طارق شاہ
محفلین

غزل
روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا
ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا
خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا
کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا
بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا!
دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا
ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں!
ایک مُسکان سی، چہرے پہ سجائے رکھنا
کر کے آراستہ ہر سُو تِری آمد کے قرینے
ممکنہ راہ پہ، نظروں کو بچھائے رکھنا
عقل کروا بھی چُکی عِشق سے توبہ، لیکن!
دِل کی کوشِش وہی مُشکِل میں پھنسائے رکھنا
کوشِشیں خاک ہُوئیں خود کے ہنسانے کی خلؔش
عہدِ قسمت تھا ہَمَیں یُوں ہی رُلائے رکھنا
شفیق خلشؔ