دلیر شاہ

نیرنگ خیال

لائبریرین
دلیر شاہ سے میری پہلی ملاقات آج سے کوئی آٹھ سال قبل ہوئی تھی۔ وہ ہمارے اک انتہائی عزیز دوست المعروف چوہدری کا دوست تھا۔ غائبانہ تعارف اس سے پہلے ہی سے تھا۔ ٹھہرئیے دلیر شاہ سے تعارف سے قبل اک واقعہ بزبان چوہدری سن لیجیئے۔
میں اپنے اک عزیز کے گھر آیا ہوا تھا۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں شائد اسی دن یا اگلے دن شام کو اس نے کہا کہ پاس ہی دوست رہتا ہے۔ اس سے ملتے ہیں۔ ذرا گپ شپ رہے گی۔ اور میں بھی ہوا خوری کے لالچ میں ساتھ چل پڑا۔ مگر فلک نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ کچھ گلیوں سے ہوکر جب ہم نے اک گھر کے سامنے جا کر دستک دی۔ نکلنے والی شخصیت متاثر کن تھی۔ لمبا قد ۔ بعد میں پتہ چلا کہ موصوف کا قد چھ فٹ اک انچ ہے۔ سنہرے بڑے بڑے سلکی بال۔ اپنے علاقے میں اس رنگ کے بال دیکھ کر میں حیران ہو گیا۔ اور سفید رنگت۔ جو کہ ہم جیسے صحرا نشینوں کے لیئے یقینا باعث جلن تھی۔ باقاعدہ باڈی بلڈنگ سے تراشیدہ کسرتی بدن۔ جسم کی بناوٹ کو نمایاں کرنے کے لیئے شائد شاہ جی نے چھوٹے بھائی کی شرٹ پہن رکھی تھی۔ انتہائی بلند آواز میں انہوں نے سلام کیا۔ ابھی کچھ ثانیے ہی گزرے ہونگے کہ گلی میں سات یا آٹھ لڑکے داخل ہوئے۔ اور شاہ جی پر پل پڑے۔ میرا عزیز لڑائی میں شاہ جی کی طرف سے شامل ہوگیا۔ مجبوراً مجھے بھی اس شغل میں کودنا پڑا۔ انکا پلڑا بھاری تھا۔ اور ہم برے نہیں تو شائد اچھے طریقے سے پٹ رہے تھے۔ یکدم میرے حواس نے کام کیا تو دیکھا کہ میں اور عزیزم ہی پٹ رہے ہیں۔ شاہ جی غائب ہیں۔ میں نے فوراً ہاتھ اٹھائے اور نعرہ بلند کیا کہ میاں کس سے لڑائی ہے تم لوگوں کی۔اس پر وہ لڑکے بھی رک گئے۔ اور شاہ جی کو غائب پا کر بکتے جھکتے چلے گئے۔ ان کے جانے کے چند ہی پل بعد شاہ جی گھر سے کرکٹ کا بلا پکڑے نکلے۔ اور کچھ ناقابل اشاعت الفاظ کے ساتھ نعرہ بلند کیا۔ کدھر گئے؟ ہم نے عرض کی قبلہ ڈر کر چلے گئے ہیں۔ انکو پتہ چل گیا تھا کہ آپ بہت مارنے والے ہیں۔ یہ ہماری دلیر شاہ سے پہلی ملاقات تھی۔
گرچہ یہ قصہ ہم نے پہلے ہی سن رکھا تھا۔ اس کے باوجود جب دلیر شاہ ہمارے پاس رہنے کے لیئے آیا۔ اور ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو ہم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور چوہدری کی تمام باتوں کو خرافات گوئی ہی سے منسوب کیا۔ اپنی ہنسی مذاق کی عادت سے وہ بہت جلد ہم میں گھل مل گیا۔ اور ہم سب نے اسے سوہنے شاہ کا خطاب عطاء کیا جسے بعد میں دلیر شاہ سے بدل دیا گیا۔
دلیر شاہ کی کچھ نمایاں خصوصیات میں ہر پانچ منٹ بعد شیشے میں اپنے بازوؤں کے مسل دیکھنااور مدھم غنائیہ ہونا تھا۔ وہ سرگوشی بھی کرتے تو تین کمروں کے فلیٹ میں بیٹھا ہر شخص مستفید ہوتا۔ اس کا حل دلیر شاہ نے یہ نکالا کہ جس کے ساتھ کوئی خفیہ بات کرنی ہوتی اسے لے کر فلیٹ سے باہر چلے جاتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن کا بیشتر حصہ فلیٹ سے باہر گزارنے لگے۔ بعض متعصب لوگوں نے یہ بھی کہا کہ کئی بار فون پر بات کرتے ہوئے دوسری جانب سے کہا گیا ہے کہ فون بند کردو۔ آواز تو ویسے ہی آ رہی ہے۔ واللہ اعلم
دلیر شاہ کی زندگی یوں تو دلیری کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مگر چند اک آپ کے سامنے پیش ہیں۔ آپ چشم تصور سے ذرا لطف لیجئےاور سوچیئے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی نجات دہندہ ہوتا تو وہ دلیر شاہ ہی ہوتا۔
اک دن میں فلیٹ پر بیٹھا تھا۔ کہ کسی نے دروازہ پیٹ ڈالا۔ اٹھ کر دیکھا تو دلیر شاہ تھا۔ پسینے میں بھیگا ہوا۔ بال بکھرے ہوئے ۔ مجھے دروازہ بند کرنے کا کہتے ہوئے بھاگ کر اندر کے کمرے میں گھس گیا اور اندر سے کنڈی لگا لی۔ میں حیران و پریشان اس حالت کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد میں نے کمرے پر دستک دی اور کہا شاہ جی سب خیر ہے نا۔ دلیر شاہ نے بڑا ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ اور کہا کہ باہر کوئی آیا تو نہیں۔ میں نے کہا نہیں۔ یہ سنکر دلیر کی جان میں جان آئی اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے پانی لانے کو کہا۔ میں پانی کا گلاس لے آیا تو اک ہی سانس میں چڑھا گئے۔ اور سانس بحال ہونے کے بعد مجھے کہا کہ یار اب تمہیں واقعہ بتاتا ہوں۔ پر شرط یہ ہے کہ گل شہروں بار نہ جائے۔ لاہور کے بڑھتے ہوئے جغرافیے کے مدّنظر میں نے فورا حامی بھر لی۔ اب دلیر شاہ نے واقعہ بیان کیا کہ میں پیدل سامنے سڑک کراس کر کے آرہا تھا کہ نظر چند لڑکوں پر پڑی۔ ان سب کے کاندھوں پر بیگ تھے۔ اور منہ اٹھا کر سڑک پر لگے بورڈز پڑھ رہے تھے۔ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی۔ میں نے کہا۔ اوئے پینڈؤوشہر بتیاں ویکھن آئے او۔ یہ سنکر اک لڑکے نے کہا۔ پھڑ لو انوں۔۔۔ اور وہ سارے میرے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر یہاں پہنچا ہوں۔ رات کھانے پر تمام احباب کے سامنے یہ واقعہ رکھا گیا۔ اور ان لوگوں کی بزدلی کو خوب زیربحث لایا گیا کہ سب نے ملکر ایک پر حملہ کی کوشش کی۔ یعنی حد ہے۔ اکیلے اکیلے آتے۔ حسب وعدہ صرف لوگ شہرسے باہر گئے پر بات شہر ہی میں رہی۔
دوسرا واقعہ دلیری کا تب ہوا جب ہم اک میوزک شو میں زبردستی گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ دلیر نے لاٹھی چارج کے دوران پولیس والے کے ہاتھ سے لاٹھی چھین لی۔ اور اس کو مارنے کی بجائے لاٹھی اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس بھاگم بھاگ میں دلیر شاہ کا اک جوتا بھی وہیں رہ گیا۔ لیکن جوتے کی یہ قربانی بھی دلیری کی مسند پر نہ بٹھا سکی۔ مگر پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کی بدولت دلیر شاہ کو دلیر شاہ کا خطاب ملا۔ بلاشبہ یہ اک معجزنما اور عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر بات تھی۔
ہمارا فلیٹ تین کمروں پر مشتمل تھا۔ جس میں دو کمروں میں بڑے بڑے شیشے کھڑکی کے نام پر نصب تھے۔ زمانہ طالبعلمی اور پردیس میں ہوتے ہوئے ہم کہاں پردوں کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔ سو بازار سے گفٹ پیپر لا کر گوند کے ساتھ شیشوں پر چپکا دیا۔ امتداد زمانہ کے باعث سامنے داخلی دروازے کے ساتھ کھڑکی سے تھوڑا سا پیپر اک طرف سے پھٹ چکا تھا۔ مگر چونکہ ہمیں بے پردگی کا کوئی ایسا ڈر نہ تھا لہذا کسی نے بھی اس پر توجہ دینا وقت اور کچھ روپے کا ضیاع سمجھا۔ عید کے دن قریب آنے پر حسب معمول ہم لوگ نصف رمضان سے ہی گھروں کا رخ کر گئے۔ دلیر ان دنوں چونکہ برسرروزگار تھا سو چھٹی نہ ملنے کے سبب اسکو تنہا رکنا پڑا۔ یہ تنہائی کس قدر اذیت ناک ہو سکتی ہے۔ بارہا مہینہ مہینہ تنہا رہنے کے باوجود مجھے اسکا درک نہ تھا۔ جب تک کہ دلیر کے ساتھ یہ وقوعہ نہ ہوا۔
سب سے پہلے میری واپسی ہوئی اور داخل ہوتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ کھڑکی کے اوپر اک تولیہ بندھا ہوا ہے۔ مگر نہ تجسس کوئی بیدار ہوا اور نہ ہی میں نے اس تولیے سے پوچھا کہ ائے تولیے تو ادھر کیوں لٹکا ہوا ہے۔ تجھے کون باندھ گیا ہے یہاں۔ کچھ دنوں میں سب احباب جمع ہوگئے سوائے دلیر کے جو عید کے بعد چھٹیاں کر کے عید منا رہا تھا۔ ہر کسی نے تولیے کے اس طرح باندھے جانے پر حیرانگی کا اظہار تو ضرور کیا۔ مگر کسی نے اسے اتارا نہیں۔ آخر وہ دن بھی آن پہنچا جس دن دلیر شاہ صاحب کی ذات بابرکت کی تشریف آوری ہوئی۔ رات کھانے کے دوران یونہی باتوں باتوں میں تولیے کا ذکر نکل آیا۔ اور سب نے استدعا کی کہ شاہ صاحب اب اس راز سے پردہ اٹھا دیجیئے۔ دلیر نے پہلے تو بہت ٹالا۔ کہ تم لوگ مذاق اڑاؤ گے۔ مگر بعد میں ہمارے سدا بہار وعدے (گل شہروں بار نئیں جائے گی ) پر اعتبار کر کے قصہ تولیہ لٹکانا کچھ اسطرح سنانا شروع کیا۔
یار تم لوگوں کے جانے بعد احساس تنہائی حد سے زیادہ ہوگیا۔ اور مجھے ڈر بھی لگنے لگا۔کہیں بھی یوں اکیلے رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اس لیئے جوں جوں رات ہوتی گئی۔ میرا خوف بڑھتا چلا گیا۔ پہلے تو اونچی آواز میں میوزک چلا کر خوف کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ سونے کی کوشش کی تو نیند بھی بہت مشکل سے آئی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ کھل گئی۔ اور اک عجیب خیال ذہن پر سوار ہوگیا۔ کہ کوئی مجھے تنہا دیکھ کر قتل کر دے گا۔ یہ خیال کا آنا تھا کہ میرا رہا سہا حوصلہ بھی جاتا رہا۔ اب میں نے تمام کھڑکیوں دروازوں کا جائزہ لیا کہ کون مجھے کہاں سے دیکھ سکتا ہے۔ مگر کوئی ایسی جگہ نہ ملی۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ ذہن میں آیا کہ یہ جو پیپر پھٹا ہوا ہے اس جگہ سے قاتل مجھے دیکھ لے گا کہ میں تنہا ہوں۔ بس سامنے کرسی پر یہ تولیہ پڑا تھا۔ میں نے فوراً اس سوراخ پر باندھ دیا۔
یہ کہانی سنکر ہمارا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ اس رات ڈنر کے بعد باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی۔ جس میں دلیر شاہ کو دلیر شاہ کا خطاب دیا گیا۔ اس فلیٹ میں اسکے بعد ہم تین سال رہے۔ اور وہ تولیہ وہیں اسی جگہ پر لٹکا رہا۔ کیوں کہ اسکی وجہ سے ہمارے اک دوست کی نامعلوم قاتل سے جان بچی تھی۔ اور دلیری کا تاج اسکے سر پر سجایا گیا تھا۔ واقعی میں اگر وہ تولیہ نہ ہوتا۔ تو آج دلیر شاہ ہمارے ساتھ نہ ہوتا۔ یا پھر اسکا نام دلیر شاہ نہ ہوتا۔​
 

مقدس

لائبریرین
افففف نین بھیااااا:rollingonthefloor: :rollingonthefloor:
ہنس ہنس کے پیٹ میں درد ہو گیا
صبر کا پھل واقعی میں میٹھا ہوتا ہے
تفصیلی تبصرہ لیپی سے آکے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبردست۔ موصوف چونکہ بظاہر سید لگ رہے ہیں، اس لئے میں اپنا تبصرہ محفوظ رکھتا ہوں :)
اوتھے عملاں تے ہونے نے نبیڑے کسے نئیں تیری ذات پچھنی :p

بہت خوب۔۔پڑھ کر مزا آیا :)
شکریہ نجیب بھائی :)

:) :)

کیا خوب ہنسایا ہے محترم نیرنگ خیال بھائی
بہت شکریہ
شکریہ نایاب بھائی :)

خوبصورت تحریر کے لیے شکریہ سر۔
بہت شکریہ عمر اعظم بھائی۔ خوشی ہوئی کے تحریر آپکو پسند آئی۔ :)
 

یوسف-2

محفلین
دلیر شاہ سے میری پہلی ملاقات آج سے کوئی آٹھ سال قبل ہوئی تھی۔ وہ ہمارے اک انتہائی عزیز دوست المعروف چوہدری کا دوست تھا۔ غائبانہ تعارف اس سے پہلے ہی سے تھا۔ ٹھہرئیے دلیر شاہ سے تعارف سے قبل اک واقعہ بزبان چوہدری سن لیجیئے۔
میں اپنے اک عزیز کے گھر آیا ہوا تھا۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں شائد اسی دن یا اگلے دن شام کو اس نے کہا کہ پاس ہی دوست رہتا ہے۔ اس سے ملتے ہیں۔ ذرا گپ شپ رہے گی۔ اور میں بھی ہوا خوری کے لالچ میں ساتھ چل پڑا۔ مگر فلک نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔ کچھ گلیوں سے ہوکر جب ہم نے اک گھر کے سامنے جا کر دستک دی۔ نکلنے والی شخصیت متاثر کن تھی۔ لمبا قد ۔ بعد میں پتہ چلا کہ موصوف کا قد چھ فٹ اک انچ ہے۔ سنہرے بڑے بڑے سلکی بال۔ اپنے علاقے میں اس رنگ کے بال دیکھ کر میں حیران ہو گیا۔ اور سفید رنگت۔ جو کہ ہم جیسے صحرا نشینوں کے لیئے یقینا باعث جلن تھی۔ باقاعدہ باڈی بلڈنگ سے تراشیدہ کسرتی بدن۔ جسم کی بناوٹ کو نمایاں کرنے کے لیئے شائد شاہ جی نے چھوٹے بھائی کی شرٹ پہن رکھی تھی۔ انتہائی بلند آواز میں انہوں نے سلام کیا۔ ابھی کچھ ثانیے ہی گزرے ہونگے کہ گلی میں سات یا آٹھ لڑکے داخل ہوئے۔ اور شاہ جی پر پل پڑے۔ میرا عزیز لڑائی میں شاہ جی کی طرف سے شامل ہوگیا۔ مجبوراً مجھے بھی اس شغل میں کودنا پڑا۔ انکا پلڑا بھاری تھا۔ اور ہم برے نہیں تو شائد اچھے طریقے سے پٹ رہے تھے۔ یکدم میرے حواس نے کام کیا تو دیکھا کہ میں اور عزیزم ہی پٹ رہے ہیں۔ شاہ جی غائب ہیں۔ میں نے فوراً ہاتھ اٹھائے اور نعرہ بلند کیا کہ میاں کس سے لڑائی ہے تم لوگوں کی۔اس پر وہ لڑکے بھی رک گئے۔ اور شاہ جی کو غائب پا کر بکتے جھکتے چلے گئے۔ ان کے جانے کے چند ہی پل بعد شاہ جی گھر سے کرکٹ کا بلا پکڑے نکلے۔ اور کچھ ناقابل اشاعت الفاظ کے ساتھ نعرہ بلند کیا۔ کدھر گئے؟ ہم نے عرض کی قبلہ ڈر کر چلے گئے ہیں۔ انکو پتہ چل گیا تھا کہ آپ بہت مارنے والے ہیں۔ یہ ہماری دلیر شاہ سے پہلی ملاقات تھی۔
گرچہ یہ قصہ ہم نے پہلے ہی سن رکھا تھا۔ اس کے باوجود جب دلیر شاہ ہمارے پاس رہنے کے لیئے آیا۔ اور ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو ہم بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور چوہدری کی تمام باتوں کو خرافات گوئی ہی سے منسوب کیا۔ اپنی ہنسی مذاق کی عادت سے وہ بہت جلد ہم میں گھل مل گیا۔ اور ہم سب نے اسے سوہنے شاہ کا خطاب عطاء کیا جسے بعد میں دلیر شاہ سے بدل دیا گیا۔
دلیر شاہ کی کچھ نمایاں خصوصیات میں ہر پانچ منٹ بعد شیشے میں اپنے بازوؤں کے مسل دیکھنااور مدھم غنائیہ ہونا تھا۔ وہ سرگوشی بھی کرتے تو تین کمروں کے فلیٹ میں بیٹھا ہر شخص مستفید ہوتا۔ اس کا حل دلیر شاہ نے یہ نکالا کہ جس کے ساتھ کوئی خفیہ بات کرنی ہوتی اسے لے کر فلیٹ سے باہر چلے جاتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن کا بیشتر حصہ فلیٹ سے باہر گزارنے لگے۔ بعض متعصب لوگوں نے یہ بھی کہا کہ کئی بار فون پر بات کرتے ہوئے دوسری جانب سے کہا گیا ہے کہ فون بند کردو۔ آواز تو ویسے ہی آ رہی ہے۔ واللہ اعلم
دلیر شاہ کی زندگی یوں تو دلیری کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مگر چند اک آپ کے سامنے پیش ہیں۔ آپ چشم تصور سے ذرا لطف لیجئےاور سوچیئے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی نجات دہندہ ہوتا تو وہ دلیر شاہ ہی ہوتا۔
اک دن میں فلیٹ پر بیٹھا تھا۔ کہ کسی نے دروازہ پیٹ ڈالا۔ اٹھ کر دیکھا تو دلیر شاہ تھا۔ پسینے میں بھیگا ہوا۔ بال بکھرے ہوئے ۔ مجھے دروازہ بند کرنے کا کہتے ہوئے بھاگ کر اندر کے کمرے میں گھس گیا اور اندر سے کنڈی لگا لی۔ میں حیران و پریشان اس حالت کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد میں نے کمرے پر دستک دی اور کہا شاہ جی سب خیر ہے نا۔ دلیر شاہ نے بڑا ڈرتے ڈرتے دروازہ کھولا۔ اور کہا کہ باہر کوئی آیا تو نہیں۔ میں نے کہا نہیں۔ یہ سنکر دلیر کی جان میں جان آئی اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے پانی لانے کو کہا۔ میں پانی کا گلاس لے آیا تو اک ہی سانس میں چڑھا گئے۔ اور سانس بحال ہونے کے بعد مجھے کہا کہ یار اب تمہیں واقعہ بتاتا ہوں۔ پر شرط یہ ہے کہ گل شہروں بار نہ جائے۔ لاہور کے بڑھتے ہوئے جغرافیے کے مدّنظر میں نے فورا حامی بھر لی۔ اب دلیر شاہ نے واقعہ بیان کیا کہ میں پیدل سامنے سڑک کراس کر کے آرہا تھا کہ نظر چند لڑکوں پر پڑی۔ ان سب کے کاندھوں پر بیگ تھے۔ اور منہ اٹھا کر سڑک پر لگے بورڈز پڑھ رہے تھے۔ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی۔ میں نے کہا۔ اوئے پینڈؤوشہر بتیاں ویکھن آئے او۔ یہ سنکر اک لڑکے نے کہا۔ پھڑ لو انوں۔۔۔ اور وہ سارے میرے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر یہاں پہنچا ہوں۔ رات کھانے پر تمام احباب کے سامنے یہ واقعہ رکھا گیا۔ اور ان لوگوں کی بزدلی کو خوب زیربحث لایا گیا کہ سب نے ملکر ایک پر حملہ کی کوشش کی۔ یعنی حد ہے۔ اکیلے اکیلے آتے۔ حسب وعدہ صرف لوگ شہرسے باہر گئے پر بات شہر ہی میں رہی۔
دوسرا واقعہ دلیری کا تب ہوا جب ہم اک میوزک شو میں زبردستی گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ دلیر نے لاٹھی چارج کے دوران پولیس والے کے ہاتھ سے لاٹھی چھین لی۔ اور اس کو مارنے کی بجائے لاٹھی اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس بھاگم بھاگ میں دلیر شاہ کا اک جوتا بھی وہیں رہ گیا۔ لیکن جوتے کی یہ قربانی بھی دلیری کی مسند پر نہ بٹھا سکی۔ مگر پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کی بدولت دلیر شاہ کو دلیر شاہ کا خطاب ملا۔ بلاشبہ یہ اک معجزنما اور عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر بات تھی۔
ہمارا فلیٹ تین کمروں پر مشتمل تھا۔ جس میں دو کمروں میں بڑے بڑے شیشے کھڑکی کے نام پر نصب تھے۔ زمانہ طالبعلمی اور پردیس میں ہوتے ہوئے ہم کہاں پردوں کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے تھے۔ سو بازار سے گفٹ پیپر لا کر گوند کے ساتھ شیشوں پر چپکا دیا۔ امتداد زمانہ کے باعث سامنے داخلی دروازے کے ساتھ کھڑکی سے تھوڑا سا پیپر اک طرف سے پھٹ چکا تھا۔ مگر چونکہ ہمیں بے پردگی کا کوئی ایسا ڈر نہ تھا لہذا کسی نے بھی اس پر توجہ دینا وقت اور کچھ روپے کا ضیاع سمجھا۔ عید کے دن قریب آنے پر حسب معمول ہم لوگ نصف رمضان سے ہی گھروں کا رخ کر گئے۔ دلیر ان دنوں چونکہ برسرروزگار تھا سو چھٹی نہ ملنے کے سبب اسکو تنہا رکنا پڑا۔ یہ تنہائی کس قدر اذیت ناک ہو سکتی ہے۔ بارہا مہینہ مہینہ تنہا رہنے کے باوجود مجھے اسکا درک نہ تھا۔ جب تک کہ دلیر کے ساتھ یہ وقوعہ نہ ہوا۔
سب سے پہلے میری واپسی ہوئی اور داخل ہوتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ کھڑکی کے اوپر اک تولیہ بندھا ہوا ہے۔ مگر نہ تجسس کوئی بیدار ہوا اور نہ ہی میں نے اس تولیے سے پوچھا کہ ائے تولیے تو ادھر کیوں لٹکا ہوا ہے۔ تجھے کون باندھ گیا ہے یہاں۔ کچھ دنوں میں سب احباب جمع ہوگئے سوائے دلیر کے جو عید کے بعد چھٹیاں کر کے عید منا رہا تھا۔ ہر کسی نے تولیے کے اس طرح باندھے جانے پر حیرانگی کا اظہار تو ضرور کیا۔ مگر کسی نے اسے اتارا نہیں۔ آخر وہ دن بھی آن پہنچا جس دن دلیر شاہ صاحب کی ذات بابرکت کی تشریف آوری ہوئی۔ رات کھانے کے دوران یونہی باتوں باتوں میں تولیے کا ذکر نکل آیا۔ اور سب نے استدعا کی کہ شاہ صاحب اب اس راز سے پردہ اٹھا دیجیئے۔ دلیر نے پہلے تو بہت ٹالا۔ کہ تم لوگ مذاق اڑاؤ گے۔ مگر بعد میں ہمارے سدا بہار وعدے (گل شہروں بار نئیں جائے گی ) پر اعتبار کر کے قصہ تولیہ لٹکانا کچھ اسطرح سنانا شروع کیا۔
یار تم لوگوں کے جانے بعد احساس تنہائی حد سے زیادہ ہوگیا۔ اور مجھے ڈر بھی لگنے لگا۔کہیں بھی یوں اکیلے رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اس لیئے جوں جوں رات ہوتی گئی۔ میرا خوف بڑھتا چلا گیا۔ پہلے تو اونچی آواز میں میوزک چلا کر خوف کو کم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ سونے کی کوشش کی تو نیند بھی بہت مشکل سے آئی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ کھل گئی۔ اور اک عجیب خیال ذہن پر سوار ہوگیا۔ کہ کوئی مجھے تنہا دیکھ کر قتل کر دے گا۔ یہ خیال کا آنا تھا کہ میرا رہا سہا حوصلہ بھی جاتا رہا۔ اب میں نے تمام کھڑکیوں دروازوں کا جائزہ لیا کہ کون مجھے کہاں سے دیکھ سکتا ہے۔ مگر کوئی ایسی جگہ نہ ملی۔ ابھی لیٹا ہی تھا کہ ذہن میں آیا کہ یہ جو پیپر پھٹا ہوا ہے اس جگہ سے قاتل مجھے دیکھ لے گا کہ میں تنہا ہوں۔ بس سامنے کرسی پر یہ تولیہ پڑا تھا۔ میں نے فوراً اس سوراخ پر باندھ دیا۔
یہ کہانی سنکر ہمارا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا۔ اس رات ڈنر کے بعد باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی۔ جس میں دلیر شاہ کو دلیر شاہ کا خطاب دیا گیا۔ اس فلیٹ میں اسکے بعد ہم تین سال رہے۔ اور وہ تولیہ وہیں اسی جگہ پر لٹکا رہا۔ کیوں کہ اسکی وجہ سے ہمارے اک دوست کی نامعلوم قاتل سے جان بچی تھی۔ اور دلیری کا تاج اسکے سر پر سجایا گیا تھا۔ واقعی میں اگر وہ تولیہ نہ ہوتا۔ تو آج دلیر شاہ ہمارے ساتھ نہ ہوتا۔ یا پھر اسکا نام دلیر شاہ نہ ہوتا۔​
بہت خوب۔ بھائی کیا زبردست ”آپ بیتی ہے“ :p کس دوست نے لکھ کر دی ہے :bee:
 

رانا

محفلین
واہ زبردست۔ بہت خوب لکھا ہے۔:great:
یار اپنی آپ بیتی آپ نے دلیر شاہ کے کندھے پر رکھ کر چلا دی۔:)
 
Top