سراج الدین ظفر رندانہ مراسم بُتِ چالاک سے رکھّو || غزل || سراج الدین ظفر

رندانہ مراسم بُتِ چالاک سے رکھّو
امّیدِ کَرم پھر شہِ لَولاک سے رکھّو

ہر صبح کو اسمائے بتاں کی پڑھو تسبیح
پاک اپنے دہن کو اسی مسواک سے رکھّو

اے ہم نَفَسو، ولولہء شوق نہ ہو سرد
ہاں گرم اسے خونِ رگِ تاک سے رکھّو

راتوں کو جُھکا دو درِ جاناں پہ سر اپنا
اور صبح کو اُنچا اِسے افلاک سے رکھّو

جِھجکو نہ سرِحلقہءخوبانِ گُل اندام
آگے قدم اک جذبہء بیباک سے رکھّو

عرفاں ہے تو ذرّوں سے بناؤ مہ و کوکب
خورشید کی بنیاد کفِ خاک سے رکھّو

کُھل جائے گا ہر راز اُٹھاو تو سہی جام
رشتہ کوئی تو عالمِ اِدراک سے رکھّو

جاں نذر کرو شوق میں اُس بندِ قبا کے
دل باندھ کے اُس گوشہء پوشاک سے رکھّو

میخانے کی املاک میں بیٹھو تو دل اپنا
آزاد غمِ دولت و املاک سے رکھّو

گھیرا ہے اگر عشق کے گردابِ بَلا نے
یارانہ مری طرح کے پیراک سے رکھّو

بس ایک عقیدت ہی تو ہے حاصلِ ایماں
حوروں سے رکھّو یا بُتِ چالاک سے رکھّو

میخانہ ہی اس شہر میں اک جائے اماں ہے
باہر نہ قدم اِس حرمِ پاک سے رکھّو

ہر شور مرے چاکِ گریباں سے اُٹھے گا
ہر حشر کی امّید اسی چاک سے رکھّو

ہاتھوں میں جو ساغر ہے تو اسکندر و جم کیا
طوفاں سا رویّہ خس و خاشاک سے رکھّو

اے دیدہ ورو، خرمنِ جاں میں شررِ عشق
رکھنا ہو جو منظور مری خاک سے رکھّو

رندو، جو عجائب ہیں ابھی بطنِ زماں میں
اُن کی بھی خبر جوہرِ ادراک سے رکھّو

گُل شاخِ سعادت سے کوئی آہی گرے گا
دامن کو بچا کر خس و خاشاک سے رکھّو

پیچاکِ دو عالم کو سمجھنا ہو جو منظور
نسبت کوئی اُس زلف کی پیچاک سے رکھّو

کیا سرمد و منصور نے پایا صلہء عشق
امّید نہ کچھ عالمِ سَفّاک سے رکھّو

پہنچادو ہر اک شہر میں سراج یہ اشعار
آگاہ غزالوں کو مری ڈاک سے رکھّو​


سراج الدین ظفر​
 
Top