رقصِ شرر۔۔ ع واحد

الف عین

لائبریرین
مرغ باد پیما

جانے ابرِ باراں ہیں روئی کا یا گالا ہیں
وہ سبک سری گویا گھاس کا یہ تنکا ہیں
ہو جدھر ہوا کا رخ آپ کا ادھر ہے رخ
مختصر کہ بس حضرت مرغِ بادپیما ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ذکر جب چھڑگیا قیامت کا

عصر حاضر کا واقعہ جس کو
ایک المناک سانحہ کہئے
سارے عالم کے واسطے افسوس
باعثِ شرم باعثِ غم ہے
چند بد بخت نوجوانوں کی
خودکشی سے ہوئی تھی وابستہ
دوعمارات کی تباہی بھی
کارکن جن میں تھے چہار ہزار
جن کی لاشوں کا لگ گیا انبار
آخرش یہ کہاں کی حکمت ہے
حل نکالیں تنازعات کا ہم
عام انسانوں کو بنا کے شکار
ہے تعجب کے آج تک موجود
ہم میں چنگیز اور ہلاکو ہیں
ذکر جب چھڑگیا قیامت کا
لامحالہ یہ بات پہنچے گی
ناگاساکی و ہیروشیما کی
غم میں ڈوبی ہوئی کہانی تک
دو شہر بس پلک جھپکتے ہی
صفحۂ ہستی سے ہوگئے نابود
کوئی دو لاکھ بے گناہ افراد
جن کی لاشوں کا بن گیا انبار
اس ہلاکت کا دیکھ کر منظر
طفلِ مکتب دکھائی دیتے ہیں
سارے چنگیز بھی ہلاکو بھی
عالمِ نو کے تاجداروں سے
ایک معصوم سا سوال ہے بس
کس کو ٹھہرائیں اس کا ذمہ دار
 

الف عین

لائبریرین
بیعتِ رضوان

حجر اسود
ممکن ہے یہ
ایک شہاب ثاقب ہی ہو
کچھ بھی ہو
آیا ہے فلک سے
اسماعیل کے ہاتھوں ہاتھو ں
ابراہیم کے ہاتھو ں پہنچا
ابراہیم نے اپنے ہاتھوں
کعبے کی بنیاد میں رکھا
وقت نے اس عرصے میں کتنے
تیور بدلے
رنگ دکھائے
تاج اچھالے
تخت گرائے
وہ دن آیا
سرورِ عالم نے جس دن خود
دستِ مبارک سے اپنے بھی
دوبارہ ازراہِ مرمت
کعبے میں اس کو چنوایا
برسوں کی ہے بات پرانی
وقت نے اس عرصے میں کتنے
تیور بدلے رنگ دکھائے
ماہ وسال کے پردے ڈالے
لیکن اس دستور نے آخر
سب پردوں کو نوچ گرایا
کوئی بھی دل
رکھے عقیدت
جو ابراہیم سے
آج بھی چاہے
دستِ رسول پاک پہ بیعت
جاکر یہ پتھر چھو آئے
 

الف عین

لائبریرین
مراجعت

گولیاں چلنے کی آتی ہے صدا جلیانوالہ باغ سے
گونجتا ہے ناگاساکی میں دھماکا آج تک
ہیروشیما کے شہر پر اک دھویں کا غول ہے
بے کفن بے گور لاشے ہیں شتیلا کیمپ میں
گاؤں پر مِی لائی کے چھایا ہے سناٹا مہیب
گر دمیں اب بھی سوویٹو کی یونہی لپٹا ہوا
رقص ماتم خیز ہے
ساحل دینوب سے
کتنے پیغام اذیت روز وشب آتے رہے
اور اب گجرات سے
لائی ہے پھر بادِ سموم
بیشتر افراد کے جسموں کے جل جانے کی بو
ارتقائے آدمیت کی یہی منزل ہے وہ
صدق دل کے ساتھ اب راضی ہے خود ابلیس بھی
مان لے اپنا خدا
نسل انسانی کے ہیبت ناک ان ارباب کو
بے تامّل بارگاہِ شرف میں
رہ گیا تھا قرض جو سجدہ اسے کردے ادا
 

الف عین

لائبریرین
تسلّی

جام جمشید کی ارزانی پر
ہیں تاسف کا شکار
میں بھی اور میراقلم
جب بھی ہم دونوں پہ مایوسی ہوئی ہے طاری
چاہے جھوٹی ہی سہی
اپنی تسلی کے لیے
زیرلب بس یہی سرگوشی ہوئی ہے اکثر
آج کے دور کے انسا ں کی شناخت
ماسوا ڈاٹ۔یا کام،
اور کچھ بھی تو نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
روایتوں سے عہد نو بغاوتوں کا سلسلہ
امانتوں میں ہر قدم خیانتوں کا سلسلہ
لگاوٹوں کا سلسلہ عداوتوں کا سلسلہ
ہے زندگی خدارکھے حماقتوں کا سلسلہ
حیات عہد نو میں اب کہاں کسے نصیب ہیں
وہ روز و شب کی فرصتیں فراغتوں کا سلسلہ
فریب و مکر ہی سے اس جہان کی ہیں رونقیں
خیال و خواب ہوگیا شرافتوں کا سلسلہ
لجھ کے مصلحت کے پیچ و خم میں آج رہ گیا
کسی عزیز دوست کی صداقتوں کا سلسلہ
خوشی کے بعد دورِ غم حیات کا اصول ہے
حضور رہنے دیجیے عنایتوں کا سلسلہ
ہزار بے گناہ تھے جو جان و دل گنواگئے
نہ رک سکا جناب کی شرارتوں کا سلسلہ
طبیعتوں نے واقعی مزا تو زیست کا لیا
شروع ہوا پر عشق سے رقابتوں کا سلسلہ
ہوس کی آگ بجھ کے بھی سکونِ دل نہ دے سکی
عذابِ جان ہوگیا ندامتوں کا سلسلہ
جناب شیخ کو ملی طہور ہی نہ حور ہی
قبول ہو سکا نہ کچھ عبادتوں کا سلسلہ
لہو نہ ان میں دل کا ہو تو واعظو فضول ہے
نصیحتوں کا آپ کی ہدایتوں کا سلسلہ
جواں ہوئی ہے پھر کسی سے چاہتوں کی آرزو
گذرچکا ہے ہجر میں قیامتوں کا سلسلہ
محبتوں کا قافلہ مسرتوں کا کارواں
اے میرے ہم نفس تیری شکایتوں کا سلسلہ
خدا کرے کہ بزم میں یونہی صدا جواں رہے
وہ تیری بزلہ سنجیوں ظرافتوں کا سلسلہ
کلام حق سے ہم کو بھی عطا ہوا ہے دوستو
فصاحتوں کا یہ سخن بلاغتوں کا سلسلہ
 

الف عین

لائبریرین
ذوق تھے نہ غالب تھے نہ میر تھے نہ سودا تھے
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
رنگ اس طرح لائیں فاقہ مستیاں اپنی
قرض دینے والے سب شامل جنازہ تھے
مصروفِ حیات اپنا صرف یہ سمجھ پائے
دہر کی ضرورت تھے وقت کا تقاضہ تھے
تھی ہوس کی دنیا میں خوب گرم بازاری
پیار اور محبت کے ہم ہی نام لیوا تھے
عشق میں عداوت کا کچھ نہ کچھ تو حصہ تھا
دوست کے خدا رکھے سب ستم گوارا تھے
حسرتِ نظّارہ نہ کی تھی جلوہ آرائی
دار پر جو تھے منصور طور پر جو موسیٰ تھے
خاتم النبوت کا سب طفیل ہے واحدؔ
رازِ معرفت ورنہ کس پہ اتنے افشا تھے
 

الف عین

لائبریرین
قانون بن رہے ہیں اعلان ہورہے ہیں
سرگرم پھر سیاسی ایوان ہورہے ہیں
پھر دوستوں سے عہد و پیمان ہورہے ہیں
پھر قتل کے ہمارے سامان ہورہے ہیں
صدیوں کی دوستی کو بالائے طاق رکھ کر
انجان بن رہے ہیں حیراں ہورہے ہیں
یوں مل رہے ہیں جیسے پہلے پہل ملے ہوں
اس سادگی پہ ہم بھی قربان ہورہے ہیں
آسودگی کا اپنی واں ذکر ہورہا ہے
خانہ بدوش ہیں یاں ویران ہورہے ہیں
وعدے بھی ہورہے ہیں کچھ ہم سے خوں بہا کے
کیا کیا ہمارے اوپر احسان ہورہے ہیں
صحن چمن کی رونق رنگوں میں بٹ رہی ہے
انسانیت کے دشمن انسان ہورہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
غیر کی انجانی بستی میں کون سنے گا دل کی بات
دل ہی دل میں رہ جاتی ہے ہائے ہمارے دل کی بات
ایسے بھی دیوانے پن کا کیا کیجیے جو کرتا ہو
ایک نئی منزل پہ پہونچ کر اور کسی منزل کی بات
اور زیادہ اہل محفل کیا امیدیں رکھتے ہیں
ہم تو کب کے مان چکے ہیں اپنے ہی قاتل کی بات
سیل و حوادث رنج و کلفت سب اپنا ہی حصہ ہیں
طوفانوں میں خوش رہتے ہیں کیا سوچیں ساحل کی بات
سچ ہے یورپ کے مے خانوں کے انداز نرالے ہیں
بات جو اپنی خلوت کی تھی ہے وہ یہاں محفل کی بات
اپنوں سے بھی کیا کہتے ہم اپنے بھی تو کرتے ہیں
وہی ضرب و تفریق کے جھگڑے جمع کی حاصل کی بات
رنگ بدلتی اس دنیا میں کس کو فرصت یاد رکھے
لیلیٰ مجنوں کے افسانے قافلہ و محمل کی بات
 

الف عین

لائبریرین
حرص و ہوس پہ طمع پہ مائل نہیں ہوئے
پھیلا کے دست غیر سے سائل نہیں ہوئے
عشق بتاں سے دور کا ہی سلسلہ رہا
مصروفِ ذکر حور و شمائل نہیں ہوئے
حسن و رقیب پیش نظر آئے تب بھی ہم
دیوار بن کے بیچ میں حائل نہیں ہوئے
کیا مشکلیں تھیں جن کو نہ آسان کرسکے
وہ کون سے تھے حل جو مسائل نہیں ہوئے
ورثے میں جو ملے تھے بزرگوں سے کچھ اصول
اب بھی عزیز جان ہیں زائل نہیں ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
لبھائی اس قدر کچھ سخت کوشی
کہ شیوہ بن گیا خانہ بدوشی
نہ اب محمود جیسے بت شکن ہیں
نہ آزر ہیں نہ رسمِ بت فروشی
نہ کوئی مونس و ہمدرد باقی
محبت ہے کہیں نہ گرم جوشی
وہاں پر دور ہے رقص و طرب کا
یہاں گوشہ نشینی اور خموشی
کہیں رنگینیوں میں کھو نہ جائے
ہماری صاف گوئی سادہ پوشی
 

الف عین

لائبریرین
عالم ایک عجب تصویر
ہم تنہا اور جمِّ غفیر
جب نہ دوا میں ہو تاثیر
زہر کا پیالہ ہے اکسیر
ہو شاید موقوف بہار
لاؤ پہن لیں ہم زنجیر
تنہائی سے رغبت ہے
معاف کریں میری تقصیر
٭آپ کی ضد یاں لائی ہے
آپ ہیں مرشد آپ ہیں پیر
پیار محبت راس نہیں
کون پکائے ٹیڑھی کھیر
شاعر بن کے اے واحدؔ
مارلیا کیا آپ نے تیر
آپ سے پہلے اور کئی تھے
مومنؔ غالبؔ سوداؔ میرؔ
٭یہ شعرConventry کی ایک ادب نواز شخصیت کے تخاطب میں لکھا گیا اور مشاعرہ میں پڑھا گیا تھا
 

الف عین

لائبریرین
شیخ و سید ہیں خان ہیں ہم لوگ
مغلیہ خاندان ہیں ہم لوگ
محفل نغمہ و سرور میں ایک
المیہ داستان ہیں ہم لوگ
تاجرانہ ہیں سارے رسم و رواج
چلتی پھرتی دوکان ہیں ہم لوگ
عالمِ رنگ و بو میں کیوں یارب
موردِ امتحان ہیں ہم لوگ
ظلم کے دور میں بھی جیتے ہیں
کس قدر سخت جان ہیں ہم لوگ
 

الف عین

لائبریرین
جاتی ہوئی صدی کی کرامت تو دیکھئے
دورِ جدید کی یہ حکایت تو دیکھئے
خالصِ مغلظات ہوئیں شامل ادب
انگلش زبان کی یہ بلاغت تو دیکھئے
گذرے تعصّبات ہوئے پھر سے تازہ دم
کچھ ذہنی مفلسی کی یہ حالت تو دیکھئے
مقصد حصولِ زر ہے عقیدہ نہ کچھ اصول
پاتی ہوئی فروغ تجارت تو دیکھئے
شیطان بن کے پائے ادیبوں میں جو مقام
موقع پرست شخص کی جرأت تو دیکھئے
ناشر بھی علم و فن کے جسے خوب ہی ملے
بیٹھے بٹھائے سب کی شرارت تو دیکھئے

شیطانی آیات (Satanic Verses )کی اشاعت پر
 

الف عین

لائبریرین
اپنوں سے ہوئے غافل ہم دیدہ و دانستہ
غیروں میں ہوئے شامل ہم دیدہ و دانستہ
نغمے تھے جواں رات بھی کچھ بھیگ چلی تھی
چھوڑ آئے تیری محفل ہم دیدہ و دانستہ
ہیں طوق و سلاسل تو کہیں دار و رسن ہے
کرتے ہیں یہاں منزل ہم دیدہ و دانستہ
وہ بحر کی آغوش وہ طوفان کی لوری
خود بھول گئے ساحل ہم دیدہ و دانستہ
درویش کا تھا قہر بھلا کس پہ اتراتا
اپنے ہی بنے قاتل ہم دیدہ و دانستہ
ویرانے کی جانب ہو جو رخ بادِ صبا کا
راہوں میں بچھادیں دل ہم دیدہ و دانستہ
بنتے ہوئے دیکھی جو تیری بزم تماشہ
خلوت کے ہوئے قائل ہم دیدہ و دانستہ
 

الف عین

لائبریرین
غزل (نذر فلسطین)
آشفتہ سر جن کو سمجھے تھے جہاں والے
نکلے وہی دل والے نکلے وہی جاں والے
مجبور نے آداب جنوں سیکھ لئے ہیں
ہر لحظہ پریشاں ہیں شیشے کے مکاں والے
تاریخ نظر آتی ہے انگشت بہ دنداں
نکلے ہیں کفن باندھے پھر عزمِ جواں والے
کہہ دو کہ ندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا
آئے ہیں بڑے زعم سے شمشیر و سناں والے
آنکھوں میں فلسطین کے اب خشک ہیں آنسو
مرجانے پہ آمادہ ہیں آہ و فغاں والے
 

الف عین

لائبریرین
داستانِ دل ناکام نہیں کہہ سکتے
مفت ہوجائیں گے بدنام نہیں کہہ سکتے
قصۂ زلف سیاہ فام نہیں کہہ سکتے
یہ حکایت بہ سرِ عام نہیں کہہ سکتے
وہ ہوس تھی کہ محبت کہ جنوں کا آغاز
ایک خلش یونہی سی بے نام نہیں کہہ سکتے
اور گزرے ہیں مکیں آپ سے پہلے کتنے
گھر کے خاموش در و بام نہیں کہہ سکتے
عظمتِ رفتہ کی یادوں پہ گزارا کب تک
یہ کہانی سحر و شام نہیں کہہ سکتے
رنج و کلفت ہی اگر زیست کا سرمایہ ہے
کس طرح آئے گا آرام نہیں کہہ سکتے
ہم نے مانا کہ بہت ترش ہیں اس کے انداز
پیار کی بات کو دشنام نہیں کہہ سکتے
قتل کے بعد وہ آثار پشیمانی کے
ابتدا ہے اسے انجام نہیں کہہ سکتے
مہہ کنعاں کے لئے باعث جاہ و منصب
حادثہ تھا جسے نیلام نہیں کہہ سکتے
ہاہاں مچا رہتا ہے مسجد میں جو واعظ کے سبب
شور غوغہ اسے اسلام نہیں کہہ سکتے
ضعف سے ہوگئی کمزور نظر پر تم کو
ہم پری چہرہ و گلفام نہیں کہہ سکتے
 

الف عین

لائبریرین
یونہی آج بھولے سے جانے کس کی یاد آئی
سونی سونی بستی میں گونجتی ہے شہنائی
مطربہ نے لہرا کر ساز پر غزل چھیڑی
چوٹ سی لگی دل پر آنکھ سب کی بھر آئی
حسن کا وہی غمزہ عشق کے وہی تیور
آپ سے نہ ملنے کی ہم نے پھر قسم کھائی
ذوقِ بزم آرائی اُن کو اور دے یارب
ان دنوں زہے قسمت جن سے ہے شناسائی
انجمن سے وابستہ کم نگاہیاں اپنی
وسعتِ نظر چاہے ایک دشتِ تنہائی
 

الف عین

لائبریرین
پھر دل کو محبت کا طلبگار نہ کیجیے
اپنے لیے پھر خواہش آزار نہ کیجیے
اول ہی سے اس دور میں آسان نہیں زیست
لِللّٰہ اسے اور بھی دشوار نہ کیجیے
خوباں جو اگر رات کو دن، دن کو کہیں رات
تب خیر اسی میں ہے کہ تکرار نہ کیجیے
کیا کیجیے ہم طنز کی عادت سے ہیں مجبور
دنیا سے گزارش ہے ہمیں پیار نہ کیجیے
یکساں ہے زمانے میں ہوس اور محبت
بہتر ہے کہ ذکرِ لب و رخسار نہ کیجیے
پینے کے لیے ویسے مناسب ہے یہ دستور
مل جائے اگر مفت تو انکار نہ کیجیے
واحدؔ کو کوئی پیر یا ملّا نہ سمجھئے
اس بندہِ عاجز گو گنہگار نہ کیجئے
 
Top