رمضان ایک عیدیں دو

عثمان

محفلین
اوپر جس آیت کا تذکرہ کیا تھا اس کا ترجمہ اور ریفرنس:

وہی ہے جس نے سورج کو اُجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کردیں تاکہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بامقصد ہی بنایا ہے۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کررہا ہے اُن لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں۔ (سورۃ یونس ، آیت ۵)

دیکھ لیجیے ، آیت میں ماہ و سال کو چاند کی منازل کے مطابق (synchronization) کرنے کی بات ہے۔ رویت ہلال کا حکم نہیں۔ وہ محض کسی زمانے میں ایک قابل عمل Method ہی ہو سکتا ہے۔
فقہ کونسل آف نارتھ امیریکہ اور شمالی امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امیریکہ (ISNA) رویت ہلال کی بجائے آسڑانومیکل کیلینڈر کی پیروی کرتی ہیں۔ گویا شمالی امریکہ کی حد تک تو استدلال ، علم اور مسلمانوں کے ایک بڑے حصہ کا اتفاق ہے۔ (اگرچہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد قائم کرنے والے مولوی یہاں بھی کم نہیں)۔ اب جو لوگ اجماع امت کی بات کررہے ہیں نہ جانے ان کی تسلی کے لئے ایرانی اور پاکستان علماء کے ترلے کرنے پڑیں گے ؟

فقہ کونسل آف نارتھ امیریکہ کا لنک
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستانی حکومت کبھی بھی اس سلسلے میں مخلص نہیں ہو گی۔ وہ تو چاہے گی کہ یہ لوگ ایسے لڑتے رہیں اور جھگڑتے رہیں۔
 

عدیل منا

محفلین
پاکستان میں یا دنیا میں کسی بھی جگہ (سعودیہ کے علاوہ) متفق نا ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کچھ طبقہ اپنی حکومت کی پیروی کرنا مستحب سمجھتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ اس حدیث کو فالو کرتے ہوئے
(جو کہ یوسف ثانی صاحب بھی بیان کر گئے ہیں کہ:
سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کر دو اور جب تم عید ا لفطر کا چاند دیکھو تو روزہ رکھنا ترک کر دو۔ اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو تم اس کے لیے اندازہ کر لو۔)
سعودی عرب کو فالو کرتا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ پوری امت مسلمہ ایک ہے اور سعودیہ ان کا مین مرکز ہے۔ اس لئے سعودیہ میں چاند نظر آجانا پوری امت مسلمہ کیلئے گواہی ہے۔ (جب تم رمضان کا چاند دیکھو تو روزے رکھنا شروع کر دو)
علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، محمد بن ابو حرملہ کریب، ام فضل بنت حارث روایت کی کریب نے کہ ام فضل بنت حارث نے مجھ کو امیر معایہ کے پاس شام بھیجا۔ کریب کہتے ہیں میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا، اسی اثناء میں رمضان آگیا۔ پس ہم نے جمعہ کی شب چاند دیکھا پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آیا تو ابن عباس نے مجھ سے چاند کا ذکر کیا اور پوچھا کہ تم نے کب چاند دیکھا تھا میں نے کہا جمعہ کی شب کو۔ ابن عباس نے فرمایا تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا، لوگوں نے دیکھا اور روزہ رکھا۔ امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس نے فرمایا، ہم نے ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا لہٰذا ہم تیس روزے رکھیں گے یا یہ کہ عید الفطر کا چاند نظر آجائے۔حضرت کریب کہتے ہیں، میں نے کہا کیا آپ کے لئے امیر معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں؟ ابن عباس نے فرمایا، نہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح حکم دیا ہے۔
امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ شہر والوں کے لئے انہیں کا چاند دیکھنا معتبر ہے۔ (جامعہ ترمذی: جلد اول، حدیث: 670)
غیر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے مجبوری ہے کہ وہاں رویت ہلال کمیٹی نہیں ہوتی وہ یا تو اپنے طور پر چاند دیکھنےکی کوشش کرتے ہیں یا پھر سعودی عرب کی گواہی کو ہی معتبر جان کر اسی کی پیروی کرتے ہیں۔
مگر اسلامی ممالک کی عوام پر اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی حکومت کی گواہی کو معتبر سمجھنا مستحب ہے۔
ورنہ پھر یہی ہے کہ سعودیہ کی غلط فہمی کی بنا پر 2011 میں جیسے ہوا۔ سعودی عرب میں رہنے والے اور جو غیر اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے سعودیہ کو فالو کرتے ہیں تو اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ سعودی حکومت نے کفارہ ادا کیا۔ مگر وہ لوگ جو اپنی حکومت کو فالو نہیں کرتے۔ ان کو اپنا کفارہ الگ سے ادا کرنا بنتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
دو اصولی باتیں:
1۔ اسلامی عبادات کی ادائیگی کے لئے نئی ایجادات اور نئے علوم سے استفادہ کرنا فرض نہیں ہے۔ اگر کوئی تنہا فرد یا کسی علاقے لوگ اجتماعی طور پر جان بوجھ کر نئی ایجادات اور نئے علوم سے ”استفادہ“ کئے بغیر محض قرآن و حدیث کی فارمل ہدایت پر اپنی عبادات کو روایتی طور پر ہی انجام دیتے رہیں تو ان کی عبادات میں کوئی ”نقص“ نہیں ہوگا، نہ ہی ان کے اجر میں کوئی کمی ہوگی۔ ان شا ء اللہ تعالیٰ

2۔اسی طرح اسلامی عبادات کی ادائیگی کے لئے نئی ایجادات اور نئے علوم سے استفادہ کرنا حرام بھی نہیں ہے۔ اگر کوئی تنہا فرد یا کسی علاقے لوگ اجتماعی طور پر جان بوجھ کر نئی ایجادات اور نئے علوم سے ”استفادہ“ کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی ہدایت کی روشنی میں اپنی عبادات کو اس طرح ادا کرتے ہیں، جس کی سابقہ ادوار میں تو کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن دور جدید کے علماء کی اکثریت (اجماع امت) اس کی اجازت دیتے ہوں توبھی ان کی عبادات میں کوئی ”نقص“ نہیں ہوگا، نہ ہی اجر میں کوئی کمی ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

مثالیں:
1۔ جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا ایجاد ہوا تھا اور کچھ لوگوں نے اس پر اذانیں دینے اور نماز ادا کرنے کا آغاز کیا تھا تو اس عمل کے خلاف فتاویٰ بھی آئے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ علمائے کرام کی اکثریت (اجماع امت) نے اس عمل کو جائز قرار دے دیا۔ اور آج جدید دنیا میں (حرمین شریفین سمیت) شاید ہی کوئی ایسی جامع مسجد ہو جس میں لاؤڈ اسپیکر کو اذان و جماعت کے لئے استعمال نہ کیا جاتا ہو۔ لیکن اس کے باوجود اگر کسی بڑی مسجد میں بھی (ضرورت کے باوجود) لاؤڈ اسپیکر کو اذان و جماعت کے لئے استعمال نہ کیا جائے تو ان کی نماز اسی طرح درست ہوگی، جیسے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے ادا کی جانے والی اذان و نماز۔ اس جدید آلہ صوت کے استعمال اور عدم استعمال سے نماز میں نہ تو کوئی نقص ہوگا اور نہ ہی اس کے اجر و ثواب مین کوئی کمی ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ

2۔ جب ابتدا میں چاند ستاروں کو واضح طور پر دیکھنے والی دوربینیں مسلمانوں کی دسترس میں آئیں اور کچھ لوگوں نے اس کی مدد سے رمضان اور عیدین کے چاند دیکھنے کی رسم ڈالی تو ابتدا میں اس عمل پر بھی اعتراضات ہوئے۔ لیکن جلد ہی اس عمل پر اجماع امت حاصل ہوگیا اور آج کوئی بھی ایسا کرنے کو ”غلط“ نہیں کہتا۔ لیکن اس کے باجود،اگر کسی بستی کے لوگ دوربینیں رکھتے ہوئے بھی اسے چاند دیکھنے کے لئے استعمال نہیں کرتے اور یہ ”عقیدہ“ رکھتے ہیں کہ چاند کو دوربینوں کے بغیر دیکھ کر ہی رمضان و عیدین کا آغاز کرنا چاہئے تو ایسا کرنا بھی ”غلط“ نہیں ہوگا۔ دونوں ہی طریقہ مساوی طور پر ”درست“ ہوگا۔

3۔ یہی کلیہ ”چاند کی پیدائش“ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسلامی دنیا میں صدیوں سے ”چاند کی پیدائش“ کو ”رویت ہلال“ سے ”مشروط“ کیا جاتا رہا ہے۔ جب کسی بستی والوں کو چاند نظر آگیا تو گویا ان کے نزدیک ”چاند پیدا“ ہوگیا۔ اور انہوں نے حدیث کے ”واضح الفاظ“ کی روشنی میں نئے قمری ماہ کا آغاز کرکے روزے رکھنے شروع کردئیے اور عیدین منا لی۔ آج سائنسی علوم نے ترقی کر لی ہے، جس کی مدد سے یہ بآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ 29 ویں تاریخ کو چاند کی پیدائش ہوئی یا نہیں۔ لہٰذا اگر کسی بستی کے پڑھے لکھے مسلمان اس علم کی ”مدد“ سے ”چاند دیکھنے کی کوشش“ کریں تاکہ ”چاند کی حقیقی پیدائش“ سے قبل ہی ”چاند دیکھے جانے کی غلطی“ سے بچ سکیں تو یقیناً اس میں کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مستحسن عمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود اگر کسی بستی لوگ اس جدید علم سے مدد نہ لینا چاہیں اور روایتی طور پر ”اسلامی نظام شہادت“ کے تحت ”رویت ہلال“ کا اہتمام کریں تو بھی اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسا کرنے سے ان کے روزہ اور عیدین میں کوئی ”نقص“ آئے گا۔ الا یہ کہ اسی نظام شہادت کے تحت ”سابقہ شہادت“ غلط ثابت ہوجائے اور قمری مہینہ کر ”درست“ کر لیا جائے۔ اس ”درستگی“ کے باوجود ”سابقہ غلط شہادت“ کی بنائ پر رکھے جانے یا چھوڑے جانے والے روزوں پر کوئی ”گناہ“ نہین ہوگا۔ جیسے نماز کے ارکان میں کمی بیشی پر ”سجدہ سحو“ کے بعد نماز اسی طرح ”درست ادا“ ہوتی ہے جیسے کسی کمی بیشی + سجدہ سحو کے بغیرپڑھنے والی نمازدرست ہوتی ہے۔
(واللہ اعلم بالصواب)
 

یوسف-2

محفلین
ہم سب کو سسٹر بنت شبیر کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہئیے جن کے شروع کردہ دھاگہ کی بدولت زیر بحث موضوع پر مختلف آراء سامنے آئیں اور قارئین کو، بالخصوص خاموش قارئین کو مسئلہ کے مختلف پہلوؤں سے آگہی ہوئی۔ جزاک اللہ سسٹر
 

باسم

محفلین
پچھلے دنوں فیس بک پر رؤیت ہلال کے متعلق مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک مفید مضمون نظر سے گزرا
جس میں 11 فروری 2012 کو رابطہ عالم اسلامی کی المجمع الفقہ الاسلامی کے تحت ہونے والی عالمی کانفرنس کے احوال اور دنیا بھر کے جید علماء کرام کی جانب سےپیش کیے گئے مقالہ جات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے
اہل علم کیلیے خاصے کی چیز ہے
528010_469421769737558_247221310_n.jpg

مکمل مضمون کا ربط
 
Top