دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں

کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں

بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں

کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ جیسے آنکھوں کی کاجل نمی سے پھیلے ہیں

اُجاڑ راستے محرومِ سایۂ اشجار !
اِنھیں بھی پیش مِری زیست سے جھمیلے ہیں

درِیچے، برہنہ شاخوں کے اب نظاروں سے
مِری طرح ہی جُدائی کا کرب جَھیلے ہیں

انا گئی، کہ ہیں عاجز ہم اپنے دِل سے خلش
ہمارے ہاتھ ، تمنّا میں اُن کی پھیلے ہیں

شفیق خلش
(بشکریہ : طارق شاہ )​
 
سنو دسمبر
اُسے پکارو
اُسےبلا دو
اُسے ملا دو
اب اس سے پہلے کے سال گزرے
وہی لکیریں وہی ستارے
میری ہتھیلی میں قید کر دو
یہ آخری شب کے آخری پل
کوئی بڑا اختتام کر دو
یہ زندگی تمام کر دو
سنو دسمبر ......
اُسے پکارو .........
اُسے ملا دو
 

اے خان

محفلین
ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﮭﺮﻭﮐﻮﮞ ﺳﮯ
ﭘﮭﺮ ﺗﻤﮩﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﯽ
ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﮐﻞ ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﯽ
ﭘﮭﺮ ﺍﺩﺍﺱ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺁﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ ﺍﻥ ﺍﺟﺎﮌ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺯﺭﺩ ﺯﺭﺩ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺮﺩ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﭨﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
 
پہلے پہل ۔۔۔دسمبر!
ہجر ساعتوں کو دہراتا تھا
تو ہوش سے بیگانہ ہوئے وصل ساعتوں کا ہر لمحہ
ایک خلش بن جاتا تھا
ٹھٹھرتے لمحے رگِ جاں کو بے کیفی سے ہمکنار کرتے تھے
ایک امیدِ غلط کو دہرا کر مسمار کرتے تھے
من ۔۔۔ہمیں سے روٹھ جاتا تھا
کچھ اندر ٹوٹ جاتا تھا
دسمبر!اب بھی آتا ہے
پر فرصت کہاں مجھ کو
کہ وبالِ جان سے نکلوں
کہیں اور کچھ سوچوں
پیٹ کا ہاتھ چھوڑوں میں
منھ اس کی جانب موڑوں میں!

خرم!
 
آپ سب شعرا کرام اور دانشوروں سے نہایت معزرت کے ساتھ. میں ہرگز شاعر نہیں ہوں. مگر گزشتہ دسمبر میں مجبوراً یہ چند سطریں لکھی تھیں. دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ یہ میری ڈائری ہے شاعری نہیں. آپ کی مرضی پڑھیں نہ پڑھیں

قید ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮐﺐ ﺳﮯ
ﺩُﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﻣﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﻞ ﻭﻧﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ،
ﺳﺮﺩ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺳﮯ
ﭼﺎﻧﺪ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﮐﺮﮮ
ﮨﮯ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ
 

سیما علی

لائبریرین
بن تیرے کائنات کا منظر
‏اِک دسمبر کی شام ہو جیسے
‏درد ٹھہرا ھے آ کے یُوں دل میں
‏عُمر بھر کا قیام ہو جیسے!!!!!!
 

سید عمران

محفلین
(سچے عاشقوں سے معذرت کے ساتھ)

کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی
اور اس کے سخن ور کی ایسی کی تیسی

دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی
تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی

اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی
تمھارے مقدر کی ایسی کی تیسی

ہر اک سال راحیلؔ اپریل دو ہوں
دسمبر کے چکر کے ایسی کی تیسی

راحیلؔ فاروق
 
Top