رقصِ شرر۔۔ ع واحد

الف عین

لائبریرین
لو آج سربزم یہ اقرار کیا ہے
ہم نے کسی مہوش سے بہت پیار کیا ہے
اس طرح محبت کا جو اقرار کیا ہے
خود قلب و جگر در پۂ آزار کیا ہے
بیباک نگاہوں سے کسی شوخ نظر نے
بھرپور سا سفاک سا اک وار کیا ہے
جیسے کہ مئے ناب کی بوچھار ہوئی ہو
افسردہ ایام کو سرشار کیا ہے
گر حسن پرستی ہے کوئی جرم تو اے دوست
اک بار نہیں جرم یہ سو بار کیا ہے
ہم کون سخن سنج و سخن ساز ہیں ایسے
کب ہم نے کوئی دعویٔ پندار کیا ہے
اے ہم نفسو زیست کا احوال نہ پوچھو
اک آگ کا دریا تھا جسے پار کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اِمتزاج نیاز و ناز بھی ہے
روشِ حسن ساز باز بھی ہے
جادۂِ شوق میں نشیب بھی ہیں
جادۂِ شوق میں فراز بھی ہے
سادگی میں ہے رنگ افشانی
راحتِ جان و دلنواز بھی ہے
قاتلانہ تمام تیور ہیں
یہ حقیقت بھی ہے مجاز بھی ہے
اف نگاہِ کرم کی شعلہ زنی
سوز بھرپور ہے گداز بھی ہے
ایک یلغار ہے محبت کی
جس کا شاعر رقمطراز بھی ہے
نام اس شوخ کا ذرا یوں ہے
کہ عیاں بھی ہے اور راز بھی ہے
 

الف عین

لائبریرین
پھر عہدِ التفات کسی نازنین سے ہے
اپنی بھی راہ و رسم کسی مہ جبیں سے ہے
ہوتی ہے آسمان پہ گو کہکشاں سے بات
رشتہ بہت قریب کا لیکن زمیں سے ہے
پائی کہاں مراد کسی نے براہِ راست
قرآن کا نزول بھی روح الامیں سے ہے
ترتیب سنگ و خشت سے جاہ و حشم نہیں
جو گھر بھی ذی وقار ہے گھر کے مکیں سے ہے
ہے دورِ انحطاط میں بھی انبساطِ شوق
رسمِ وفا و مہر کہ زندہ ہمیں سے ہے
 

الف عین

لائبریرین
حسن کے سر پہ تاج رکھتے ہیں
شاعرانہ مزاج رکھتے ہیں
مے پرستانِ بزم شعر و سخن
اپنے رسم و رواج رکھتے ہیں
ان کی املاک ہے جنوں و خرد
ایک حسیں امتزاج رکھتے ہیں
وضعداری کا پاس بھی ہے خوب
پنتھ رکھتے ہیں کاج رکھتے ہیں
قیس و فرہاد سے جو تھی نسبت
اِس روایت کی لاج رکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
مے کدے سے جو نکلے تر بہ تر نظر آئے
نقشِ آگہی اکثر سر بہ سر نظر آئے
مہر و ماہ سے برتر کہکشاں سے بالاتر
ہم کو کوئے دلبر کی رہ گذر نظر آئے
نسخہائے دردِ دل آپ کیا بتائیں گے
مبتلائے دردِ دل چارہ گر نظر آئے
فرقِ گلشن و صحرا اک نظر کا دھوکہ ہے
تیرے گھر سے اٹھ کر ہم در بہ در نظر آئے
راہ پُرسکوں میں ہم بے نیاز منزل ہیں
تیز تر ہمارے سب ہم سفر نظر آئے
 

الف عین

لائبریرین
حقیقت سے گزرنا صدق سے منہ موڑنا ٹھہرا
وفا کیسی کہاں کا عشق بس سر پھوڑنا ٹھہرا
ذرا سی نیک خواہش کا کبھی اظہار کردینا
کسی سوئے ہوئے عفریت کو جھنجھوڑنا ٹھہرا
عروجِ آدمیّت کے لئے کچھ جستجو کرنا
ہر ایک ذی روح سے اپنا تعلق توڑنا ٹھہرا
کسی کو بھول کر ایک ہدیۂ تحسین دے دینا
مصیبت ہائے لافانی سے رشتہ جوڑنا ٹھہرا
کوئی احسان کرنا اس تلوّن خیز دنیا میں
سروں پر اپنے رکھ کر پیر سرپٹ دوڑنا ٹھہرا
 

الف عین

لائبریرین
غم اپنی جگہ پر ہے وفا اپنی جگہ پر
صبر اپنی جگہ آہ و بکا اپنی جگہ پر
شیطانیٔ ابلیس سے رنگینیٔ عالم
ایثارِ دل اہلِ صفا اپنی جگہ پر
ہے قلقلِ مینا سے بھی کچھ روح کو تسکین
آتی ہے آذانوں کی صدا اپنی جگہ پر
زاہد کا جو سجدے سے اٹھے سر تو بتائیں
ہے خدمتِ مخلوق خدا اپنی جگہ پر
ڈھونڈا کئے معبود کو ہم دیر و حرم میں
دل اس کی جگہ تھی وہ ملا اپنی جگہ پر
 

الف عین

لائبریرین
قطعہ
وقت کے مصائب سے دل برا نہیں ہوتا
نقش ریت پر کوئی دیر پا نہیں ہوتا
مصلحت کے ہاتھوں کچھ ہوگئی ہو مجبوری
ورنہ دوست تم جیسا بے وفا نہیں ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
غزل
افکار کی اشعار کی اظہار کی قیمت
ٹھہری ہے ہر اک جنس پہ بازار کی قیمت
طے ہم نے کئے نرخ یہاں شعر و ادب کے
تولی ہے ترازو پہ قلمکار کی قیمت
نیلام ہی ہونا ہے تو پھر اس سے غرض کیا
احباب کی بہتر ہو کہ اغیار کی قیمت
کرتا ہے تجارت جو کوئی آب و ہوا کی
مانگے ہے کوئی سایہ دیوار کی قیمت
اس دور میں جتنی کہ روایات گراں ہیں
اتنی ہی فلک بوس ہے اقدار کی قیمت
 

الف عین

لائبریرین
پھر نظر ہم پہ ہوئی ہے جو محبت آمیز
پھر ارادہ ہے کوئی ان کا شرارت آمیز
ایک رشتہ کے عداوت ہی کی بنیاد پہ ہے
رنج دیتا ہے مسلسل پہ مسرت آمیز
جس پہ لیلیٰ نے بھی مجنوں کو فراموش کیا
عشق بھی ہم نے کیا ایسا خیانت آمیز
دشمنی ہو تو بہم حشر کا سامان تمام
دوستی کیجیے ان سے تو قیامت آمیز
مصلحت آپ نے شیوہ نہ بنایا ہوتا
لب پہ ہوتا نہ سخن اپنے شکایت آمیز
بن گیا ذہن میں احباب کے ایک وجہ شکوک
وہ سلوک آپ کا لوگوں سے مروّت آمیز
دورِ حاضر میں جو رکھتے ہو وفا کی امید
بھائی واحدؔ یہ رویّہ ہے حماقت آمیز
 

الف عین

لائبریرین
درد کم ہونے کو ہے باقی کسک رہ جائے گی
پھول باسی ہوچکے ہیں پر مہک رہ جائے گی
معصیت کے زنگ سے چھپتی ہے کب معصومیت
عہدِ پیری میں بھی طفلانہ ہمک رہ جائے گی
دورِ حاضر کے سرور افزا مناظر دیکھ کر
چشمِ پُر آشوب میں گہری کھٹک رہ جائے گی
ٹوٹ جائے گا چمن کا ہر سکوت دلفروز
گونجتی کانوں میں غنچے کی چٹک رہ جائے گی
راہروانِ شوق منزل تک پہونچ ہی جائیں گے
ماتم و گریہ کناں تنہا سڑک رہ جائے گی
 

الف عین

لائبریرین
قطعہ

چشم جاناں کہ مدّت سے نمناک ہے
صورتِ حال کافی غضبناک ہے
دیکھئے وقت آگے دکھاتا ہے کیا
ہے فضا سرد ماحول غمناک
 

الف عین

لائبریرین
غزل

لوگوں نے بدنام کیا ہے
کتنا اچھا کام کیا ہے
رازِ محبت ہمدردوں نے
بزم میں طشت از بام کیا ہے
سر پہ مسلط سب نے صاحب
ایک خیالِ خام کیا ہے
صلح کل اپنا مسلک ہے
دشمن کو بھی رام کیا ہے
اہل ہوس کو خود ہم نے ہی
جھک جھک کر پرنام کیا ہے
رات کو رو رو صبح کیا ہے
صبح کو جوں توں شام کیا ہے
میر صاحب نے ترک کیا ہے
ہم نے قبول اسلام کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
رہے تھے دشمنِ جاں بن کے جو سدا میرے
زہے نصیب بنے ہیں غم آشنا میرے
شکیب و صبر کے لبریز جام یوں چھلکے
لبوں پہ آ ہی گیا حرفِ مدعا میرے
مریضِ غم کا مسیحا کوئی علاج نہیں
فضول لائے ہیں کیوں درد کی دوا میرے
رہ حیات میں آئی ہے کیسی ویرانی
رفیق جتنے تھے سب ہوگئے جدا میرے
کہاں کہاں نہ گیا لے کے یہ جنون سفر
کہاں کہاں سے مٹاؤگے نقشِ پا میرے
 

الف عین

لائبریرین
لالہ و نرگس و گل سرو سمن کی تعریف
ہم نے ہر رنگ میں کی پورے چمن کی تعریف
کاکل و عارض ، لب و رخسار و چشم دہن کی تعریف
بہر عنواں کسی شعلہ بدن کی تعریف
ابر باراں کی کبھی نیّر تاباں کی ثنا
ماہ و نجم کی کہیں چرخِ کہن کی تعریف
موتیا حسن کی چمیلی کی حنا کی توصیف
عنبر و عود کی اور مشک ختن کی تعریف
خالقِ کل کی ہر ایک شے سے ہمارا ہے لگاؤ
ہے یہی اہلِ قلم اہل سخن کی تعریف
 

الف عین

لائبریرین
اے اہل خرد پنبہ بہ درگوش رہیں آپ
بہتر ہے کہ اس دور میں خاموش رہیں آپ
ہر فکر کو احساس کو دامن سے جھٹک دیں
مے نوش کریں خوب سی مدہوش رہیں آپ
ماحول سے مٹنے کی نہیں خنک مزاجی
سرگرم رہیں آپ کہ پرجوش رہیں آپ
کاشانہ ہستی میں کوئی دوست نہ دشمن
بے فکر ہیں سب آپ سے سنتوش رہیں آپ
سارے ہی گرفتاری کے سامان ہیں موجود
اس مملکت حسن میں روپوش رہیں آپ
دے خالقِ کل آپ کو وہ طاقتِ پرواز
خود بامِ ثریا سے بھی ہم دوش رہیں آپ
تنہائی تو ایک وصفِ خداوند ازل ہے
تنہائی سے بس اپنی ہم آغوش رہیں آپ
 

الف عین

لائبریرین
قطعہ اختتام

کوئی دلچسپی نہ باقی اب کسی محفل میں ہے
کاروانِ شوق کیا بتلاؤں کس منزل میں ہے
خامشی ہے اور تنہائی میں بس محبوب کا
ذکر سے بہتر تصور ہے جو میرے دل میں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ﴿٭٭٭٭﴾۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Top