اے مرے معبود
حدیں ضرور تھیں لیکن خیال سے آگے
ازل سے لے کے ابد کے لیے رواں تھا وقت
کئی سکوت کے طوفاں خموش طغیانی
بُنے ہوئی تھی طلسموں کا جال کائنات
خلا میں راہ بھٹکتا ہوا مسافر ایک
نہ جانے کس لیے کچھ یوں صدائیں دینے لگا
میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں اے میرے معبود
چھپا ہواہے کہاں تو میری نگاہوں سے
زباں سے جیسے نکل کر سہم گئی آواز
نہ کوئی برق گری اور کہیں نہ طور جلا
الاؤ بیچ میں سورج کے تیز جلتے رہے
زمین چاند کو لے کر کشش کی باہوں میں
طواف کرتی رہی خامشی سے محور پر
زحل۔عطارد و زہرا و مشتری مریخ
کسی نے کچھ نہ سنا صرف رقص کرتے رہے
کہیں افق پہ نگاہوں سے دور سورج کی
حسین قوس قزح دیر تک لچکتی رہی
بہت سے رنگ نکھرتے رہے بکھرتے رہے
چراغ جلتے رہے کہکشاں کے راہوں میں
فضا میں نور کے ذرے بھی جھلملاتے رہے
کسی نے کچھ نہ سنا، نا کسی نے کچھ ہی کہا
صدائیں لوٹ کے بس آگئیں مسافر کی
میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں اے مرے معبود
چھپا ہوا ہے کہاں تو میری نگاہوں سے