دعا زہراہ کا معاملہ - دعوتِ فکر

سر جی کہانی گو کہ آپ نے خود ساختہ کہی مگر پوری ساخت الگ ہی کہانی سنا رہی ہے ۔۔خیر جو بھی آپ نے بیان کیا شاید اسی بات کو لے کر کیس کا فیصلہ ہو گیا خیر میں تو صرف اتنا عرض کرونگا کہ پوری کہانی میں سارے عوامل پیش نظر رکھے گئے کہ آگے کیا معاملات ہو سکتے ہیں اور جس طرح ظہیر کو سپونسر کیا جا رہا ہے اس سے کچھ اور کہانیاں بھی بن سکتی ہیں میرا صرف یہ کہنا ہے کہ لڑکی کو ماں سے اور باپ سے عدالت میں ہی ملایا جا تا جج کی موجودگی میں لڑکی کو نشہ کے زیرِ اثر رکھا جانا یا کسی اور بنیاد پر بلیک میل کیا جانا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔۔۔اور جسطرح عجلت کا مظاہرہ کیا گیا وہ بھی سمجھ سے باہر ہے ماں بہرحال ماں ہوتی ہے اور باپ کے ولی ہونے کو کسی بھی طرح چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔
قانون کے الفاظ دیکھ لیں
Under the Islamic law marriage is a civil contract and a Muslim girl is competent to conclude it on attaining puberty which, in the absence of evidence to thecontrary, is presumed on the completion of the age of fifteen years.
اسلامی قانون کے مطابق شادی ایک سول کانٹریکٹ ہے اور ایک مسلمان لڑکی بالغ ہونے پر ایسا معاہدہ کرنے کی اہل ہے۔ بلوغت جو اس کی عمر کے پندرہ سال پورے ہونے پر سمجھی جائے گی ماسوائے اس کے کہ اس کے خلاف کوئی اور دلیل نہ ہو۔

اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھی جائے کہ شرعا بلوغت کی بات ہو رہی ہے جو پاکستان میں تو بارہ برس کی بچیوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی دلیل مخالف ہوتی ہے تو وہ بارہ-تیرہ-چودہ-پندرہ برس کی عمر میں شادی ہونے کی صورت میں اس شادی کے حق میں جائے گی ماسوائے اس کے کہ جسمانی تعلق کی کم از کم عمر سولہ برس یا پندرہ برس کا اکتمال ہدف قانون ہے۔ اس سے کم پر دوسرے قوانین کے ذریعے رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔ لیکن نہ شادی فسخ ہوگی نہ نکاح غیر موثر ہوگا البتہ رخصتی نہیں ہو سکے گی سولہ برس سے کم عمر پر اور اسی نکتے پر دعا زہرہ کے والدین کی پوری جنگ قائم تھی کہ لڑکی 14 برس کی ہے ۔ جبکہ لڑکی عدالت میں پیش ہو کر اپنے بالغ، پندرہ برس کے اکتمال سے زیادہ ، اور برضا و رغبت شادی کو جسمانی و قانونی طور پر ثابت کر چکی ہے۔ یہی وجہ تھی کی عدالت اسے واپس خاوند کے ساتھ بھیجنے پر مجبور تھی

A girl who has attained puberty may contract marriage with a man of her choice and it is not necessary for her to obtain the consent of her Wali.
ایک لڑکی جو بالغ ہو چکی ہے اپنی مرضی سے ازدواجی معاہدہ قائم کر سکتی ہے اور ولی کی رضامندی حاصل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔

Marriage with a minor who is below sixteen is not invalid but the person concerned may be prosecuted for an offence under section 363 PPC and/or the Child Marriage Restraint Act, 1929.1
سولہ برس سے کم عمر کی صورت میں شادی فسخ نہیں ہے لیکن اس میں ملوث افراد کے خلاف قانون کی دفعہ 363 ت۔پ اور/یا بچگانہ شادی امتناع ایکٹ 1929 کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے۔

ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے عدالت کو قصوروار ٹھہرانا لاعلمی کا نتیجہ ہے۔

 
آخری تدوین:
بچوں پر منحصر ہے، کئی بچے حساس ہوتے ہیں، شیر کی نظر سے دیکھیں گے تو مزید سہم جائیں گے اور دل کی بات زبان پر نہ لا پائیں گے اور راہِ فرار اختیار کریں گے۔ آپ نے جو فرمایا ہے نا کہ دوستانہ ماحول گھرمیں رہے تو بہتر ہے؛ بس یہی بات مناسب ہے۔ گھر میں دوستانہ ماحول ہو گا تو نوے فی صد سے زائد مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
محترم شاید آپ میری کہاوت سے مراد مارپیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ لے رہے ہیں۔میں بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میرا کہاوت تحریر کرنے سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو لاڈ پیار اور محبت دیں اور ساتھ ساتھ غیر محسوس انداز میں ان پر کڑی نظر بھی رکھیں۔کسی بھی غلطی یا شکایت کے موقع پر گھر سے باہر اور گھر میں موجود افراد کے سامنے سرزیش نہ کریں بلکہ کمرے میں تنہائی کی حالت میں شکایت یا غلطی کے مطابق سرزیش کریں اور انداز ایسا اختیار کریں کے بچے کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے بے عزت کیا جا رہا ہے۔ہمیشہ مہذب رویہ رکھیں تاکہ بچہ آپ یا گھر سے باغی نہ ہو۔
 
دعا زہرہ اور ظہیر کا ایک انٹرویو دیکھا دونوں کی باتیں تقریباً سچ ہیں ایک بات غلط لگتی ہے جیسے دعا بغیر ظہیر کو بتاے لاہور پہنچ گئ، غالباً یہ بیان ظہیر کو قانون سے بچانے کے لئے دیا گیا ہوگا.
دعا کا یہ کہنا کہ والدین کو ظہیر سے نکاح کا بتانے پر اسے مارا گیا اور اسکا ٹیب(فون) لے لیا گیا یہ والدین کی پہلی غلطی تھی کیونکہ وہ پب جی کی عادی تھی. نشئ سے نشہ چھیننے پر اسکا عمل جارحانہ ہوتا ہے بچی نے سوچا ہر چیز چھن چکی آخری سہارا ظہیر ہے تو وہ وہاں پہنچ گئ. دعا کے والدین کو فوری طور پر ماہر نفسیات کی مدد لینا چاہیے تھی.

کیا یہ معاملہ انسانی سمگلنگ کا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اتنا ہائ پروفائل کیس پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور ایف آئ سے کیسے چھپا رہ سکتا تھا؟ دعا کے والدین کو ایک صوبہ کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے وفاق میں بھی انہیں کی حکومت ہے اگر شائبہ بھی گزرتا تو اب تک ظہر کا پورا خاندان نظر بند ہوجاتا.

دعا کے والدین ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ماں باپ تکلیف میں ہیں. مرضی کے بغیر کوی معمولی سی چیز بھی بغیر اجازت اٹھا لی جاے اور دوسرا شخص کسی صورت واپس کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مالک کیسا محسوس کرے گا؟ یہ تو پھر بطن سے پیدا ہوی بچی ہے دعا کے ماں باپ کیسے یہ برداشت کر لیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ہر طرح سے ان کے میعار پر پورا نہ اترنے والا لڑکا (تقریباً دشمن) ان کی بیٹی پر حق ملکیت جتاے اور ماں جس نے بیٹی کو جنم دیا اس کا کوی اختیار ہی نہ ہو؟

والدین کی تمام کوتاہیوں کے باوجود میں بچوں کے عمل کو غلط ٹھہراو‍ں گا.

والدین اسٹیٹ آف ڈینائل میں کیوں؟

ماں باپ دراصل اپنی لخت جگر کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں جنہوں نے اسے دعا کے والدین نہیں بلکہ ایک پورے فرقے کی عزت پر حملہ تصور کرلیا ہے. دعا کے والدین کو پیار محبت سے لڑکی کو اپنے قریب کرنا چاہیے ضد اور انا بعض اوقات انسان کو حقیقت سے دور کردیتی ہے اور غیر حقیقت پسندی انسان کو کہیں کو نہیں چھوڑتی.
اسامہ شرافت
 

وجی

لائبریرین
بچےاپنے بڑوں کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھتے ہیں گھر میں کس طرح بات کرنی ہےوہ بڑوں کی آپس کی باتوں سے سیکھتے ہیں
ماں باپ کا آپس میں بات کرنا اور بات ہے اور بچوں سے بات کرنا اور ۔
ایک اپنی مثال دوں کہ ہمارے گھر میں ہم نے اپنے والدین کو دادی کو آپس میں پنجابی میں بات کرتے دیکھتا ہے مگر ہمیں پنجابی بولنی نہیں آئی کیونکہ ہم سے والدین یا خاندان کے بڑوں نے صرف اردو میں بات کی ۔ (وہ الگ بات ہے ڈانٹ ہمیشہ پنجابی میں ہی پڑی )
اب جب ہم ٹی وی ، موبائل اور لپ ٹاپ میں مصروف رہیں گے تو بچوں پر اسکا بہت اثر پڑے گا ۔
جب آذان ہوتی ہے اور کیا ہم ان چیزوں سے اپنا دھیان ہٹاتے ہیں یا پھر جب بچے ہمیں بلاتے ہیں تو کیا ہم انکی بات سنتے ہیں اپنا دھیان انکی طرف کرتے ہیں
بہت ساری باتیں ہوتیں ہیں جو بچوں کے بڑے ہوتے انکے ذہنوں میں پیوست ہوجاتیں ہیں۔
ہمیں ہی خیال رکھنا ہے کیونکہ بچے ہمارے ہی ہیں معاشرے میں موجود برائیوں سے خود اور بچانا ہے اور بچوں کی ذہن سازی کرنی ہے کہ جو غلط ہے وہ غلط ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
محترم شاید آپ میری کہاوت سے مراد مارپیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ لے رہے ہیں۔میں بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ میرا کہاوت تحریر کرنے سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو لاڈ پیار اور محبت دیں اور ساتھ ساتھ غیر محسوس انداز میں ان پر کڑی نظر بھی رکھیں۔کسی بھی غلطی یا شکایت کے موقع پر گھر سے باہر اور گھر میں موجود افراد کے سامنے سرزیش نہ کریں بلکہ کمرے میں تنہائی کی حالت میں شکایت یا غلطی کے مطابق سرزیش کریں اور انداز ایسا اختیار کریں کے بچے کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے بے عزت کیا جا رہا ہے۔ہمیشہ مہذب رویہ رکھیں تاکہ بچہ آپ یا گھر سے باغی نہ ہو۔
بات واضح ہو گئی۔ شکریہ نقیبی صاحب۔
 

سیما علی

لائبریرین
کیا یہ معاملہ انسانی سمگلنگ کا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اتنا ہائ پروفائل کیس پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور ایف آئ سے کیسے چھپا رہ سکتا تھا؟ دعا کے والدین کو ایک صوبہ کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے وفاق میں بھی انہیں کی حکومت ہے اگر شائبہ بھی گزرتا تو اب تک ظہر کا پورا خاندان نظر بند ہوجاتا.
پتہ نہیں کیوں بار بار ہمارا ذہن بھی کہتا ہے کہ یہ Human Trafficking کا معاملہ ہے ۔بچی کا ذہن بالکل نارمل بات نہیں کرتا وہ جتنی بھی بڑی بننے کی کوشش کرے نہیں ۔بات ذہن قبول کرتا نہیں ۔۔۔اللہ پاک اپنا کرم فرمائیں اور کسی بچی کے ساتھ ایسا نہ ہو ۔دل بہت دُکھتا ہے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہمیں ہی خیال رکھنا ہے کیونکہ بچے ہمارے ہی ہیں معاشرے میں موجود برائیوں سے خود اور بچانا ہے اور بچوں کی ذہن سازی کرنی ہے کہ جو غلط ہے وہ غلط ہے۔
پر بھیا وقت بہت بُرا ہے ۔ہر بُرائی معاشرے میں اس طرح در آئی ہے کہ کہ کچھ لوگ تو اُسے بُرائی سمجھتے ہی نہیں ۔بس مالک سے دعا ہے کہ برُائی سے ہمیں بھی محفوظ رکھے اور آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ رکھے آمین۔۔۔
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں ۔
 
السلام علیکم
دعاء زہرا کیس کے متعلق سوال بہت سے ہیں لیکن ان سوالات کا تعلق جہاں لوگ تربیت سے بنا کر والدین کو قصور وار ٹھہرا رہے ہیں ، وہیں ایسے ساتھیوں کی بھی کمی نہیں ہے جو موبائیل کی لت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے کہ جی لڑکی کی عمر کیا ہے چودہ برس؟ نہیں نہیں اٹھارہ برس؟ نہیں نہیں سولہ سترہ برس ؟ نہیں نہیں سولہ برس سے زیادہ سترہ برس کے قریب۔ کم عمر ہے تو والدین کو حق ہے فیصلہ کرنے کا ، نہیں نہیں عمر کم ہے تو بھی والدین دخل نہیں دے سکتے، نہیں نہیں والدین ہی ہٹلر بن گئے ہونگے، نہیں نہیں لڑکی کو ورغلایا گیا ہے، نہیں نہیں دونوں کا چکر تھا ۔ یہ سب باتیں غیر متعلقہ بھی کہلائی جا سکتی ہیں اور نفس الموضوع بھی۔

ایک خود ساختہ سی کہانی سناتا ہوں جس کی کسی سے بھی مشابہت اتفاقی ہوسکتی ہے۔

لیلیٰ کے والدین کی شادی جنوری 2005 میں ہوتی ہے۔ اکتوبر میں لیلیٰ پیدا ہو جاتی ہے ۔ رشتہ دار کہتے ہیں تھوڑا ٹھہر جاتے ہیں لڑکیوں کی عمر کم ہی اچھی ہوتی ہے ۔ سال دو سال بعد پیدائش رجسٹر کروا کر بچی بڑی ہوتی ہے تو گھر میں ہونے والے معاملات ، سختی، پسند نا پسند ، چھوٹے چھوٹے مسائل سے تنگ آ کر وہ گھر سے نکل جاتی ہے۔ کوئی مقصد سامنے نہیں ہوتا پنجاب پہنچ جاتی ہے۔ غلط لوگوں کی نظر پڑ جاتی ہے وہ اسے ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ علاقے کا ایک طرح دار زمیندار دیکھ لیتا ہے ان کے چنگل سے نکال کر اپنی بیٹی بنا لیتا ہے۔ لڑکی کے والدین شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہماری نوعمر لڑکی جس کی عمر 14 سال ہے اغوا ہو گئی ہے۔ میڈیا میں موجود ہم خیال لوگ اس بات کو قومی سطح پر اٹھاتے ہیں اور یہ مسئلہ میڈیا پر ہائی لائیٹ ہو جاتا ہے ۔ شور مچ جاتا ہے لڑکے کا باپ لڑکی کو پوچھتا ہے وہ کہتی ہے مر جاؤں گی واپس نہیں جاؤں گی میں جانتی ہوں میرے گھر والے میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ صورت حال دیکھ کر زمیندار اپنے بیٹے سے اس لڑکی کا نکاح کر دیتا ہے۔ لیکن اس دوران وکیل کا مشورہ پیش نظر رکھ کو قانونی ضرورتیں بھی پوری کر دیتا ہے۔ لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے اور اسے نیا گھر مل جاتا ہے دوسری طرف لڑکی کے والدین میڈیا دوستوں کے ذریعے پریشر بنا لیتے ہیں۔ جس کے تحت صوبے کا آئی جی تک اپنی نوکری کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔ آخر لڑکی کا ویڈیو بیان سامنے آتا ہے جس میں وہ اپنی شادی کا اعلان کرتی ہے۔ پنجاب پولیس اسے تلاش کر کے اسکے گھر جاتی ہے ۔لڑکی کو ملتی ہے تو دیکھتی ہے کہ لڑکی نہ گفتگو میں ، نہ جسمانی ساخت میں ، نہ ذہنی طور پر یعنی کسی طرح سے بھی چودہ برس کی نہیں لگتی اور لڑکی کا اپنا بیان بھی یہی ہے کہ وہ چودہ نہیں بلکہ سولہ برس سے زیادہ اور سترہ برس کے قریب ہے (نکاح نامہ پر تقریباً سترہ برس لکھا ہے) اب تمام صورت حال میں وہ لڑکی کا بیان لے کر عدالت میں جمع کروا دیتے ہیں ۔ میڈیا شور مچا رہا ہے کہ لڑکی چودہ برس کی ہے۔ معاملہ سنجیدہ ہے لہذا پنجاب کی عدالت عالیہ ہائی کورٹ صاحب بہادر لڑکی لڑکے کو بمع نکاح خواں اور گواہان کے طلب کر لیتی ہے۔اور حالات و واقعات اور لڑکی کے بیانات اور اس کی جسمانی، ذہنی، دماغی ساخت و ردعمل کی بنیاد پر سمجھ کر کہ لڑکی کی عمر کے معاملے میں میڈیا پر غلط بیانی ہو رہی ہے ۔ لڑکی کی مرضی کے مطابق اسے اپنے خاوند کے ساتھ جانے کی اجازت دے دیتی ہے۔ اس دوران سندھ میں بھی عدالت عالیہ ہائی کورٹ صاحب بہادر ازخود نوٹس لے کر پولیس کو حکم دیتے ہیں کہ لڑکی کو برآمد کر کے پیش کیا جائے۔ پراسیس میں وقت لگ جاتا ہے ۔ میڈیا میں موجود دوست احباب کے دباؤ میں عدالت آئی جی سندھ کی نوکری کھا جانے کی دھمکی دیتی ہے اور پھر آخر کار پنجاب پولیس سے مدد مانگ کر سندھ پولیس لڑکی لڑکے اور نکاح خواں بمعہ گواہان کے سندھ کی عدالت عالیہ ہائی کورٹ صاحب بہادر میں پیش کرتے ہیں۔ عدالت لڑکی کی جسمانی حالت دیکھ کر اس سے گفتگو کر کے پھر بھی اسے احتیاطا دو وجوہات سے دارالامان بھیجتی ہے پہلی یہ کہ اگر یہ لڑکی کسی دباؤ میں ہے تو اس کے اثر سے نکل جائے دوسری اس کا طبی معائینہ کیا جا سکے کہ اس کی عمر کیا ہے ۔اس دوران نکاح خواں ، گواہان اور لڑکا سب حوالات میں رکھے جاتے ہیں جہاں اثرو رسوخ سے پہلے نکاح خواں کو نکاح رجسٹر نہ کروانے کا مجرم کہا جاتا ہے پھر آخر اسے اس بات پر راضی کر لیا جاتا ہے کہ وہ نکاح کروانے سے ہی مکر جائے۔دوسری طرف ایک اور گواہ کو یہ کہہ کر اپنی گواہی سے انکاری کر دیا جاتا ہے کہ نکاح خواں ہی مکر گیا ہے تو تم نے گواہی کس نکاح میں دی ہے۔ بندہ پہلے ہی اس سارے چکر میں مفت کی خواری کاٹ کر تنگ پڑ چکا ہے اس وعدے کا یقین کر لیتا ہے اور اپنی گواہی سے مکر جاتا ہے اب ایک گواہ اور نکاح خواں مکر چکے ہیں اور لڑکی لڑکے میں مفارقت ہو چکی ہے کل عدالت میں پیشی کے بعد تو سب ٹھیک ہو جانا چاہیئے۔ لڑکی کی رپورٹ آتی ہے کہ لڑکی سولہ سے زیادہ سال کی ہے اب قانونی پوزیشن مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ لڑکی کا نکاح قانونی ہے ۔ نکاح خواں اور گواہ عدالت میں تمام صورت حال بیان کر دیتے ہیں ۔ عدالت حالات و واقعات کی بنیاد پر لڑکی کو اپنے نئے گھر جانے کی اجازت اس بنیاد پر دے دیتے ہیں کہ نکاح جس صوبہ میں ہوا وہاں کے قوانین کے مطابق درست ہے ۔ البتہ رجسٹریشن نہ ہوئی ہونے کی وجہ سے جو کوتاہی ہوئی ہے وہ بوجہ قانونی مدت کے بقاء کے ابھی جرم کی صورت اختیار نہ کی ہے۔البتہ گواہ اور مولوی کے بیان جو پولیس کی حراست میں دیا گیا تھا کو بنیاد بنا کر میڈیا پر پھر شور مچایا جاتا ہے۔ لیکن عدالت عالیہ سندھ ہائی کورٹ کو فیصلہ قانون اور شواہد کے مطابق کرنا ہے نہ کہ خواہشات کی بنیاد پر کیونکہ یہی فیصلہ پنجاب ہائی کورٹ کو بھی بھیجا جانا ہے۔ جیسے ہی یہ فیصلہ ہوتا ہے تو لڑکی کے والدین اور ان کے ساتھی شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہوا ہے۔ لڑکی کی عمر کا ثبوت کاغذات پر دیکھنے کی بجائے اپنا ہی ٹسٹ کرایا گیا تھا وغیرہ وغیرہ ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا لڑکی کو واپس بھیجنا اس کے بہترین مفاد میں ہے یا نہیں اور یہ مفاد کون طے کرے گا ۔ لڑکی؟ لڑکی کے والدین؟ یا پھر عدالت موجود ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔ لڑکی کے والدین کا کیس لڑکی کے ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے اور موجود عمر کے کاغذات کا سامنے موجود لڑکی کی بادی النظر میں عمر کے مطابق نہ ہونا اور نکاح کا دوسرے صوبے میں ہونا جسے قانونی تحفظ حاصل ہے ایسے فیصلہ کن عوامل ہیں جن کی بنیاد پر عدالت ہائے عالیہ پنجاب و سندھ اور دونوں صوبوں کی پولیس کی رپورٹس جس میں سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شامل ہے جس میں لڑکی اکیلی نکل کر جاتی ثابت ہو رہی ہے تو فیصلہ اس کے علاوہ کیا آنا تھا۔
2005 کی شادی کو 2022 میں سترہ برس مکمل ہو جاتے ہیں جس سے کم از کم لڑکی کا سولہ برس کی ہونا ممکن ہے اور سولہ برس کی لڑکی کی شادی پنجاب کے قوانین کے مطابق بالکل درست ہے۔

اس کہانی کو جو مکمل طور پر فرضی ہے۔ ذہن میں رکھیں تو دعاء زہرا کے کیس کا ایک منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔ جو ہو سکتا ہے اس کے عین مطابق نہ ہو لیکن اس کے قریب قریب ضرور ہو سکتا ہے ۔ اس سب میں کیا عوامل ہو سکتے ہیں جن سے یہ مسئلہ پیدا ہوا

1۔ آج کے بچے ہمارے غلام نہیں ہیں نہ ہی وہ ہماری مرضی ماننے کے قانونا پابند ہیں
2۔ ہم کب انہیں الگ مکمل انسان سمجھنا شروع کریں گے بجائے اپنی ملکیت سمجھنے کے؟
3۔ ان کی ضروریات پورا کرنے کی دوڑ میں ہم کہیں انہیں خود سے دور تو نہیں کر بیٹھے؟
4۔ کھانا پینا، سونا ٹی وی ، میک اپ ، شادیاں بس؟؟ ان بچوں کی اور کوئی ضرورت نہیں ہے؟
5۔ بچیوں کی تربیت ان کی ہوش سنبھالنے سے شروع ہوتی ہے اور وہ وعظ سے زیادہ سامنے نظر آنے والی مثالوں یعنی والدین کو نقل کرتے ہیں لہذا ہمیں خود ایک مثال بننا ہوگا اگر ہم بچوں کو کسی خاص ڈھب پر ڈھالنا چاہتے ہیں گو کہ یہ ضمانت نہیں ہے کہ ایسا ہی ہوگا لیکن ہاں اس سے فرق ضرور پڑتا ہے
بات دعا زہرہ پر فوکس ہوتی جا رہی ہے اور دھاگے کا مقصد پیچھے رہتا جا رہا ہے۔ تھوڑی سی ری وائینڈ کرنے سے ہم واپس پہلی سیڑھی پر چلتے ہیں جہاں اکمل بھائی نے مندرجہ ذیل سوالات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ میں اس سلسلے میں کیا نقطہ نظر رکھتا ہوں


سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ وہ ایک مکمل الگ شخصیت ہیں جو آپ سے سیکھ کر اس دنیا کو ڈیل کریں گے ۔ ان کی شخصیت پر آپ کے علاوہ آپ کے گھر کے ماحول، جس علاقے محلے میں وہ پل بڑھ رہے ہیں اس ماحول ، لوگوں پھر اسکول مدرسے کے ساتھیوں اور ان کے ماحول کے اثرات ہونگے ۔ایسے میں حاکمانہ رویہ یا حد سے زیادہ لاپروائی کے نتائج ہونگے۔ ان کی ضروریات میں یہ احساس کہ اپنے گھر میں میں سب سے زیادہ محفوظ ہوں ، میری بات میرے گھر میں سنی اور سمجھی جاتی ہے اور میرے والدین یا سرپرست یا گھر میں کوئی گھر کا فرد میری ہر بات کو سمجھتا اور خیال رکھنے والا ہے ۔ انسانی تربیت ایک فرد کی نہیں بلکہ گھر، خاندان، محلے، سکول ، دوست ان سب کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے جس میں بڑا کردار والدین اور گھر خاندان کا ہے۔

بالکل منع نہ کریں بلکہ استعمال کو ریگولیٹ کریں ، استعمال آپ کی نگرانی میں آپ کے سامنے ہو بغیر اس احساس کے کہ آپ اس پر تھانیدار ہیں۔ بچہ غلطی کر رہا ہو تو منطقی استدلال کے ساتھ اسے سمجھائیں ۔ یہ کہنا کافی نہیں کہ ۔ کہہ دیا تو بس کہہ دیا

بچوں کے ساتھ اپنی تربیت کا بھی خیال کریں۔ ان کے معصومانہ سوالوں کو سن کر بجائے غصہ ہونے کے محبت سے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے سوالوں کے جواب دیں اور ایسے جواب دیں جو ان کی عمر کے مطابق سمجھ آجائیں۔ میرا بیٹا طلحہ سات سال کا تھا تو اپنی والدہ سے پوچھنے لگا ماما۔ یہ پریگننسی کیا ہوتا ہے؟ والدہ کو جواب سمجھ نہ آیا تو اسے جھڑک دیا ۔ بکواس نہ کر ایسی باتیں نہیں پوچھتے۔ ابھی تم بہت چھوٹے ہو۔ میں رات کو واپس آیا تو بچے کا موڈ دیکھ کر سمجھ گیا آج اس کی لتر پریڈ ہوئی ہے۔ پیار سے سینے پر لٹایا اور پوچھا کیا ہوا تھا۔ بچہ تھوڑی سی جھجک کے بعد مان گیا کہ یہ سوال میں نے ماں سے پوچھا تھا اور یہ جواب سننے کو ملا۔اب سات سال کا بچہ (اب وہ ماشاء اللہ ایک جوان آدمی ہے) یہ سوال پوچھے تو اس کی سمجھ کے مطابق ہی جواب دینا ہے۔ جواب دیا تو کہا یار تم سوال شوال مجھ سے پوچھ لیا کرو ماما سے پوچھا ہی نہ کرو اب میں بتاتا ہوں کہ پریگنینسی کیا ہوتی ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ کسی گھر میں بے بی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس سے پہلے کہ بے بی اس گھر میں آجائے اس گھر کی جو ماما ہونی ہوتی ہے اسے کچھ نشانیاں ملتی ہیں جو تھوڑے تھوڑے ٹائم میں ماما کے بیمار ہونے اور بیلی بڑی ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس ٹائم کو جس میں یہ ساری نشانیاں آتی ہیں اس ماما کے لئے پریگنینسی کہتے ہیں۔بچے کو جواب مل گیا، لیکن کتنے ہیں جو بچوں سے ایسا ماحول اور آبزرویشن رکھتے ہیں۔ یہ آج کی ضرورت ہے

چور کا کام ہے چوری کرنا اور اس کا وقت آئے گا تو سزا بھی اسے ضرور ملے گی ۔ زندگی رکتی نہیں ہے اس چوری سے سیکھئیے اور آئیندہ جو پاس بچا ہوا ہے اسے بچا کر کیسے رکھنا ہے۔ غفلت کا نوحہ پڑھتے رہنے کی بجائے اسباب کو دیکھیں اور آئیندہ کے لئے اس سے بچیں۔ اپنی یا کسی کی غلطی سے سیکھنا ہی سمجھ داری ہے۔

سر قانونی طور پر مائنر کی تعریف ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک طرف اٹھارہ سے کم عمر مائنر ہے تو دوسری طرف اسی مائنر کا کیا ہوا معاہدہ عقد نکاح قانونی ہے۔ ولی باپ ہونا اس کی ضروریات کی حد تک ہے اس کی زندگی کے فیصلے کرنے کا نہیں ۔1993 میں ایک بڑے عالم کی دختر نیک اختر کے متعلق عدالت یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ولی امر کا مفہوم اس کی مرضی کے خلاف اس کی زندگی کا فیصلہ کرنا ہرگز نہیں ہے۔البتہ ولی امر کا مفہوم اس کی زندگی کی ضروریات کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا ضرور ہے۔ مطلب ولی امر ہونے کا مفہوم بچے کی غلامی نہیں ہے بلکہ ولی پر بارِ ذمہ داری ہے
قانون کے الفاظ دیکھ لیں
Under the Islamic law marriage is a civil contract and a Muslim girl is competent to conclude it on attaining puberty which, in the absence of evidence to thecontrary, is presumed on the completion of the age of fifteen years.
اسلامی قانون کے مطابق شادی ایک سول کانٹریکٹ ہے اور ایک مسلمان لڑکی بالغ ہونے پر ایسا معاہدہ کرنے کی اہل ہے۔ بلوغت جو اس کی عمر کے پندرہ سال پورے ہونے پر سمجھی جائے گی ماسوائے اس کے کہ اس کے خلاف کوئی اور دلیل نہ ہو۔

اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھی جائے کہ شرعا بلوغت کی بات ہو رہی ہے جو پاکستان میں تو بارہ برس کی بچیوں کو بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی دلیل مخالف ہوتی ہے تو وہ بارہ-تیرہ-چودہ-پندرہ برس کی عمر میں شادی ہونے کی صورت میں اس شادی کے حق میں جائے گی ماسوائے اس کے کہ جسمانی تعلق کی کم از کم عمر سولہ برس یا پندرہ برس کا اکتمال ہدف قانون ہے۔ اس سے کم پر دوسرے قوانین کے ذریعے رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔ لیکن نہ شادی فسخ ہوگی نہ نکاح غیر موثر ہوگا البتہ رخصتی نہیں ہو سکے گی سولہ برس سے کم عمر پر اور اسی نکتے پر دعا زہرہ کے والدین کی پوری جنگ قائم تھی کہ لڑکی 14 برس کی ہے ۔ جبکہ لڑکی عدالت میں پیش ہو کر اپنے بالغ، پندرہ برس کے اکتمال سے زیادہ ، اور برضا و رغبت شادی کو جسمانی و قانونی طور پر ثابت کر چکی ہے۔ یہی وجہ تھی کی عدالت اسے واپس خاوند کے ساتھ بھیجنے پر مجبور تھی

A girl who has attained puberty may contract marriage with a man of her choice and it is not necessary for her to obtain the consent of her Wali.
ایک لڑکی جو بالغ ہو چکی ہے اپنی مرضی سے ازدواجی معاہدہ قائم کر سکتی ہے اور ولی کی رضامندی حاصل کرنا اس کے لئے ضروری نہیں ہے۔

Marriage with a minor who is below sixteen is not invalid but the person concerned may be prosecuted for an offence under section 363 PPC and/or the Child Marriage Restraint Act, 1929.1
سولہ برس سے کم عمر کی صورت میں شادی فسخ نہیں ہے لیکن اس میں ملوث افراد کے خلاف قانون کی دفعہ 363 ت۔پ اور/یا بچگانہ شادی امتناع ایکٹ 1929 کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے۔

ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے عدالت کو قصوروار ٹھہرانا لاعلمی کا نتیجہ ہے۔

دعا زہرہ اور ظہیر کا ایک انٹرویو دیکھا دونوں کی باتیں تقریباً سچ ہیں ایک بات غلط لگتی ہے جیسے دعا بغیر ظہیر کو بتاے لاہور پہنچ گئ، غالباً یہ بیان ظہیر کو قانون سے بچانے کے لئے دیا گیا ہوگا.
دعا کا یہ کہنا کہ والدین کو ظہیر سے نکاح کا بتانے پر اسے مارا گیا اور اسکا ٹیب(فون) لے لیا گیا یہ والدین کی پہلی غلطی تھی کیونکہ وہ پب جی کی عادی تھی. نشئ سے نشہ چھیننے پر اسکا عمل جارحانہ ہوتا ہے بچی نے سوچا ہر چیز چھن چکی آخری سہارا ظہیر ہے تو وہ وہاں پہنچ گئ. دعا کے والدین کو فوری طور پر ماہر نفسیات کی مدد لینا چاہیے تھی.

کیا یہ معاملہ انسانی سمگلنگ کا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اتنا ہائ پروفائل کیس پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں اور ایف آئ سے کیسے چھپا رہ سکتا تھا؟ دعا کے والدین کو ایک صوبہ کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے وفاق میں بھی انہیں کی حکومت ہے اگر شائبہ بھی گزرتا تو اب تک ظہر کا پورا خاندان نظر بند ہوجاتا.

دعا کے والدین ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ماں باپ تکلیف میں ہیں. مرضی کے بغیر کوی معمولی سی چیز بھی بغیر اجازت اٹھا لی جاے اور دوسرا شخص کسی صورت واپس کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مالک کیسا محسوس کرے گا؟ یہ تو پھر بطن سے پیدا ہوی بچی ہے دعا کے ماں باپ کیسے یہ برداشت کر لیں کہ ان کی مرضی کے خلاف ہر طرح سے ان کے میعار پر پورا نہ اترنے والا لڑکا (تقریباً دشمن) ان کی بیٹی پر حق ملکیت جتاے اور ماں جس نے بیٹی کو جنم دیا اس کا کوی اختیار ہی نہ ہو؟

والدین کی تمام کوتاہیوں کے باوجود میں بچوں کے عمل کو غلط ٹھہراو‍ں گا.

والدین اسٹیٹ آف ڈینائل میں کیوں؟

ماں باپ دراصل اپنی لخت جگر کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں جنہوں نے اسے دعا کے والدین نہیں بلکہ ایک پورے فرقے کی عزت پر حملہ تصور کرلیا ہے. دعا کے والدین کو پیار محبت سے لڑکی کو اپنے قریب کرنا چاہیے ضد اور انا بعض اوقات انسان کو حقیقت سے دور کردیتی ہے اور غیر حقیقت پسندی انسان کو کہیں کو نہیں چھوڑتی.
اسامہ شرافت
بہت زبردست۔ آپ نے بہت تفصیلی اور جامع گفتگو کی۔
میری ذاتی رائے میں اب ہمیں بحیثیت معاشرہ اور بیحیثیت انفرادی دورِ حاضر میں بچوں کے معاملات میں نظریہ ادب کے تحت محکمانہ روش اور حاکم و محکوم پہ مبنی معاشرتی روایات سے باہر نکل آنا چاہیے۔ بچے ہمیشہ بچے نہیں رہتے اس لیے بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنی چاہیے کہ آج کے بچے کل کے والدین اور پرسوں ایک بہت بڑے خاندان کی بنیاد ہیں۔ ہم جو آج ان کے ساتھ کریں گے اور جس نظریے کے زیرِ اثر ان کی تربیت کریں گے کل یہی ان کے بچوں اور آنے والی نسل پہ اثر انداز ہونے کے قوی امکانات رکھتا ہے۔ اس لیے ان کی جائز خواہشات اور حق پہ زور زبردستی اور معاشرتی روایات کی آڑ میں دھونس سے ہر ممکن حد تک گریز کرنا چاہیے۔دوسری بات یہ کہ معاشرتی روایات ہر دور میں ارتقاء کے مراحل میں ہیں اور کبھی بھی حتمی نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے کے بڑوں کی اکثریت ابھی تک ماضی میں جینے کی بھرپور کوشش میں ہے اور حال کو قبول کرنے میں گھبراہٹ اور تناؤ کا شکار ہے۔ ہمارے بڑوں کو اس ڈینائل موڈ سے نکل کر ماضی سے چمٹے رہنے کی بجائے حال کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر، بزرگوں کی اقدار، ذات پات اور برادری کی روایات سے آگے بڑھ کر بچوں کی جائز خواہشات و نفسیات، موجودہ معاشرتی رجحانات اور ریاستی قوانین پہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
 

وجی

لائبریرین
پر بھیا وقت بہت بُرا ہے ۔ہر بُرائی معاشرے میں اس طرح در آئی ہے کہ کہ کچھ لوگ تو اُسے بُرائی سمجھتے ہی نہیں ۔بس مالک سے دعا ہے کہ برُائی سے ہمیں بھی محفوظ رکھے اور آنے والی نسلوں کو بھی محفوظ رکھے آمین۔۔۔
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں ۔
دیکھیں معاشرے انفرادی لوگوں سے بنتا ہے اگر ہم اپنی انفرادی کوشش پر نظر رکھیں گے اور پھر اپنے گھروں کو ٹھیک رکھیں اور پھر ایک دوسرے کو مشورے دیں تو ہی معاشرے اچھے بنیں گے
معاشرے خود سے تخلیق نہیں ہوجاتے وہ لوگوں اور خاندانوں سے بنتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں اس مسئلے کے اخلاقی پہلو کو چھوڑتے ہوئے اس کے قانونی پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

عدالت نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے نادرا کے سرٹیٍیفکیٹ (ب فارم) کو حجت کیوں نہیں مانا؟ اور کیوں کہا کہ ریڈیالوجسٹ سے لڑکی کی عمر کا تعین کروایا جائے اس لیے کہ ب فارم جعلی ہو سکتا ہے؟ ب فارم اگر جعلی تھا تو پھر لڑکی کی ولدیت اور قومیت کا تعین عدالت نے کیسے کیا؟

کیا ثبوت ہے کہ لڑکی مدعی ہی کی بیٹی ہے تو جواب ہے ب فارم۔وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی پاکستان کی شہری ہے تو جواب ہے کہ ب فارم۔ وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت اس کے لیے کونسا ٹیسٹ کروائے گی؟

میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ب فارم ایک قانونی دستاویز ہے، اور ب فارم کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ "یہ سرٹیفیکیٹ درج بالابچے / بچوں کی شناخت اور مذکورہ بالا کوائف و معلومات ثابت کرنے کے لیے قانونا بروئے دفعہ (6)9 نادرا آرڈی نینس مجریہ سنہ 2002ء بطور ثبوت قابل قبول ہے "۔

اب اگر عدالت نے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ کہہ دیا ہے کہ لڑکی کی عمر چودہ سال نہیں بلکہ سترہ سال ہے تو کیا ایک سال بعد:

لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے نادار آفس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا شناختی کارڈ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے ٹریفک پولیس کے پاس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیں تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے الیکشن کمیشن میں چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ووٹ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟

اس کی بات کسی بھی صورت میں نہیں مانی جائے گی بلکہ ب فارم پر درج عمر کے مطابق ہی سب فیصلے ہونگے۔ جب ہر جگہ ب فارم کے کوائف کے مطابق ہی فیصلے ہونے ہیں اور یہی واحد قانونی دستاویز ہے تو پھر عدالت نے اسے کیوں نہیں مانا۔ اس کیس میں ب فارم ہی کو حجت ہونا چاہیئے تھا، عدالت کا کام تھا کہ نادرا سے دریافت کرتی کہ کیا سرٹیفیکیٹ اصلی ہےاور کیا اس پر لکھے کوائف درست ہیں اور اگر نادرا تصدیق کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔

عمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میں اس مسئلے کے اخلاقی پہلو کو چھوڑتے ہوئے اس کے قانونی پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

عدالت نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے نادرا کے سرٹیٍیفکیٹ (ب فارم) کو حجت کیوں نہیں مانا؟ اور کیوں کہا کہ ریڈیالوجسٹ سے لڑکی کی عمر کا تعین کروایا جائے اس لیے کہ ب فارم جعلی ہو سکتا ہے؟ ب فارم اگر جعلی تھا تو پھر لڑکی کی ولدیت اور قومیت کا تعین عدالت نے کیسے کیا؟

کیا ثبوت ہے کہ لڑکی مدعی ہی کی بیٹی ہے تو جواب ہے ب فارم۔وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی پاکستان کی شہری ہے تو جواب ہے کہ ب فارم۔ وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت اس کے لیے کونسا ٹیسٹ کروائے گی؟

میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ب فارم ایک قانونی دستاویز ہے، اور ب فارم کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ "یہ سرٹیفیکیٹ درج بالابچے / بچوں کی شناخت اور مذکورہ بالا کوائف و معلومات ثابت کرنے کے لیے قانونا بروئے دفعہ (6)9 نادرا آرڈی نینس مجریہ سنہ 2002ء بطور ثبوت قابل قبول ہے "۔

اب اگر عدالت نے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ کہہ دیا ہے کہ لڑکی کی عمر چودہ سال نہیں بلکہ سترہ سال ہے تو کیا ایک سال بعد:

لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے نادار آفس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا شناختی کارڈ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے ٹریفک پولیس کے پاس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیں تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے الیکشن کمیشن میں چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ووٹ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟

اس کی بات کسی بھی صورت میں نہیں مانی جائے گی بلکہ ب فارم پر درج عمر کے مطابق ہی سب فیصلے ہونگے۔ جب ہر جگہ ب فارم کے کوائف کے مطابق ہی فیصلے ہونے ہیں اور یہی واحد قانونی دستاویز ہے تو پھر عدالت نے اسے کیوں نہیں مانا۔ اس کیس میں ب فارم ہی کو حجت ہونا چاہیئے تھا، عدالت کا کام تھا کہ نادرا سے دریافت کرتی کہ کیا سرٹیفیکیٹ اصلی ہےاور کیا اس پر لکھے کوائف درست ہیں اور اگر نادرا تصدیق کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔

عمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔
نادرا کے ب فارم کی بنیاد ہسپتال کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے یا پھر علاقے کی میونسپلٹی کا سرٹیفکیٹ ، اس سے بھی کچھ پڑتال کی جاسکتی تھی کیوں کہ پیدائش کے وقت ایسے کسی ممکنہ وقعے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ کسی وقت عدالتی یا قانونی شہادت میں استعمال ہو گا۔
 

عثمان

محفلین
میں اس مسئلے کے اخلاقی پہلو کو چھوڑتے ہوئے اس کے قانونی پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

عدالت نے لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے نادرا کے سرٹیٍیفکیٹ (ب فارم) کو حجت کیوں نہیں مانا؟ اور کیوں کہا کہ ریڈیالوجسٹ سے لڑکی کی عمر کا تعین کروایا جائے اس لیے کہ ب فارم جعلی ہو سکتا ہے؟ ب فارم اگر جعلی تھا تو پھر لڑکی کی ولدیت اور قومیت کا تعین عدالت نے کیسے کیا؟

کیا ثبوت ہے کہ لڑکی مدعی ہی کی بیٹی ہے تو جواب ہے ب فارم۔وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کیوں نہیں کروایا؟
کیا ثبوت ہے کہ لڑکی پاکستان کی شہری ہے تو جواب ہے کہ ب فارم۔ وہ تو جعلی ہو سکتا ہے تو عدالت اس کے لیے کونسا ٹیسٹ کروائے گی؟

میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ ب فارم ایک قانونی دستاویز ہے، اور ب فارم کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ "یہ سرٹیفیکیٹ درج بالابچے / بچوں کی شناخت اور مذکورہ بالا کوائف و معلومات ثابت کرنے کے لیے قانونا بروئے دفعہ (6)9 نادرا آرڈی نینس مجریہ سنہ 2002ء بطور ثبوت قابل قبول ہے "۔

اب اگر عدالت نے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ کہہ دیا ہے کہ لڑکی کی عمر چودہ سال نہیں بلکہ سترہ سال ہے تو کیا ایک سال بعد:

لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے نادار آفس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا شناختی کارڈ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے ٹریفک پولیس کے پاس چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیں تو کیا وہ بنا دیں گے؟
لڑکی عدالت کا فیصلہ اور ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ لے کے الیکشن کمیشن میں چلی جائے اور کہے کہ ان دستاویزات کے مطابق میں اٹھارہ سال کی ہو گئی ہوں میرا ووٹ بنائیے تو کیا وہ بنا دیں گے؟

اس کی بات کسی بھی صورت میں نہیں مانی جائے گی بلکہ ب فارم پر درج عمر کے مطابق ہی سب فیصلے ہونگے۔ جب ہر جگہ ب فارم کے کوائف کے مطابق ہی فیصلے ہونے ہیں اور یہی واحد قانونی دستاویز ہے تو پھر عدالت نے اسے کیوں نہیں مانا۔ اس کیس میں ب فارم ہی کو حجت ہونا چاہیئے تھا، عدالت کا کام تھا کہ نادرا سے دریافت کرتی کہ کیا سرٹیفیکیٹ اصلی ہےاور کیا اس پر لکھے کوائف درست ہیں اور اگر نادرا تصدیق کر دیتا تو بات ختم ہو جاتی۔

عمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے۔
آپ کے نکات کوموضوع گفتگو بناتے ہوئے:
لڑکی کی ولدیت اور قومیت پر تو فریقین متفق ہیں اور یہ معاملہ عدالت میں پیش نہیں۔ اگر ہوتا تواس کا تعین کوئی مشکل نہیں۔
سنہ پیدائش ہی عدالت میں چیلنج ہے۔ اس کی تصدیق کے عدالت کے پاس دو راستے ہیں۔ متعلقہ ادارے کو اپنے کاغذات کی چھان پھٹک کا کہے یا پھر آزادانہ ذرائع (میڈیکل) سے عمر کا تعین کرے۔ غالباً کیس کے حالات اور دیگر معاملات کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیکل رائے کو ترجیح دی گئی۔
اب لڑکی عدالت کے فیصلے کو لے کر متعلقہ ادارے سے اپنے برتھ سرٹیفیکیٹ میں تدوین کرا سکتی ہے جس کی بنیاد پر دیگر قانونی دستاویزات مثلاً شناختی کارڈ اور لائسنس وغیرہ کا حصول کچھ مشکل نہیں۔
 
آخری تدوین:
عمر کے تعین کے لیے ریڈیالوجسٹ کی رپورٹ مانگی جاتی ہے لیکن ان کیسز میں جن میں ملزم کے بالغ یا نا بالغ ہونے کی صورت میں سزا میں واضح فرق ہوتا ہے نہ کہ ہر کیس میں۔ اس طرح تو عدالت نے ب فارم کی قانونی حیثیت ہی ختم کر دی ہے
بعینہٖ اسی اصول پر لڑکی کے چودہ برس یا سولہ برس کی ہونے پر منحصر تھا اغوا کا کیس، کم عمری کی شادی کا کیا ، سولہ برس سے کم عمر میں ازدواجی تعلق کی صورت میں جنسی زیادتی کا کیس جس کی زیادہ سے زیادہ سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا آزاد ذرائع سے تصدیق کروا کر عدالت نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے ۔ ب فارم کی قانونی حیثیت اپنی جگہ جہاں کاغذات اور زمینی حقائق میں واضح فرق محسوس ہو تو یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ تصدیق کے لئے کون سا راستہ اختیار کرتی ہے
 
بعینہٖ اسی اصول پر لڑکی کے چودہ برس یا سولہ برس کی ہونے پر منحصر تھا اغوا کا کیس، کم عمری کی شادی کا کیا ، سولہ برس سے کم عمر میں ازدواجی تعلق کی صورت میں جنسی زیادتی کا کیس جس کی زیادہ سے زیادہ سزا موت بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا آزاد ذرائع سے تصدیق کروا کر عدالت نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے ۔ ب فارم کی قانونی حیثیت اپنی جگہ جہاں کاغذات اور زمینی حقائق میں واضح فرق محسوس ہو تو یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ تصدیق کے لئے کون سا راستہ اختیار کرتی ہے
فیصل بھائی شاید عدالت نے یہ پہلو مدنظر رکھتے ہوئے ریڈیالوجسٹ ٹیسٹ کروایا کہ ہمارے یہاں اکثر اوقات بے فارم بنواتے وقت بچوں کی عمر کم لکھوائی جاتی ہے ۔
 
فیصل بھائی شاید عدالت نے یہ پہلو مدنظر رکھتے ہوئے ریڈیالوجسٹ ٹیسٹ کروایا کہ ہمارے یہاں اکثر اوقات بے فارم بنواتے وقت بچوں کی عمر کم لکھوائی جاتی ہے ۔
بھائی جی اکثر بے فارم بنواتے وقت عمر کم لکھوانا ہمارے معاشرے میں عام ہے دوسری بات اگر لڑکی کی عمر کم بالواقعہ ہے تو ملزم اور اس کے ساتھی مندرجہ بالا مقدمات کا نشانہ بن سکتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ہائی کورٹ میں تو کیس ہی اغوا کا بنایا گیا تھا جو کہ بالحقیقت بے بنیاد تھا۔ لڑکی اپنی مرضی سے کہیں گئی ہے تو یہ گھر سے فرار تو ہو سکتا ہے لیکن اغوا ہرگز نہیں ۔ یہ بات عدالت میں ثابت ہو گئی کہ لڑکی اپنی مرضی سے گئی ہے۔ پھر مسئلہ آیا عمر کا تو عدالت نے جو مناسب سمجھا طریقہ کار اختیار کیا اور اس کیس میں یہی طریقہ عدالت کو مناسب محسوس ہوا جو انہوں نے اپنا لیا۔ اب یہ بات بھی عدالت تسلیم کر چکی ہے کہ لڑکی سولہ برس سے زیادہ ہے۔ مطلب اغوا، کم عمری کی شادی ، اور ریپ جیسے الزامات سے ملزمان کو اس عدالت سے کلیئرنس مل گئی ہے۔ کیونکہ اگر یہی الزامات درحقیقت ثابت ہو جاتے تو ملزمان میں قید،جرمانے اور شاید سزائے موت بھی ہو سکتی تھی۔ جہاں کسی ملزم کو ایسی سخت سزاؤں کا امکان ہو عدالت ہمیشہ ایسا طریقہ کار اختیار کرتی ہے جس سے کسی بے گناہ پر وہ کیس نہ بنیں اور گناہ گار کے پاس راہ فرار نہ رہے۔ اب اس کیس میں مدعیان کے الزامات جب غلط ثابت ہوگئے تو لڑکی کا معائنہ اس ہی مقصد کے لئے کرایا گیا کہ صرف کاغذات میں ہیرپھیر کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو سکے۔ اب اگر نادرا کا ادارہ چاہے تو لڑکی کے والد پر نادرا میں غلط بیانی سے بے فارم بنوانے کی بنیاد پر کیس کر سکتا ہے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ تین ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں لیکن ایسا نظر نہیں آتا کہ نادرا کوئی ایسا قدم اٹھائے گا ۔
عدالت میں ججز سندھ ہو یا پنجاب ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ ساتھ آبزرویشن کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اور وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ انصاف کے لیئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے عدالت کا فیصلہ کہیں ناں کہیں غلط ہو لیکن اس غلطی کی نشان دہی اور مزید واضح ثبوتوں کی بنیاد پر ہی یہ کیس دوبارہ کھل سکتا ہے۔ پھر بھی جب تک لڑکی کا بیان اور ملزمان کے دلائل و ثبوت ساتھ دیں تب تک اس کیس کا کچھ نہیں بننا ۔
 

رانا

محفلین
اس حوالے سے کافی کچھ گفتگوہو چکی ہے اس لئے تمہید میں جائے بغیر براہ راست ان نکات پر آتے ہیں جو ایک عام آدمی ہونے کے ناطے خاکسار کے دماغ میں آتے ہیں۔ بچی کے والدین اپنے موقف میں حقائق پیش کر رہے ہیں جو سرکاری اداروں کا ریکارڈ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایسے ذرائع بچی کی عمر کے تعین کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں جن کی ایکیوریسی اتنی نہیں ہے کہ وہ مہینوں کے حساب سے درست عمر بتا سکیں جیسا کہ اوپر زیک نے ذکر کیا۔

لیکن اس سب سے ہٹ کر بھی ایک بات ہے کہ ساری گفتگو صرف سولہ یا سترہ سال کے گرد ہورہی ہے کہ لڑکی کی کیونکہ اتنی عمر ہے اس لئے اس کا حق ہے اور لڑکے پر بھی کوئی اعتراض نہیں اور لڑکی کے والدین لڑکی کے معاملے میں ولن کا کردار ادا کررہے ہیں کہ اسے اپنی مرضی سے شادی کے حق سے محروم کررہے ہیں۔ اور لڑکی کے والدین بھی بےچارے اسی دفاعی پوزیشن پر کھیلنے کو مجبور ہیں جس پر انہیں لاکھڑا کیا گیا ہے۔

پاکستان کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے اور پاکستان کا آئین بھی یہ کہتا ہے کہ اسلام سے متصادم کوئی فیصلے نہیں ہوں گے۔ اب اسلام تو ولی کے بغیر نکاح کی حوصلہ افزائی ہی نہیں کرتا۔ جبکہ یہاں اس بات کو ایسے نظرانداز کردیا گیا ہے کہ جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اگر لڑکی کو محسوس ہو کہ اس کے ولی اس کے جائز حق میں رکاوٹ بن رہے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتی ہے اور عدالت کس بنیاد پر فیصلہ کرے گی؟ اسی بنیاد پر جس بنیاد پر ولی کی اجازت سے نکاح کو مشروط کیا گیا ہے۔ یعنی لڑکی کہیں اپنی کم عمری اور کم عقلی کی بنیاد پر کوئی ایسا فیصلہ نہ کربیٹھے جو اس کی ساری زندگی کو روگ لگانے والا ہو۔ اب اس زاوئیے سے اس کیس کو دیکھتے ہیں تو فرض کریں لڑکی عدالت میں جاتی ہے اپنے والدین کے خلاف کہ میں اس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہوں میرے والدین رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اب عدالت بھی اسی بنیاد پر جائزہ لے گی کہ کہیں بچی نے اپنی کم عمری میں جو فیصلہ لیا ہے کہیں وہ اس کی زندگی برباد کرنے والا تو نہیں۔ تو یہ باتیں سامنے آئیں گی کہ لڑکی کی ذہنی پختگی بس اتنی ہے کہ وہ جس لڑکے کے ساتھ ساری زندگی کے لئے نکاح کرنے جارہی ہے اس کی کل قابلیت پب جی کھیلنے کی صلاحیت ہے (لڑکی کے نزدیک) کیونکہ موبائل ریپیرنگ بہرحال لڑکی کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ورنہ سیٹھی پلازہ میں اس سے زیادہ کمانے والے اور اچھے موبائل مکینک لڑکے مل جائیں گے۔ لہذا جب قاضی دیانت داری سے فیصلہ کرے گا اور اپنی بچی سمجھ کر فیصلہ کرے گا تو وہ سب سے پہلے تو یہ سوچے گا کہ کیا میں اپنی بچی کی شادی کسی ایسے سے کرنا گوارا کرسکتا ہوں جس کی مبلغ صلاحیت صرف پب جی کھیلنا ہے؟ پھر کیا اگر لڑکی چوبیس پچیس سال کی پختہ عمر کی ہوتی تو کیا وہ اپنا مستقل کسی ایسے کے ہاتھوں میں دینا پسند کرتی جس کی واحد خوبی اسے پب جی کھیلنا لگی ہو؟

پھر ایک بات نظر انداز ہورہی ہے کہ لڑکی کی عمر کیونکہ سولہ یا سترہ ہوگئی ہے تو اب اس کی مرضی اور اس کا حق ہے کہ گھر سے بھاگ کر شادی کرلے۔ جبکہ جس ملک کا معاملہ ہو اس ملک کا کلچر بھی دیکھنا چاہئے کہ ہمارے کلچر میں اس بات کو سخت ناپسند سمجھا جاتا ہے کہ ایک اتنی کمر عمر لڑکی گھر سے بھاگ جائے۔ پورے ملک میں کتنے ایسے گھرانے ہوں گے جو اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ان کی بچی کے ساتھ ایسا ہو؟ یہاں جس لڑکے کا معاملہ ہے اس کے والدین بھی امید ہے کہ کبھی پسند نہیں کریں گے کہ ان کی بیٹی کو اس کم عمری میں کوئی لڑکا ورغلانے کی کوشش کرے۔ یہاں تک کہ جو لڑکیاں گھر سے بھاگتی ہیں وہ بھی بعد میں اپنی بیٹیوں کے متعلق اس بات کو سخت ناپسند کرتی ہیں۔ (اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ صرف وقتی جذباتیت اور عقل کے اندھے پن سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا) اور اسی عقل کے اندھے اور کچے پن کی وجہ سے اگلی پوری زندگی کو دوزخ میں جھونکنے سے بچانے کے لئے ولی کی اجازت سے نکاح مشروط کیا جاتا ہے۔ اور اگر ولی کی طرف سے ناجائز رکاوٹیں ڈالی جائیں تو پھر عدالت کا راستہ بھی ہے اور عدالت بھی اسی بنیاد پر فیصلہ کرے گی کہ کہیں لڑکی کم عقلی سے اپنی زندگی تو برباد کرنے نہیں جارہی۔

خلاصہ کلام کہ یہ رٹ لگاتے چلے جانا کہ لڑکی کا حق ہے اور اس بات کو نظر انداز کردینا کہ اس کی کچی عمر ہے اور وہ حق کے چکر میں اپنی زندگی برباد کرنے جارہی ہے، ایک انتہائی غلط رویہ ہے۔ جب ایک بالغ شخص خودکشی کرنے جاتا ہے تو کیا اس وقت اس کو سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں کہ یہ تمہارا حق ہے اس لئے چلو تمہیں ہم خودکشی کے لئے ضروری لوازمات فراہم کردیتے ہیں؟ نہیں۔ اس لئے کہ سب کو علم ہے کہ وہ حق کے نام پر اپنے آپ کو نقصان پہنچانے جارہا ہے۔ اسی طرح نقصان صرف جسمانی موت کا ہی نہیں ہوتا، پوری زندگی کا جیون ساتھی ایسی عمر میں چننے کی ضد کرنا جب آپ کے نزدیک بڑی سے بڑی صلاحیت پب جی کھیلنا ہو یہ آپکے جسم کی نہ سہی آئندہ گزاری جانے والی زندگی کی موت ضرور ہوتی ہے۔

اب ایک بات اور کہ فرض کریں (اللہ نہ کرے لیکن امکان ہے کیونکہ جذبات کے طوفان میں عقل ڈوب جاتی ہے اور جب طوفان تھمے گا تو لڑکے اور لڑکی دونوں کے دماغوں میں کچھ عقل کے جزیرے نمودار ہوں گے) کہ دعا زہرا کو کچھ عرصے بعد طلاق ہوجاتی ہے یا وہ خود خلع لے لیتی ہے۔ تو اس کے ساتھ کون دوبارہ شادی کرے گا؟ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں ۔ یہی وہ زندگی کا روگ ہے اور وہ داغ ہے جو لڑکی کو لگتا ہے اور لگانے والے کو کوئی سزا نہیں ملتی کہ تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ ایک کم عمر لڑکی کا جو اپنا برا بھلا ابھی سمجھنے کے قابل نہیں اسکا ذہنی و جذباتی استحصال کرکے اسے جیتے جی ماردو؟ یہ تو ایک قانونی فتویٰ دے دیا گیا ہے تمام ملک کے لڑکوں کو کہ کوئی بچی شکار بنتی ہے تو کرلو بس یہ خیال رکھنا کہ عمر سولہ سال سے زائد ہو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ ایک طرف بھیڑیوں کو پنجروں سے نکال کر قانونی سرٹیفیکٹ دے کر کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور دوسری طرف سہمے ہوئے والدین کے پاس اپنی کم عمر بچیوں کی حفاظت کے لئے ہاتھ میں کوئی کند ہتھیار بھی نہیں رہنے دیا گیا۔ ایک کاغذ کا بنا ہوا ہتھیار تھا نادرا کی دستاویزات کی شکل میں تو وہ بھی چھین لیا گیا ہے کہ یہ بھی تمہارے پاس نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے معصوم بھیڑیوں کو آنچ آسکتی ہے۔

ابھی مراسلہ پوسٹ کرتے ہی میسج سامنے آیا کہ یہ پیغام مدیر کی منظوری کا منتظر ہے۔ عرصہ ہوا محفل پر کسی گفتگو میں حصہ نہیں لیا اس لئے شائد میرے لئے نئی بات ہے تو عجیب لگی۔ اس طرح کے عام گفتگو کے زمروں میں بھی اگر ایسے قوانین نافذ کئے جائیں گے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ بھائی یہاں محفل پر کونسا کوئی خود کش حملہ ہونے کا خطرہ ہے۔ یا کوئی ایٹم بم کا ڈیزائن شئیر کردے گا۔ زیادہ سے زیادہ تو تو میں میں ہی ہوتی ہے تو اس کو بھی محفلین خود ہی سنبھال لیتے ہیں اور اگر کوئی زیادہ ہی غیرتربیت یافتہ شخص نازل ہوجائے گا تو انتظامیہ کو رپورٹ کردیا جائے گا۔ لیکن یہ پابندیاں مجھے کچھ محفل کے شایان شان نہیں لگیں۔ یہ تو گفتگو کو سست بنانے والی بات ہے۔ جبکہ گفتگو کا مزہ ہی تب آتا ہے جب وہ تسلسل کے ساتھ ہو۔ اب فرض کریں کہ کوئی مراسلہ لکھے اور پہلے ہی کوئی مراسلے ویٹنگ لسٹ میں پڑے ہوں جن کے مندرجات سے لاعلم رہتے ہوئے اسے وہ مراسلہ لکھنا پڑ رہا ہو۔ تو پھر گفتگو میں تسلسل تو نہ رہا نا۔ ایسی پابندیاں وہاں اچھی لگتی ہیں جہاں باقاعدہ مناظرہ طے کیا گیا ہو۔ جبکہ یہاں محفل میں تو عام دوستوں والی بیٹھک سجتی ہے تو اس میں وہی دوستوں کی بیٹھک والے قوانین ہی جچتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اب اس کے اخلاقی پہلو پر بھی بات کر لیتے ہیں، اس کے لیے میں کوئی رائے دینے کی بجائے آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔

آج سے کم و بیش سو سال قبل، بمبئی میں ایک مسلم وکیل تھے، وجیہہ اور جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے اور رنڈوے تھے۔ چالیس کے قریب عمر رہی ہوگی۔ ان کے ایک انتہائی مالدار اور خاندانی پارسی کلائنٹ تھے جو ان کے اچھے دوست بھی بن گئے، وکیل صاحب کا ان کے ہاں آنا جانا بھی تھا۔ کلائنٹ موصوف کی ایک پندرہ سولہ سال کی بیٹی تھی جو اپنے والد کے پر کشش دوست کو دل دے بیٹھی، اور ان دونوں میں پیار محبت پروان چڑھ گیا اور اس کا چرچا بمبئی میں پھیل گیا لیکن لڑکی کے گھر والے بے خبر تھے۔ کچھ عرصے کے بعد جب ہندوستان میں اس وقت بین المذاہب ہم آہنگی کا بہت شور تھا تو وکیل صاحب اور ان کے کلائنٹ ایک دن اسی پر بات کر رہے تھے کہ وکیل صاحب نے کہا کہ جناب اب جب مختلف مذاہب میں اچھے تعلقات قائم ہو رہے ہیں تو بین المذاہب شادیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کلائنٹ نے کہا کہ بہت اچھا خیال ہے، ہونی چاہئیں جس پر وکیل موصوف نے کہا کہ پھر میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ ان کا دماغ بھک سے اڑ گیا اور وہ غصے میں وہاں سے چلے گئے، گھر جا کر بیٹی پر پابندیاں لگا دیں۔ بیٹی کی عمر ابھی اٹھارہ سال نہیں ہوئی تھی سو وہ محبوس ہو گئی۔ پارسی نے عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا کہ یہ شخص میری نابالغ بیٹی کو دولت کے لالچ میں ورغلا رہا ہے لیکن مدعا علیہ تو خود اس وقت چوٹی کا وکیل تھا سو ان کی دال کیا گلتی؟ جس دن لڑکی 18 سال کی ہوئی اسی دن اس نے گھر چھوڑ دیا کچھ ہفتوں بعد لڑکی نے اسلام قبول کر کے 42 سالہ وکیل سے شادی کر لی۔ پارسی کا نام سر ڈنشا پیٹٹ ہے، لڑکی کا نام رتن بائی اور وکیل موصوف قائد اعظم محمد علی جناح عرف "جے" ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
لڑکی نے اسلام قبول کر کے 42 سالہ وکیل سے شادی کر لی۔ پارسی کا نام سر ڈنشا پیٹٹ ہے، لڑکی کا نام رتن بائی اور وکیل موصوف قائد اعظم محمد علی جناح عرف "جے" ہیں۔
بہت خوب وارث میاں یہ تاریخی قصۂ یاد دلایا ⭐️⭐️⭐️⭐️⭐️
 
ایک طرف بھیڑیوں کو پنجروں سے نکال کر قانونی سرٹیفیکٹ دے کر کھلا چھوڑ دیا گیا ہے
سر یہ ہتھیار اور یہی دلائل عدالت میں اپنی بیٹی کے گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے شادی کرنے پر لڑکی (صائمہ وحید) کے والد مولاناعبد الوحید مقابل( پناہ دہندہ) عاصمہ جہانگیر(1996میں یہ کیس پیش اور اس کا فیصلہ ہوا تھا ) پوری قوت سے چلائے گئے تھے لیکن ہمارے قانون نے شرعاً بالغ لڑکی کے حق خود ارادیت اور ولی کی بے بسی پر مہر قانون ثبت کر دی تھی ۔اور اس کے لئے دلیل بھی وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے اسی موضوع پر جو 1996 سے قبل ہوچکے تھے ، میں سے دی ۔ ان فیصلوں کے مطابق ولی کی اجازت پسندیدہ عمل تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی یہ پاکستانی قانون تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا سوائے بچوں کے ساتھ لگاؤ ، محبت اور گزرتے وقت کے ساتھ خود کو نئی نسل کے مطابق بدلنے کے کوئی اور ہتھیار نہیں بچا۔ یاد رکھیں جب تک کھمبوں سڑکوں مہنگائی اور نوکریوں کے لئے قانون ساز چن چن کر اسمبلیوں میں بھیجتے رہیں گے ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اور قانون میں سدھار یا وقت دین ا و ر ۔ روایات کے مطابق تبدیلی ممکن نہیں ہوگی ۔

یہ اپنا دیا ہوا پھندا ہے جو اللہ سے کئے ہوئے وعدے سے منہ پھیرنے کی وجہ سے ہماری گردنوں میں بالکل فٹ ہے
 
آخری تدوین:
Top