دماغ مضبوط رکھنا ہے تو دوسری زبان سیکھیے... بڑھاپے میں بھی!

محمداحمد

لائبریرین
2240591-brainlanguagex-1635331816-957-640x480.jpg

عمر کے کسی بھی حصے میں نئی زبان سیکھ کر دماغ کو مضبوط اور صحت مند بنایا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کینیڈا میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان سیکھنے کا عمل ہمارے دماغ کو مضبوط بنانے کے ساتھ ہماری اکتسابی (سیکھنے سے متعلق) صلاحیتوں میں بھی بہتری لاتا ہے۔

ماضی میں کئی تحقیقات سے معلوم ہوچکا ہے کہ بیک وقت دو زبانوں پر عبور رکھنے والے لوگ، ایک زبان سے واقفیت رکھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں اور ان میں دماغی بیماریاں بھی خاصی دیر میں نمودار ہوتی ہیں۔
البتہ یہ واضح نہیں تھا کہ بڑی عمر میں کوئی دوسری زبان سیکھنے کے ذہن پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔
یہ جاننے کےلیے ٹورانٹو، کینیڈا کی یارک یونیورسٹی اور ’بے کریسٹ‘ نامی نجی ادارے نے 65 سے 75 سال کے 76 رضاکار بھرتی کیے۔
ان میں سے نصف کو دماغی تربیت کرنے والی ایپ (برین ٹریننگ ایپ) دی گئی جبکہ باقی نصف کو ایک اور موبائل ایپ کے ذریعے ہسپانوی زبان سکھائی گئی، جو وہ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔
تمام رضاکاروں نے 16 ہفتے تک روزانہ 30 منٹ کےلیے یہ ایپس استعمال کیں جس کے بعد ان میں دماغی صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا۔
ہسپانوی زبان سیکھنے والے رضاکاروں کی یادداشت، تجزیئے اور فیصلہ سازی سے متعلق صلاحیتیں نمایاں طور پر بہتر رہیں جبکہ ان کا کہنا تھا کہ انہیں نئی زبان سیکھنے میں بہت لطف آیا۔
ریسرچ جرنل ’ایجنگ، نیوروسائیکولوجی، اینڈ کوگنیشن‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر جیڈ میلٹزر کہتے ہیں کہ نئی زبان سیکھنا اپنے آپ میں ایک دلچسپ سرگرمی ہے جو غیر محسوس انداز میں دماغ کو زیادہ فائدہ پہنچاتی ہے۔
مطالعے کے دوران یہ رضاکار ہسپانوی زبان میں ماہر تو نہیں بن لیکن پھر بھی ان کی اکتسابی صلاحیتیں خاصی بہتر ہوگئیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمر کے کسی بھی حصے میں نئی زبان سیکھ کر دماغ کو مضبوط اور صحت مند بنایا جاسکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

جاسمن

لائبریرین
آج کل ہم قرآن پاک سیکھنے کے لیے عربی گرامر سیکھ رہے ہیں۔
اب یہ نہیں معلوم کہ دماغی صلاحیتیں بڑھ رہی ہیں یا نہیں۔:)
 
دو یا تین زبانیں جاننا کہیں بھی حیرت کی بات نہیں ہوتی ہے لیکن آدھا درجن سے زیادہ زبانوں سے شناسائی حیرت انگیز ہوتی ہے۔
اگر آدھے درجن سے زائد ملتی جلتی زبانیں ہوں تو اتنی حیرت انگیز بات نہیں ہے تاہم اگر ایک طرف کوئی نائجر کانگو فیملی کی زبان مثلاً زولو ہو اور دوسری طرف کوئی ہند آریائی، سامی یا یورپی زبان تو یقیناً حیرت انگیز بات ہوگی۔
 

فہد اشرف

محفلین
اگر آدھے درجن سے زائد ملتی جلتی زبانیں ہوں تو اتنی حیرت انگیز بات نہیں ہے تاہم اگر ایک طرف کوئی نائجر کانگو فیملی کی زبان مثلاً زولو ہو اور دوسری طرف کوئی ہند آریائی، سامی یا یورپی زبان تو یقیناً حیرت انگیز بات ہوگی۔
ملتی جلتی سے آپ کی مراد ایک ہی فیملی کی زبانوں سے ہے یا صرف ہندی اردو، پنجابی سرائیکی جیسی ملتی جلتی زبانوں سے ہے؟
 
ملتی جلتی سے آپ کی مراد ایک ہی فیملی کی زبانوں سے ہے یا صرف ہندی اردو، پنجابی سرائیکی جیسی ملتی جلتی زبانوں سے ہے؟
ہندوستانی، سرائیکی اور پنجابی بھی ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ یورپی زبانوں کا بھی فرق میرااندازہ ہے کہ ملتا جلتا ہے کیونکہ بہت سے الفاظ ان میں بھی ایک سے ہیں۔
پنجابی کی مثال دیکھیے کہ اس میں tones کا تصور موجود ہے یعنی لفظ کوڑا، کڑوا اور گھوڑا دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے صرف tone کے فرق کے ساتھ۔ سرائیکی اور ہندوستانی میں یہ تصور موجود نہیں ہے لیکن بہت سے الفاظ ان سب زبانوں میں ایک سے ہیں کیونکہ ان کی جڑ ایک ہی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ جدو جہد کر کے کوئی تکنیک (نئی زبان کے علاوہ) بھی ذہن و دماغ کے لیے اسی طرح مفید ہوتا ہے جیسے زبان سیکھنا ۔
مثلاََ کوئی بانسری بجانا گٹار بجانا یا کسی اور ہنر کی مہارت حاصل کرنا۔
غالباََ اس میں اصل وجہ یہ ہے کہ اصل میں کسی نئے کام کو مجاہدے، مشق اور محنت کے ذریعے سیکھنے سے دماغ میں (اعصابی خلیات) نیورونز کے نئے پاتھ ویز بننے کا عمل ہوتا ہے جو جو دماغ مجموعی صلاحیت کو بڑھانے میں معاون ہوتا ہے ۔
 

عدنان عمر

محفلین
پنجابی کی مثال دیکھیے کہ اس میں tones کا تصور موجود ہے یعنی لفظ کوڑا، کڑوا اور گھوڑا دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے صرف tone کے فرق کے ساتھ۔
پنجابی میں ٹون کے ساتھ معنی بدلنے والے ایک سے الفاظ بہت تھوڑے نہیں ہیں؟
مثلاً کوڑا (کڑوا)، کوڑا
چا، چاء
کیا ایسے مزید الفاظ کی فہرست مل سکتی ہے؟
 
پنجابی میں ٹون کے ساتھ معنی بدلنے والے ایک سے الفاظ بہت تھوڑے نہیں ہیں؟
مثلاً کوڑا (کڑوا)، کوڑا
چا، چاء
کیا ایسے مزید الفاظ کی فہرست مل سکتی ہے؟
بھ، گھ، دھ، ڈھ، جھ جن الفاظ میں بھی واقع ہوتے ہیں وہ پنجابی کے بیشتر لہجوں میں پ، ک، ت، ٹ، اور چ میں تبدیل ہو جاتے ہیں یعنی وہ اپنی aspiration کے ساتھ ساتھ voicing سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ minimal pairs کثیر تعداد میں موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ tone کئی الفاظ میں سنی جا سکتی ہے مثلاً توڑ بمعنی دھول، پار بمعنی بھار ، کر بمعنی گھر ، چنگوی بجائے جھنگوی جیسے کئی الفاظ میری سماعت سے گزرے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
بھ، گھ، دھ، ڈھ، جھ جن الفاظ میں بھی واقع ہوتے ہیں وہ پنجابی کے بیشتر لہجوں میں پ، ک، ت، ٹ، اور چ میں تبدیل ہو جاتے ہیں
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ مثلاً پنجابی 'بھ' کی آواز اردو 'بھ' اور 'پ' کی آواز کے مابین کی آواز ہے جو 'پ' کی آواز کے قریب تو ہے لیکن 'پ' نہیں۔
اسی طرح دیگر بھاری حروف مثلاً بھ، دھ، ڈھ، جھ، پنجابی (ماجھی لہجے) میں اپنی منفرد آواز رکھتے ہیں جو میری معلومات کے مطابق کسی اور علاقائی زبان میں موجود نہیں ہیں۔
 
میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ مثلاً پنجابی 'بھ' کی آواز اردو 'بھ' اور 'پ' کی آواز کے مابین کی آواز ہے جو 'پ' کی آواز کے قریب تو ہے لیکن 'پ' نہیں۔اسی طرح دیگر بھاری حروف مثلاً بھ، دھ، ڈھ، جھ، پنجابی (ماجھی لہجے) میں اپنی منفرد آواز رکھتے ہیں جو میری معلومات کے مطابق کسی اور علاقائی زبان میں موجود نہیں ہیں۔
ایسا نہیں ہے۔ بہت سے پنجابی بولنے والے اردو بھ کو بھی low tone کے ساتھ ب کی طرح ادا کرتے ہیں جس سے شاید آپ کو ایسا محسوس ہوا ہو۔ یہ فرق tone کا ہی ہے۔ اگر یہ منفرد آوازیں ہوتیں تو ان کے لیے منفرد حروفِ تہجی وضع کیے جاتے جیسا کہ سرایکی اور سندھی کی implosive آوازوں کا معاملہ ہے۔
 
Top