ریلوے ٹریک پر آنے والے شعراء

سیما علی

لائبریرین
سارا شگفتہ
سارا شگفتہ 31 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ اُن کی ذات ایک معمہ تھی۔ غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میٹرک بھی پاس نہ کر سکیں۔
ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں(ان کے دو شوہر شاعر تھے) نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔انہیں دماغی امراض کے ہسپتال بھیجا گیا جہاں انہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ 4 جون 1984 کو انہوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔
سارہ شگفتہ کی ایک نظم:

موت کی تلاشی مت لو
بادلوں میں ہی میری تو بارش مر گئی
ابھی ابھی بہت خوش لباس تھا وہ
میری خطا کر بیٹھا
کوئی جائے تو چلی جاؤں
کوئی آئے تو رُخصت ہو جاؤں
میرے ہاتھوں میں کوئی دل مر گیا ہے
موت کی تلاشی مت لو
انسان سے پہلے موت زندہ تھی
ٹوٹنے والے زمین پر رہ گئے
میں پیڑ سے گرا سایہ ہوں
آواز سے پہلے گھٹ نہیں سکتی
میری آنکھوں میں کوئی دل مر گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
آنس معین 29 نومبر 1960 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔<p style="margin-top: 5px;"></p> اُن کا تعلق بہت مذہبی خاندان سے تھا۔اُن کا رحجان صوفی ازم کی طرف زیادہ تھا۔ کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔اُن کی خودکشی سےمتعلق کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُن کے ایک صوفی دوست نے کہا، موت کے بعد زندگی اتنی خوبصورت ہے کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو دنیا کی آدھی آبادی خودکشی کر لے۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی کولیگ سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر خاندان والوں نے اس رشتے سے منع کر دیا۔
تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس بنک میں وہ کام کرتے تھے وہاں ایک فراڈ ہوا اور انچارج کے طور پر وہ خود کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ان تمام حالات نے انہیں خودکشی پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے 5 فروری 1985 کو ملتان میں ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی۔
آنس معین کا ایک شعر ؀
ان کا ایک شعر:
نہ تھی زمیں میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
 

سیما علی

لائبریرین
شکیب جلالی
شکیب جلالی تقسیم ہند کے بعد کے شعرا میں سب سے ممتاز ہیں، اگر چہ اُن کے ہم عصرانہیں وہ مقام نہیں دیتے جو اُن کا حق ہے
شکیب جلالی کی موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
ان کا ایک اور شعر:
موت نے آج خود کشی کر لی
زیست پر کیا بنی خدا جانے
 
شکیب جلالی کی موت کے بعد ان کی جیب سے یہ شعر ملا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
ان کا ایک اور شعر:
موت نے آج خود کشی کر لی
زیست پر کیا بنی خدا جانے
شکیب جلالی
شکیب جلالی تقسیم ہند کے بعد کے شعرا میں سب سے ممتاز ہیں، اگر چہ اُن کے ہم عصرانہیں وہ مقام نہیں دیتے جو اُن کا حق ہے۔ سید حسن رضوی(شکیب جلالی)، علی گڑھ کے قریبی گاؤں جلال میں 1 اکتوبر 1934 کو پیدا ہوئے۔
شکیب کے والد کی ذہنی بیماری کے باعث اُن کی والدہ نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ماں کی موت کا المناک منظردیکھا اور ساری زندگی اذیت میں مبتلا رہے۔ یہ دکھ ساری زندگی اُن کا پیچھا کرتا رہا آخر کار 12 نومبر 1966 کو انہوں نے بھی سرگودھا کے پاس ایک ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ 1972 میں اُن کا مجموعہ کلام روشنی آئی روشنی کے نام سے شائع ہوا۔
سنگ میل نے بھی 2004 میں شکیب جلالی کی تمام شاعری کلیات شکیب کے نام سے شائع کی۔

سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی کی والدہ نے خود کشی نہیں کی تھی شکیب کے والد جو پولیس میں تھے اور پیری مریدی بھی کرتے تھے ۔ ان پر کبھی کبھی ذہنی مرض کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی (جسے شاید کوئی جذب کا نام بھی دے دیتا ہو۔ اللہ اعلم) انہوں نے ان کی والدہ کو اس وقت ٹرین کے سامنے پھینک دیا تھا جب وہ دونوں شکیب کے ساتھ ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلے جا رہے تھے ۔ اچانک ٹرین آگئی اور اس کے آنے کے ساتھ ہی شکیب کے والد نے ان کی والدہ کو اٹھا کر ریل کے آگے پھینک دیا۔ جس میں ان کی دونوں ٹانگیں کٹ گئی تھیں اور کثرت جریان خون کی وجہ سے وہ اس تشدد کو سہہ نہ پائیں اور موقع پر فوت ہو گئیں ۔ شکیب کی عمر اس وقت نو برس کی تھی اور وہ اس واقعہ کے عینی شاہد تھے۔ تصور کریں کہ اس پر کیا گزری ہو گی ۔ والدین تو جھگڑ رہے ہوں تو بچے سہم جاتے ہیں یہاں ماں کو اس کے سامنے ریل کے آگے پھینکا جا رہا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے ذہن پر اثر نہ ہو؟ اس کے بعد جب ان کے والد کو سزا ہو گئی تو انہیں پاگل قرار دے کر مقدمے کی سزا ختم کر کے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا جہاں تقسیم ہند کے بعد وہ فوت ہو گئے ۔ ماں باپ سے محروم بچہ ماموں کے پاس پلنے لگا۔ پھر پاکستان بن گیا۔ چار بہنوں کو ماموں کے ساتھ پاکستان بھیج کر اپنے میٹرک کا امتحان دے کر پاکستان آنے والا حسن رضوی پہلے نانا کے پاس رہا جبکہ ان کی بہنیں کراچی میں ماموں کی طرف رہیں۔ پھر وہ بھی کراچی چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ بہنوں کو لے کر نانا کی طرف راولپنڈی چلے گئے۔ چھوٹی عمر سے ہی نوکریاں کرتے ، پڑھتے لکھتے بی اے بھی کیا۔ بہنوں کو بھی مقدور بھر سپورٹ کرتے رہے۔ پھر تھل کے ترقیاتی ادارہ میں انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت اختیار کی۔ جوہر آباد میں رہائش بھی رہی ۔ ان کا بچپن کا وہ ڈر جو والدہ کو آنکھوں کے سامنے گنوانے کا تھا مختلف صورتوں میں ان کے سامنے آنے لگتا۔ سائیکل پر بیٹھتے ہوئے ڈرتے تھے ۔ کبھی کسی کو کہتے پچھلے چوک میں سی آئی ڈی والا بندہ ہمارے پیچھے لگا ہوا تھا۔ علامات شیزوفرینیا جیسی تھیں ۔ شادی ہوئی ، دو بچے ہو گئے ایک بیٹی ایک بیٹا۔ زندگی ، مصروفیات، بہنوں ، شادی اور بچوں نے مرض کو دبائے رکھا۔ جب ان کی بیٹی پیدا ہوئی تو ان کی زوجہ تین دن تک ہوش میں نہ آ سکیں تو اس وقت میں یہ بہت پریشان ہو گئے ۔ یہاں تک کہ دل کا دورہ بھی پڑ گیا۔کہتے تھے کہ میں بن ماں جیا ہوں اللہ میرے بچوں کو ماں سے محروم نہ کرے ۔ عطاء الحق قاسمی نے جب فنون میں ہمارے شاعر کے عنوان سے انہیں پروموٹ کرنا شروع کیا تو حاسد بھی پیدا ہوگئے اور انہیں ذہنی اذیت دے کر ان کی ذاتی زندگی خراب کرنے کے درپے ہوئے۔ایک مرتبہ انہی حرکات کی بناء پر شکیب جلالی اپنا ذہنی توازن بھی کھو بیٹھے اور لاہور مینٹل اسپتال میں زیر علاج رہے ۔ صحت یاب ہونے کے بعد ان کی ایک بہن کے سسر صاحب جو سرگودھا کے رہنے والے تھے انہیں بھکر لے آئے ۔ اب شکیب اسپتال کی ڈسچارج سلپ دیکھتے اور دکھاتے تھے کہ دیکھ لو میرے نامہ اعمال میں اب پاگل خانے رہنا بھی لکھا جا چکا ہے۔ بارہ نومبر 1966 کو سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے پاس موہنی فلور ملز کے سامنے ریل کی پٹڑی کے ساتھ دودھ دہی کی دکان پر دودھ کا آرڈر دیا ۔ ریل کی پٹڑی پر نظر پڑی تو پہلے جا کر اسے سونگھا۔ ریل کی کوک سنی انجن دیکھا تو شاید ماں نظر آگئی۔نو سال کا وہ بچہ جس نے اپنی ماں کے بغیر زندگی سے لڑتے لڑتے اتنا عرصہ گزار دیا۔ سامنے ماں کو دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکا اور جا کر ماں کی آغوش میں لپٹنے کو دوڑا۔ وہ ماں تھی؟ انجن تھا؟یا موت کون جانے۔ آخر سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی ماں کو اسی ماحول میں جان ملا جس ماحول میں ماں نے اسے چھوڑا تھا۔

لوگ کہتے ہیں اس نے خود کشی کی۔ کسی بیٹے کی مٹھڑی ماں بچھڑے تو کوئی سمجھے بیٹوں پر کیا گزرتی ہے

شکیب جلالی کی بھی دونوں ٹانگیں ہی کٹی تھیں بالکل اپنی والدہ کی طرح ۔ کہیں وہ ماں کی تکلیف جینا تو نہیں چاہتے تھے؟
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لوگ کہتے ہیں اس نے خود کشی کی۔ کسی بیٹے کی مٹھڑی ماں بچھڑے تو کوئی سمجھے بیٹوں پر کیا گزرتی ہے
رولا دیا آپ کے اس جملے نے !!!بہت دردناک شے ہے یہ مٹھڑی ماں کا بچھڑنا اس کیفیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس اذیت سے گذرے ہوتے ہیں ۔۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
 
رولا دیا آپ کے اس جملے نے !!!بہت دردناک شے ہے یہ مٹھڑی ماں کا بچھڑنا اس کیفیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس اذیت سے گذرے ہوتے ہیں ۔۔۔🥲🥲🥲🥲🥲
اسے لکھتے ہوئے میں خود بھی آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پایا ۔
 

سیما علی

لائبریرین

جاسمن

لائبریرین
تخلیقی صلاحیت اور دماغی خلل، شعرا اور ادیب جنہوں نے خود کشی کی
(اردو پوائنٹ) 27 اپریل 2015
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ تخلیقی صلاحیت والے لوگوں میں دماغی خلل کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ جدید تحقیق اس عمومی خیال کی تائید کرتی ہے کہ ذہنی بیماری اور تخلیقی صلاحیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
آئیووا رائٹرز ورکشاپ 2005 میں کی جانے والی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مصنفین اور اُن کے قریبی رشتے داروں کا اُن لوگوں سے موازنہ کیا گیا جو اُن جیسا ہی تعلیمی پس منظر اور آئی کیو لیول رکھتے تھے تو معلوم ہو ا کہ مصنفین کی ذہنی کیفیت زیادہ خراب ہوتی ہے۔
ڈونالڈ ڈبیلو گڈوین، ایم ڈی، الکوحل اور مصنفین(الکوحل اینڈ دی رائٹرز) میں لکھتا ہے کہ نوبل انعام جیتنے والے 11 میں سے چار(یوجین و نیل، سنکلیئر لوئیس، ارنسٹ ہیمنگوے اور ولیم فولکنر) یقینی طورر پر شرابی تھے جبکہ پانچواں جون سٹینبیک غالباً شرابی تھا۔

کارولنسکا انسٹی ٹیوٹ، جو ایک میڈیکل یونیورسٹی ہے، کے محققین نے12 لاکھ ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر ایک تحقیق کی جو شیزوایفکٹیو ڈس آرڈر، ڈپریشن، کثرت شراب نوشی اور خودکشی کے رحجان رکھتے تھے۔
اس تحقیق سے پتہ چلا کہ تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد ، خصوصاً مصنفین، میں عام افراد کے مقابلے میں خودکشی کا رحجان دوگنا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کی کچھ قیمت ہو جو مصنفین کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ ورجینیا وولف، ارنسٹ ہیمنگوے(انگریزی)، صادق ہدایت، تقی رفعت(فارسی)، علامہ آئی آئی قاضی (سندھی) اور میشیوا یوکیو(جاپانی)اُن ہزاروں مصنفین میں سے چند ہیں جنہوں نے خود کشی کی۔

ایک عرب خاتون جومانا حداد نے ایک فہرست شائع کی ہے جس میں 150 شعرا کا ذکر ہیں جنہوں نے خودکشی کی۔
اگرچہ یہ تحریر بہت افسردہ کر دینے والی ہے مگر شاعروں کے خودکشی کے رحجان کو شاعری میں رکاؤٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔
لوگ خود کو قتل کیوں کرتے ہیں؟ ماہرین اس کی وجہ ڈپریشن اور ناامیدی بتاتے ہیں۔ڈپریشن کی وجوہات میں جائے بغیر ہم اُن چند اردو مصنفین کو دیکھتے ہیں جنہوں نے خودکشی کی۔

--------------------------------------
شمش آغا
شمش آغا ایک باصلاحیت مختصر کہانی نویس اور ناول نگار تھے۔ 1922 میں پیداہوئے۔ بہت ہی حساس تھے۔ والدین میں علیحدگی ہوئی تو ماں اور بہن بھائیوں کی جدائی نے اُن کی بے چینی میں اضافہ کر دیا۔3 دسمبر 1945 کو غائب ہوئے اور کبھی گھر نہیں لوٹے۔ ایک قریبی دوست اور رشتے وزیر آغا کویقین تھا کہ شمش نے خودکشی کر لی ہے۔ وزیر نے پہلے بھی ایک موقعے پر شمش کی جان بچائی تھی، جب شمش نے بہت زیادہ ٹرینکولائزر لے لیں۔
شمش نے غائب ہونے سے پہلے 9 مختصر کہانیاں اور ایک نامکمل ناول لکھا۔ غائب ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے نامکمل ناول کا مسودہ مولانا صلاح الدین احمد کے حوالے کر دیا تھا۔

--------------------------------------

شکیب جلالی
شکیب جلالی تقسیم ہند کے بعد کے شعرا میں سب سے ممتاز ہیں، اگر چہ اُن کے ہم عصرانہیں وہ مقام نہیں دیتے جو اُن کا حق ہے۔ سید حسن رضوی(شکیب جلالی)، علی گڑھ کے قریبی گاؤں جلال میں 1 اکتوبر 1934 کو پیدا ہوئے۔
شکیب کے والد کی ذہنی بیماری کے باعث اُن کی والدہ نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔10 سالہ شکیب نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ماں کی موت کا المناک منظردیکھا اور ساری زندگی اذیت میں مبتلا رہے۔ یہ دکھ ساری زندگی اُن کا پیچھا کرتا رہا آخر کار 12 نومبر 1966 کو انہوں نے بھی سرگودھا کے پاس ایک ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔ 1972 میں اُن کا مجموعہ کلام روشنی آئی روشنی کے نام سے شائع ہوا۔
سنگ میل نے بھی 2004 میں شکیب جلالی کی تمام شاعری کلیات شکیب کے نام سے شائع کی۔

--------------------------------------

سارا شگفتہ
سارا شگفتہ 31 اکتوبر 1954 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ اُن کی ذات ایک معمہ تھی۔ غریب اور ان پڑھ خاندانی پس منظر کے باوجود وہ پڑھنا چاہتی تھی مگر میٹرک بھی پاس نہ کر سکیں۔
ان کی سوتیلی ماں، کم عمر کی شادی اور پھر مزید تین شادیوں(ان کے دو شوہر شاعر تھے) نے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔انہیں دماغی امراض کے ہسپتال بھیجا گیا جہاں انہوں نے خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ 4 جون 1984 کو انہوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر جان دے دی۔

--------------------------------------

آنس معین
آنس معین 29 نومبر 1960 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔<p style="margin-top: 5px;"></p> اُن کا تعلق بہت مذہبی خاندان سے تھا۔اُن کا رحجان صوفی ازم کی طرف زیادہ تھا۔ کہیں سے نہیں لگتا تھا کہ وہ خودکشی کر سکتے ہیں۔اُن کی خودکشی سےمتعلق کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اُن کے ایک صوفی دوست نے کہا، موت کے بعد زندگی اتنی خوبصورت ہے کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے تو دنیا کی آدھی آبادی خودکشی کر لے۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی کولیگ سے شادی کرنا چاہتے تھے مگر خاندان والوں نے اس رشتے سے منع کر دیا۔
تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس بنک میں وہ کام کرتے تھے وہاں ایک فراڈ ہوا اور انچارج کے طور پر وہ خود کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہے تھے۔ان تمام حالات نے انہیں خودکشی پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے 5 فروری 1985 کو ملتان میں ٹرین کے نیچے آ کر خودکشی کر لی۔

--------------------------------------

ثروت حسین
اردو اور پنجابی شاعر ثروت حسین 9 نومبر 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔دوران تعلیم انہیں ایک ساتھی طالبہ سے محبت ہوگئی (جو بعد میں بہت بڑی شاعرہ ہوئیں)۔
بےروزگار ثروت نے نوکری کے لیے جدوجہد کی تو انہیں کراچی کے ایک کالج میں اردو کے لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ساتھی بطور شاعرہ شہرت پاتی گئی اور اُس نے ثروت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ بعد میں ثروت کا تبادلہ لاڑکانہ کے قریبی قصبے میں ہوگیا اور وہ اپنے پیاروں سے دور ہو گیا ۔1988 میں اس کا تبادلہ حیدر آباد ہوا مگر تب تک وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر علاج کرا رہا تھا۔
1993 میں ثروت نے ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کی کوشش کی مگر بچا لیا گیا۔ اس حادثے میں اس کی دونوں ٹانگیں چلی گئی اور وہ لنگڑا ہو گیا ۔9 ستمبر 1996 کو اس نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کر لی۔

--------------------------------------
ان تمام واقعات میں شعرا نے ٹرین کو ہی خودکشی کا ذریعہ بنایا۔
ہو سکتا ہے کہ ٹرین کے سفر میں رومانوی کشش ہو، پٹری اور ٹرین کو لمبے سفر ، آخری سفر کے استعارے کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔
شعرا کے بعد اب تھوڑا ذکر ہو جائے اُن مصنفین کا جن کی موت پر پراسراریت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی موت سے متعلق بہت سے سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔

--------------------------------------

مصطفےٰ زیدی
سید مصظفےٰ حسین زیدی، مصطفےٰ زیدی اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری ملازم تھے۔
وہ 10 اکتوبر 1930 کو الہٰ باد میں پیدا ہوئے۔ مصطفےٰ زیدی کا انتقال 12 اکتوبر 1970 کو پراسرار حالات میں ہوا۔ کچھ کا خیال ہے کہ انہیں قتل کیا گیا جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں انہوں نے خودکشی کی۔

--------------------------------------

قمر عباس ندیم
1944 میں پیدا ہونے والے قمر عباس ندیم پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور مختصر کہانیاں لکھتے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے خودکشی نہیں کی بلکہ روڈ ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوئے جبکہ ایک قریبی دوست نے بتایا ، ندیم میں خودکشی کا رحجان تھا۔
قمر عباس ندیم نے 29 مئی 1981 کو ٹرینکولائزر لی اور اپنی کار بجلی کے کھمبے سے ٹکرا دی۔ مرنے سے پہلے سکون آور ادویات کا استعمال غالبا اس لیے کیا کہ موت کی حقیقت جان سکیں۔ اُن کی موت کی وجہ زیادہ تر ایکسیڈنٹ ہی بتائی جاتی ہے۔

--------------------------------------

ڈاکٹرصفیہ عباد نے اپنی کتاب رگ رُت، خواہش مرگ اور تنہا پھول میں اردو کے ایسے مصنفین اور شعرا کا ذکر کیا ہے جنہوں نے خودکشی کی۔

اردو کے علاوہ دوسری زبانوں ،کے ایسے شاعر جنہوں نے خود کشی کی، کے حالات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
http://en.wikipedia.org/wiki/Category:Poets_who_committed_suicide


اردو کے علاوہ دوسری زبانوں ،کے ایسے مصنف جنہوں نے خود کشی کی، کے حالات جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
http://en.wikipedia.org/wiki/Category:Writers_who_committed_suicide


اس خبر کا حوالہ:
Creativity and mental disorder: Urdu poets and writers who committed suicide

از اردو پوائنٹ

نوٹ: یہ مضمون میں نے من و عن نقل کیا ہے اور اس کے تمام خیالات سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں خصوصاً دماغی خلل اور ذہنی بیماری قرار دیے جانے والے بیانات سے۔
مجھے حقِ موت کا اصول منطقی اور درست لگتا ہے۔
(فاتح)
نیرنگ خیال !
آپ نے اس مراسلے سے اتفاق کی ریٹنگ آخری جملے پہ دی ہے؟
 
Top