رقصِ شرر۔۔ ع واحد

الف عین

لائبریرین
اے مرے معبود

حدیں ضرور تھیں لیکن خیال سے آگے
ازل سے لے کے ابد کے لیے رواں تھا وقت
کئی سکوت کے طوفاں خموش طغیانی
بُنے ہوئی تھی طلسموں کا جال کائنات
خلا میں راہ بھٹکتا ہوا مسافر ایک
نہ جانے کس لیے کچھ یوں صدائیں دینے لگا
میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں اے میرے معبود
چھپا ہواہے کہاں تو میری نگاہوں سے
زباں سے جیسے نکل کر سہم گئی آواز
نہ کوئی برق گری اور کہیں نہ طور جلا
الاؤ بیچ میں سورج کے تیز جلتے رہے
زمین چاند کو لے کر کشش کی باہوں میں
طواف کرتی رہی خامشی سے محور پر
زحل۔عطارد و زہرا و مشتری مریخ
کسی نے کچھ نہ سنا صرف رقص کرتے رہے
کہیں افق پہ نگاہوں سے دور سورج کی
حسین قوس قزح دیر تک لچکتی رہی
بہت سے رنگ نکھرتے رہے بکھرتے رہے
چراغ جلتے رہے کہکشاں کے راہوں میں
فضا میں نور کے ذرے بھی جھلملاتے رہے
کسی نے کچھ نہ سنا، نا کسی نے کچھ ہی کہا
صدائیں لوٹ کے بس آگئیں مسافر کی
میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں اے مرے معبود
چھپا ہوا ہے کہاں تو میری نگاہوں سے
 

الف عین

لائبریرین
یار ب ذوالجلال
یارب ذوالجلال یہ کیسا مذاق ہے
ہے زندگی وبال یہ کیسا مذاق ہے
مشکل ہے عرضِ حال یہ کیسا مذاق ہے
جینا ہے بس محال یہ کیسا مذاق ہے
منکر ترے وجو د کے اس کائنات میں
ہیں شاد اور نہال یہ کیسا مذاق ہے
کاشانۂ حیات پہ ڈالو جدھر نظر
ہے جنگ اور جدال یہ کیسا مذاق ہے
چھوٹی سی بات ہو کہ نکل آئیں ہر طرف
تلوار اور ڈھال یہ کیسا مذاق ہے
نومشق لے کے بیٹھ گئے زندگی کا ساز
سُرہے نہ کوئی تال یہ کیسا مذاق ہے
تالے پڑے ہوئے ہیں بزرگوں کی عقل پر
زیرک ہیں نونہال یہ کیسا مذاق ہے
مفلس کے حالِ زار پہ کچھ اور طعنہ زن
واعظ کا قیل وقال یہ کیسا مذاق ہے
روزِجزا کاذکر اگر لے کے بیٹھئے
کہتے ہیں مہہ جمال یہ کیسا مذاق ہے
حوروں کی بات ہوتو کہیں اپنی عمر کا
کچھ کیجئے خیال یہ کیسا مذاق ہے
ہے زندگی تمام شبِ ہجر کی مثال
ممکن نہیں وصال یہ کیسا مذاق ہے
اس اختصارِ زیست پہ سر میں سما ہوا
ہے عشقِ لازوال یہ کیسا مذاق ہے
راہِ نجات تو ہی دکھا صاحب الکمال
یا صاحب الکمال یہ کیسا مذاق ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
حدود

خلاؤں کی اور کائناتوں کی حد
ستاروں کی اور آسمانوں کی حد
زمیں کی زمیں کی فضاؤں کی حد
سمندر کی حد اور خشکی کی حد
ممالک کی حد براعظم کی حد
سیاست کی حد حکمرانوں کی حد
حسابوں کی حد گوشواروں کی حد
اصول و قوانین و آئیں کی حد
ولادت کے اور موت کے درمیاں
ہر اک سانس لینے والے کی حد
جرائم کی حد کفر و ایماں کی حد
کلیسا کی کعبہ کی مسجد کی حد
مدرسے کی حد درسگاہوں کی حد
علوم وفنون و مہارت کی حد
دوکانوں کی حد شاہراہوں کی حد
مکانوں گھروں قحبہ خانوں کی حد
خدایا تیری ذات برحق تجھے
سروکار حد و کراں سے نہیں
تیری مصلحت تیرے انصاف پر
تحیّر کا بندہ گنہگار ہے
عبادت گزاروں میں تیرے کوئی
شرارت پہ آمادہ کیسے ہوا
خطاوار جنت میں آدم ہوئے
گرفتار مخلوق کل ہوگئی
 

الف عین

لائبریرین
بارِ امانت


انجم و کہکشاں پہ خاموشی
فکر مندی میں غرق شمس و قمر
آسماں سر جھکائے شرمندہ
معذرت خواہ سارے ارض و سما
چار سو محویت کا اک عالم
اور ملائک تمام سجدے میں
جو توقع تھی ہوگئی ناکام
بوجھ سارا تیری امانت کا
میں نے تنہا اٹھالیا معبود
 

الف عین

لائبریرین
تعارف


قادیانی ہوں نے وہابی ہوں
اشتراکی نہ انقلابی ہوں
صرف اتنی سی داستاں ہے میری
شہرِ لندن کا اک شرابی ہوں
 

الف عین

لائبریرین
گجر بجے بٹن دبے
شراب خانے کھل گئے
گلاس جگمگا گئے
نگاہوں میں سما گئے
وہ ہپی شاہزادیاں
گلوں میں باندھے گھنٹیاں
لباس تار تار میں
نکل کے گھر سے آگئیں
سماج ہی کی بیویاں
سماج ہی کی بیٹیاں
ہنسیں گی اور ہنسائیں گی
افیم وبھنگ کھائیں گی
نظارۂ حسین کے
عظیم چترکار بھی
کسی طرف چلے گئے
اکیلا ان کو چھوڑ کے
تھکے ہوئے نظام کی
یہ شام بھی کہاں ہوئی
چلو اب آگے بڑھ چلیں
یہاں ٹھہر کے کیا کریں
 

الف عین

لائبریرین
تارکین وطن کا شکوہ

کیوں نمک خوار بنوں سود فراموش رہوں
ذکرِ ماضی نہ کروں محو غم دوش رہوں
باتیں پاویل کی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ٹوڈی بچہ تو نہیں ہوں جو میں خاموش رہوں
جرأت آموز میری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ افرنگ سے خاکم بہ دہن ہے مجھ کو
نت نئے ناموں سے اس نگری میں مشہور ہیں ہم
کیا کریں وقت ہی ایسا ہے کہ معذور ہیں ہم
غیر بستی میں ہیں اپنوں سے بہت دور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
ہم غریب الوطنوں کی یہ صدا بھی سن لے
زنہ رہا وقت قصیدوں کا گلہ ہی سن لے
یاد تو ہونگے وہ دن صاحبِ الطاف وعمیم
حکمراں ہم پہ تھی جب آپ کی ذات قدیم
ہند و سیلون پہ برما پہ حکومت تھی عظیم
بوئے گُل چوس کے لے آئی تھی کلیوں کی شمیم
جانے کیا آپ کی امت کو پریشانی تھی
سونے چاندی کے خزانوں پہ جو دیوانی تھی
کس نے میسور کی کانوں کے خزانے لوٹے
تاج کے قیمتی یاقوت وہیرے لوٹے
چاک خلعت بھی کئے ان کے بھی لیرے لوٹے
ہند کو خالی کیا ساتھ جزیرے لوٹے
تاج تو تاج رہا تخت نہ چھوڑے تم نے
تخت طاوس پہ دوڑادیے گھوڑے تم نے
تلخ ہوجائے حقیقت تو بھلادیتے ہیں
ہوش آجائے تو کچھ اور پلادیتے ہیں
میری سرکار میرے دل کو ہلادیتے ہیں
میزبانی کا پرانی یہ صلہ دیتے ہیں
غل مچارکھا ہے اس دیس سے کالے جائیں
آکے بیٹھے بھی نہیں ہیں کہ نکالے جائیں
بس رہے ہیں یہاں اٹلی کے بھی یونانی بھی
ہیں فرانسیسی بھی کچھ چینی وجاپانی بھی
عربی بھی ہیں یہاں ترکی وایرانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی ہیں نصرانی بھی
کیوں یہ ہم سے ہی گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
تیری ریلوں کو زمیں دوز چلایا کس نے
ڈاک خانوں میں تیرے سر کو کھپایا کس نے
مدرسوں میں تیرے بچوں کو پڑھایا کس نے
کارخانوں میں مشینوں کو گھمایا کس نے
اسپتالوں میں مریضوں کو شفایاب کیا
خود تو ناشاد رہے اوروں کو شاداب کیا
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
جی چراتے تھے یہاں کام سے بے حد لوفر
بیٹھے رہتے تھے شب و روز پبوں میں جاکر
گالیاں بکتے تھے بس خوب نشے میں آکر
سخت محنت سے ہماری ہی بنا کام تیرا
ورنہ لیتا نہیں دنیا میں کوئی نام تیرا
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی ہم نے
زندگی یاں کی ٹھکانے سے لگائی ہم نے
غم سہے بھوک کی تکلیف اٹھائی ہم نے
آج تک مفت کی روٹی نہیں کھائی ہم نے
تیری سرکار کے چندوں پہ تو کم رہتے ہیں
اپنی محنت کی کمائی ہی پہ ہم رہتے ہیں
کاش اس خواب سے غافل کبھی بیدار تو ہوں
اس تعصب کے نشے سے کبھی ہوشیار تو ہوں
ان خطرناک مسائل سے خبردار تو ہوں
کاش اس دیس میں کچھ حق کے طلبگار تو ہوں
جن کی نظروں میں سبھی ایک ہوں حبشی و فرنگ
ہو کوئی ان کی نسل اور نہ تفریق نہ رنگ
نازیوں کو نہ بنے پالنے والی دنیا
بھائی پاویل سے ہو بس اتنا سوالی دنیا
مہربانی ہو اگر کردیں جو خالی دنیا
اور جہنم میں بسائیں وہ خیالی دنیا
رومل و ہملر و ہٹلر کا سہارا لے کر
ڈھونڈ لیں ان کو چراغِ رخ زیبا لے کر

۔۔۔۔۔
(پاویل صاحب نے برطانہ سے ہندوستانیوں پاکستانیوں کو نکالے جانے کی بات اٹھائی تھی)
 

الف عین

لائبریرین
دوشرابی

ایک شرابی ہندوستانی
ایک شرابی پاکستانی
لندن کے اک مے خانے میں
دونوں بیٹھے جھوم رہے ہیں

اکھڑی اکھڑی کچھ باتیں تھیں
یوں سننے میں جو آتی تھیں
بارہ من کی دھوبن دیکھو
تاج محل لاہور کا دیکھو
جبلپور سے راولپنڈی
چھے چھے پیسے چھ چھ پیسے
خان عبدالغفار کی دھوتی
لال قلعے پر سوکھ رہی ہے
خود وہ چاندنی چوک میں بیٹھے
مرغِ مسلّم بھون رہے ہیں
پنڈت نہرو کل ڈھاکے میں
دو گز ململ ڈھونڈ رہے ہیں
اے جی سنوریا
جاؤ بزریا
لاؤ چندریا
اب کھادی کی
جے ہو مولانا گاندھی کی
جوش صاحب کی دم کا دھاگا
جانے کون دباکر بھاگا
صبح بنارس شام کلفٹن
پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن
قائد اعظم چوپاٹی پر
آج سویرے بھاشن دیں گے
بھیل پری پر بول رہے ہیں
باب نیا اک کھول رہے ہیں
گاندھی جی کی امر کہانی
آج کراچی کے تھیٹر میں
سلور جوبلی کرتی ہوگی
مولانا آزاد کی مرغی
کلکتے کی چورنگی پر
بھائی سہر وردی نے پکڑی
مولانا اب بیٹھے بیٹھے
خوب غبارِ خاطر لکھیں
چائے سے یا رس گلوں سے
جیسے بھی ہو دل بہلائیں
مرزا غالب رات صدرمیں
نور جہاں کو چوم رہے تھے
دونوں بیٹھے جھوم رہے تھے
دونو ں کے سر گھوم رہے تھے
 

الف عین

لائبریرین
آخر اس درد کی دواکیا ہے

جھاڑ جھنکار جھنڈیاں فانوس
ڈھول تاشے نفیریاں ناقوس
گھر سے نکلے ہیں لوگ بن کے جھڑوس
خوب نکلا ہے ہپّیوں کا جلوس
بال لمبے لباس میلے ہیں
بھائی طارق علی کے چیلے ہیں
آچکا ہے شباب پر جوبن
گھنٹیوں کی گلے میں ہے ٹن ٹن
سر پہ ان کے یہاں جو چوٹی ہے
تن پہ ان کے وہاں لنگوٹی ہے
شوق سنگیت ہے ادھر تشنہ
جے ہرے رام جے ہرے کرشنا
ہے گٹاروں پہ پاپ موسیقی
دے رہے ہیں وہ تھاپ طبلے کی
ذوق شاہِ سلیم رکھتے ہیں
جیب میں سب افیم رکھتے ہیں
لڑکھڑاتے ہیں بے سہارا ہیں
پر بضد ہیں کہ چی گوارا ہیں
انقلابات کے بھی قائل ہیں
کچھ افیمی صفوں میں شامل ہیں
یہ بھی جوگی ہیں وہ بھی جوگی ہیں
جن سے ملئے مہیش یوگی ہیں
باپ دادا کے پاپ سر پہ وبال
بیٹے تیرتھ کو جائیں گے نیپال
کیا لکھوں اس جلوس کا اب حال
سب پراگندہ ہوچکے ہیں خیال
یہ چلن ہے نئے زمانے کا حال
خواب ہے یا کسی دیوانے کا
ساری دنیا پہ راج تھا جن کا
تخت تھا جن کا تاج تھا جن کا
ان کی تہذیب کو ہوا کیا ہے
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
لفظ ہپّی کا مدعا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
پرانی کار

اب جو بگڑے ہوئے ہیں جاگیردار
تھے کبھی ہم رئیس و منصب دار
زمبیا لے کے آگئی قسمت
دوست ایسے ملے یہاں دوچار
شان و شوکت کا واسطہ دے کر
سب نے ہم کو دلادی موٹر کار
آئیے آپ کو سنائیں اب
دکھ بھری اپنی داستاں سرکار
واقف غم ہیں آپ ہو جو اگر
کچھ ہنرمند اور تجربے کار
آپ نے بھی کبھی خریدی ہو
سستے داموں کوئی پرانی کار
کرچکی تھی سفر ہزاروں میل
گز تھے ہر میل میں پچاس ہزار
لڑکھڑاتا تھا اک اک پرزہ
عاشقِ سوختہ تنِ بیمار
ویسے اسٹارٹ ہو تو جاتی تھی
کیجیے کوشش جو دس یا پندرہ بار
یوں سمجھئے کہ بیٹری کیا تھی
دل میں عاشق کے بس بھرا تھا غبار
لی جو اسٹارٹر نے انگڑائی
آئے گردش میں اپنے لیل ونہار
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
تہِ بونٹ ہے کوئی ماتم زار
یوں گیئر کروٹیں بدلتے تھے
بستر مرگ پہ ہو جوں بیمار
ریڈی ایٹر سے آرہی تھی صدا
یا قیامت تھی برسرِ پیکار
تیل انجن میں کس جگہ ڈالیں
غور اس مسئلے پہ تھا بیکار
لیک کرتا تھا اس طرح وہ غریب
جیسے روتا ہو کوئی زار و قطار
ایکسل کا وہ دلربا نغمہ
راہ گیروں کو جو کرے سرشار
جیسے پنگھٹ پہ اک حسینہ کے
نقرئی پائلوں کی ہو جھنکار
ہم نے جس سمت کا ارادہ کیا
بس سہم سے گئے در و دیوار
راہ میں لوگ جیسے کہتے ہوں
باادب باملاحظہ ہوشیار
چرمراتے تھے اس طرح پہئیے
کررہے ہوں سڑک پہ بوس و کنار
ہر طرف شور ایک برپا تھا
ماسوا ہارن جو تھا کچھ بیمار
جیسے ملا کی دوڑ مسجد تک
جاتے گیراج روز پانچوں بار
تاب باقی نہ تھی مرمت کی
میکنک ہوچکے تھے سب لاچار
ایک اپنے جو غمگسار سے تھے
مشورہ ان کا تھا یہی ناچار
راہ میں دُن مچانا ٹھیک نہیں
بند کردے نہ تم کو تھانے دار
بیچ کر کچھ رقم ملاؤ اور
جیب میں گر نہ ہو تو لے کے ادھار
سائیکل کی دوکان پر جاکر
بارے کوشش یہی کرو اس بار
کوئی اچھا سائیکل مل جائے
کار کا تاکہ سر سے اترے بخار
اس کھٹارے سے سائیکل اچھا
وقنا ، ربنا عذاب النار
 

الف عین

لائبریرین
نئی زندگی نیاجیون

پرانا گھر ہے رہنے کو
چلانے کو کھٹارہ ہے
نئی ہے زندگی اپنی
نیا جیون ہمارا ہے
 

الف عین

لائبریرین
حضرتِ داغ

ایک اس شہر میں ایسے بھی کرم فرما ہیں
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
آپ ازراہِ تکلف جو لگے خاطر میں
یہ جہاں آن کے بیٹھے تھے وہیں لیٹ گئے
 

الف عین

لائبریرین
زندگی

بات مکتب کی ہے
موٹی موٹی کتابوں سے پڑھتے رہے
پیار ہے زندگی
دار ہے زندگی
ذوق پرواز ہے زندگی
اک حسیں راز ہے زندگی
اک جہاد مسلسل کا انعام ہے
زندگی عشق کادوسرانام ہے
اورپھر ایک دن
ہم نے مکتب سے باہر رکھا جو قدم
یاں نظارہ ہی کچھ اور دیکھا گیا
چند کا غذکے سکوں کے رنگیں ورق
جن کے چاروں طرف
نقش فریادی و کاغذی پیرہن
اس مرقع کا عنوان تھازندگی
 

الف عین

لائبریرین
غریب الوطنی

تظمین بر مصرع حفیظ جونپوری

دھوپ ہوتی ہے نہ کچھ چھاؤں گھنی ہوتی ہے
روز و شب شام و سحر دل شکنی ہوتی ہے
مسکرالیتے ہیں گو دل پہ بنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

دور دنیا سے عزیزوں کے پیام آتے ہیں
بھائی بہنوں کے اقارب کے سلام آتے ہیں
اشک اور خون میں ڈوبے ہوئے جام آتے ہیں
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

کوئی لکھتا ہے کہ ہم حرف وفا بھول گئے
آکے پردیس سلام اور دعا بھول گئے
کھاکے لندن کی ہوا اپنی ادا بھول گئے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

یاد کا زہر بہت تلخ مزا ہوتا ہے
پھر بھی پیتا ہوں کہ وہ نشہ بھی کیا ہوتا ہے
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
صندلی ہاتھ پہ ہلکی سی حنا کی تحریر
ہوچکی اب تو خیالوں میں بھی دھندلی تصویر
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

میں تھکا ہارا بھی تھا گھر کے بھی آئے بادل
کسی متوالے نے لیکن نہ بڑھائی بوتل
بن گئے آج کھنڈر سارے خیالوں کے محل
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

بھائی حدّن* کی شکیلہ* کی وفاؤں کی قسم
نیّر* و راہی** کی معصوم دعاؤں کی قسم
اف وہ طالب* کی بلانوش اداؤں کی قسم
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

ساجد*** و خالد*** و اعجاز.*** گلہ کرتے ہیں
شاعری سے ہمیں کیوں بور کیا کرتے ہیں
کیسے سمجھائیں کہ کیوں شعر کہا کرتے ہیں
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے


* علی گڑھ کے احباب اور ان کا خاندان
** راہی معصوم رضا
*** سید محمد ساجد اور سید محمد خالد دونوں چھوٹے بھائی، ان دنوں علی گڑھ میں

مقیم، حال،۔ ساجد آبائی وطن جاؤرہ، ضلع رتلام، مدھیہ پردیش، ہند، خالد حال مقیم نیو

یارک
****اعجاز اختر/اعجاز عبید، بھانجے، حال مقیم حیدر آباد، مدیر ’سمت‘، انٹر نیٹ جریدہ
 

الف عین

لائبریرین
دستک

سنگریزوں کو پھر سے آب ملی
ریگ زاروں میں پھر سراب ملی
کوئی پیاسا تھا جیسے مدت سے
آج پینے کو پھر شراب ملی
ہم نے دستک بھی دی مگر دنیا
مائلِ عیش و مستِ خواب ملی
سب نے پردے گرالئیے ورنہ
یاں حقیقت تو بے حجاب ملی
غم دوراں سے آج جب فرصت
چند لمحوں کی کچھ جناب ملی
یونہی ڈالی تھی خود پہ ایک نظر
اپنی حالت بہت خرا ب ملی
 

الف عین

لائبریرین
ورثہ

کبھی کبھی جب بھی دور حاضر کی تلخیوں سے
فرار کی سوچتا ہے کچھ دل
ذہن کی جھولی میں ڈھونڈتا ہوں
کہ مجھ کو ورثے میں کیا ملا ہے
غلامیوں کے پرانے قصے
وطن کے جغرافیہ پہ تقسیم کی لکیریں
فساد وغارت گری کی باتیں
حقارت ونفرت وذلالت
وطن سے ہجرت
نئے وطن کو
دیار غیر کو اجنبی چمن کو
مجھے بزرگو ں سے کچھ شکایت نہیں ہے لیکن
کبھی کبھی جب بھی سوچتا ہوں
کہ مجھ کو ورثے میں کیا ملا ہے
تو ہونے لگتی ہے ایک وحشت
مجھے وطن سے
کہ اب میرا جو وطن نہیں ہے
تمام ان دوستوں سے اپنے
کہ جن کا میں ہم وطن نہیں ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ماتم

تھکن کے اندھیارے آنگن میں
ذہن تو سویا چاہتا ہے
لیکن یا دکی آوازیں کب
آنکھ ذرا سی لگنے دیں
آنکھوں میں بینائی بھی ہے
جو کچھ لیکن دیکھ رہی ہیں
سب بے معنی تصویریں ہیں
درد کی لہریں کروٹ کروٹ
اب تک ہے احساس چبھن کا
یہ احساس بھی ایک لعنت ہے
اس ماحول میں خود ہی کہئیے
نیندکہاں آپائے گی
جسم نہ ہو ایک ماتم گھر ہو
دل کہ سینہ پیٹ رہا ہو
دھڑکن اپنی آہ وبکا سے
کان کے پردے پھاڑرہی ہو
خود کو کب تک دھوکہ دوگے
تم زندہ ہو
تم زندہ ہو
 

الف عین

لائبریرین
ٹوٹے ہوئے مندرمیں

ٹوٹے ہوئے مندر میں
ہر سمت اندھیرا تھا
مکڑی کے کئی جالے
چہرے سے الجھتے تھے
سنسان فضا ساری
اور گرد کے بستر تھے
بھگوان کی اک مورت
جو فرش پہ اوندھی تھی
کیا جانئے کیوں میں نے
جالوں کی صفائی کی
سب گرد ہٹا ڈالی
بھگوان کی مورت کو
پھر پونچھ کے دامن سے
اک اونچی جگہ رکھا
ایک طاق کے اندر پھر
چھوٹا سا دیا پاکر
روشن ہی کیا ہوگا
مورت کی طرف دیکھا
بھگوان کے چہرے پر
نخوت تھی تکبر تھا
نفرت تھی حقارت تھی
ایک پھونک سے فوراً ہی
وہ روشنی گل کرکے
بھگوان کی مورت پر
اک دھول جما ڈالی
تم اوندھے ہی بہتر ہو
ٹوٹے ہوئے مندر میں
اچھا ہے اندھیرا ہو
مکڑی کے کئی جالے
اور گرد کے بستر ہوں
 

الف عین

لائبریرین
فکر کے موتی

ذہن میں ہو گھنگھور اندھیرا
کالی کالی خوب گھٹائیں
پھر بے تاب تمناؤں کی
گرج گرج کر چمکے بجلی
چلنے لگے یوں سوچ کی آندھی
زن زن کی آوازیں آئیں
دروازے سے کھڑکی سے بھی
یوں جذبات پگھل اٹھیں کچھ
موسلہ دھار ہوں جوں برساتیں
یادوں کے سارے پرنالے
روتے روتے تھک سے جائیں
اس طوفان کے تھمنے پر
خوب برس کے کھلنے پر
اولتیوں سے گرتی ہیں
چھوٹی چھوٹی سی کچھ بوندیں
فکر کے موتی ننھے منے
بیچ رہے ہیں
رخسار کے تل زلف کے خم بیچ رہے ہیں
کیا خوب تراشے ہیں صنم بیچ رہے ہیں
یا مفت لٹاتے تھے کبھی خونِ جگر کو
یا دیکھئے اب لوح و قلم بیچ رہے ہیں
تزئین کے حامی تھے کبھی سرخیٔ مے سے
اب خود ہی در و بامِ حرم بیچ رہے ہیں
انمول تھے آدرش بنے تھے جو ہمارے
خود کو وہی بے دام و درہم بیچ رہے ہیں
کیا جانئے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو
سب زود و ذکا عقل و فہم بیچ رہے ہیں
شاعر تھے بہت خوب مگر شومیِ قسمت
بیٹھے ہیں چنا جور گرم بیچ رہے ہیں
 
Top