رمضان ایک عیدیں دو

بنت شبیر

محفلین
رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تو میری طرح تمام مسلمانوں کو یقیناً بہت خوشی ہوئی ہو گی۔ کیونکہ رمضان المبارک کا مہینہ تمام مسلمانوں کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ رمضان المبارک میں سب سحری اور افطاری کے وقت گھر والوں کے ساتھ مل کر سحری اور افطاری کرتے ہیں۔ جو لوگ عام دنوں میں گھر دیر سے آتے ہیں یا کھانا باہر کھاتے ہیں وہ بھی رمضان میں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر سحری و افطاری کرتے ہیں۔ مسجدوں میں بھی رونق لگ جاتی ہے۔ ہر مسلمان عبادت کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ایک طرح کی بہار سی آ جاتی ہے۔ عام دنوں کی نسبت بازاروں میں زیادہ رونق لگ جاتی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھی لگتی ہے۔ یہ سب رمضان کی ہی وجہ سے ہوتا ہے۔۔۔۔۔
لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آج کل کے مسلمانوں کے ایمان کہاں گئے۔ دوسرے ممالک میں اگر کوئی تہوار ہو تو وہاں کی حکومت خصوصی بازار لگا دیتی ہے۔ جس میں ہر طرح کی چیزوں کی قیمت میں تقریبا 40 فیصد تک کمی کر دی جاتی ہے۔ تاکہ غریب بھی مذہبی تہوار خوشی سے منا سکیں۔ لیکن ہمارے ہاں الٹا ہی حساب ہوتا ہے۔ ہر چیز کو آگ لگا دی جاتی ہے قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ جو غریب ہوتے ہیں انہیں تو چھوڑیں البتہ جن کے حالات کچھ ٹھیک ہوتے ہیں وہ بھی کچھ خریدنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ کیا کسی کے دل میں کسی دوسرے کے لیے کوئی اچھائی نہیں رہی۔۔۔۔۔
جب ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں، ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں ایک ہی کلمہ پڑھتے ہیں اور ایک ہی رسول کے ماننے والے ہیں اور ایک ہی ملک میں رہتے ہیں۔ تو پھر کچھ شہروں میں ایک دن پہلے چاند نظر آ جاتا ہے اور ایک دن پہلے عید منائی جاتی ہے اور کچھ شہروں میں ایک دن بعد اور کبھی کبھی تو تین تین عیدیں منائی جاتی ہے۔ تو کیا خدا ان شہروں میں الگ سے چاند دکھاتا ہے یا پھر ہمارے چاند دیکھنے والوں کو چاند نظر نہیں آتا۔ جب پُورے ملک میں رات ایک وقت ہوتی ہے صبح ایک وقت پر ہوتی ہے نمازیں وقت پر پڑی جاتی ہیں۔ ایک قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو پھر ایسا کیوں آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کہ اتنا بڑا تہوار ہم ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود الگ الگ دن مناتے ہیں۔ کیا اب ہم یہ خوشیاں بھی ایک ہو کر نہیں منا سکتے۔۔۔۔۔
یہ سب تو چلتا رہے گا۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے خوشی کا مہینہ ہے۔ تو خوشی سے اور ایک دعا سے اپنی بات ختم کروں گی کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان کو تمام مسلمانوں کے لیے کامیابی، خوشحالی، بخشش اور مغفرت کا سبب بنائے آمین
 

نایاب

لائبریرین
اللہ تعالیٰ اس رمضان کو تمام مسلمانوں کے لیے کامیابی، خوشحالی، بخشش اور مغفرت کا سبب بنائے آمین
آمین ثم آمین
بہت خوب تحریر
آپ کی تحریر اس لمحہ فکریہ کی حامل ہے جو کہ ہر درد مند دل مسلم کو اک مدت سے اپنا اسیر کیے ہوئے ہے ۔
بٹیا رانی بہت سی دعاؤں بھری داد اس خوبصورت تحریر پر
اللہ کرے زور علم و قلم اور زیادہ آمین
 

شمشاد

لائبریرین
ارے شیبہ (شیبہ کا مطلب معلوم کیا کہ نہیں)، مسلمانوں کا بس چلے تو سارا سال نہیں تو کم از کم تیس چالیس عیدیں تو منائیں۔
 

بنت شبیر

محفلین
آمین ثم آمین
بہت خوب تحریر
آپ کی تحریر اس لمحہ فکریہ کی حامل ہے جو کہ ہر درد مند دل مسلم کو اک مدت سے اپنا اسیر کیے ہوئے ہے ۔
بٹیا رانی بہت سی دعاؤں بھری داد اس خوبصورت تحریر پر
اللہ کرے زور علم و قلم اور زیادہ آمین
بہت شکریہ نایاب انکل
 
رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے خوشی کا مہینہ ہے۔ تو خوشی سے اور ایک دعا سے اپنی بات ختم کروں گی کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان کو تمام مسلمانوں کے لیے کامیابی، خوشحالی، بخشش اور مغفرت کا سبب بنائے آمین

آمین۔
 

عسکری

معطل
چاند والی بات تو آپکی ٹھیک ہے ۔ اصل میں خیبر پختون خؤاہ کے ملا جھوٹھے ہیں اس معاملے میں کیونکہ مون ویسیبیلٹی ایسی ہے کہ پہلے بلوچستان اور سندھ کو نظر آنا چاہیے نا کہ اوپر پختون خواہ یا پنجاب میںِ۔ ان کو اچھا لگتا ہے اس یونٹی سے منہ موڑ کے اکیلے عید کرنا شاید

اسے سمجھنے کے لیے یہ دیکھیں جوں جوں شمال کی طرف ہوتے جائیں چاند کم نظر آئے گا ۔

crescent-moon-visibility-map-1433rmd_7-20-2012.gif
 

یوسف-2

محفلین
ویسے تو اگر پورے ملک میں ایک ہی دن عید منائی جائے تو یہ بھی اچھی بات ہے، لیکن اگر الگ الگ دنوں میں منائی جائے تب بھی کوئی ہرج نہیں۔ یہ ایک مذہبی تہوار ہے، کوئی قومی تہوار نہیں کہ قومی یکجہتی کے لئے ایک ہی دن منائی جائے۔ رمضان اور عیدین ”اصل قمری تاریخ“ کے حساب سے نہیں بلکہ ”رویت ہلال“ کے حساب سے منانے کا حکم ہے۔ یعنی چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر ختم۔ پاکستان کے جغرافیہ میں ماشاء اللہ سے خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں کے لوگوں میں بھی بڑی ”ورائٹی“ ہے۔ لہٰذا اگر کسی علاقے کے عوام دینی معاملات میں ”سرکاری گواہی“ پر اعتبار نہیں کرتے اور حدیث کے مطابق خود چاند کی رویت کے مطابق رمضان اور عید منانے کا اہتمام کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ آخر پاکستان بھر کے لوگ مختلف اوقات میں بھی تو ”روزہ افطار“ کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی علاقہ کے دو مسلک کے لوگ بھی الگ الگ ”وقت“ پر روزہ افطار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایک ہی دسترخوان پر موجود کچھ لوگ پہلے روزہ کھولتے ہیں اور کچھ بعد میں۔ اور دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہیں کہتا۔ سب اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز روزہ، الگ الگ طریقہ سے بھی اور الگ الگ اوقات میں بھی ادا کرتے ہیں۔ ”دن“ بھی تو ایک طرح سے (24 گھنٹہ کا) ”وقت“ ہی ہے۔ لہٰذا الگ الگ اوقات میں سحر و افطار اور نمازوں پر اعتراض نہیں تو الگ الگ اوقات (دنوں) میں آغاز رمضان، عیدین منانے پر اعتراض کیوں؟
 

سید ذیشان

محفلین
چاند والی بات تو آپکی ٹھیک ہے ۔ اصل میں خیبر پختون خؤاہ کے ملا جھوٹھے ہیں اس معاملے میں کیونکہ مون ویسیبیلٹی ایسی ہے کہ پہلے بلوچستان اور سندھ کو نظر آنا چاہیے نا کہ اوپر پختون خواہ یا پنجاب میںِ۔ ان کو اچھا لگتا ہے اس یونٹی سے منہ موڑ کے اکیلے عید کرنا شاید

اسے سمجھنے کے لیے یہ دیکھیں جوں جوں شمال کی طرف ہوتے جائیں چاند کم نظر آئے گا ۔

crescent-moon-visibility-map-1433rmd_7-20-2012.gif

آپ کی بات سے کافی متفق ہوں لیکن مولوی بھی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ شہادتوں پر چلتے ہیں۔ اور شہادتیں آرام سے مل جاتی ہیں۔ تو ان لوگوں کے پاس شرعی جواز ہوتا ہے۔ چاہے چاند سورج سے پہلے ہی کیوں نہ غروب ہو گیا ہو۔
 

یوسف-2

محفلین
قرآن و حدیث کی ”روایات“ میں جکڑے ہوئے بے چارے مولوی بھی کیا کریں۔ وہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ”واضح احکام“ کو ہم جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی رائے پر کیسے ترجیح دے سکتے ہیں ۔
یہ بات باربار دہرائی جاچکی ہے کہ اسلامی قمری مہینہ کا آغاز ”مقامی سطح پر چاند کے دیکھے جانے“ (رویت ہلال)سے ہوتا ہے نہ کہ ”طلوعِ قمر“ سے۔ احادیث میں یہی بات صاف صاف بیان کی گئی ہے۔ صحیح بخاری کی یہ دو روایات ملاحظہ فرمائیں۔
چاند دیکھ کر روزے رکھنا اور عید کرنا
سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کر دو اور جب تم عید ا لفطر کا چاند دیکھو تو روزہ رکھنا ترک کر دو۔ اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو تم اس کے لیے اندازہ کر لو۔
چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے رکھو
سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا مہینہ کم از کم انتیس دن کا ہوتا ہے پس تم جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو پھر اگر مطلع ابرآلود ہو جائے اور تم چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن کا شمار پورا کر لو۔
(صحیح بخاری، کتاب الصوم)
امید ہے کہ جدید تعلیم یافتہ خواتین و حضرات ”طلوعِ قمر“ اور ”رویت ہلال“ میں فرق کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور عیدین کے آغاز کے لئے کیا حکم دیا ہے۔ حکم یہ نہیں ہے کہ جب نیا چاند ”طلوع“ ہوجائے تو روزہ رکھنا شروع کرو۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جب تم نیا چاند دیکھ لو تب روزہ رکھنا شروع کرو۔ اور اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے نیا چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن کا مہینہ شمار کرو۔ روایتی مولوی اور اس کے پیروکار بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔​
اسلام کا بیشتر شرعی نظام ”شہادتوں“ پر قائم ہے، خواہ کوئی اسے مانے یا نہ مانے۔ یہ درست ہے کہ بسا اوقات شہادتیں جھوٹی بھی ہوتی ہیں، اور ایسی جھوٹی شہادت دینے والوں کے لئے اللہ نے ”اُخروی عذاب“ یعنی جہنم کا انتظام کر رکھا ہے۔ اسلامی شرعی نظام میں انسان کے سارے دنیوی اعمال کی جزا و سزا اسی دنیا میں نہیں ہے۔ بہت سی جزا و سزا بعد از موت ملتی ہے۔ جبکہ انگلش کورٹ آف لاء میں تو سب کچھ وکیل کی قابلیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک اچھا وکیل سر عام قتل کرنے والے کو بھی قتل کی سزا سے بچا لیتا ہے اور ایک اناڑی وکیل کسی بھی مشتبہ ملزم کو سزا دلوانے کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا نظر آتا ہے۔ مگر ہم پھر بھی اسی ”نظام“ کی حمایت اور (مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود) اسلام کے شرعی نظام اور نظام شہادت پر ہی انگلی اٹھاتے ہیں۔​
 

سید ذیشان

محفلین
امید ہے کہ جدید تعلیم یافتہ خواتین و حضرات ”طلوعِ قمر“ اور ”رویت ہلال“ میں فرق کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور عیدین کے آغاز کے لئے کیا حکم دیا ہے۔ حکم یہ نہیں ہے کہ جب نیا چاند ”طلوع“ ہوجائے تو روزہ رکھنا شروع کرو۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جب تم نیا چاند دیکھ لو تب روزہ رکھنا شروع کرو۔ اور اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے نیا چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن کا مہینہ شمار کرو۔ روایتی مولوی اور اس کے پیروکار بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔​
اتنی لمبی چوڑی تقریر کرنے کی ضرورت نہ پڑتی اگر بات کو پہلے ہی سمجھ لیتے۔ طلوع قمر اس وقت ممکن ہے جب کہ "پیدائشِ قمر " ہو چکا ہو، یعنی چاند سورج سے آگے نکل چکا ہو، یعنی سورج پہلے غروب ہو اور چاند بعد میں۔ تب ہی اس کی رویت ممکن ہے۔ اب جب چاند کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تو رویت ناممکنات میں سے ہے۔ لیکن شہادتوں کی بنیاد پر خیبر پختونخواہ میں رویت کا اعلان کر دیتے ہیں جبکہ چاند ابھی پیدا بھی نہیں ہوا ہوتا۔
یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے جس کو سائنس کی مدد سے صحیح کیا جا سکتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
یوسف ثانی بھائی کیا رویت ہلال میں سائنس کی کوئی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اب سائنس کی مدد سے چاند کی روازنہ و ماہانہ عمر کا بڑا درست اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال کو صرف سوال ہی خیال کیا جائے کچھ اور نہیں :)
 

یوسف-2

محفلین
اتنی لمبی چوڑی تقریر کرنے کی ضرورت نہ پڑتی اگر بات کو پہلے ہی سمجھ لیتے۔ طلوع قمر اس وقت ممکن ہے جب کہ "پیدائشِ قمر " ہو چکا ہو، یعنی چاند سورج سے آگے نکل چکا ہو، یعنی سورج پہلے غروب ہو اور چاند بعد میں۔ تب ہی اس کی رویت ممکن ہے۔ اب جب چاند کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تو رویت ناممکنات میں سے ہے۔ لیکن شہادتوں کی بنیاد پر خیبر پختونخواہ میں رویت کا اعلان کر دیتے ہیں جبکہ چاند ابھی پیدا بھی نہیں ہوا ہوتا۔
یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے جس کو سائنس کی مدد سے صحیح کیا جا سکتا ہے۔
آپ کی یہ بات تو درست ہے کہ ”پیدائش قمر “سے قبل عملاً ”رویت ہلال“ ممکن نہیں۔ لیکن ”پیدائش قمر“ کے وقت کو جاننا ہر فرد کے لئے ممکن نہیں۔ جبکہ ”رویت ہلال“ ہر فرد کے لئے ممکن ہے۔ اسی لئے اسلامی شریعت ”پیدائش قمر“ کو بنیاد نہیں بناتی، بلکہ رویت کو بنیاد بناتی ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ رویت میں بھول چوک کا بھی امکان ہے۔ اسلامی تہوار اسلامی اصولوں کے تحت منائے جاتے ہیں نہ کہ سائنسی اصولوں کے تحت۔
 

سید ذیشان

محفلین
آپ کی یہ بات تو درست ہے کہ ”پیدائش قمر “سے قبل عملاً ”رویت ہلال“ ممکن نہیں۔ لیکن ”پیدائش قمر“ کے وقت کو جاننا ہر فرد کے لئے ممکن نہیں۔ جبکہ ”رویت ہلال“ ہر فرد کے لئے ممکن ہے۔ اسی لئے اسلامی شریعت ”پیدائش قمر“ کو بنیاد نہیں بناتی، بلکہ رویت کو بنیاد بناتی ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ رویت میں بھول چوک کا بھی امکان ہے۔ اسلامی تہوار اسلامی اصولوں کے تحت منائے جاتے ہیں نہ کہ سائنسی اصولوں کے تحت۔
اگر رویت کے طریقہ کار کو سائنس کی مدد سے زیادہ accurate بنایا جا سکتا ہے تو اس میں خرابی کیا ہے؟

ویسے پندائش قمر کو جاننے کے لئے صرف دو کلک کرنے پڑتے ہیں اور آج کل تو بچے بھی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
http://eclipse.gsfc.nasa.gov/phase/phase2001gmt.html
 

یوسف-2

محفلین
یوسف ثانی بھائی کیا رویت ہلال میں سائنس کی کوئی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اب سائنس کی مدد سے چاند کی روازنہ و ماہانہ عمر کا بڑا درست اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
سوال کو صرف سوال ہی خیال کیا جائے کچھ اور نہیں :)
یہ درست ہے کہ سائنس کی مدد سے تو سینکڑوں سال تک کے ”پیدائش قمر“ کا حساب لگایا جاسکتا ہے۔ اور اس حساب کتاب کو مسلم امہ تک عام بھی کیا جانا چاہئے۔ اور ہمیں اس علم سے ”مدد“ بھی لینی چاہئے۔لیکن اس علم کو ”بنیاد“ نہیں بنایا جاسکتا، اسلامی مہینہ کے آغاز کے لئے۔ اس علم کی مدد سے یا اس علم کے بغیر (جو بھی صورت جہاں جہاں ممکن ہو) ”رویت ہلال“ ہی کی ”بنیاد“ پر اسلامی مہینہ کا آغاز ہوگا احادیث کی رو سے۔۔ مثلاً فرض کریں کہ سائنس یہ متفقہ طور پر کہے کہ آج 29 رمضان المبارک شام بعد مغرب پاکستانی علاقوں میں ”پیدائش قمر“ ہوجائے گی۔ اور پاکستان کے سارے عوام اس سائنسی حقیقت سے آگاہ بھی ہوں لیکن بادلوں کی وجہ سے پورے پاکستان میں کہیں سے بھی ”رویت ہلال کی معتبر شہادت“ موصول نہ ہوئی ہو تو ہم کل عید نہیں بلکہ تیسواں روزہ رکھیں گے کہ حدیث میں یہ بات صاف صاف کہی گئی ہے۔
جن علاقوں کے عوام اس سائنسی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں کہ پیدائش قمر کا اصل وقت کیا ہے، وہاں اس ”غلطی“ کا امکان بہر حال موجود رہے گا کہ کہیں وہاں کے عوام بشری یا بصری کمزوریوں کے سبب کہیں ”پیدائش قمر“ سے پہلے ہی ”رویت ہلال“ کا اعلان نہ کردیں۔ لیکن غلطی کے اس ”امکان کی بنیاد“ پر شرعی ضابطے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اصول ہر دور میں اور ہر جگہ یہی رہے گا کہ اجتماعی طور پر ”ممکنہ روز“ چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جائے اور ”رویت کی شرعی شہادت“ مل جائے تو نئے قمری ماہ کا آغاز کرلیا جائے، بالخصوص ان مہینوں کا جن میں اسلامی ایام (رمضان، عیدین وغیرہ ) آتے ہوں۔
نوٹ: یہ میری اپنی رائے ہے، جس سے کسی کا یا سب کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی کی یا سب کی رائے سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔:D اپنی اپنی رائے خوش گوار ماحول میں پیش کریں اور اپنا فشار خون بلند کرکے اپنا نقصان آپ نہ کریں :laughing::laughing:
 

یوسف-2

محفلین
اگر رویت کے طریقہ کار کو سائنس کی مدد سے زیادہ accurate بنایا جا سکتا ہے تو اس میں خرابی کیا ہے؟

ویسے پندائش قمر کو جاننے کے لئے صرف دو کلک کرنے پڑتے ہیں اور آج کل تو بچے بھی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
http://eclipse.gsfc.nasa.gov/phase/phase2001gmt.html
حضرت آپ کو کس نے منع کیا ہے کہ رویت کو سائنس کی مدد سے زیادہ accurate نہ بنائیں۔لیکن جس طرح آپ کو کسی نے منع نہیں کیا اسی طرح آپ دوسروں کو ”مجبور“ بھی نہیں کرسکتے کہ وہ لازماً آپ کی طرح ایسا کریں۔:D ایک ارب سے زائد موجودہ مسلم امہ کی موجودہ زبوں حالی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم من حیث القوم عصری علوم میں بہت پیچھے ہیں۔ جب ہم عصری علوم میں آگے تھے تو دنیا کے امام تھے۔ لیکن بہت سے مسلمانوں کے نزدیک (سب مسلمانوں کے نزدیک نہیں ) دنیا میں کامیابی و کامرانی ہی سب کچھ نہیں۔ وہ عصری علوم میں ”جاہل مطلق“ رہ کر اور صرف ”قرآن و سنت کے اوامر و نواہی“ پر عمل کرکے بھی حصول جنت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے نزدیک دنیا ایک ثانوی چیز ہے اور آخرت سب سے اہم۔ لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک دنیا کی کامیابی و کامرانی ہی سب کچھ ہے۔ ایسے لوگ ”عصری علوم“ کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں لہٰذا ان کی یہ خواہش ”فطری“ ہے کہ قرآن و سنت کے احکامات کو عصری علوم کے ”ماتحت“ کردیا جائے ۔:D
 

سید ذیشان

محفلین
حضرت آپ کو کس نے منع کیا ہے کہ رویت کو سائنس کی مدد سے زیادہ accurate نہ بنائیں۔لیکن جس طرح آپ کو کسی نے منع نہیں کیا اسی طرح آپ دوسروں کو ”مجبور“ بھی نہیں کرسکتے کہ وہ لازماً آپ کی طرح ایسا کریں
۔
میں نے اپنی رائے دی ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اسلام کے نام پر کیا کیا جاتا ہے۔ اور حل بھی بتایا ہے کہ اس مسئلہ کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔
باقی مولوی جانیں اور حکومت جانے۔
 
مجھے یہ کوئی سمجھا دے کہ یہ سب کچھ سعودیہ میں کیوں نہیں ہوتا ۔۔۔سعودیہ کا رقبہ تو پاکستان سے بھی تین چار گنا زیادہ ہے۔ وہاں یہ مسائل کیوں درپیش نہیں آتے؟اصل بات یہ ہے کہ سعودیہ والے بھی روئت پر نہیں چلتے بلکہ کیلکولیشن پر چلتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
ویسے تو اگر پورے ملک میں ایک ہی دن عید منائی جائے تو یہ بھی اچھی بات ہے، لیکن اگر الگ الگ دنوں میں منائی جائے تب بھی کوئی ہرج نہیں۔ یہ ایک مذہبی تہوار ہے، کوئی قومی تہوار نہیں کہ قومی یکجہتی کے لئے ایک ہی دن منائی جائے۔ رمضان اور عیدین ”اصل قمری تاریخ“ کے حساب سے نہیں بلکہ ”رویت ہلال“ کے حساب سے منانے کا حکم ہے۔ یعنی چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر ختم۔ پاکستان کے جغرافیہ میں ماشاء اللہ سے خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں کے لوگوں میں بھی بڑی ”ورائٹی“ ہے۔ لہٰذا اگر کسی علاقے کے عوام دینی معاملات میں ”سرکاری گواہی“ پر اعتبار نہیں کرتے اور حدیث کے مطابق خود چاند کی رویت کے مطابق رمضان اور عید منانے کا اہتمام کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ آخر پاکستان بھر کے لوگ مختلف اوقات میں بھی تو ”روزہ افطار“ کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی علاقہ کے دو مسلک کے لوگ بھی الگ الگ ”وقت“ پر روزہ افطار کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایک ہی دسترخوان پر موجود کچھ لوگ پہلے روزہ کھولتے ہیں اور کچھ بعد میں۔ اور دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو بُرا بھلا نہیں کہتا۔ سب اپنے اپنے مذہب کے مطابق نماز روزہ، الگ الگ طریقہ سے بھی اور الگ الگ اوقات میں بھی ادا کرتے ہیں۔ ”دن“ بھی تو ایک طرح سے (24 گھنٹہ کا) ”وقت“ ہی ہے۔ لہٰذا الگ الگ اوقات میں سحر و افطار اور نمازوں پر اعتراض نہیں تو الگ الگ اوقات (دنوں) میں آغاز رمضان، عیدین منانے پر اعتراض کیوں؟
 
Top