رات پھر رات کے سنّاٹے میں وہ جان پڑی ----- افتخار شفیع

مغزل

محفلین
غزل


رات پھر رات کے سنّاٹے میں وہ جان پڑی
کہ سُنائی نہ دی آواز کوئی کان پڑی

تھک گیا خواب کہیں یاد کے صد راہے پر
رہ گئی بات کہیں جانبِ نسیان پڑی

رہ گیا راہ میں اک ہوش پریشان کھڑا
رہ گئی سوچ میں اک حیرتِ حیران پڑی

دل تھا آنکھوں میں سو آنکھیں تھیں اُنہی آنکھوں میں
تھی زباں سو تھی میانِ لب و دندان پڑی

جسے آنا تھا وہ آیا جسے جانا تھا گیا
رہگزر تکتی رہی راہ میں ویران پڑی

جس نے کہنا تھا کہا اور سُنا جس نے سُنا
تم رہے دیکھتے اب جنبشِ لب دھیان پڑی

عوضِ یک سخنِ میر لُٹی میری غزل
قیمتِ مطلعِ کم اوروں کو دیوان پڑی

پروفیسر افتخار شفیع (جامعہ کراچی شعبہ ٔ انگریزی )
جناب مولانا روم پر پی ایچ ڈی ہیں۔
 

کاشفی

محفلین
بہت ہی خوب۔۔اور عمدہ جناب۔۔

دل تھا آنکھوں میں سو آنکھیں تھیں اُنہی آنکھوں میں
تھی زباں سو تھی میانِ لب و دندان پڑی
۔۔۔

جس نے کہنا تھا کہا اور سُنا جس نے سُنا
تم رہے دیکھتے اب جنبشِ لب دھیان پڑی


عمدہ جناب۔عمدہ۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، مبارکباد پہنچا دینے کا تمہارا ذمہ محمود۔
لیکن یہ ٹیگز میں ’پی ایچ ڈی‘ ا کیا محل ہے؟
 

مغزل

محفلین
شکریہ بابا جانی داد پہنچا دی گئی ہے ، پی ایچ ڈی ٹیگ میں شامل کرنے کا مقصد ،
ایسے شعراء کی لسٹنگ کرنا ہے جو ادبیات میں ڈاکٹریٹ کے حامل ہوں ،
بہر کیف اس سے زیادہ مقصد نہیں۔ بہت بہت شکریہ بابا جانی ،۔
 

الف عین

لائبریرین
ل و ل۔ لیکن یہ صاحب تو انگریزی میں پی ایچ ڈی ہوں گے، رومی پر انگریزی میں تحقیق کی ہو گی؟
 

مغزل

محفلین
جی ہاں، مگر ان کا مقالہ انگریزی کے علاہ عربی ،فارسی اور اردو میں ترجمہ بھی ہوا ہے۔شفیع صاحب ، مبارک زرین رقم کے شاگرد بھی ہیں فنِ خطاطی میں‌ان سے ہی مہارت حاصل کی، ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے مغل صاحب، بہت خوبصورت اشعار ہیں، لاجواب۔

بہت شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے!
 

خوشی

محفلین
جس نے کہنا تھا کہا اور سُنا جس نے سُنا
تم رہے دیکھتے اب جنبشِ لب دھیان پڑی
واہ بہت خوب مغل جی
 
Top