رقصِ شرر۔۔ ع واحد

الف عین

لائبریرین
افسانۂ حیات کا عنواں بدل گیا
کیا کیجیے کہ آج کا انساں بدل گیا
یوسف کو بے گناہ اسیری میں ڈال کر
کچھ یوں ہوا کہ شہرِ نگاراں بدل گیا
اس چشمِ نیم باز کے بھر پور وار سے
ایک پیرِ خانقاہ کا ایماں بدل گیا
قوس قزح کے رنگ لچک کر بکھر گئے
رُوئے زمین سارا گلستاں بدل گیا
کچھ رمز گاہِ زیست میں ایسی گزرگئی
سارا تمیز مشکل و آساں بدل گیا
نوحہ کناں ہے کب سے زمانے کے حال پر
واحدؔ کے تھا جو ایک غزل خواں بدل گیا
 

الف عین

لائبریرین
دل پر ہے گراں ظلمتِ شب جاگتے رہئے
ہو اس کی سحر دیکھئے کب جاگتے رہئے
ہے کرب کا احساس ہی آسائش ہستی
ملحوظ رہے پاسِ ادب جاگتے رہئے
یاں کس کو پڑی ہے جو بنے درد کا درماں
اس دور کی ہر شے ہے عجب جاگتے رہئے
توحید کو مرغوب ہیں راتوں کی دعائیں
پھیلائیے کچھ دستِ طلب جاگتے رہئے
دہکائیے اشعار سے اِک آتشِ دلسوز
گرمائیے کچھ بزمِ طرب جاگتے رہئے
 

الف عین

لائبریرین
رات کیوں جدائی کی مختصر نہیں ہوتی
دوستو شبِ غم کی کیوں سحر نہیں ہوتی
روگ عشق کا دل کو ایک بار لگتا ہے
پھر دوا کوئی کیجیے کارگر نہیں ہوتی
تازہ حادثوں کی پھر زیست کو ضرورت ہے
یاد کے سہاروں پر اب گزر نہیں ہوتی
روزگار کے غم گرجاں گسل نہیں ہوتے
زندگی ہماری یوں در بہ در نہیں ہوتی
ظلم کرنے والے بھی جان تو گئے ہوں گے
آہ ہم غریبوں کی بے اثر نہیں ہوتی
ایک لمحہ مائل تو ایک لمحہ بے زاری
آپ کے ارادوں کی کچھ خبر نہیں ہوتی
شاعری میں گر واحدؔ جان و دل نہ مائل ہوں
شاعری تو ہوتی ہے معتبر نہیں ہوتی
 

الف عین

لائبریرین
چمن میں فصل بہار بھی اور زخم دل بھی ہرا ہرا سا
گلوں پہ شبنم گری گری سی لہو سے دامن بھرا بھرا سا
ابھی سے واعظ ہمارے آگے فضول ہے ذکرِ حور و کوثر
کہ فکرِ دنیا بہت ہے دل کو خیالِ عقبیٰ ذرا ذرا سا
نظامِ نو پاسبانِ عالم یہ کیسا ترتیب دے رہے ہیں
ہے ساری دنیا پہ خوف طاری ہر اک بشر ہے ڈرا ڈرا سا
صلح پر امن و آشتی پر تمہارا ایمان اٹھ گیا کیوں
نہ پوچھے واحدؔ سے کوئی ورنہ جواب دیں گے کھرا کھرا سا
 

الف عین

لائبریرین
زخم سے بڑھی قلب ناتواں کی گنجائش
کہکشاں کے دم سے ہے آسماں کی گنجائش
آرزو کے صحرا میں جستجو کی وادی میں
ہوگئی عیاں دل پر لامکاں کی گنجائش
شوق کا تلاطم بھی فکر کی فراوانی بھی
میرے جام میں بحرِ بیکراں کی گنجائش
حسن کی تجلّی بس مصر کی دوکانوں تک
عشق کے لیے کم ہے دوجہاں کی گنجائش
طے شدہ ازل سے ہیں قسمتیں زمانوں کی
کچھ نہیں یہاں واحدؔ این و آں کی گنجائش
 

الف عین

لائبریرین
آپ سے طرفہ تعلق ہے وفاداری کا
حوصلہ جس سے فزوں ہے مری غمخواری کا
کیجیے کس سے گلہ ظلم و جفاکاری کا
خود حلف ہم نے اٹھایا تھا وفاداری کا
رات اس شان سے کچھ یاد کسی کی آئی
راگ چھڑجائے کسی ساز پہ درباری کا
صورتِ بادِ صبا کیسی سبک رو تھی حیات
شائبہ تک نہ ذرا سا تھا گرانباری کا
میں کہ معصوم ازل باغ اِرم میں خوش تھا
راستہ کیوں یہ دکھایا ہے گنہگاری کا
رات دن جو خس و خاشاک جمع کرتے ہیں
رقص ایک روز دکھادو انہیں چنگاری کا
میں نے مانا کہ سخن فہم ہیں احباب میرے
ان پہ الزام نہ آجائے طرف داری کا
 

الف عین

لائبریرین
غم سے ہے یوں حیات وابستہ
جس طرح دن سے رات وابستہ
روزمرّہ کی زندگی سے ہیں
اس قدر حادثات وابستہ
کیا تعجّب وجودِ عالم سے
ہو کوئی واردات وابستہ
اِس تلاطم میں دیکھئے کب ہو
ہم سے شاخِ نبات وابستہ
بالیقیں راہِ میکدہ سے ہے
اپنی راہِ نجات وابستہ
ذکرِ حسن ازل کا تھا مقصود
ہوگئی ان سے بات وابستہ
میری رسوائیوں سے کیا کیجئے
آپ کی بھی ہے ذات وابستہ
 

الف عین

لائبریرین
آؤ کچھ خیر و شر کی بات کریں
کچھ اِدھر اُدھر کی بات کریں
آؤ خونِ جگر کو گرمائیں
آؤ پھر چشمِ تر کی بات کریں
آشیاں کا سکوں ہے جن کو عزیز
ان سے برق و شرر کی بات کریں
سن کے صحرا نورد ہنستے ہیں
ہم جو دیوار و در کی بات کریں
دعوتِ موت راحتِ منزل
ایک لمبے سفر کی بات کریں
 

الف عین

لائبریرین
ایک شیریں سخن کی بات کریں
ایک غنچہ دہن کی بات کریں
ایک شعلہ بدن کی بات کریں
آؤ ایک سیم تن کی بات کریں
مہر تاباں کے رخ پہ بوسہ دیں
مہ کی اُجلی کرن کی بات کریں
لالہ و گل کا ذکر تازہ ہو
نرگس ونسترن کی بات کریں
خلوتِ خانہ کچھ تو ہو آباد
اک حسیں انجمن کی بات کریں
 

الف عین

لائبریرین
ہے عشق میں نشاط بھی یوں غم کے ساتھ ساتھ
خوشیاں منائی جاتی ہیں ماتم کے ساتھ ساتھ
جو خانماں خراب کے برباد عشق ہے
خندہ بہ لب ہے دیدۂ پرنم کے ساتھ ساتھ
کیا کیجیے کہ عہدِ وفا جس کے ساتھ ہے
اس کے مزاج بدلے ہیں موسم کے ساتھ ساتھ
کرتے ہیں زخمِ دل کا یونہی چارہ گر علاج
نشتر لگائے جاتے ہیں مرہم کے ساتھ ساتھ
تشکیلِ نیک و بد سے ہے رنگینیٔ حیات
ابلیس کا بھی ذکر ہے آدم کے ساتھ ساتھ
 

الف عین

لائبریرین
آرزوئے دیرینہ پھر کوئی مچل نہ جائے
یونہی پھر کھلونوں سے آدمی بہل نہ جائے
حسن کا نظّارہ سوز آفتاب ڈھل نہ جائے
قافلہ بہاروں کا راستہ بدل نہ جائے
اک نگارِ محشر خیز زینت فسوں آمیز
موم کی بنی گڑیا دھوپ میں پگھل نہ جائے
محورقص ہے عریاں ظلم و جبر کی ملکہ
حرّیت کی دلہن کو یہ کہیں نگل نہ جائے
راہرو کی جرأت پر راہبر پریشاں ہیں
ٹھوکریں یہ کھا کھا کر ایک دن سنبھل نہ جائے
بادِ گلستاں کو اک احتیاط لازم ہے
کوئی گل کچل نہ جائے یا کلی مسل نہ جائے
خواب عہد جمہوری دور امن و آزادی
ایک حسرت ناکام دل میں ہے نکل نہ جائے
برموقع انتخابات پاکستان ۱۹۹۷ء
 

الف عین

لائبریرین
ایک سود و زیاں زیست کا مفہوم ہوا ہے
ایک درد ہے جو عشق سے موسوم ہوا ہے
دنیا کی عنایات سے ہی شاد تھا کب دل
یا کون سا آفات سے مغموم ہوا ہے
تاریخ کا رخ موڑدے کیا جانئے کس سمت
صفحہ جو ابھی خون سے مرقوم ہوا ہے
پھر دل کی زمیں گریہ سے ذرخیز ہوئی ہے
پیدا کوئی پھر جذبۂ معصوم ہوا ہے
وہ ترکِ مئے ناب کی تعلیم تھی جن سے
وہ خود بھی پرستار ہیں معلوم ہوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
چمن میں نغمہ خواں اے دوست بلبل اب بھی ہوتا ہے
کہ جس سے اعتبارِ لالہ و گل اب بھی ہوتا ہے
خوشا باقی ہے اب بھی اہلِ دل کی گرمیٔ محفل
کہ ذکرِ چشم و لب رخسار و کاکل اب بھی ہوتا ہے
قلم سے حسن کی تعریف کچھ اپنا بھی شیوہ ہے
تصور میں کوئی جان تغزل اب بھی ہوتا ہے
خرد کی گفتگو کیا کیجیے بے ربط ہوتی ہے
جنوں کی بات میں اپنی تسلسل اب بھی ہوتا ہے
کسی کے ساتھ ساری عمر گذری ہے مگر اس کو
وہی ایک عارفانہ سا تجاہل اب بھی ہوتا ہے
جفاکاری میں ثانی تو کوئی اس کا نہیں لیکن
اسے بے مہر کہنے میں تامل اب بھی ہوتا ہے
تیرے مسجود کل ہونے سے کب اللہ منکر ہوں
پہ روز و شب کے سجدوں میں تغافل اب بھی ہوتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
چمن میں میرا آشیانہ تو ہے
چھپانے کو سر ایک ٹھکانہ تو ہے
خوشی کا مری کچھ بہانہ تو ہے
حقیقت نہ ہو اک فسانہ تو ہے
سکوں ہے کہ صحرا کی اس دھوپ میں
کہیں پر کوئی شامیانہ تو ہے
بہاروں نے برتی ہے گو بے رخی
سلوکِ خزاں دوستانہ تو ہے
بہ فیضانِ رنج و الم ہی سہی
لبوں پر میرے ایک ترانہ تو ہے
نصیبوں کی ہوگی کبھی یاوری
کہ گردش میں سارا زمانہ تو ہے
علی گڑھ کا دانش کدہ آج بھی
ایک علم و ادب کا خزانہ تو ہے
برائے یومِ سرسیّد ۱۹۹۷ء
 

الف عین

لائبریرین
دیکھ کر روئے زیبا کی تابندگی
ماند ہے ماہ و انجم کی رخشندگی
حسن کو کیا ضرورت حجابات کی
بوالہوس کو ہے احساسِ شرمندگی
غیر لطف و کرم سے نوازے گئے
ہم اطاعت سے کرتے رہے بندگی
نہ توقع کسی سے نہ شکوہ کوئی
بس گذاری اسی طور سے زندگی
مہ جبینوں کی محفل میں اپنے سوا
عشق کی کون کرتا نمائندگی
عہد حاضر میں سب فرق ہی مٹ گئے
کیسی پاکیزگی اور کیا گندگی
 

الف عین

لائبریرین
ہر جنوں کی رسم ایک دن معتمد ہوجائے گی
باعثِ رسوائی اہلِ خرد ہوجائے گی
گر تصرف کا یہی عالم زمانے میں رہا
ہر ذرا سی بات پر داد و ستد ہوجائے گی
ہاں یونہی طبقات کی جاری رہے گی کشمکش
کشمکش پھر ایک دن جدوجہد ہوجائے گی
صورتِ حالات کچھ ہوجائے گی تشویشناک
جبر و استبداد کی جس روز حد ہوجائے گی
دہر کو لازم ہے ارباب سخن کا احترام
بات یہ جو بھی کہیں گے مستند ہوجائے گی
 

الف عین

لائبریرین
رودادِ غمِ عشق سنا کیوں نہیں دیتے
پتھر کے بنے بت کو رلا کیوں نہیں دیتے
اک راز کے سینے میں چھپا رکھا ہے کب سے
وہ راز زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے
قائم ہے تمیز ہوس و عشق کے جن سے
ان اپنے رقیبوں کو دعا کیوں نہیں دیتے
شاعر کے تفکر سے بدلتی نہیں دنیا
ہر نقش کہن خود ہی مٹا کیوں نہیں دیتے
واحدؔ کہ دھنی کہتے ہیں الفاظ کا خود کو
الفاظ سے پھر آگ لگا کیوں نہیں دیتے
 

الف عین

لائبریرین
ہے ادارے کی غرض خلق خدا کی تعلیم
ہم کو سیّد سے ملی مہر و وفا کی تعلیم
اب بھی اقرا کی روایات یہاں تازہ ہیں
اب بھی جاری ہے یہاں غارِ حرا کی تعلیم
یوں مٹایا ہے جہالت کو جہاں سے جیسے
پرتو خور سے ہو شبنم کو فنا کی تعلیم
خالقِ کون و مکاں سے یہ دعا ہے کہ بنے
فکر و دانش کا سبب ارض و سماء کی تعلیم
حکمت و علم سے بستی مری آباد رہے
حاصل بزم رہے فہم و ذکا کی تعلیم
بہ موقع یومِ سرسیّد ۱۹۹۸ء
 

الف عین

لائبریرین
عجب رسم دوراں زمانے عجیب
رہِ شوق کے ہیں فسانے عجیب
تصرف کی دنیا کا ہے فیض عام
لٹائے گئے ہیں خزانے عجیب
فروغِ ہوس نے ذرا دیکھئے
تراشے ہیں کیسے بہانے عجیب
تصور کو ہے قوتِ خواب کم
حقیقت کے منظر سہانے عجیب
گلوں کو ہے احساسِ قرب خزاں
ہیں بلبل کے لب پر ترانے عجیب
 

الف عین

لائبریرین
دن گزرتے نہیں اب اشک کے آہوں کے بغیر
کاٹنا رات غضب ہے تیری باہوں کے بغیر
فرحتِ روح نہیں کچھ تیری صورت کے سوا
دل کو تسکین ہے کب تیری نگاہوں کے بغیر
ابن آدم کو ہے کیوں پھر کسی جنت کی تلاش
حسن سے زیست ہے محروم گناہوں کے بغیر
حاکمِ وقت نے کیا خوب کیا ہے انصاف
جرم عائد ہیں کئی ہم پہ گواہوں کے بغیر
غیر بستی کو وطن اپنا بنانا چاہا
نہ بنا کچھ بھی کفالت کے پناہوں کے بغیر
 
Top