جوش رُوحِ اِستبداد کا فرمان - جوش

کاشفی

محفلین
رُوح ِاِستبداد کا فرمان
(جوش)

ہاں اے مرے ذی ہوش و فسوں کار سپوتو
جاگے ہوئے محکوم دماغوں کو سُلا دو

تہذیب کے جادو سے ہر اک پیرو جواں کو
اپنی روشِ عام کا نقال بنا دو

چلتی ہیں جن افکار سے اقوام کی نبضیں
ذہنوں میں اُن افکار کی بنیاد ہلادو

جو قفل سکھاتا ہے زبانوں کو خموشی
وہ قفلِ خطابات زبانوں پہ لگا دو

حاصل ہو جو پبلک کے اداروں کی صدارت
چندہ تو نہ دو صرف ترقی کی دعا دو

اوروں کو جوروزی سے لگانے پہ مصر ہے
چپ کرنے کی خاطر اُسے روزی سے لگا دو

جو عدل و مساوات کا ہو خاص منادی
چپکے سے اُسے عدل کی کرسی پہ بٹھا دو

اس خاص رعایت پہ بھی وہ سرکش و باغی
بیٹھے نہ جو کرسی پہ تو سر تن سے اُڑا دو

پہلے تو ہر اک رہرو آزاد کو ٹوکو
مانے نہ اگر بات تو زنجیر پنہا دو

جل جاتا ہے جس آگ سے ظالم کا کلیجہ
اُس آگ کو مظلوم کے سینے میں لگا دو

محکوم کو دو فکر و تامل کی نہ فرصت
ہر فرد کو بے ہودہ مشاغل میں لگا دو

سچائی سے تامل نہ سکیں بزم کے ارکان
جو جھوٹ پہ مبنی ہے وہ تاریخ پڑھا دو

گھِر آئیں جو بادل کی طرح تند عناصر
آپس ہی میں ان تند عناصر کو لڑا دو

دنیامیں پنپنے کے جو آئین سکھائے
کچھ دے کے اُسے دین کے دھندے میں لگا دو

جس مرغ کی پرواز ہے تاعرشِ معلّی
اس مرغ کو شہباز کے چنگل میں پھنسادو

اوہام کے بندوں کے یہی دو تو ہیں دلال
پنڈت کو جو زنّار تو ملّا کو عبا دو

تحقیق سے تابندہ ہے جس ذہن کا میدان
اُس ذہن میں اک وہم کی دیوار اُٹھا دو

بہتے ہوئے آنسو جو کریں رحم کی درخواست
پگھلے ہوئے الفاظ کا انبار لگا دو

چھیڑے کوئی کمزور اگر نغمہء طاقت
اُس شخص کو تلوار کی جھنکار سنا دو

روٹی کا جو طالب ہو اُسے بھوک سے مارو
جو بھوک کا شاکی ہو اُسے زہر کھلا دو

پانی کا طلبگار ہو جس کھیت کا دہقان
اُس کھیت میں پانی کے عوض آگ لگا دو

سینے میں کھٹکتی ہے مرے جوش کی ہر سانس
اس شاعرِگستاخ کو سولی پہ چڑھا دو
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! سبحان اللہ! جوش کی یہ پر جوش نظم عرصہ دراز کے بعد دوبارہ پڑھ کر لطف آیا۔
بہت شکریہ کاشفی صاحب۔
 
Top