رقصِ شرر۔۔ ع واحد

الف عین

لائبریرین
فکر کے موتی

ذہن میں ہو گھنگھور اندھیرا
کالی کالی خوب گھٹائیں
پھر بے تاب تمناؤں کی
گرج گرج کر چمکے بجلی
چلنے لگے یوں سوچ کی آندھی
زن زن کی آوازیں آئیں
دروازے سے کھڑکی سے بھی
یوں جذبات پگھل اٹھیں کچھ
موسلہ دھار ہوں جوں برساتیں
یادوں کے سارے پرنالے
روتے روتے تھک سے جائیں
اس طوفان کے تھمنے پر
خوب برس کے کھلنے پر
اولتیوں سے گرتی ہیں
چھوٹی چھوٹی سی کچھ بوندیں
فکر کے موتی ننھے منے
بیچ رہے ہیں
رخسار کے تل زلف کے خم بیچ رہے ہیں
کیا خوب تراشے ہیں صنم بیچ رہے ہیں
یا مفت لٹاتے تھے کبھی خونِ جگر کو
یا دیکھئے اب لوح و قلم بیچ رہے ہیں
تزئین کے حامی تھے کبھی سرخیٔ مے سے
اب خود ہی در و بامِ حرم بیچ رہے ہیں
انمول تھے آدرش بنے تھے جو ہمارے
خود کو وہی بے دام و درہم بیچ رہے ہیں
کیا جانئے کیا ہوگیا اربابِ جنوں کو
سب زود و ذکا عقل و فہم بیچ رہے ہیں
شاعر تھے بہت خوب مگر شومیِ قسمت
بیٹھے ہیں چنا جور گرم بیچ رہے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
کربلا کے بعد

ظلم و ستم کے قہر کے جور و جفا کے بعد
غارت گری کی ایک نئی انتہا کے بعد
میری نظر میں صرف وہی حادثہ ہے بس
وہ حادثہ ہوا ہے جو ہر کربلا کے بعد
 

الف عین

لائبریرین
آؤکچھ یا دکریں

اسی وادی میں جہاں
آج ایک تیل کا دریا ہے رواں
جس کی پرنور گزرگاہوں کو
آج جاپان کی کاروں نے سجا رکھا ہے
جسکے بازاروں میں دوکانوں کی
روشنی اور چمک
شام ہوتے ہی بکھر جاتی ہے
خوشبوئیں ہیں کہ امڈ پڑتی ہیں
اور دماغوں میں سماجاتی ہیں
اسی وادی کے اندھیروں میں کبھی
ہاں اسی دشت اسی ریت اسی صحرا میں
چاک دامن کئے دیوانہ ہوا تھا کوئی
وادیٔ نجد میں افسانہ بنا تھا کوئی
آؤ بھولا ہوا افسانہ وہی یاد کریں
آؤکچھ یاد کریں
(دوران قیام سعودی عرب میں لکھی گئی )
 

الف عین

لائبریرین
کوہ نور

دبیز شیشے کے کیس میں یہ
بصد حفاظت سجا کے رکھو
کہ گرد جس کے
مہین تاروں کاجال ہو جو نظر نہ آئے
رواں رکھی جائے جس میں بجلی
کہیں چرالے نہ کوئی اس کو
پرانے فرمانرواؤں کی اس سے سرفرازی تھی آن تھی اور
اب بھی تاج شاہی کی شان ہے یہ
رہی رعایا کی بات باقی
تو ان کی خاطر بھی
ایک چھوٹی سی داستان ہے یہ
دمکتی کرنیں
چمکتے جلوے
یہی عیا ں کررہے ہیں پیہم
بہت ہی رنگیں سہ پہر تھی
ہزار ہا مرد وزن کی لاشوں سے
گھر کے آنگن چبوترے اور
شہر کے بازار ،چوک ، گلیاں
سجے ہوئے تھے
ذراسے وقفے میں ساری بستی
جو خوں میں غرقاب ہوچکی تھی
محل کے دیوان خاص میں تب
عظیم فاتح اور مفتوح، گلے جو آپس میں مل رہے تھے
اور ایک دوسرے سے اپنے سروں کی دستار کو بدل کر
کبھی نہ ختم ہونے والی دوستی کا اعلان کررہے تھے
یہ خوبصورت حسین پتھر
کہ جس کی تابندہ روشنی کو
لہو کے رنگوں سے اور بھی کچھ جلا مِلی ہے
گواہ بھی چشمِ دید ہے اورحیرتی بھی خموش بھی ہے
بصد حفاظت سجا کے رکھو
کہ یہ بزرگوں کی آن بھی ہے اور
تاج شاہی کی جان بھی ہے
کہیں چرالے نہ کوئی اس کو
 

الف عین

لائبریرین
مولوی قمر الز ّماں
بس گئے لندن میں آکر مولوی قمرالزماں
دل میں تازہ ہے بریلی سے ابھی پرخاش بھی
ذہن سے ان کے نکل پایا نہ اب تک دیوبند
مولوی قمر الزماں کو کس طرح سمجھائیے
سرورِعالم حبیب کبریا کا حکم ہے
چین میں انسان کو حاصل اگر ہوتا ہو علم
ہے مسلماں کے لئے واجب کے جائے چین کو
مولوی قمر الزماں کو کس طرح بتلائیے
قبلہ و کعبہ سکونت جس جگہ ہے آپ کی
علم کا ہے یہ علاقہ فن کا گہوارہ قدیم
مغربی تعلیم کا مرکز وہی ہے یہ جناب
ہوچکے ہیں ڈاکٹر اقبال جس سے فیضیاب
سوچتا ہوں ایک دن مل جائیں تو پوچھوں حضور
اتنے دن دار الحرب میں جو گزاری زندگی
سچ بتائیں مولوی صاحب کبھی کوشش بھی کی
ڈال کر یونہی نظر ایک دیکھ لیتے آپ بھی
ارتقائے زیست پر وہ ڈارون کا فلسفہ
نفسیاتی الجھنوں پر کچھ فرائیڈ کے اصول
نیوٹن نے پیش کی تھی جو کشش کی تھیوری
مارکس کی سرمایہ و محنت کے بارے میں کتاب
مولوی قمر الزماں کو کس طرح سمجھائیے
یہ بزرگ محترم افسوس صد افسوس ہے
اس جہان علم میں رہ کر بھی بس کورے رہے
ساحلِ دریا پہ یہ بیٹھے رہے پیاسے رہے
چاند چھولینے کی یاں پوری ہوئی ہے آرزو
رہ گئی تسبیح سے ان کی الجھ کر جستجو
 

الف عین

لائبریرین
مرثیہ بروفات بی سی سی آئی

نیرنگیِ خیال ہوئی ہست و بود میں
پندرہ برس کی بات ہے آیا وجود میں
بانی کہ رہ چکے تھے جو اہل ہنود میں
رکھتے تھے خاصی مشق شرح اور سود میں
شاخیں تھیں اک ہزار خدا مغفرت کرے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے

رہزن کئی تھے اور کئی راہ گیر تھے
گھر کے کوئی امیر تو کوئی فقیر تھے
عزت مآب تھے کوئی بے بس حقیر تھے
نقوی تھے چودھری تھے علی تھے بشیر تھے
کیا کیا تھے اہلکار خدا مغفرت کررے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے

افسر کو گفتگو کا سلیقہ نہ کچھ شعور
اور ماتحت کے لب پہ ہمیشہ تھی جی حضور
شرمندہ قصور بغل میں کسی کے حور
نغمے کہیں جواں تو کہیں رقص اور سرور
اف رات کا خمار خدا مغفرت کررے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے

دربان و چوبدار سے لے کر نقیب کو
سائیس کوچوان کو قابل ادیب کو
اخبار کے مدیر کو شاعر خطیب کو
ایک ایک روسیاہ کو اک اک رقیب کو
حاصل تھا روزگار خدا مغفرت کررے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے


تاجر سے منشیات کی بھی ساز باز تھا
اسمگلروں کے ساتھ بھی ناتا دراز تھا
سنتے ہیں مافیا سے بھی شرفِ نیاز تھا
گویا تجوریوں میں دبا سب کا راز تھا
خفیہ تھے کاروبار خدا مغفرت کرے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے

بازارِ حسن یوں تو ہمیشہ ہی گرم تھا
یارانِ خوش خرام کا لہجہ بھی نرم تھا
پاسِ حیا تھا اور نہ احساسِ شرم تھا
دلبر تھے مہہ جبین تھے گاہک بھی فرم تھا
شیخوں پہ انحصار خدا مغفرت کرے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے

کس کو خبر تھی جلد یہ رت بیت جائے گی
ایّام رفتگاں کی بہت یاد آئے گی
دل کو لہو رلائے گی جاں کو ستائے گی
پھنس کر قفس میں روح کہاں چین پائے گی
دو دن کی تھی بہار خدا مغفرت کرے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے

اللہ سے دعا ہے کہ اب ہر عزیز کو
یکساں ہی بد تمیز کو اور باتمیز کو
کمزور مخنی کو تو موٹے دبیز کو
کنبے کے ہر غلام کو ہر اک کنیزکو
دے صبر اور قرار خدا مغفرت کرے
تھا بینک شاندار خدا مغفرت کرے
 

الف عین

لائبریرین
جشنِ بہار

دوفلک بوس دیوزاد پہاڑ
درمیاں جن کے اک پری پیکر
خوبرو،سیم بر ، نحیف نڈھال
جنّتِ ارض ،وادیٔکشمیر
لوبہاروں کی آمد آمد ہے
مشک آہوچمن میں اب کی بار
بوئے بارود بن کے پھیلے گا
لالہ سرخ خون اگلیں گے
اور گلابوں سے پیپ ٹپکے گی
جنت ارض وادی کشمیر
سروتیرے چنار تیرے سمن
ڈھانپ لے گا انہیں لباسِ کفن
دامنِ کوہ سے تیرے اس سال
چشمۂاشک ہی رواں ہوں گے
ڈال کا نغمۂسرور انگیز
موت کی راگنی الاپے گا
روح باغِ نشاط میں جاکر
مقبرے کا سکوں پائے گا
لوبہاروں کی آمد آمد ہے
تیرے فرزند لے کے آئیں گے
پھر جگر لخت لخت نذرانے
سالہا سال کی مشقت کا
جو ملا ہے انہیں ثمر ہے یہی
شبِ تا ریک کی سحر ہے یہی
جنت ارض وادیٔ کشمیر
نا میں پاکی ہوں نا میں ہندی ہوں
ایک برطانیہ کاشہری ہوں
دل سے لیکن صدا نکلتی ہے
اے رعونت کے آرزومند و
ظلم اورجبر کے خداوندو
بے کسوں کو ستاؤگے کب تک
خون ناحق بہاؤگے کب تک
راج اب تم سے چل نہیں سکتا
گولیاں تم چلاؤگے کب تک
ہے وطن جن کا ان کو لوٹادو
ہے چمن جن کا ان کو لوٹادو
 

الف عین

لائبریرین
بر وفات راہی معصوم رضا*

دوستوں کے چشم نم ہوجائیں گے
سارے واقف وقفِ غم ہوجائیں گے
راہی معصوم سوچا بھی نہ تھا
راہیِٔ ملک عدم ہوجائیں گے

*بتاریخ : ۔۱۵!مارچ ۱۹۹۲ء ۔بمقام بیچ کینڈی اسپتال ۔بمبئی
 

الف عین

لائبریرین
تحفتاً ہالی ووڈ کی اداکارہ کی نیم برہنہ تصویر پاکر

میرے ہمدم مرے محسن مرے دیرینہ رفیق
آپ نے کاش یہ تصویر نہ بھیجی ہوتی
صدقِ دل سے جو کبھی آپ نے سوچا ہوتا
شکوہ لب پر نہ میرے آج یہ بے جا ہوتا
دیکھئے آج بھی مغرب کے صنم خانوں میں
رسم آزر کے بہ ہر طور یونہی جاری ہے
ہاں اسی ملت مغرور کی شہکار ہے یہ
ان دنوں جن پہ خدائی کا جنوں طاری ہے
میں کہ معذور ہوں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا
تلخی زیست پہ کم خواب کے پردے ڈالوں
آستانِ بتِ طناز پہ سجدہ کرلوں
ناگا ساکی کی روایات بھلا کر یکسر
خم کاکل ، خم ابرو کے فسانے چھیڑوں
ہیروشیما کی زباں پر نہ حکایت آئے
مدح زلف و لب و رخسار میں میں کھوجاؤں
کتنا خونریز نظارہ تھا وہ مِی لائی کا
نیلگوں چشم کے مے خانے سے دل بہلاؤں
ہائے افسوس صد افسوس کہ ارباب سخن
شہد اور زہر میں تفریق نہیں کرپاتے
حیف ، صدحیف کہ یکساں ہی بزرگ و کمسن
ایک زرتار سے اس جال میں پھنس جاتے ہیں
بارِخاطر جو نہ ہو سخت کلامی میری
اتنے شاطر ہیں یہ مغرب کے خداوند ازل
چالبازی سے حرم کو یہ رہن رکھوالیں
آپ پھر ان سے عبادت کی اجازت چاہیں
میرے ہم دم مرے محسن مرے دیرینہ رفیق
آپ نے کاش یہ تصویر نہ بھیجی ہوتی
صدقِ دل سے جو کبھی آپ نے سوچا ہوتا
شکوہ لب پر نہ میرے آج یہ بے جا ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
کسمپر سی
وقت آہستہ خرام
نرم احساس وجود
گرمیٔ بزم جہاں
لذت و راحت جاں
زیست کا سیلِ رواں
حاصل علم و ہنر
عزت و ناموری
حسن کی جلوہ گری
عشق کی دیدہ وری
کفر وایمان کی حد
پاسِ آدابِ حرم
وسعتِ کاسۂ دل
آرزوؤں کا ہجوم
جس طرح زیرِ فلک
ان گنت ماہ و نجوم
عالم نیم شبی
چشم وا فکر رسا
تا ابد محوِ تلاش
صرف مفہومِ حیات
خالقِ کون و مکاں
میں نے سجدے بھی کیے
میری حالت پہ مگر
رحم آیا نہ تجھے
یہی لگتا ہے کہ بس
اب گوارا بھی مری
پرسشِ حال نہیں
لائقِ دید مرا
نامۂ اعمال نہیں
 

الف عین

لائبریرین
انتم سنسکار

وہی نگر ، وہی ڈگر
دھرم کے ایک مہان دیوتا کو جو
جنم کے واسطے لبھائی تھی
کہ رام نام ستیہ ہے
وہی مقام اور شہر
کہ جس میں پار پربتوں سے آنے والی نسل کے
عظیم سربراہ نے ایک سجدہ گاہ بنائی تھی
کہ رام نام ستیہ ہے
وہیں مشان گھاٹ پر
انیک کارسیوکو ں نے مل کے یوں
ہمارے آدرش اور سبھیتا کی اب چتا جلائی ہے
کہ رام نام ستیہ ہے
کہ رام نام ستیہ ہے
۶!دسمبر ۱۹۹۲ء کو اجودھیا میں ہونے والے سانحہ کے زیر اثر
 

الف عین

لائبریرین
کیموفلاج۔Camoflage

تاحدِ نظر برف کی پھیلی ہوئی چادر
ہو جس پہ شجر اور نہ کوئی گھاس کا پتہ
اپنے میں چھپالیتا ہے خود کو اس پر
کلکاریاں کرتا ہوا ابیض بگلا
ماخوذ از ڈوگین زینج بر مراسلہ جان فلیٹ
 

الف عین

لائبریرین
اے ساکنانِ شہر

دل کی شکایتوں کو عیاں کیجیے نہ آپ
حاکم کی منصفی پہ گماں کیجیے نہ آپ
فرمانروائے شہر کو آشوبِ چشم ہے
اے ساکنانِ شہر دھواں کیجیے نہ آپ
 

الف عین

لائبریرین
بزرگ تسمہ پا

عظیم رہنما کہئے راہبر کہئے
فلک پہ جیسے چمکتا ہوا قمر کہئے
عمل کی تیزی رفتار برق کی تمثیل
تو اس کی گرمیٔ گفتار کو شرر کہئے
دیارہند میں علم و فنون کا مرکز
اسی کی محنت دن رات کا ثمر کہئے
فلاحِ قوم کی تدبیر کیسی نادر سی
یہ اس کی فکرِ رسا وسعتِ نظر کہئے
وہ انکسار وہ شفقت وہ عجز وہ اخلاق
کہ اسکو ایک فرشتہ صفت بشر کہئے
مدح سرائی میں اب اختصار لازم ہے
کہ جو بھی آپ کو کہنا ہے مختصر کہئے
گذرگیا جو علی گڑھ سے اک صدی پہلے
وہ اک بزرگ جسے تسمہ پا خضر کہئے
 

الف عین

لائبریرین
اے وطن اے وطن
تجھ پہ قربان ہے
اپنا سب جان و تن
اپنے دل کی لگن
اے وطن اے وطن
رہ کے پردیس میں
بھول پایا نہ من
تیرے دشت و دمن
بستیاں اور بن
تیرے گنگ و جمن
تیرے سرو و سمن
تاج تیرا کہ جیسے نویلی دلہن
جس سے لپٹی ہوئی چندرما کی کرن
اے وطن اے وطن
چھورہا ہے قطب کو وہ نیلا گگن
وہ بنارس کے مندر اجنتا کا فن
جل میں گنگا کے بھیگے ہوئے گلبدن
اے وطن اے وطن
دور ہے آج تجھ سے ہمارا رہن
پر تیرے نام ہے
سارا جیون مرن
ساری دل کی لگن
اے وطن اے وطن
سعودی عرب میں سفارت ہند کے زیر انتظام مدارس کے طلباء وطالبات کے واسطے لکھا گیا
 

الف عین

لائبریرین
ولایت میں ایک دیسی محفل

وہی نظّارہ ہائے رنگ و بو ہیں
وہی مے خوار ہیں جام و سبو ہیں
وہی رونق وہی آدابِ محفل
وہی سب مہو شانِ خوبرو ہیں
تجلّی ہی تجلّی ہر طرف ہے
منور قمقمے ہر چار سو ہیں
بفیض عشق گر عاشق ہیں مسرور
رقابت پر کمربستہ عدو ہیں
سریرِ زر پہ ہیں اک جلوہ افروز
سنا ہے وہ یہاں سب کے گروُ ہیں
وہی اس بزم کے روح رواں ہیں
وہی اس انجمن کی آبرو ہیں
ادھر کچھ حق پرسستانِ بیدار
کہ مصروفِ تلاش و جستجو ہیں
ادھر کچھ اور سرگرم سیاست
کسی گوشے میں محوِ گفتگو ہیں
قماری جمع ہیں اک میز کے گرد
کئی سکّے ہر اک کے روبرو ہیں
گنوایا جس نے منہ لٹکالیا ہے
جو جیتے ہیں نہایت سرخرو ہیں
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
لئے دل میں محیط آرزو ہیں
مصلّٰی ایک کونے میں بچھا ہے
اور اس پر مولوی ایک باوضو ہیں
وہیں نغموں کی ہے جھنکار اک سمت
مغنی جو بھی ہیں سب خوش گلو ہیں
یہ ہے نظّارہ ہائے حسن عالم
یہی منظر یہاں پر کوُ بہ کوُ ہیں
 

الف عین

لائبریرین
عجیب انسان

لوگ حیران ہیں کس قسم کا انسان ہوں میں
خانہ بردوش ہوں میں بے سروسامان ہوں میں
اپنے سینہ میں بس اک جذبۂ معصوم لئے
عدل و انصاف کی اک حسرت موہوم لئے
اس جہانِ غم و آلام میں کتنے دن سے
دشت و صحرا کی کڑی دھوپ میں سرگرداں ہوں
رنج و کلفت کے تلاطم میں ہراساں ہوں میں
صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے میرا وجود
مجھ پہ اغیار نے کیا کیا نہ ستم ڈھائے ہیں
نیزہ و تیر کوئی سینے پہ کم کھائے ہیں
جسم کو میرے کبھی دار پہ لٹکایا ہے
کبھی زندہ مجھے دیوار میں چنوایا ہے
گولیاں اتنی چلائیں کہ بدن چھلنی ہے
توپ سے میرے پرخچے کبھی اڑوائے ہیں
سرقلم میرا ہوا ہے کبھی چوراہے پر
خون سے پیاس بھی قاتل نے بجھائی ہے وہیں
غرق دریا میں کیا ہے کبھی پابستہ مجھے
بم گرائے ہیں کہیں آگ لگائی ہے کہیں
آگ میں جھونک دیا ہے کبھی وارفتہ مجھے
راکھ پھر میری بکھیری ہے گلی کوچوں میں
تاکہ ہوجائے میرا نام و نشاں تک نابود
سب تعجب میں ہیں کس قسم کا انساں ہوں میں
نقش ایسا ہے جو مٹ مٹ کے ابھر آتا ہے
خاک میں جتنا ملاؤ یہ نکھر جاتا ہے
میں وہ عنقا ہوں جسے راکھ جنم دیتی ہے
زندگی پھر مجھے آغوش میں لے لیتی ہے
آتا تھا بیکسی عشق پہ رونا سب کو
کس کے گھر جاتا یہ سیلابِ بلا میرے بعد
کون بنتا کہ حریفِ مے مرد افگنِ عشق
تھی مکرر لبِ ساقی پہ صلہ میرے بعد
دیکھ لو آج بھی سینے میں دھڑکتا ہے یہ دل
آج بھی زندہ ہوں تابندہ ہوں رخشندہ ہوں میں
ہیبت و خوف زمانے پہ ہوئے یوں طاری
کردیا سب نے عطا مجھ کو لقب دہشت گرد
خود پریشان ہوں کس قسم کا انسان ہوں میں
ہے میرے پاس نہ بندوق نہ پستول نہ بم
ایک پتھر بھی اگر ہاتھ میں لے لیتا ہوں
لڑکھڑ اجاتے ہیں افواج کے مضبوط قدم
ہاں اسی نیلگوں بے رحم فلک کے نیچے
اسی پتھر کی بنی سخت زمیں کے اوپر
خونِ دل خونِ جگر خونِ تمنا دے کر
کتنے ویرانے بہاروں سے سجائے میں نے
کوئی گھر کوئی ٹھکانہ کوئی منزل نہ قیام
کرہِ ارض پہ ہیں پھر بھی میرے لاکھوں مقام
میں ترانہ میں ہوں بیروت میں خرطوم میں ہوں
میں مراقش میں ہوں بغداد میں ہوں روم میں ہوں
مصر و ایران میں کشمیر میں ہوں چین میں ہوں
الجزائر میں ہوں اردن میں فلسطین میں ہوں
احمدآباد چٹاگانگ میں جکارتا میں
میں بیک وقت ہوں رنگون میں کمپالا میں
میں چیچنیا میں دغستان میں قفقاز میں ہوں
فرغنہ میں ہوں بدخشاں میں ہوں شیراز میں ہوں
میں سرآجیو میں بن غازی میں ملتان میں ہوں
میں بخارا میں دمشق اور خراسان میں ہوں
کوالالمپور و سمرقند چمن ہیں میرے
بصرہ و کابل و قندھار وطن ہیں میرے
 

الف عین

لائبریرین
گلوں کی نمائش*
ردائے گل میں ہے ملبوس یوں عروس جبیل
کہ داستانِ الف لیلہ جس سے تازہ ہے
کہیں زمین کے بستر پہ محوِ خواب گلاب
کہیں پہ لالۂ خوشرنگ آنکھ ملتے ہیں
کہیں سمن ہے کہیں نسترن کہیں سوسن
کہیں پہ جھمکا لتا اور کہیں پہ زخمِ حیات
روش روش کو معطر کیے ہوئے چمپا
کنول کے ہاتھ اٹھے ہیں کہیں دعا کے لیے
ہے موتیا کو کہیں زلفِ نازنیں کی تلاش
تو یاسمیں بھی سانسوں میں بسنا چاہتی ہے
چمن کی ساری نزاکت ہے ختم جوہی پر
وزن سے اپنے ہی دوہری زمین بوس نحیف
گل بنفشہ نے کی جو ہوا سے سرگوشی
تو بھینی بھینی سی خوشبو ہوا میں پھیل گئی
عجیب راز ہے گیندے کی مسکراہٹ میں
ہر ایک چوتھی کی دلہن نظر چراتی ہے
سبق ہیں کچھ یہی پُر پیچ عشقِ پیچاں کے
بہت حسین ہیں لمحات عہد و پیماں کے
صحن میں رنگ بکھیرا ہے یوں صنوبر نے
تھکن سے چور دھنک لے رہی ہے انگڑائی
صبا کے دوش پہ خاموش چین کے ہیں گلاب
وطن سے دور بھی اور جان و دل ملول بھی ہیں
فضا سے محوِ تکلّم ہے رات کی رانی
ہو جلد صبح یہ سورج مکھی نے ہے ٹھانی
غضب کا طیش دکھایا ہے رجنی گندھا نے
پھسل کے ہاتھ سے ٹوٹی ہے عطر کی شیشی
ٹھہر کے دم نہیں لیتا کوئی بھی اس کے قریب
یہی ہے شکوہ بہ لب راہ میں کنیر غریب
ہزار غنچے چٹک کر کھلے پر آنگن میں
ازل کی نیند سے نرگس کی آنکھ وا نہ ہوئی
غرض کے رنگ ہیں سارے ہی خوشبوئیں ہیں تمام
بہار لائی ہے بھر پور ارغوانی جام
۔۔۔۔۔۔۔
* Flower Show
 

الف عین

لائبریرین
اوزون**

مصورِ کائنات تو نے
فلک بنایا
فلک میں قندیل شمس رکھ کر
جہاں کی تیر گی مٹائی
زمیں بنائی
اگایا سبزہ
بنائے ابلیس اور آدم
دیا جو آدم کو عشق تونے
توزیرکی ساری ابلیس کی ملکیت میں آئی
بروج قائم ہوئے فلک پر
مکیں جن میں ہوئے شیاطین
ہوئی جب ان سے
حفاظت کائنات لازم
شہاب ثاقب کے تونے ان پر لگائے پہر ے
شعاعِآتش نفس سے تاکہ محفوظ رہ سکیں سب زمیں کے ساکن
بہ شکل ابرِکرم ورحمت
ردائے اوزون اُن پہ ڈالی
نہ جانے کیوں کر
تمام شیطان مل گئے اور
سب نے ابلیس کی پیروی میں
ردائے رحمت کو جابجاچاک کرکے رکھ دیا
غریب اور بے گناہ آدم
زمین پر اب خوف سے کپکپا رہا ہے
شعاعِ آتش نفس کا منتظر ہے
۔۔۔۔
**Ozone
 

الف عین

لائبریرین
تہذیب کا اسقاط*
آج بھی مصر کے بازار کا نقشہ ہے وہی
کذب کے جال وہی اور وہی مکر و فریب
گرم ہے ویسے ہی پھر اہل ہوس کی محفل
قحبہ خانوں میں پلی ہو جو ہماری تہذیب
سرِ بازار برہنہ بھی ہو لاچار بھی ہو
اہلِ غیبت کے لیے ایک شگوفہ ہی سہی
فکر کیا جان پہ معصوم کے بن آئی ہو
مشتعل کرکے گیا کوئی کسی کے جذبات
کس نے بخشا ہے کسی اور کو الفت کا خراج
دل ملیں یا نہ ملیں جسم تو مل جاتے ہیں
عشق کا نام زمانے میں یہی ٹھہرا ہے
ایسے حالات میں اسقاط نہ ہو تو کیا ہو
بزم یہ بزمِ خرافات نہ ہو تو کیا ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
*Miscarriage of Civilization
 
Top