رمضان ایک عیدیں دو

ساجد

محفلین
یوسف ثانی بھیا احتیاط اور امکانات کے پیش نظر یہ سوال کر رہا ہوں کہ حج جیسا مقدس فریضہ بھی اگر خدا نخواستہ ایسے ہی ایامی اختلاف کا شکارہوجائے تو کیا ہوگا؟۔ ابھی تک تو سعودیہ میں جیسے تیسے ایک ہی دن چاند کی پیدائش پر اتفاق کر لیا جاتا ہے حالانکہ اس کا رقبہ پاکستان سے بہت زیادہ ہے اور تمام دنیا کے مسلمان سعودی حکومت کی تقویم کےمطابق یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کی طرح سے وہاں بھی محل وقوع اور مقام کے اعتبار سے رویت ہلال کا مسئلہ کبھی سر اٹھا لے ،آدھا سعودیہ حج کر رہا ہو اور باقی آدھا عیدالاضحیٰ منا رہا ہو ، تو ایسی ممکنہ صورت حال پر حج جو کہ امت کے اجتماع ویگانگت کا مظہر ہے اس کی روح کی نفی نہیں ہو جائے گی؟۔ جیسا کہ مسلم امہ کے بارےمیں آپ ہم سے متفق ہیں کہ عصری علوم میں بہت پیچھے ہے تو کیا یہ وقت اس کام کے لئے موزوں نہیں کہ مسلمانوں کو مستقبل میں پیش آنے والےممکنہ مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے حل لئے شرعی کے ساتھ ساتھ سائنسی تربیت بھی ابھی سے کی جائے؟۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف ثانی بھیا احتیاط اور امکانات کے پیش نظر یہ سوال کر رہا ہوں کہ حج جیسا مقدس فریضہ بھی اگر خدا نخواستہ ایسے ہی ایامی اختلاف کا شکارہوجائے تو کیا ہوگا؟۔ ابھی تک تو سعودیہ میں جیسے تیسے ایک ہی دن چاند کی پیدائش پر اتفاق کر لیا جاتا ہے حالانکہ اس کا رقبہ پاکستان سے بہت زیادہ ہے اور تمام دنیا کے مسلمان سعودی حکومت کی تقویم کےمطابق یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کی طرح سے وہاں بھی محل وقوع اور مقام کے اعتبار سے رویت ہلال کا مسئلہ کبھی سر اٹھا لے ،آدھا سعودیہ حج کر رہا ہو اور باقی آدھا عیدالاضحیٰ منا رہا ہو ، تو ایسی ممکنہ صورت حال پر حج جو کہ امت کے اجتماع ویگانگت کا مظہر ہے اس کی روح کی نفی نہیں ہو جائے گی؟۔ جیسا کہ مسلم امہ کے بارےمیں آپ ہم سے متفق ہیں کہ عصری علوم میں بہت پیچھے ہے تو کیا یہ وقت اس کام کے لئے موزوں نہیں کہ مسلمانوں کو مستقبل میں پیش آنے والےممکنہ مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے حل لئے شرعی کے ساتھ ساتھ سائنسی تربیت بھی ابھی سے کی جائے؟۔
ساجد بھائی!آپ سمیت تمام ”معترضین “نے میرے مراسلے میں اٹھائے گئے کسی بھی بات کا جواب دینا تو در کنار، پیش کردہ احادیث کے اس واضح حکم کو بھی سراسر نظر انداز کردیا ہے کہ چاند ”دیکھ“ کر روزہ رکھو اور چاند ”دیکھ“ کر روزہ کھولو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرکے عید مناؤ۔ (کیا آپ لوگ اس حدیث کو نہیں مانتے ہیں، اس حدیث کی سند کو نہیں مانتے ہیں، اس حدیث کو آج ”قابل عمل“ نہیں سمجھتے ہیں یا اس کی کوئی ”نئی تشریح “ کرتے ہیں۔ جو کچھ ذہن میں ہے، اسے مکالمہ اور گفتگو کا حصہ بنائیں تو بات سمجھ میں آئے)ایک اسلامی تہوار کے موضوع پرہونے والی گفتگو میں قرآن و احادیث کو ”نظر انداز“ کرکے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ (وہ اور آرائش خم کاکل، میں اور اندیشہ ہائے دور دراز) اور سائنسی علوم پر اپنی توجہ کو ”مرتکز“ کرنا کوئی احسن بات نہیں ہے۔
کیا آپ کے علم میں یہ نہیں ہے کہ خود بیت اللہ شریف میں ماضی ہر فقہ کی الگ الگ با جماعت نمازیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ بلوچستان اور بدین سندھ میں بھی ”حج“ ادا کی جاتی رہی ہے۔ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ آج بھی حج کے دوران مسلمانوں کے بعض مسالک کے لوگ امامِ کعبہ کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے بلکہ ”اپنی نماز“ الگ پڑھتے ہیں۔ ان سب ”حقائق“ کے باوجود ”اسلامی احکامات“ اپنی اصل صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ اور تا قیامت موجود رہیں گے۔
اب آتے ہیں آپ کے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ کی طرف۔ سعودیہ میں دو عیدیں تو ممکن ہیں، لیکن دو حج ”ممکن نہیں“۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”حج“ وہ واحد عبادت ہے، جو مکہ کے ”حاکم وقت“ کے زیر انتظام اور انہی کی نگرانی میں ”ادا“ کی جاتی ہے۔ دشمنان اسلام کی خواہشوں اور کاوشوں سے موجودہ سعودی عرب میں ایک سے زائد حکمران تو برسر اقتدار آ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ مکہ مکرمہ جیسے شہر پر اب کبھی ایک سے زائد طبقہ بر سر اقتدار آ سکے۔ اور دونوں حاکم طبقہ الگ الگ دن ”حج“ منا سکیں۔ (لوگوں کی خواہشیں ہونا الگ بات ہے)۔ اس شہر پر کسی بھی ایک ہی طبقہ کی حکمرانی ہوگی۔ اور اسی کے مقرر کردہ دن میں ہی حج ہوگا۔
یہ دھاگہ بنیادی طور پر پاکستان یعنی ایک ہی ملک میں دو عیدوں کے حوالہ سے ہے۔ جب عصری علوم یکساں طور پر تمام پاکستانیوں کو حاصل ہوجائے گا تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ ہم سب کے سب سائنسی تربیت کے ساتھ قرآن و حدیث کے احکامات کو ”ایک اینگل“ سے دیکھ سکیں۔ اس وقت صورتحال ایسی نہیں ہے اور سائنسی علم سے بے بہرہ ایک مسلمان صرف قرآن و حدیث کے علم کی روشنی میں روزہ اور عید منانے کوہی ”عبادت“سمجھتا ہے۔ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ جو لوگ سائنسی علم نہیں جانتے، وہ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر سائنس جاننے والوں کی ”امامت“ میں ایک عید منایا کریں؟
امید ہے کہ آپ اپنے جوابی مراسلہ میں پہلے میرے اٹھائے گئے نکات کا جواب ضرور دیں گے، پھر اس کے بعد کوئی نیا ”اندیشہ ہائے دور دراز“ پیش کریں گے۔ مکالمہ کا احسن طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آپ جس سے گفتگو کر رہے ہیں پہلے ان کے اٹھائے گئے نکات کا علمی جواب دیں، انہیں علمی انداز میں رَد یا قبول کریں پھر اپنے سوالات یا اندیشے پیش کریں۔ صرف اپنے اپنے سوالات اٹھانے یا اندیشے پیش کرنے کا نام مکالمہ یا بحث و مباحثہ نہیں ہے میرے پیارے بھائی۔ :D
 

یوسف-2

محفلین
مجھے یہ کوئی سمجھا دے کہ یہ سب کچھ سعودیہ میں کیوں نہیں ہوتا ۔۔۔ سعودیہ کا رقبہ تو پاکستان سے بھی تین چار گنا زیادہ ہے۔ وہاں یہ مسائل کیوں درپیش نہیں آتے؟اصل بات یہ ہے کہ سعودیہ والے بھی روئت پر نہیں چلتے بلکہ کیلکولیشن پر چلتے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا
محمود بھائی! یہ اصل میں مسائل ہی نہیں ہیں۔ ہم لوگوں نے ایک ”نان ایشو“ کو ایشو بنایا ہوا ہے۔ روزہ اور عید بھی تو دیگر ”عبادات“ کی طرح ایک ”عبادت“ ہی ہے۔ جب دیگر عبادات میں ”یکسانیت“ موجود نہیں ہے تو اس عبادت کے لئے ”یکساں دن“ پر زور دینا چہ معنی دارد؟
نماز لوگ الگ الگ وقتوں پر پڑھنے کے قائل ہیں۔ بعض مسالک پانچ وقتوں کی جگہ تین وقتوں میں نماز کے قائل ہیں۔ بعض لوگ زکوٰۃ کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔ بعض لوگ حج پر مختلف زیارتوں کو ترجیح دیتے ہیں اور کعبہ کے حج کے لئے جاتے بھی ہیں تو امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ جب عبادات میں یہ سارے اختلافات صدیوں سے موجود ہیں تو پوری دنیا میں یا ایک ہی ملک بھر میں ایک عید منانے یا نہ منانے کو ”مسئلہ“ کیوں منا لیا گیا ہے۔کیا روزہ اور عید عبادات نہیں ہیں۔ یا یہ محض مسلمانوں کے رسمی تہوار ہیں؟؟؟ کہیں ہم ”کرسمس“ سے متاثر تو نہیں کہ جب عیسائی برادری ایک ہی دن اپنا عید پوری دنیا میں مناسکتی ہیں تو ان کی مشابہت میں ہم ایک ہی دن عید کیوں نہیں منا سکتے؟؟؟ :eek:
 

عثمان

محفلین
حدیث ظاہر رویت ہلال پر ہی اصرار کرے گی کہ اس دور میں طلوع قمر جانچنے کا اور طریقہ بھی کیا تھا ؟
 
رویت کا مقصد محض یہ ہے کہ قابلِ اعتماد علم حاصل ہوجائے۔۔۔ یعنی اصل مقصد قابلِ اعتماد علم ہے، اس زمانے میں اس قابلِ اعتماد علم کی ایک ہی واحد صورت تھی یعنی رویتِ ہلال۔۔لیکن اب اگر یہ علم ان ذرایع سے حاصل ہوجائے جو اُس زمانے میں نہیں تھے، تو اصل مقصد تو قابلِ بھروسہ علم ہے، لہٰذا ان ذرایع کے ذریعے چاند کی تاریخ کا تعین کرنا بالکل ٹھیک ہے۔۔۔
اگر کچھ دوست اس بات پر اصرار کریں کہ نہیں ہم نے حدیث کے الفاظ کو ہی بعینہِ فالو کرنا ہے اور اسکی علت یا حکمت کی بحث میں نہیں پڑنا، تو ادب سے گذارش یہ ہے کہ اس بات کا جواب دے دیں کہ حکومت کا اس سارے پراسس میں کیا کردار ہونا چاہئیے؟۔۔۔چھوڑ دیجئے لوگوں کو شترِ بے مہار کی طرح، لیکن کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب جیسے وسیع و عریض ملک میں حکومت کے اعلان کو بغیر کسی چون و چرا کے من و عن درست تسلیم کرکے مان لیا جاتا ہے، اور پاکستان میں ایسا نہیں کیا جاتا؟۔۔۔فرق صرف ایک ہے، اور وہ ہے حکومتی کنٹرول۔ سعودیہ میں مولوی حضرات حکومت کے کنٹرول میں ہیں (ریال چیز ہی ایسی ہے) لیکن بیچارہ پاکستان کیا کرے، کس کس مولوی کا منہ بند کرے۔
 

عثمان

محفلین
رویت کا مقصد محض یہ ہے کہ قابلِ اعتماد علم حاصل ہوجائے۔۔۔ یعنی اصل مقصد قابلِ اعتماد علم ہے، اس زمانے میں اس قابلِ اعتماد علم کی ایک ہی واحد صورت تھی یعنی رویتِ ہلال۔۔لیکن اب اگر یہ علم ان ذرایع سے حاصل ہوجائے جو اُس زمانے میں نہیں تھے، تو اصل مقصد تو قابلِ بھروسہ علم ہے، لہٰذا ان ذرایع کے ذریعے چاند کی تاریخ کا تعین کرنا بالکل ٹھیک ہے۔۔۔
متفق!!
ویسے مجھے امید نہ تھی کہ آپ کا یہ موقف ہوگا۔ :)
غالباً چند سال پہلے بھی کسی دھاگے میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی تھی جس میں ایک آیت شئیر کی تھی جس میں مہینوں کو چاند کے مدارج کے مطابق کرنے کا حکم تھا۔ رویت پر کوئی اصرار نہیں تھا۔ وقت نکال کر آیت ڈھونڈتا ہوں۔
رہا حدیث میں رویت کے الفاظ تو ظاہر ہے اس زمانے میں طلوع چاند جانچنے کا واحد طریقہ رویت ہی تھا۔ اب جبکہ رویت سے کہیں ذیاد قابل اعتماد سائنسی ذرائع موجود ہیں تو رویت کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ماسوائے روایت برائے روایت کے۔ :)
 
محمود بھائی! یہ اصل میں مسائل ہی نہیں ہیں۔ ہم لوگوں نے ایک ”نان ایشو“ کو ایشو بنایا ہوا ہے۔ روزہ اور عید بھی تو دیگر ”عبادات“ کی طرح ایک ”عبادت“ ہی ہے۔ جب دیگر عبادات میں ”یکسانیت“ موجود نہیں ہے تو اس عبادت کے لئے ”یکساں دن“ پر زور دینا چہ معنی دارد؟
نماز لوگ الگ الگ وقتوں پر پڑھنے کے قائل ہیں۔ بعض مسالک پانچ وقتوں کی جگہ تین وقتوں میں نماز کے قائل ہیں۔ بعض لوگ زکوٰۃ کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔ بعض لوگ حج پر مختلف زیارتوں کو ترجیح دیتے ہیں اور کعبہ کے حج کے لئے جاتے بھی ہیں تو امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ جب عبادات میں یہ سارے اختلافات صدیوں سے موجود ہیں تو پوری دنیا میں یا ایک ہی ملک بھر میں ایک عید منانے یا نہ منانے کو ”مسئلہ“ کیوں منا لیا گیا ہے۔کیا روزہ اور عید عبادات نہیں ہیں۔ یا یہ محض مسلمانوں کے رسمی تہوار ہیں؟؟؟ کہیں ہم ”کرسمس“ سے متاثر تو نہیں کہ جب عیسائی برادری ایک ہی دن اپنا عید پوری دنیا میں مناسکتی ہیں تو ان کی مشابہت میں ہم ایک ہی دن عید کیوں نہیں منا سکتے؟؟؟ :eek:
میں پھر سعودیہ ہی کی مثال دوں گا۔ کیا وجہ ہے کہ کنگ عبدالعزیز نے حرمِ مکہ میں موجود حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مصلّے ختم کرکے ایک ہی جماعت بزور طاقت جاری کروائی؟۔۔۔اسی طرح چاند کے معاملے میں بھی انکا ایک کنٹرول ہے۔۔چنانچہ پہلے تو آپ سعودیہ کے اس عمل کو جائز یا ناجائز قرار دیں۔۔۔ اگر جائز کہیں گے تو اسکا مطلب ہے کہ ہم بھی جائز بات ہی کر رہے ہیں کیونکہ ہم بھی مرکزیت کی بات کر رہے ہیں۔۔۔اور اگر ناجائز کہیں گے (جسکا مجھے امکان نظر نہیں آتا ):D، تو پھر آپکی بات مان لیتے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی!آپ سمیت تمام ”معترضین “نے میرے مراسلے میں اٹھائے گئے کسی بھی بات کا جواب دینا تو در کنار، پیش کردہ احادیث کے اس واضح حکم کو بھی سراسر نظر انداز کردیا ہے کہ چاند ”دیکھ“ کر روزہ رکھو اور چاند ”دیکھ“ کر روزہ کھولو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرکے عید مناؤ۔ (کیا آپ لوگ اس حدیث کو نہیں مانتے ہیں، اس حدیث کی سند کو نہیں مانتے ہیں، اس حدیث کو آج ”قابل عمل“ نہیں سمجھتے ہیں یا اس کی کوئی ”نئی تشریح “ کرتے ہیں۔ جو کچھ ذہن میں ہے، اسے مکالمہ اور گفتگو کا حصہ بنائیں تو بات سمجھ میں آئے)ایک اسلامی تہوار کے موضوع پرہونے والی گفتگو میں قرآن و احادیث کو ”نظر انداز“ کرکے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ (وہ اور آرائش خم کاکل، میں اور اندیشہ ہائے دور دراز) اور سائنسی علوم پر اپنی توجہ کو ”مرتکز“ کرنا کوئی احسن بات نہیں ہے۔
کیا آپ کے علم میں یہ نہیں ہے کہ خود بیت اللہ شریف میں ماضی ہر فقہ کی الگ الگ با جماعت نمازیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ بلوچستان اور بدین سندھ میں بھی ”حج“ ادا کی جاتی رہی ہے۔ کیا آپ کے علم میں نہیں ہے کہ آج بھی حج کے دوران مسلمانوں کے بعض مسالک کے لوگ امامِ کعبہ کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے بلکہ ”اپنی نماز“ الگ پڑھتے ہیں۔ ان سب ”حقائق“ کے باوجود ”اسلامی احکامات“ اپنی اصل صورت میں آج بھی موجود ہیں۔ اور تا قیامت موجود رہیں گے۔
اب آتے ہیں آپ کے ”اندیشہ ہائے دور دراز“ کی طرف۔ سعودیہ میں دو عیدیں تو ممکن ہیں، لیکن دو حج ”ممکن نہیں“۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”حج“ وہ واحد عبادت ہے، جو مکہ کے ”حاکم وقت“ کے زیر انتظام اور انہی کی نگرانی میں ”ادا“ کی جاتی ہے۔ دشمنان اسلام کی خواہشوں اور کاوشوں سے موجودہ سعودی عرب میں ایک سے زائد حکمران تو برسر اقتدار آ سکتے ہیں۔ لیکن ایسا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ مکہ مکرمہ جیسے شہر پر اب کبھی ایک سے زائد طبقہ بر سر اقتدار آ سکے۔ اور دونوں حاکم طبقہ الگ الگ دن ”حج“ منا سکیں۔ (لوگوں کی خواہشیں ہونا الگ بات ہے)۔ اس شہر پر کسی بھی ایک ہی طبقہ کی حکمرانی ہوگی۔ اور اسی کے مقرر کردہ دن میں ہی حج ہوگا۔
یہ دھاگہ بنیادی طور پر پاکستان یعنی ایک ہی ملک میں دو عیدوں کے حوالہ سے ہے۔ جب عصری علوم یکساں طور پر تمام پاکستانیوں کو حاصل ہوجائے گا تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ ہم سب کے سب سائنسی تربیت کے ساتھ قرآن و حدیث کے احکامات کو ”ایک اینگل“ سے دیکھ سکیں۔ اس وقت صورتحال ایسی نہیں ہے اور سائنسی علم سے بے بہرہ ایک مسلمان صرف قرآن و حدیث کے علم کی روشنی میں روزہ اور عید منانے کوہی ”عبادت“سمجھتا ہے۔ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ جو لوگ سائنسی علم نہیں جانتے، وہ قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر سائنس جاننے والوں کی ”امامت“ میں ایک عید منایا کریں؟
امید ہے کہ آپ اپنے جوابی مراسلہ میں پہلے میرے اٹھائے گئے نکات کا جواب ضرور دیں گے، پھر اس کے بعد کوئی نیا ”اندیشہ ہائے دور دراز“ پیش کریں گے۔ مکالمہ کا احسن طریقہ یہی ہوتا ہے کہ آپ جس سے گفتگو کر رہے ہیں پہلے ان کے اٹھائے گئے نکات کا علمی جواب دیں، انہیں علمی انداز میں رَد یا قبول کریں پھر اپنے سوالات یا اندیشے پیش کریں۔ صرف اپنے اپنے سوالات اٹھانے یا اندیشے پیش کرنے کا نام مکالمہ یا بحث و مباحثہ نہیں ہے میرے پیارے بھائی۔ :D
یوسف ثانی بھیا ، سوال ایک بار پھر دہرائے دیتا ہوں کہ اگر کبھی سعودیہ میں رویت ہلال پر پاکستان جیسا پھڈا کھڑا ہو گیا تو حج جیسی اجتماعی عبادت کا کیا ہو گا؟۔
دو ٹوک جواب عنایت فرمائیں۔
امید کرتا ہوں کہ پہلے سے موجود اختلافات کا ذکر کرنے کی بجائے آپ سوال پرتوجہ مرکوز فرمائیں گے۔
 
دوسری بات یہ ہے کہ رویت ضروری نہیں کہ صرف ظاہری آنکھوں سے ہو۔ تفکرسے، عقل سے اور تخیل سے کسی چیز کو جاننا گویا کہ دیکھنا بھی رویت کی ذیل میں آجاتا ہے قرآن مجید میں کئی آیات ایسی ہیں جو اس مفہوم پر دلالت کرتی ہیں۔ ایس کئی آیات میں سے صرف ایک مثال دے رہا ہوں:
وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

واللہ اعلم بالصّواب
 

ساجد

محفلین
لیکن ایسا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ مکہ مکرمہ جیسے شہر پر اب کبھی ایک سے زائد طبقہ بر سر اقتدار آ سکے۔ اور دونوں حاکم طبقہ الگ الگ دن ”حج“ منا سکیں۔ (لوگوں کی خواہشیں ہونا الگ بات ہے)۔ اس شہر پر کسی بھی ایک ہی طبقہ کی حکمرانی ہوگی۔ اور اسی کے مقرر کردہ دن میں ہی حج ہوگا۔
یوسف ثانی بھائی کیا تب رویت ہلال کا حکم ساقط ہو جائے گا؟۔ اور اگر ایک ہی شہر مکہ کے کچھ لوگ رویت ہلال کا دعوی کریں اور کچھ اس سے انکار کریں (پشاور کی طرح) تو ایسے میں حاکم کی بات کہاں تک معتبر ہو گی جبکہ بقول آپ کے چاند کو آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے۔
مزید یہ کہ پاکستان میں رویت ہلال کے لئے دور بین سے مدد تو اب بھی لی جاتی ہے یعنی صرف ننگی آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا ۔ کیا اس سے کسی شرعی امر میں اب تک فرق آیا ؟کیا یہ عمل سائنس سے مدد لینے کے زمرے میں نہیں آتا؟۔ کیا اس طریقے سے رویت ہلال کرنے والے علماء ،آپکے مؤقف کے مطابق، حدیث شریف کے بارے میں تشکیک کا شکار ہیں؟۔ کیا یہ حدیث شریف کی تشریح غلط کرنے کے گناہ گار ہیں؟۔ کیا یہ علماء کرام قرآن وحدیث کو نظر انداز کر کے اندیشہ ہائے دور و دراز کا شکار ہیں؟۔ کیا یہ علماء کرام ، آپ کے الفاظ میں، آج کے دور میں حدیثِ رسول کو قابلِ عمل نہیں سمجھتے؟۔کیا آپ ان کے اذہان میں بھی کسی اور بات کو محسوس کرتے ہیں؟۔
جبکہ چند افراد کی گواہی سے نئے چاند کا اعتبار کر لیا جاتا ہے تو سائنسی طریقے سے چاند کی پیدائش کے متعلق تمام مسلمانوں کا اس علم سے بہرہ مند ہونا کیوں ضروری ہو گا؟۔ اگر حاکم وقت کی نگرانی میں ایسا کوئی عمل انجام پاتاہے تو پھر آپ کی ابتدائی بات کےمطابق اس پر عمل کیوں نہ کرنا چاہئیے جس کے مطابق "حاکم کے مقرر کردہ روز حج ادا کیا جائے گا"؟۔
221962-muftimuneeeb-1312209404-886-640x480.jpg
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اراکین رمضان المبارک کا چانددیکھتے ہوئے
انڈو نیشیا
00000052360.jpg
DETERMINING THE DAY: Assistant Minister in the Chief Minister’s Office (Islamic Affairs) Datuk Daud Abdul Rahman looking through the theodolite, an instrument to assist in viewing the moon, to determine the first day of the fasting month at Teluk Bandung in Santubong near Kuching yesterday. Apart from Teluk Bandung, another two spots for Ramadan moon sighting in Sarawak are Tanjung Batu in Bintulu and Tanjung Lobang in Miri. With Daud is Sarawak Islamic Council president Datu Putit Matzen (right).
 

یوسف-2

محفلین
رویت کا مقصد محض یہ ہے کہ قابلِ اعتماد علم حاصل ہوجائے۔۔۔ یعنی اصل مقصد قابلِ اعتماد علم ہے، اس زمانے میں اس قابلِ اعتماد علم کی ایک ہی واحد صورت تھی یعنی رویتِ ہلال۔۔لیکن اب اگر یہ علم ان ذرایع سے حاصل ہوجائے جو اُس زمانے میں نہیں تھے، تو اصل مقصد تو قابلِ بھروسہ علم ہے، لہٰذا ان ذرایع کے ذریعے چاند کی تاریخ کا تعین کرنا بالکل ٹھیک ہے۔
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ صحیح حدیث میں بتلائی گئی ”رویت ہلال“ کو ختم کرکے سائنسی طریقہ کار کو ”بنیاد“ بنائی جائے تو بھی اس کا ایک دینی طریقہ کار موجود ہے اور اس کا پلیٹ فارم علمائے کرام کا ”وسیع فورم“ ہوا کرتا ہے۔ جن شرعی امور پر روایتی طور پر صدیوں سے ”اجماع امت“ ہو، اسے قرآن و حدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ سائنسدانوں یا سائنس کے طالب علموں کے کہنے سے تبدیل نہیں کئے جاتے۔
 
میں کب کہہ رہا ہوں کہ میرے کہنے پر یہ سب کیا جائے۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علماّ اس مسئلے کا مل کر حل نکالیں۔۔۔اورہماری یہ ساری گفتگو اسی نکتے کیلئے ہورہی ہے کہ کچھ لوگوں کی تشریح و تعبیر کو حرفِ آخر نہ سمجھ لیا جائے ۔۔اجماع امت کی دلیل یہاں لاگو نہیں ہوتی کیونکہ اول تو یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں ہے کہ جو زمان و مکان کی تبدیلیوں سے ماوراء ہو۔ یہ توکسی بات کا علم حاصل کرنے کیلئے ایک طریقہ کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکا تعلق اجتہاد سے ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
میں پھر سعودیہ ہی کی مثال دوں گا۔ کیا وجہ ہے کہ کنگ عبدالعزیز نے حرمِ مکہ میں موجود حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی مصلّے ختم کرکے ایک ہی جماعت بزور طاقت جاری کروائی؟۔۔۔ اسی طرح چاند کے معاملے میں بھی انکا ایک کنٹرول ہے۔۔چنانچہ پہلے تو آپ سعودیہ کے اس عمل کو جائز یا ناجائز قرار دیں۔۔۔ اگر جائز کہیں گے تو اسکا مطلب ہے کہ ہم بھی جائز بات ہی کر رہے ہیں کیونکہ ہم بھی مرکزیت کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ اور اگر ناجائز کہیں گے (جسکا مجھے امکان نظر نہیں آتا ):D، تو پھر آپکی بات مان لیتے ہیں۔
سعودی عرب میں یہ کام ایسی حکومت نے کیا ہے، جس نے اپنی مملکت میں سب سے زیادہ اسلامی شریعت (سو فیصد پھر بھی نہیں) نافذ کیا ہوا ہے، اور اس ضمن میں اس حکومت کو وہاں کے علمائے کرام کی بھاری اکثریت کا تعاون حاصل ہے۔پاکستان میں یہ کام کون کرے گا؟ میں، آپ یا برسر اقتدار حکومت، جس کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اگر پاکستان میں بھی کبھی سعودیہ کی طرح شریعت اسلامی نافذ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والی حکومت آگئی اور اسے علماء کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگئی تو وہ بھی بزور قوت ایسا کرسکتی ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
ساجد بھائی آپ ”مفروضوں“ پر اندیشہ ہائے دور دراز کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ آپ کا مقصد علمی گفتگو کی بجائے مخالفت برائے مخالفت لگ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تو نئے مفروضہ پر سوال در سوال کرنے کی بجائے پوچھے گئے سوالات کا جواب بھی دیتے، جو بوجوہ آپ دے نہیں پائے یا دینا نہیں چاہتے۔ :D ایسے میں آپ کے لئے صرف دعا کرسکتا ہوں۔ اللہ آپ کو بھی اور ہم سب کو بھی دین کا وہ فہم عطا کرے جس پر امت کا اجماع رہا ہے۔ ورنہ تو دین اسلام کی تشریح کرنے والے تو ایسے ایسے لوگ بھی ہیں، جن کا دین سے دور و نزدیک کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔:D
 
سعودی عرب میں یہ کام ایسی حکومت نے کیا ہے، جس نے اپنی مملکت میں سب سے زیادہ اسلامی شریعت (سو فیصد پھر بھی نہیں) نافذ کیا ہوا ہے، اور اس ضمن میں اس حکومت کو وہاں کے علمائے کرام کی بھاری اکثریت کا تعاون حاصل ہے۔پاکستان میں یہ کام کون کرے گا؟ میں، آپ یا برسر اقتدار حکومت، جس کا اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اگر پاکستان میں بھی کبھی سعودیہ کی طرح شریعت اسلامی نافذ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والی حکومت آگئی اور اسے علماء کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوگئی تو وہ بھی بزور قوت ایسا کرسکتی ہے۔
یعنی اس وقت آپکی پیش کردہ احادیث کی تشریح، قابلِ عمل نہیں رہے گی؟؟؟ تھوڑی دیر پہلے آپ فرما رہے تھے کہ جس طرح نمازوں میں اختلافات ہیں، حتی کہ حرم شریف میں بھی چار علیحدہ جماعتیں ہوا کرتی تھیں، چنانچہ روزے اور عید میں بھی اختلاف ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن حدیث پر لفظی معنوں میں ہی عمل کیا جانا چاہئیے، لیکن جب میں نے سعودیہ کی مثال دی کہ وہ تو ایسا نہیں کرتے، تو آپکا جواب یہ ہے کہ اگر سعودیہ جیسی حکومت پاکستان میں بھی آجائے تو پھر اجازت ہے۔۔۔اچھی مزاح نگاری کرتے ہیں آپ۔:D
 

یوسف-2

محفلین
میں کب کہہ رہا ہوں کہ میرے کہنے پر یہ سب کیا جائے۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماّ اس مسئلے کا مل کر حل نکالیں۔۔۔ اورہماری یہ ساری گفتگو اسی نکتے کیلئے ہورہی ہے کہ کچھ لوگوں کی تشریح و تعبیر کو حرفِ آخر نہ سمجھ لیا جائے ۔۔اجماع امت کی دلیل یہاں لاگو نہیں ہوتی کیونکہ اول تو یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں ہے کہ جو زمان و مکان کی تبدیلیوں سے ماوراء ہو۔ یہ توکسی بات کا علم حاصل کرنے کیلئے ایک طریقہ کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکا تعلق اجتہاد سے ہے۔
اگر اجماع امت کی دلیل لاگو نہ ہو تو پھر کون سے علماء اس مسئلہ کا حل نکالیں گے؟ ایک مسلک کے علماء کچھ کہیں گے اور دوسرے مسلک کے علما ء کچھ کہیں گے۔ آپ اپنے مسلک کے علماء کی عید منائیں گے، میں اپنے مسلک کے علماء کی عید مناؤں گا :D مسئلہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا۔ آج بھی تو ”سرکاری و درباری علماء“ الگ چاند کا اعلان کرتے ہیں اور غیر سرکاری علماء الگ چاند کا۔ میرے اور آپ جیسے ”عوام الناس“ تو کبھی کسی چاند کا اعلان نہیں کرتے۔ ہم کسی نہ کسی علماء گروپ کے اعلان ہی کی پیروی کرتے ہوئے دو عیدیں مناتے ہیں۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ میری امت (ظاہر ہے کہ یہاں امت سے مراد قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والے علمائے کرام ہی ہیں) کبھی کسی غلط بات پہ متفق نہیں ہوگی۔ لہٰذا رویت ہلال کے بارے میں قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ”جدید تشریح“ پر علماء کا اجماع اس لئے بھی ضروری ہے۔ لیکن جو لوگ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ”حجت“ نہیں مانتے، وہ اس قول کو کیسے مان سکتے ہیں کہ میری امت کبھی غلط بات پہ متفق نہیں ہوگی۔
 

یوسف-2

محفلین
میرا خیال ہے کہ زیر بحث موضوع پر ہم سب نے اپنا اپنا موقف اچھی طرح بیان کردیا ہے۔ اس قسم کی بحث کا یہ مقصد تو کبھی بھی نہیں ہوتا کہ کوئی ”متفقہ رائے“ سامنے آجائے۔ اور نہ یہ عوامی فورم اس مقصد کے لئے ”ڈیزائن“ ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک موضوع پر مختلف رائے سامنے آجاتی ہے۔ اب یہ ہر فرد کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس رائے کو نسبتاً بہتر سمجھتا ہے۔ میں چونکہ اپنا نکتہ نظر بہت تفصیل سے بیان کر چکا ہوں، لہٰذا اب مجھے اپنی بات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی آپ ”مفروضوں“ پر اندیشہ ہائے دور دراز کی عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ آپ کا مقصد علمی گفتگو کی بجائے مخالفت برائے مخالفت لگ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تو نئے مفروضہ پر سوال در سوال کرنے کی بجائے پوچھے گئے سوالات کا جواب بھی دیتے، جو بوجوہ آپ دے نہیں پائے یا دینا نہیں چاہتے۔ :D ایسے میں آپ کے لئے صرف دعا کرسکتا ہوں۔ اللہ آپ کو بھی اور ہم سب کو بھی دین کا وہ فہم عطا کرے جس پر امت کا اجماع رہا ہے۔ ورنہ تو دین اسلام کی تشریح کرنے والے تو ایسے ایسے لوگ بھی ہیں، جن کا دین سے دور و نزدیک کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔:D
اپنے پاس ایسا علم ہی نہیں جو ایک سوال پوچھے جانے کے بدلے دوسروں کی نیت پر شک کرناسکھائے تو "علمی" گفتگو کیسے ممکن ہے؟۔ اگرچہ یہاں میری آمد آپ سےایک سوال کا جواب حاصل کرنے کے سلسلہ میں تھی جو آپ نےنہیں دیا بلکہ موقف پہ مؤقف بدلتے گئے اور اب آپ مجھ پہ نہ جانے کیسی ناراضی کا اظہار فرما رہے ہیں حالانکہ کوئی بھی جواب مجھ سے براہِ راست نہیں مانگا گیا۔ یہ ضرور ہوا کہ میرے سوال کے جواب میں آپ نے حدیث شریف کو ماننے کے حوالے سےمجھ پر تشکیک کا اظہار کیا اور بعد ازاں مجھے اندیشہ ہائے دور و دراز کا مکلف ٹھہرا دیا اور اسی کا اعادہ آپ نے اس مراسلہ میں کیا ہے ، پھر بھی آپ حکم کریں کہ آپ کو کس سوال کا جواب نہیں ملا؟۔
اور میں اس بات پر سخت حیراں اور آپ سے شاکی ہوں کہ آپ میرے سوال کو مخالفت برائے مخالفت کا نام دے کر ایک اور تشکیک کا شکار ہو رہے ہیں۔ بھائی جان ہم کم علم ہیں تو آپ سے کچھ دریافت کر رہے ہیں ۔ سب جانتے ہوتے تو آپ سے کیوں پوچھتے اور آپ شک میں پڑنے کی بجائے جواب دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
 
اگر اجماع امت کی دلیل لاگو نہ ہو تو پھر کون سے علماء اس مسئلہ کا حل نکالیں گے؟ ایک مسلک کے علماء کچھ کہیں گے اور دوسرے مسلک کے علما ء کچھ کہیں گے۔ آپ اپنے مسلک کے علماء کی عید منائیں گے، میں اپنے مسلک کے علماء کی عید مناؤں گا :D مسئلہ تو اپنی جگہ موجود رہے گا۔ آج بھی تو ”سرکاری و درباری علماء“ الگ چاند کا اعلان کرتے ہیں اور غیر سرکاری علماء الگ چاند کا۔ میرے اور آپ جیسے ”عوام الناس“ تو کبھی کسی چاند کا اعلان نہیں کرتے۔ ہم کسی نہ کسی علماء گروپ کے اعلان ہی کی پیروی کرتے ہوئے دو عیدیں مناتے ہیں۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ میری امت (ظاہر ہے کہ یہاں امت سے مراد قرآن و حدیث پر گہری نظر رکھنے والے علمائے کرام ہی ہیں) کبھی کسی غلط بات پہ متفق نہیں ہوگی۔ لہٰذا رویت ہلال کے بارے میں قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ”جدید تشریح“ پر علماء کا اجماع اس لئے بھی ضروری ہے۔ لیکن جو لوگ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ”حجت“ نہیں مانتے، وہ اس قول کو کیسے مان سکتے ہیں کہ میری امت کبھی غلط بات پہ متفق نہیں ہوگی۔
میرے خیال میں اس مسئلے کو او آئی سی کے پلیٹ فارم پر حل کیا جاسکتا ہے۔ تما م اسلامی ممالک کو ایک دیارِ اسلام فرض کیا جائے اور رویت ہلال کیلئے حجاز کو ایک بنیاد قرار دیتے ہوئے یہاں کی رویت کی بنیاد پر پورے دیارِ اسلام میں چاند کی پہلی تاریخ کا تعین کیا جائے۔۔۔اگر یہ نہیں تو پھر کم از کم پاکستان کی حد تک ایک حل نکالا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ سب سے پہلے تو ایسٹرانومی کے ذریعے اس بات کا تعین کیا جائے کہ نئے چاند کی پیدایش کب ہورہی ہے۔ اس پیدایش سے پہلے ک رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہرگز نہ طلب کیا جائے اور کسی قسم کی شہادت کو ہرگز تسلیم نہ کیا جائے، البتہ اس نئے چاند کی پیدائش کے کیلکولیٹڈ ٹائم کے بعد رویت ہلا ل والوں کو دعوت دی جائے اور وہ ملک کے طول وعرض سے آنے والی شہادتوں کی بنیاد پر رویت کا اعلان کریں۔۔اور اس اعلان کو حتمی سمجھا جائے اور اگر کوئی گروہ اس اعلان کو تسلیم نہ کرے تو انکے سرکردہ افراد کو جیل میں بھیجیں ، عید کے دن انکے پورے سر کاحلق کرنے کے بعد تھوڑی سی عیدی دے کر رہا کر دیا جائے:D ۔۔امید ہے پاکستان کی حد تک مسئلہ حل ہوجائے گا۔
 
Top