایک بیت میں جنابِ «فردوسی طوسی» کہتے ہیں:


کمر بست با فرِّ شاهنشهی
جهان سر به سر گشت او را رهی
(فردوسی طوسی)


اُس نے جلال و شُکوہِ شاہنشاہی کے ساتھ کمر باندھی۔۔۔ کُل کا کُل جہان اُس کا چاکَر [و فرمان‌بردار] ہو گیا۔

=========

«سُلطان محمود غزنوی» کے لیے جنابِ «فرُّخی سیستانی» کی ایک دُعائیہ بیت:

ایزد کامِ تو به حاصل کُناد
ما رهِیان را شب و روز این دُعاست
(فرُّخی سیستانی)


ہم غُلاموں کی شب و روز یہ دُعا ہے کہ خُدا تمہاری مُراد و آرزو کو برآوردہ کرے!
 

حسان خان

لائبریرین
معلوم ہوا ہے کہ ہماری زبانِ فارسی میں شبِ پانزدہُمِ شعبان یعنی «شبِ برات» کو «شبِ چَک» کہہ کر بھی یاد کیا گیا ہے۔ کیونکہ «برات» کی مانند «چک» بھی فرمان‌نامہ و پروانہ و سنَد کو کہتے تھے، اور یہ باور رہا ہے کہ اِس شب میں جہنّم سے آزادی و رہائی کا پروانہ مِل جاتا ہے۔ «برات» اور «چک» میں تفاوُت صرف یہ تھا کہ اوّل‌الذکر لفظ عرَبی ہے، جبکہ ثانی‌الذکر لفظ فارسی۔

اِس نام کی مثال دینے کے لیے عموماً «رودَکی سمرقندی» سے منسوب یہ بیت پیش کی جاتی ہے:

چراغان در شبِ چک آن‌چُنان شد

که گیتیِ رشکِ هفتُم آسمان شد
(رودکی سمرقندی)

شبِ برات میں چراغاں اِس قدر [زیادہ] ہوا کہ دُنیا آسمانِ ہفتُم کے لیے باعثِ رشک ہو گئی (یعنی دُنیا پر آسمانِ ہفتُم رشک کرنے لگا)۔
 
آخری تدوین:
برادرم حسان خان ، فارسی میں مصدر ’آسودن‘ کا معنی استراحت، آرام کردن وغیرہ ہے۔ جن الفاظ میں آسودن کا بنِ مضارع ’آسا‘ آتا ہے، اصولاََ ان کے مطالب میں آرام کی کیفیت آنی چاہیے، لیکن اصلاََ ان کے مطالب میں ’مانند‘ آتا ہے۔ مثلاََ ’’خاطر آسا‘‘ کا اصولاََ معنی دل کو تسکین دینے والا، لیکن حقیقتاََ اس کا مطلب ’’دل جیسا‘‘ ہے۔ اس اختلاف کی علت کیا ہے؟
 
Top