ریلوے ٹریک پر آنے والے شعراء

نیرنگ خیال

لائبریرین
محترم نیرنگ خیال یہ بات تو طے شدہ ہے کہ انہوں نے خودکشی کی کوششیں پہلے بھی کی تھیں۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ آپ درست فرما رہے ہوں۔ دراصل اس حوالے سے ایک پی ایچ ڈی مقالے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں کافی تحقیقی مواد شامل تھا۔ اور یہ بھی ہے کہ خودکشی کے حوالے سے ان کی سوچ سب پر عیاں تھی اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ اس حوالے سے وقف تھا۔ ممکن ہے، ان کا انتقال سچ مچ کے ٹرین حادثے میں ہوا ہو، اس حوالے سے مزید تحقیق کے بعد ہی کچھ کہہ پاؤں گا۔
موت کے متعلق شاعری کرنا نیا نہیں۔ پنجابی شاعر شیو کمار بٹالوی کی شاعری میں جابجا موت کو آوازیں ہیں۔ ان کا انتقال بھی جوانی میں ہی ہوگیا۔ مقصد کہنے کا یہ تھا کہ کسی ایک پہلو میں کشش محسوس کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر اس کو کر کے ہی دیکھے۔ یوں بھی جمالیاتی حس لطافت سے بھی لوگ حظ اٹھا لیتے ہیں جو کہ عام آدمی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
ضرور تحقیق کیجیے اور ہمیں بھی اس علم سے محروم مت رکھیے گا۔ یوں بھی مجھے ثروت حسین کو پڑھنے کا بہت کم ہی اتفاق ہوا ہے۔ سو میری معلومات واجبی سے بھی ذرا کم ہی ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
میرا خیال ہے لڑی بنانے والے محترم بھائی کا مقصد یہی ہے کہ خودکشی کے ذریعے اپنی جان لینے والے ادیبوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس حوالے سے محترمہ صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے خودکشی کے ذریعے اپنی جان لینے والے ادیبوں کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا ہے، مزید یہ کہ اس راہ پر چلنے والے ادیبوں کے بارے میں بھی زبردست انداز میں تحقیق کی ہے۔

فی الحال تو ان ادیبوں کے نام کی شراکت ہی کی جا سکتی ہے۔


مقالہ کے دو ابواب کچھ یوں ہیں:

اردو کے وہ ادیب جنہوں نے خودکشی کی

شمس آغا
شکیب جلالی
شبیر شاہد
سارا شگفتہ
آنس معین
ثروت حسین


اردو کے وہ ادیب جنہوں نے خودکشی تو نہیں کی، لیکن خودکشی کی راہ پر چلے

میرا جی
سعادت حسن منٹو
علاؤالدین کلیم
مصطفیٰ زیدی
صغیر ملال
جمیلہ شاہین
جون ایلیاء
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میرا خیال ہے لڑی بنانے والے محترم بھائی کا مقصد یہی ہے کہ خودکشی کے ذریعے اپنی جان لینے والے ادیبوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس حوالے سے محترمہ صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے خودکشی کے ذریعے اپنی جان لینے والے ادیبوں کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا ہے، مزید یہ کہ اس راہ پر چلنے والے ادیبوں کے بارے میں بھی زبردست انداز میں تحقیق کی ہے۔

فی الحال تو ان ادیبوں کے نام کی شراکت ہی کی جا سکتی ہے۔


مقالہ کے دو ابواب کچھ یوں ہیں:

اردو کے وہ ادیب جنہوں نے خودکشی کی

شمس آغا
شکیب جلالی
شبیر شاہد
سارا شگفتہ
آنس معین
ثروت حسین


اردو کے وہ ادیب جنہوں نے خودکشی تو نہیں کی، لیکن خودکشی کی راہ پر چلے

میرا جی
سعادت حسن منٹو
علاؤالدین کلیم
مصطفیٰ زیدی
صغیر ملال
جمیلہ شاہین
جون ایلیاء
ڈاکٹر صفیہ عباد کا نام اس ضمن میں کافی معروف ہے۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں بھی ایسے مصنفین و شعرا کا ذکر کیا ہے جنہوں نے خود کشی کی۔ تاہم دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سارا شگفتہ، آنس معین، ثروت کی پہلی خودکشی کی کوشش اور شکیب جلالی نے ٹرین کے نیچے آنے کو ہی کیوں ذریعہ بنایا۔ مطلب خودکشی کے بہت سے راستے ممکن تھے۔ جیسا کہ اپنی پہلی کوشش میں شمس آغا نے ٹرینکولائزر کو چنا۔ بہرحال۔ انسان بہت عجیب چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ رحمت کے معاملات کرے۔ آمین

رہی بات دوسری فہرست کی۔ تو خودکشی کی راہ پر چلنے سے کیا مراد ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
رہی بات دوسری فہرست کی۔ تو خودکشی کی راہ پر چلنے سے کیا مراد ہے میری سمجھ میں نہیں آیا۔

پیارے بھیا! محترمہ صفیہ عباد اس سے یہ مراد لیتی ہیں کہ ان ادیبوں نے زندگی اس انداز میں بسر کی گویا جینے کا تکلف ہی کر رہے ہوں۔ اپنے ہاتھوں اپنی صحت برباد کی اور بعضوں نے خودکشی کی ناکام کوششیں بھی کیں۔
 
پیارے بھیا! محترمہ صفیہ عباد اس سے یہ مراد لیتی ہیں کہ ان ادیبوں نے زندگی اس انداز میں بسر کی گویا جینے کا تکلف ہی کر رہے ہوں۔ اپنے ہاتھوں اپنی صحت برباد کی اور بعضوں نے خودکشی کی ناکام کوششیں بھی کیں۔
ناکام نہیں کامیاب کوششیں۔
 

فاتح

لائبریرین
تخلیقی صلاحیت اور دماغی خلل، شعرا اور ادیب جنہوں نے خود کشی کی
(اردو پوائنٹ) 27 اپریل 2015
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ تخلیقی صلاحیت والے لوگوں میں دماغی خلل کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ جدید تحقیق اس عمومی خیال کی تائید کرتی ہے کہ ذہنی بیماری اور تخلیقی صلاحیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
آئیووا رائٹرز ورکشاپ 2005 میں کی جانے والی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مصنفین اور اُن کے قریبی رشتے داروں کا اُن لوگوں سے موازنہ کیا گیا جو اُن جیسا ہی تعلیمی پس منظر اور آئی کیو لیول رکھتے تھے تو معلوم ہو ا کہ مصنفین کی ذہنی کیفیت زیادہ خراب ہوتی ہے۔
ڈونالڈ ڈبیلو گڈوین، ایم ڈی، الکوحل اور مصنفین(الکوحل اینڈ دی رائٹرز) میں لکھتا ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے 11 میں سے چار(یوجین و نیل، سنکلیئر لوئیس، ارنسٹ ہیمنگوے اور ولیم فولکنر) یقینی طورر پر شرابی تھے جبکہ پانچواں جون سٹینبیک غالباً شرابی تھا۔

کارولنسکا انسٹی ٹیوٹ، جو ایک میڈیکل یونیورسٹی ہے، کے محققین نے12 لاکھ ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر ایک تحقیق کی جو شیزوایفکٹیو ڈس آرڈر، ڈپریشن، کثرت شراب نوشی اور خودکشی کے رحجان رکھتے تھے۔
اس تحقیق سے پتہ چلا کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد ، خصوصاً مصنفین، میں عام افراد کے مقابلے میں خودکشی کا رحجان دوگنا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کی کچھ قیمت ہو جو مصنفین کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ ورجینیا وولف، ارنسٹ ہیمنگوے(انگریزی)، صادق ہدایت، تقی رفعت(فارسی)، علامہ آئی آئی قاضی (سندھی) اور میشیوا یوکیو(جاپانی)اُن ہزاروں مصنفین میں سے چند ہیں جنہوں نے خود کشی کی۔

ایک عرب خاتون جومانا حداد نے ایک فہرست شائع کی ہے جس میں 150 شعرا کا ذکر ہیں جنہوں نے خودکشی کی۔
اگرچہ یہ تحریر بہت افسردہ کر دینے والی ہے مگر شاعروں کے خودکشی کے رحجان کو شاعری میں رکاؤٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔
لوگ خود کو قتل کیوں کرتے ہیں؟ ماہرین اس کی وجہ ڈپریشن اور ناامیدی بتاتے ہیں۔ڈپریشن کی وجوہات میں جائے بغیر ہم اُن چند اردو مصنفین کو دیکھتے ہیں جنہوں نے خودکشی کی۔

--------------------------------------
شمش آغا
شمش آغا ایک باصلاحیت مختصر کہانی نویس اور ناول نگار تھے۔ 1922 میں پیداہوئے۔ بہت ہی حساس تھے۔ والدین میں علیحدگی ہوئی تو ماں اور بہن بھائیوں کی جدائی نے اُن کی بے چینی میں اضافہ کر دیا۔3 دسمبر 1945 کو غائب ہوئے اور کبھی گھر نہیں لوٹے۔ ایک قریبی دوست اور رشتے وزیر آغا کویقین تھا کہ شمش نے خودکشی کر لی ہے۔ وزیر نے پہلے بھی ایک موقعے پر شمش کی جان بچائی تھی، جب شمش نے بہت زیادہ ٹرینکولائزر لے لیں۔
شمش نے غائب ہونے سے پہلے 9 مختصر کہانیاں اور ایک نامکمل ناول لکھا۔ غائب ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے نامکمل ناول کا مسودہ مولانا صلاح الدین احمد کے حوالے کر دیا تھا۔

--------------------------------------

شکیب جلالی
شکیب جلالی تقسیم ہند کے بعد کے شعرا میں سب سے ممتاز ہیں، اگر چہ اُن کے ہم عصرانہیں وہ مقام نہیں دیتے جو اُن کا حق ہے۔ سید حسن رضوی(شکیب جلالی)، علی گڑھ کے قریبی گاؤں جلال میں 1 اکتوبر 1934 کو پیدا ہوئے۔
شکیب کے والد کی ذہنی بیماری کے باعث اُن کی والدہ نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ماں کی موت کا المناک منظردیکھا اور ساری زندگی اذیت میں مبتلا رہے۔ یہ دکھ ساری زندگی اُن کا پیچھا کرتا رہا آخر کار 12 نومبر 1966 کو انہوں نے بھی سرگودھا کے پاس ایک ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ 1972 میں اُن کا مجموعہ کلام روشنی آئی روشنی کے نام سے شائع ہوا۔
سنگ میل نے بھی 2004 میں شکیب جلالی کی تمام شاعری کلیات شکیب کے نام سے شائع کی۔

--------------------------------------

سارا شگفتہ
سارا شگفتہ 31 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ اُن کی ذات ایک معمہ تھی۔ غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میٹرک بھی پاس نہ کر سکیں۔
ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں(ان کے دو شوہر شاعر تھے) نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔انہیں دماغی امراض کے ہسپتال بھیجا گیا جہاں انہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ 4 جون 1984 کو انہوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔

--------------------------------------

آنس معین
آنس معین 29 نومبر 1960 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔<p style="margin-top: 5px;"></p> اُن کا تعلق بہت مذہبی خاندان سے تھا۔اُن کا رحجان صوفی ازم کی طرف زیادہ تھا۔ کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔اُن کی خودکشی سےمتعلق کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُن کے ایک صوفی دوست نے کہا، موت کے بعد زندگی اتنی خوبصورت ہے کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو دنیا کی آدھی آبادی خودکشی کر لے۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی کولیگ سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر خاندان والوں نے اس رشتے سے منع کر دیا۔
تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس بنک میں وہ کام کرتے تھے وہاں ایک فراڈ ہوا اور انچارج کے طور پر وہ خود کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ان تمام حالات نے انہیں خودکشی پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے 5 فروری 1985 کو ملتان میں ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی۔

--------------------------------------

ثروت حسین
اردو اور پنجابی شاعر ثروت حسین 9 نومبر 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔دوران تعلیم انہیں ایک ساتھی طالبہ سے محبت ہوگئی (جو بعد میں بہت بڑی شاعرہ ہوئیں)۔
بےروزگار ثروت نے نوکری کے لیے جدوجہد کی تو انہیں کراچی کے ایک کالج میں اردو کے لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ساتھی بطور شاعرہ شہرت پاتی گئی اور اُس نے ثروت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ بعد میں ثروت کا تبادلہ لاڑکانہ کے قریبی قصبے میں ہوگیا اور وہ اپنے پیاروں سے دور ہو گیا ۔1988 میں اس کا تبادلہ حیدر آباد ہوا مگر تب تک وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر علاج کرا رہا تھا۔
1993 میں ثروت نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کی کوشش کی مگر بچا لیا گیا۔ اس حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں چلی گئی اور وہ لنگڑا ہو گیا ۔9 ستمبر 1996 کو اس نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔

--------------------------------------
ان تمام واقعات میں شعرا نے ٹرین کو ہی خودکشی کا ذریعہ بنایا۔
ہو سکتا ہے کہ ٹرین کے سفر میں رومانوی کشش ہو، پٹری اور ٹرین کو لمبے سفر ، آخری سفر کے استعارے کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔
شعرا کے بعد اب تھوڑا ذکر ہو جائے اُن مصنفین کا جن کی موت پر پراسراریت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی موت سے متعلق بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔

--------------------------------------

مصطفےٰ زیدی
سید مصظفےٰ حسین زیدی، مصطفےٰ زیدی اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھے۔
وہ 10 اکتوبر 1930 کو الہٰ باد میں پیدا ہوئے۔ مصطفےٰ زیدی کا انتقال 12 اکتوبر 1970 کو پراسرار حالات میں ہوا۔ کچھ کا خیال ہے کہ انہیں قتل کیا گیا جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں انہوں نے خودکشی کی۔

--------------------------------------

قمر عباس ندیم
1944 میں پیدا ہونے والے قمر عباس ندیم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور مختصر کہانیاں لکھتے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی بلکہ روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوئے جبکہ ایک قریبی دوست نے بتایا ، ندیم میں خودکشی کا رحجان تھا۔
قمر عباس ندیم نے 29 مئی 1981 کو ٹرینکولائزر لی اور اپنی کار بجلی کے کھمبے سے ٹکرا دی۔ مرنے سے پہلے سکون آور ادویات کا استعمال غالبا اس لیے کیا کہ موت کی حقیقت جان سکیں۔ اُن کی موت کی وجہ زیادہ تر ایکسیڈنٹ ہی بتائی جاتی ہے۔

--------------------------------------

ڈاکٹرصفیہ عباد نے اپنی کتاب رگ رُت، خواہش مرگ اور تنہا پھول میں اردو کے ایسے مصنفین اور شعرا کا ذکر کیا ہے جنہوں نے خودکشی کی۔

اردو کے علاوہ دوسری زبانوں ،کے ایسے شاعر جنہوں نے خود کشی کی، کے حالات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
http://en.wikipedia.org/wiki/Category:Poets_who_committed_suicide


اردو کے علاوہ دوسری زبانوں ،کے ایسے مصنف جنہوں نے خود کشی کی، کے حالات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
http://en.wikipedia.org/wiki/Category:Writers_who_committed_suicide


اس خبر کا حوالہ:
http://www.dawn.com/news/1178438/cr...-urdu-poets-and-writers-who-committed-suicide

از اردو پوائنٹ

نوٹ: یہ مضمون میں نے من و عن نقل کیا ہے اور اس کے تمام خیالات سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں خصوصاً دماغی خلل اور ذہنی بیماری قرار دیے جانے والے بیانات سے۔
مجھے حقِ موت کا اصول منطقی اور درست لگتا ہے۔
(فاتح)
 
آخری تدوین:
میرا خیال ہے لڑی بنانے والے محترم بھائی کا مقصد یہی ہے کہ خودکشی کے ذریعے اپنی جان لینے والے ادیبوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس حوالے سے محترمہ صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے خودکشی کے ذریعے اپنی جان لینے والے ادیبوں کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا ہے، مزید یہ کہ اس راہ پر چلنے والے ادیبوں کے بارے میں بھی زبردست انداز میں تحقیق کی ہے۔

فی الحال تو ان ادیبوں کے نام کی شراکت ہی کی جا سکتی ہے۔


مقالہ کے دو ابواب کچھ یوں ہیں:

اردو کے وہ ادیب جنہوں نے خودکشی کی

شمس آغا
شکیب جلالی
شبیر شاہد
سارا شگفتہ
آنس معین
ثروت حسین


اردو کے وہ ادیب جنہوں نے خودکشی تو نہیں کی، لیکن خودکشی کی راہ پر چلے

میرا جی
سعادت حسن منٹو
علاؤالدین کلیم
مصطفیٰ زیدی
صغیر ملال
جمیلہ شاہین
جون ایلیاء
صرف ریل کے نیچے آنے والوں کا لکھنا چاہ رہا تھا اس میں اب ان سمیت سارے آ گئے ہیں۔
 
ابوعبداللہ بھائی! دراصل بعضوں کی کوششیں ناکام بھی رہی تھیں اور محترمہ صفیہ عباد نے ان ادیبوں کی زندگی کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔
جی ہاں درست کہا آپ نے
ایک شاعر کا نام بھول گیا ہے انہوں نے پہلی بار کوشش کی ریل ٹرین کے نیچے آنے کی کراچی میں مگر معزور ہو گے اس کے بعد دوبارہ پھر ٹرین ہی کے نیچے آ کر خودکشی کی۔
 

فرقان احمد

محفلین
صرف ریل کے نیچے آنے والوں کا لکھنا چاہ رہا تھا اس میں اب ان سمیت سارے آ گئے ہیں۔
موضوع کی اس طور بھی تحدید نہ کر دیا کریں حضرت!اگر آپ محترمہ صفیہ عباد کے سپروائزر ہوتے تو غالباََِ وہ اردو ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کی بجائے چین سے درآمدہ ریلوے انجنوں پر ریسرچ میں مصروف ہوتیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پیارے بھیا! محترمہ صفیہ عباد اس سے یہ مراد لیتی ہیں کہ ان ادیبوں نے زندگی اس انداز میں بسر کی گویا جینے کا تکلف ہی کر رہے ہوں۔ اپنے ہاتھوں اپنی صحت برباد کی اور بعضوں نے خودکشی کی ناکام کوششیں بھی کیں۔
خیر یہ تو کسی بھی ذاتی فعل ہو سکتا ہے۔ لوگ خوشی میں بھی شراب پیتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نقصان کم کرتی ہے۔ :)

میری ناقص عقل میں یہ بات آتی ہے کے آپ کسی کو اتنا تپا دیں کے وہ آپ کو ٹپکا دے . . .
یہ اچھا پہلو ہے۔۔۔ تاہم جس زمانے کے یہ لوگ ہیں اس زمانے میں علم دوستی اندھی تقلید سے کہیں زیادہ تھی۔

تخلیقی صلاحیت اور دماغی خلل، شعرا اور ادیب جنہوں نے خود کشی کی
نوٹ: یہ مضمون میں نے من و عن نقل کیا ہے اور اس کے تمام خیالات سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں خصوصاً دماغی خلل اور ذہنی بیماری قرار دیے جانے والے بیانات سے۔
مجھے حقِ موت کا اصول منطقی اور درست لگتا ہے۔
(فاتح)
میرے ذہن میں بھی اسی مضمون کا حوالہ کلبلا رہا تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھ کر تلاش کروں۔۔۔ ذہنی مریض شاعر لکھ کر کوشش کی لیکن جو جوابات آئے میں نے اپنی کوشش کو ترک کرنا بہتر سمجھا۔ :)
 
محترم نیرنگ خیال یہ بات تو طے شدہ ہے کہ انہوں نے خودکشی کی کوششیں پہلے بھی کی تھیں۔ ہاں، یہ ممکن ہے کہ آپ درست فرما رہے ہوں۔ دراصل اس حوالے سے ایک پی ایچ ڈی مقالے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں کافی تحقیقی مواد شامل تھا۔ اور یہ بھی ہے کہ خودکشی کے حوالے سے ان کی سوچ سب پر عیاں تھی اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ اس حوالے سے وقف تھا۔ ممکن ہے، ان کا انتقال سچ مچ کے ٹرین حادثے میں ہوا ہو، اس حوالے سے مزید تحقیق کے بعد ہی کچھ کہہ پاؤں گا۔
1993 میں انہوں نے ٹرین کے آگے کود کر خود کشی کی کوشش کی انکی جان تو بچ گئی لیکن ٹانگوں سے محروم ہو گئے پھر اسکے تین سال بعد دوبارہ ٹرین کے نیچے آ کر جان دے دی ۔
 
Top