نوید صادق
محفلین
نوید صادق
ایک آشنا پر لکھنا بیک وقتِ آسان بھی ہوتا ہے اور دشوار بھی۔ آسان اس لیے کہ آپ اس کے نظریات، اس کے رہن سہن سے آگاہ ہوتے ہیں، جو چیزیں آپ کو پہلے سے معلوم ہوتی ہیں ، آپ بآسانی اس کی شاعری سے نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔دشوار اس لیے کہ بعض اوقات آپ بعض ایسی چیزیں درآمد کر بیٹھتے ہیں، جن کی تشہیر آپ کے صاحبِ تخلیق سے کشیدگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ درست ہوتی ہیں۔شاید اسی کارن ہمارے ہاں نقاد کسی ادیب پر لکھنے کے لیے اس کی رحلت کا انتظار کرتے ہیں۔یقین نہ آئے تو وہ مضامین اٹھا کر دیکھ لیجئے،جو تخلیق کاروں کی حیات میں ان پر لکھے گئے، ان میں جگہ جگہ مصلحت اندیشی لہریں لیتی دکھائی دے گی۔ایسا کیوں ہے؟؟ اس کا جواب نہ آپ دینا پسند فرمائیں گے اور نہ میں اس پر بات کرنا؟ یہاں ایک اور ”کیوں“ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔تو دوستو! بات کچھ یوں ہے کہ یہ بات آپ سے یا مجھ سے کچھ ایسی ڈھکی چھپی بھی نہیں کہ اس پر باقاعدہ بحث کی جائے۔
اب اس تصویر کا دوسرارُخ دیکھتے ہیں۔ یعنی کسی نا آشنا پر لکھنا۔یہ بذاتِ خود ایک تخلیقی کاروائی کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ آشنائی کی زیادہ سے زیادہ سے زیادہ صورت یہ ہو کہ محترم نجیب احمد نے آپ کو یہ بتا دیا ہو کہ وہ سامنے جو شخص بیٹھاہے، ”زاہد مسعود“ کہلاتا ہے۔ کہانی میں مزید لطف پیدا ہو جاتا ہے جب آپ کے شاعر پرپہلے کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔ گویا آپ کو اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنا ہے۔ اور گزشتہ کچھ دنوں سے طبیعت کی ناسازی نے مطلوبہ محنت کا موقع نہیں دیا۔پھر بھی مقدور بھر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
کبھی کبھی ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ شاعر کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں محض ایک عضوِ معطل کی حیثیت رکھتا ہے؟ اپنی ذاتی ناکامیوں ، ذاتی بے بسی کا رونا رونا ہی اس کا کام ہے؟ نیپال میں شاہ نے وہاں کے ایک شاعر کی دونوں ٹانگیں کیوں کٹوا دیں؟ شاہ فرخ سیر نے جعفر زٹلی کی گردن کیوں اُڑوا دی؟ فیض احمد فیض کی ”زنداں نامہ“ کیا ہے؟ حبیب جالب بار بار جیل یاترا پر کیوں جاتے رہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بیانِ داستانِ محبت اور قصہ ہائے غم کے بیان کے علاوہ بھی شاعر کی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ اور انہی ذمہ داریوں کو نبھانے کی پاداش میں معاشرہ اور ریاست اسے مختلف سزاوءں کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔
زاہد مسعود ایک حساس انسان ہیں۔اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینے والے انسان۔اپنے ماحول پر کڑھنے والے انسان۔اپنے مشاہدات رقم کرتے ہیں۔ماحول پر جاری و ساری بے حسی اور بے کلی کا سبب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک بات واضح کرتا چلوں کہ زاہد مسعود نئے شاعروں کی اس قبیل سے ہیں جنہوں نے روایت کو رد کر کے نیا لب و لہجہ بنانے کی کوشش کی۔ اور اسی باعث ان کے ہاں کہیں کہیں نامانوسیت اور اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی ہمارے گرد و پیش کی۔ ہم ایک عرصہ سے جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ اس میں انسان کی حیثیت کیا رہ گئی ہے۔ بات سیاست کی ہو یا معاشیات یا معاشرت کی، ایک روز افزوں تنزلی ہمارا مقدر بنتی دکھائی دیتی ہے۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ حالات تمام اقوامِ عالم کے لئے یکساں ہوتے جا رہے ہیں۔اختیارات چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔اور عام آدمی کو حقیقت کا ادراک تک نہیں ہونے پاتا۔ شاید اسے ان حالات تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا کہ وہ روٹی کپڑا اور مکان سے آگے کی بات سوچ سکے۔زندگی ایک مصنوعی پن کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اربابِ اختیار کو عوام سے قطعی کوئی غرض نہیں۔ان کی پسند نا پسند سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں۔
زاہد مسعود کے ہاں مجھے ”میں “ کی پکار کہیں سنائی نہیں دی۔ ان کے ہاں ”ہم“ کا غلبہ ہے۔ وہ ”جزو “کی بجائے” کل“ کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے ذاتی مسائل ان کے لیے کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ معاشرہ، ریاست بلکہ ساری دنیا کی بہتری ان کا مطمحِ نظر ہے۔اور ان کا مشاہدہ بھی ایک اکیلے فرد کا مشاہدہ نہیں ہے۔ وہ وہی دیکھتے اورمحسوس کرتے ہیں جو ان کے ساتھ کے دوسرے لوگ۔لیکن پورا معاشرہ شاعر نہیں ہوتا ۔اور یوں اس کرب کا بیان ان کے ذمہ آ پڑتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ” ایک شخص کی رائے کچے دھاگے کی مانند ہے جس کو توڑا جا سکتا ہے،جبکہ بہت سے اشخاص کی رائے اس پکے دھاگے کی مانند ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا“۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
” اور یہ لوگ زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھتے۔ تو کیا ان کی موت آ گئی ہے“
ارشادِ باری تعالیٰ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارے بیشتر مسائل کی بنیادی وجہ جستجو، خواہش اور تلاش کا نہ ہونا ہے۔ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے، ہم اسے تبدیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سو دریا کے بہاوء کے ساتھ تنکوں کی طرح بہنا گوارا کر لیتے ہیں۔ہم اپنے گرد و پیش کو تبدیل کرنے کی جگہ روٹی روزی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔یاسیت ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے ۔اور جو اکا دکا آوازیں بطور احتجاج بلند ہوتی ہیں ، انہیں صلیب کا سزاوار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
ایسے میں ایک شاعر اپنے طور پر کوشش کرتا ہے۔ معاشرے کو ایک سوچ دینے کی کوشش کرتا ہے۔تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔بقولِ احمد مشتاق
زاہد مسعود بھی اسی ” اپنے کام“ میں مشغول ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جعفر زٹلی کی طرح حاکمِ وقت کو مٹر کے دانے پر ریاست کا سکہ چھاپنے کا مشورہ نہیں دیتے۔فیض کی طرح غاصب کو نہیں للکارتے۔جالب کی طرح ”بیس گھرانے ہیں آباد“ کا نعرہ بلند نہیں کرتے۔وہ اپنے منفرد انداز میں غاصب کو ملفوف انداز میں ہدفِ تنقید بناتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
لیکن جلد ہی شاعر کو احساس ہوتا ہے کہ وہ خود یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا۔وہ ایک عام انسان سے ذرا سا منفرد محض اس طرح ہے کہ محسوس کرے، تجزیہ کرے اور بات کھول کر سب کے سامنے رکھ دے۔اس کام کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جس کو مرکزِ نگاہ و عمل بنایا جا سکے۔اب ہم یہ تو واضح طور پر بیان نہیں کر سکتے ان کی نگہ میں کون ہے، لیکن کوئی ہے ضرور۔۔۔ کوئی شخصیت ، کوئی عقیدہ یا کوئی نظریہ۔ جس کی راہنمائی میں ماحول میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اور تمام خوش گمانوں یعنی شاعروں کی طرح اسے اس تبدیلی کے آثار دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ماحول کا حبس ختم ہوتا نظر پڑتا ہے۔
میں نے شروع میں کہا تھا کہ زاہد مسعود ایک نئے شاعر ہیں، حقیقی معنوں میں نئے شاعر۔ روایت کو رد کر دینے والے شاعر۔انہیں ادب اور زندگی میں سکہ بند اصولوں پر چلنا ہرگز ہرگز گوارا نہیں۔مغرب میں اس تحریک کا آغاز 1910ءمیں ہوا۔ہمارے ہاں اس سلسلہ میں مختلف ادوار میں مختلف تحاریک برپا ہوئیں اور انجام پذیر ہوتی چلی گئیں۔ان تحاریک کے فوائد اور نقصانات ، ادب اور زندگی پر اثرات اپنی جگہ لیکن ایک بات کا اعلان بہت ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا شاعر زاہد مسعود” روایت “سے لاکھ جتنوں کے بعد بھی جان نہیں چھڑا پایا۔ خاص طور پر جب وہ معاملاتِ محبت کے بیان پر آتے ہیں۔واضح کرتا چلوں کی یگانہ کی طرح ”محبت“ ان کے ہاں بھی ذاتی تجربے کی حیثیت اختیار نہیں کر پائی۔
اور یہی جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاہد مسعود کی غزل
ایک آشنا پر لکھنا بیک وقتِ آسان بھی ہوتا ہے اور دشوار بھی۔ آسان اس لیے کہ آپ اس کے نظریات، اس کے رہن سہن سے آگاہ ہوتے ہیں، جو چیزیں آپ کو پہلے سے معلوم ہوتی ہیں ، آپ بآسانی اس کی شاعری سے نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔دشوار اس لیے کہ بعض اوقات آپ بعض ایسی چیزیں درآمد کر بیٹھتے ہیں، جن کی تشہیر آپ کے صاحبِ تخلیق سے کشیدگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ حالانکہ وہ درست ہوتی ہیں۔شاید اسی کارن ہمارے ہاں نقاد کسی ادیب پر لکھنے کے لیے اس کی رحلت کا انتظار کرتے ہیں۔یقین نہ آئے تو وہ مضامین اٹھا کر دیکھ لیجئے،جو تخلیق کاروں کی حیات میں ان پر لکھے گئے، ان میں جگہ جگہ مصلحت اندیشی لہریں لیتی دکھائی دے گی۔ایسا کیوں ہے؟؟ اس کا جواب نہ آپ دینا پسند فرمائیں گے اور نہ میں اس پر بات کرنا؟ یہاں ایک اور ”کیوں“ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔تو دوستو! بات کچھ یوں ہے کہ یہ بات آپ سے یا مجھ سے کچھ ایسی ڈھکی چھپی بھی نہیں کہ اس پر باقاعدہ بحث کی جائے۔
اب اس تصویر کا دوسرارُخ دیکھتے ہیں۔ یعنی کسی نا آشنا پر لکھنا۔یہ بذاتِ خود ایک تخلیقی کاروائی کے زمرے میں آ جاتا ہے۔ آشنائی کی زیادہ سے زیادہ سے زیادہ صورت یہ ہو کہ محترم نجیب احمد نے آپ کو یہ بتا دیا ہو کہ وہ سامنے جو شخص بیٹھاہے، ”زاہد مسعود“ کہلاتا ہے۔ کہانی میں مزید لطف پیدا ہو جاتا ہے جب آپ کے شاعر پرپہلے کچھ لکھا ہی نہ گیا ہو۔ گویا آپ کو اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنا ہے۔ اور گزشتہ کچھ دنوں سے طبیعت کی ناسازی نے مطلوبہ محنت کا موقع نہیں دیا۔پھر بھی مقدور بھر جائزہ پیشِ خدمت ہے۔
کبھی کبھی ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ شاعر کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیا وہ معاشرے میں محض ایک عضوِ معطل کی حیثیت رکھتا ہے؟ اپنی ذاتی ناکامیوں ، ذاتی بے بسی کا رونا رونا ہی اس کا کام ہے؟ نیپال میں شاہ نے وہاں کے ایک شاعر کی دونوں ٹانگیں کیوں کٹوا دیں؟ شاہ فرخ سیر نے جعفر زٹلی کی گردن کیوں اُڑوا دی؟ فیض احمد فیض کی ”زنداں نامہ“ کیا ہے؟ حبیب جالب بار بار جیل یاترا پر کیوں جاتے رہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بیانِ داستانِ محبت اور قصہ ہائے غم کے بیان کے علاوہ بھی شاعر کی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ اور انہی ذمہ داریوں کو نبھانے کی پاداش میں معاشرہ اور ریاست اسے مختلف سزاوءں کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔
زاہد مسعود ایک حساس انسان ہیں۔اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینے والے انسان۔اپنے ماحول پر کڑھنے والے انسان۔اپنے مشاہدات رقم کرتے ہیں۔ماحول پر جاری و ساری بے حسی اور بے کلی کا سبب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک بات واضح کرتا چلوں کہ زاہد مسعود نئے شاعروں کی اس قبیل سے ہیں جنہوں نے روایت کو رد کر کے نیا لب و لہجہ بنانے کی کوشش کی۔ اور اسی باعث ان کے ہاں کہیں کہیں نامانوسیت اور اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ خیر بات ہو رہی تھی ہمارے گرد و پیش کی۔ ہم ایک عرصہ سے جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔ اس میں انسان کی حیثیت کیا رہ گئی ہے۔ بات سیاست کی ہو یا معاشیات یا معاشرت کی، ایک روز افزوں تنزلی ہمارا مقدر بنتی دکھائی دیتی ہے۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ حالات تمام اقوامِ عالم کے لئے یکساں ہوتے جا رہے ہیں۔اختیارات چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔اور عام آدمی کو حقیقت کا ادراک تک نہیں ہونے پاتا۔ شاید اسے ان حالات تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا کہ وہ روٹی کپڑا اور مکان سے آگے کی بات سوچ سکے۔زندگی ایک مصنوعی پن کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے اربابِ اختیار کو عوام سے قطعی کوئی غرض نہیں۔ان کی پسند نا پسند سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں۔
وقت کی آنکھ شبنمی سی ہے
لمحے لمحے میں بے کلی سی ہے
ساری بستی پہ خوف طاری ہے
سارے جنگل میں خامشی سی ہے
سجا کے عکس نئے کانچ کی فصیلوں پر
ہم آئنوں کی نمائش میں معتبر ٹھہرے
نصیبوں میں سفر رکھے گئے ہیں
مگر بے بال و پر رکھے گئے ہیں
برابر چل رہے ہیں ، راستوں میں
مسلسل بے خبر رکھے گئے ہیں
کھڑی ہے دھوپ کی دیوار جس پر
دکھاوے کے شجر رکھے گئے ہیں
ہماری داستاں کے حاشیے میں
حوالے منتشر رکھے گئے ہیں
عکس کی پہنائیاں بے عکس ہیں
آئینے اظہار تک محدود ہیں
نئے موسم چمن میں اہتمامِ رنگ و بو کرتے نہیں ہیں
درختوں سے پرندے احتجاجاً گفتگو کرتے نہیں ہیں
لمحے لمحے میں بے کلی سی ہے
ساری بستی پہ خوف طاری ہے
سارے جنگل میں خامشی سی ہے
سجا کے عکس نئے کانچ کی فصیلوں پر
ہم آئنوں کی نمائش میں معتبر ٹھہرے
نصیبوں میں سفر رکھے گئے ہیں
مگر بے بال و پر رکھے گئے ہیں
برابر چل رہے ہیں ، راستوں میں
مسلسل بے خبر رکھے گئے ہیں
کھڑی ہے دھوپ کی دیوار جس پر
دکھاوے کے شجر رکھے گئے ہیں
ہماری داستاں کے حاشیے میں
حوالے منتشر رکھے گئے ہیں
عکس کی پہنائیاں بے عکس ہیں
آئینے اظہار تک محدود ہیں
نئے موسم چمن میں اہتمامِ رنگ و بو کرتے نہیں ہیں
درختوں سے پرندے احتجاجاً گفتگو کرتے نہیں ہیں
زاہد مسعود کے ہاں مجھے ”میں “ کی پکار کہیں سنائی نہیں دی۔ ان کے ہاں ”ہم“ کا غلبہ ہے۔ وہ ”جزو “کی بجائے” کل“ کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے ذاتی مسائل ان کے لیے کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ معاشرہ، ریاست بلکہ ساری دنیا کی بہتری ان کا مطمحِ نظر ہے۔اور ان کا مشاہدہ بھی ایک اکیلے فرد کا مشاہدہ نہیں ہے۔ وہ وہی دیکھتے اورمحسوس کرتے ہیں جو ان کے ساتھ کے دوسرے لوگ۔لیکن پورا معاشرہ شاعر نہیں ہوتا ۔اور یوں اس کرب کا بیان ان کے ذمہ آ پڑتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ” ایک شخص کی رائے کچے دھاگے کی مانند ہے جس کو توڑا جا سکتا ہے،جبکہ بہت سے اشخاص کی رائے اس پکے دھاگے کی مانند ہے جسے توڑا نہیں جا سکتا“۔
قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
” اور یہ لوگ زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھتے۔ تو کیا ان کی موت آ گئی ہے“
ارشادِ باری تعالیٰ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمارے بیشتر مسائل کی بنیادی وجہ جستجو، خواہش اور تلاش کا نہ ہونا ہے۔ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے، ہم اسے تبدیل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سو دریا کے بہاوء کے ساتھ تنکوں کی طرح بہنا گوارا کر لیتے ہیں۔ہم اپنے گرد و پیش کو تبدیل کرنے کی جگہ روٹی روزی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔یاسیت ہمارا مقدر ٹھہرتی ہے ۔اور جو اکا دکا آوازیں بطور احتجاج بلند ہوتی ہیں ، انہیں صلیب کا سزاوار ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
تمام شہر نے چوما زوال کا پتھر
ترے عروج کے سب خواب منتشر ٹھہرے
ہم ایسے اپنی شبیہوں کی چھب گنوا بیٹھے
کہ جیسے تیز شعاوءں سے آئینے ٹوٹیں
ہم اپنے خواب لیے بستیوں سے دور ہوئے
ہمارا رزق اسی شہرِ بے ہنر میں ہے
افق اپنے سمٹ کر رہ گئے ہیں چار دیواروں کے اندر
قدم دہلیز سے باہر سفر کی جستجو کرتے نہیں ہیں
گر ہے تو فقط بے سر و سامانیء عالم
ترکش میں کوئی تیر نہ تلوار سلامت
رت بدلنے کی گواہی کون دے
حوصلے آثار تک محدود ہیں
بے صدا لفظ ہونٹ پر ابھریں
اور تشہیر ڈھونڈتے رہ جائیں
وہ لوگ جو شب کی سلطنت میں ہتھیلیوں پہ چراغ لائے
صلیب بردوش آبلہ پا صعوبتوں کے حصار میں ہیں
ترے عروج کے سب خواب منتشر ٹھہرے
ہم ایسے اپنی شبیہوں کی چھب گنوا بیٹھے
کہ جیسے تیز شعاوءں سے آئینے ٹوٹیں
ہم اپنے خواب لیے بستیوں سے دور ہوئے
ہمارا رزق اسی شہرِ بے ہنر میں ہے
افق اپنے سمٹ کر رہ گئے ہیں چار دیواروں کے اندر
قدم دہلیز سے باہر سفر کی جستجو کرتے نہیں ہیں
گر ہے تو فقط بے سر و سامانیء عالم
ترکش میں کوئی تیر نہ تلوار سلامت
رت بدلنے کی گواہی کون دے
حوصلے آثار تک محدود ہیں
بے صدا لفظ ہونٹ پر ابھریں
اور تشہیر ڈھونڈتے رہ جائیں
وہ لوگ جو شب کی سلطنت میں ہتھیلیوں پہ چراغ لائے
صلیب بردوش آبلہ پا صعوبتوں کے حصار میں ہیں
ایسے میں ایک شاعر اپنے طور پر کوشش کرتا ہے۔ معاشرے کو ایک سوچ دینے کی کوشش کرتا ہے۔تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔بقولِ احمد مشتاق
بدلتے موسمو! غافل نہیں ہم
ہم اپنا کام کرتے جا رہے ہیں
ہم اپنا کام کرتے جا رہے ہیں
زاہد مسعود بھی اسی ” اپنے کام“ میں مشغول ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جعفر زٹلی کی طرح حاکمِ وقت کو مٹر کے دانے پر ریاست کا سکہ چھاپنے کا مشورہ نہیں دیتے۔فیض کی طرح غاصب کو نہیں للکارتے۔جالب کی طرح ”بیس گھرانے ہیں آباد“ کا نعرہ بلند نہیں کرتے۔وہ اپنے منفرد انداز میں غاصب کو ملفوف انداز میں ہدفِ تنقید بناتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
گئے دنوں کی طویل بارش تمام تعویذ دھو گئی ہے
وہ عہد نامے جو مٹ چکے ہیں، میں ان کی تجدید لکھ رہا ہوں
رگوں میں بہنے لگی ہے طویل دن کی تھکن
کوئی الاوء جلے، کوئی داستان کھلے
یہ اور بات کہ ہم تیرے معترف ٹھہرے
عجب نہیں جو کبھی اختلاف کر جائیں
مرے وجود کے سب زاویے سلامت ہیں
خطوط کیسے ترا اعتراف کر جائیں
ہوا تو شہر کے اندر ہی معرکہ ہو گا
غنیم مورچوں میں اعتکاف کر جائیں
نئی رتوں میں نئے انکشاف کر جائیں
شجر سے لپٹی ہوئی بیل صاف کر جائیں
امیرِ قافلہ محوِ سفارت ہے مگر پسپا سپاہی
نیامیں توڑتے ہیں اور پرچم کو رفو کرتے نہیں ہیں
وہ عہد نامے جو مٹ چکے ہیں، میں ان کی تجدید لکھ رہا ہوں
رگوں میں بہنے لگی ہے طویل دن کی تھکن
کوئی الاوء جلے، کوئی داستان کھلے
یہ اور بات کہ ہم تیرے معترف ٹھہرے
عجب نہیں جو کبھی اختلاف کر جائیں
مرے وجود کے سب زاویے سلامت ہیں
خطوط کیسے ترا اعتراف کر جائیں
ہوا تو شہر کے اندر ہی معرکہ ہو گا
غنیم مورچوں میں اعتکاف کر جائیں
نئی رتوں میں نئے انکشاف کر جائیں
شجر سے لپٹی ہوئی بیل صاف کر جائیں
امیرِ قافلہ محوِ سفارت ہے مگر پسپا سپاہی
نیامیں توڑتے ہیں اور پرچم کو رفو کرتے نہیں ہیں
لیکن جلد ہی شاعر کو احساس ہوتا ہے کہ وہ خود یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا۔وہ ایک عام انسان سے ذرا سا منفرد محض اس طرح ہے کہ محسوس کرے، تجزیہ کرے اور بات کھول کر سب کے سامنے رکھ دے۔اس کام کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جس کو مرکزِ نگاہ و عمل بنایا جا سکے۔اب ہم یہ تو واضح طور پر بیان نہیں کر سکتے ان کی نگہ میں کون ہے، لیکن کوئی ہے ضرور۔۔۔ کوئی شخصیت ، کوئی عقیدہ یا کوئی نظریہ۔ جس کی راہنمائی میں ماحول میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اور تمام خوش گمانوں یعنی شاعروں کی طرح اسے اس تبدیلی کے آثار دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ماحول کا حبس ختم ہوتا نظر پڑتا ہے۔
عجب سکوت شبِ عدل خیمہ گاہ میں تھا
بس اک چراغ سا ہر شخص کی نگاہ میں تھا
یہ کس نگاہ پہ جم سی گئی چراغ کی لو
یہ کس پکار پہ سوئے ہوئے مکان کھلے
بکھر چکا ہے لبوں سے دعا کا سناٹا
ذرا سی دیر میں شاید کوئی زبان کھلے
گھروں کی کھڑکیاں کھلنے لگی ہیں
کبوتر اڑ رہے ہیں آنگنوں میں
ریزہ ریزہ ہے چاند پانی میں
گویا لہروں میں زندگی سی ہے
گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نگاہ مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے
بس اک چراغ سا ہر شخص کی نگاہ میں تھا
یہ کس نگاہ پہ جم سی گئی چراغ کی لو
یہ کس پکار پہ سوئے ہوئے مکان کھلے
بکھر چکا ہے لبوں سے دعا کا سناٹا
ذرا سی دیر میں شاید کوئی زبان کھلے
گھروں کی کھڑکیاں کھلنے لگی ہیں
کبوتر اڑ رہے ہیں آنگنوں میں
ریزہ ریزہ ہے چاند پانی میں
گویا لہروں میں زندگی سی ہے
گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نگاہ مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے
میں نے شروع میں کہا تھا کہ زاہد مسعود ایک نئے شاعر ہیں، حقیقی معنوں میں نئے شاعر۔ روایت کو رد کر دینے والے شاعر۔انہیں ادب اور زندگی میں سکہ بند اصولوں پر چلنا ہرگز ہرگز گوارا نہیں۔مغرب میں اس تحریک کا آغاز 1910ءمیں ہوا۔ہمارے ہاں اس سلسلہ میں مختلف ادوار میں مختلف تحاریک برپا ہوئیں اور انجام پذیر ہوتی چلی گئیں۔ان تحاریک کے فوائد اور نقصانات ، ادب اور زندگی پر اثرات اپنی جگہ لیکن ایک بات کا اعلان بہت ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا شاعر زاہد مسعود” روایت “سے لاکھ جتنوں کے بعد بھی جان نہیں چھڑا پایا۔ خاص طور پر جب وہ معاملاتِ محبت کے بیان پر آتے ہیں۔واضح کرتا چلوں کی یگانہ کی طرح ”محبت“ ان کے ہاں بھی ذاتی تجربے کی حیثیت اختیار نہیں کر پائی۔
وہ شہر جس میں کبھی بت تراش رہتے تھے
زمیں سے نکلا تو اپنے ہی گاوءں جیسا تھا
اپنی تہذیب کے کھنڈر پہ ہم
طرزِ تعمیر ڈھونڈتے رہ جائیں
نئے موسم پرانے زائچوں سے عین ممکن ہے گریزاں ہوں
پرندو! درمیانی مرحلے میں گھونسلے تعمیر کر لینا
اس سے پہلے کہ رت بدل جائے
اپنے سارے گلاب لے جانا
تعلقات کی تجدید پھر بھی ہو نہ سکی
کبوتروں کے پرے تو سفارتوں میں رہے
سفر نصیب ترے آس پاس رہتے ہیں
کہ اب قیام اسی کنجِ دربدر میں ہے
جو بچھڑ گیا وہ محبتوں کا سہاگ تھا
جو پلٹ گیا وہ معاملہ تھا خیال کا
پسِ چشم تھی کوئی یاد شامِ ملال کی
سرِ آئنہ وہی عکس صبحِ وصال کا
انبوہِ خال و خد سے گزرتے چلے گئے
جو تھے اسیرِ خواب ترے ماہ و سال تک
کیا شورِ تمنا ہے سرِ دامنِ صد چاک
اب دار سلامت ہے نہ بازار سلامت
ہمیں عزیز بہت ہیں تمہارے وصل کے خواب
مگر یہ خواب خیالوں میں زہر گھولتے ہیں
زمیں سے نکلا تو اپنے ہی گاوءں جیسا تھا
اپنی تہذیب کے کھنڈر پہ ہم
طرزِ تعمیر ڈھونڈتے رہ جائیں
نئے موسم پرانے زائچوں سے عین ممکن ہے گریزاں ہوں
پرندو! درمیانی مرحلے میں گھونسلے تعمیر کر لینا
اس سے پہلے کہ رت بدل جائے
اپنے سارے گلاب لے جانا
تعلقات کی تجدید پھر بھی ہو نہ سکی
کبوتروں کے پرے تو سفارتوں میں رہے
سفر نصیب ترے آس پاس رہتے ہیں
کہ اب قیام اسی کنجِ دربدر میں ہے
جو بچھڑ گیا وہ محبتوں کا سہاگ تھا
جو پلٹ گیا وہ معاملہ تھا خیال کا
پسِ چشم تھی کوئی یاد شامِ ملال کی
سرِ آئنہ وہی عکس صبحِ وصال کا
انبوہِ خال و خد سے گزرتے چلے گئے
جو تھے اسیرِ خواب ترے ماہ و سال تک
کیا شورِ تمنا ہے سرِ دامنِ صد چاک
اب دار سلامت ہے نہ بازار سلامت
ہمیں عزیز بہت ہیں تمہارے وصل کے خواب
مگر یہ خواب خیالوں میں زہر گھولتے ہیں
اور یہی جدید انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوید صادق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مضمون جناب زاہد مسعود کے ساتھ ایک شام میں پڑھا گیا۔ مطبوعہ: ماہنامہ بیاض