درست محاورہ کیا ہے؟؟

حسیب

محفلین
السلام علیکم​
آج فیس بک پر ایک پوسٹ میں یہ پڑھا کہ درست محاورہ​
’لکھے موسا پڑھے خود آ‘ ہے​
احباب اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔​
941566_578727322171823_1769898232_n.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
جی میں نے بھی کئی بار یہ پڑھا ہے۔ تاہم اہل علم احباب اس بارے بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
اور نور اللغات کے مطابق بھی "لکھے موسیٰ پڑھے خدا" ہی ہے۔
ایسی تحریر کی نسبت مستعمل ہے جو کسی سے پڑھی نہ جائے۔
 
کتابستان نے بھی ایسے ہی لکھا ہے۔ ’’لکھے موسٰی پڑھے خدا‘‘
محاورہ تو محاورہ ہے جیسے ایک بار چل گیا سو چل گیا۔
تاہم مجھے یہ بات کچھ بے چین سا کر رہی ہے۔ ’’اہلِ حوالہ‘‘ اس کو چاہے میری کم نظری پر محمول کریں یا جیسے ان کے مزاج میں آئے۔ ’’لکھنا‘‘ کسی بھی نبی کا کام کبھی نہیں رہا۔ اس لکھنا کو یہاں ’’کہنا‘‘ قرار دے بھی لیا جائے تو پھر ’’پڑھنا‘‘ کیا ہوا؟ سننا یا سمجھنا؟ اس محاورے کی غایت قرار دینا ’’ایسی بات جو بہت پیچیدہ ہو مشکل ہو، عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو‘‘ محلِ نظر ہے۔ نبی کا تو منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے۔ میری اس گزارش کی توسیع یوں کر لیجئے ہر آسمانی کتاب جس امت پر نازل کی گئی ان لوگوں کی زبان میں کی گئی، کہ مقصود میں عامۃ الناس اور خواص سب شامل ہیں۔

وہ جو ہے کہ ’’بال جیسا باریک‘‘ لکھا ہوا، کوئی اور سمجھ پائے یا نہیں لکھنے والے کو تو پتہ ہے کہ اس نے کیا لکھا۔ درست یہی بنتا ہے:
’’ لکھے مو سا، پڑھے خود آ ‘‘
اس کے پیچھے ایک کہانی بھی ہے، کسی کا خط آیا، وہ اتنا باریک لکھا تھا کہ پڑھا نہیں جاتا تھا، جس نے خط پڑھے کی کوشش کی وہ کہہ اٹھا: جس نے ایسا باریک لکھا ہے آ کر خود ہی پڑھ بھی دے۔

محاورے کے طور پر رائج ہوتے ہوتے یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جوڑ دیا گیا اور ویسے ہی کتابوں میں آ گیا۔ اور بات وہیں پہنچی کہ

محاورہ تو محاورہ ہے جیسے ایک بار چل گیا سو چل گیا۔

جناب سید ذیشان ، قیصرانی ، محمد وارث ، حسیب ، شمشاد ، یوسف-2 ، صاحبان۔
 

قیصرانی

لائبریرین
تاہم مجھے یہ بات کچھ بے چین سا کر رہی ہے۔ ’’اہلِ حوالہ‘‘ اس کو چاہے میری کم نظری پر محمول کریں یا جیسے ان کے مزاج میں آئے۔ ’’لکھنا‘‘ کسی بھی نبی کا کام کبھی نہیں رہا۔ اس لکھنا کو یہاں ’’کہنا‘‘ قرار دے بھی لیا جائے تو پھر ’’پڑھنا‘‘ کیا ہوا؟ سننا یا سمجھنا؟ اس محاورے کی غایت قرار دینا ’’ایسی بات جو بہت پیچیدہ ہو مشکل ہو، عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو‘‘ محلِ نظر ہے۔ نبی کا تو منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے۔ میری اس گزارش کی توسیع یوں کر لیجئے ہر آسمانی کتاب جس امت پر نازل کی گئی ان لوگوں کی زبان میں کی گئی، کہ مقصود میں عامۃ الناس اور خواص سب شامل ہیں۔

وہ جو ہے کہ ’’بال جیسا باریک‘‘ لکھا ہوا، کوئی اور سمجھ پائے یا نہیں لکھنے والے کو تو پتہ ہے کہ اس نے کیا لکھا۔ درست یہی بنتا ہے:
’’ لکھے مو سا، پڑھے خود آ ‘‘
اس کے پیچھے ایک کہانی بھی ہے، کسی کا خط آیا، وہ اتنا باریک لکھا تھا کہ پڑھا نہیں جاتا تھا، جس نے خط پڑھے کی کوشش کی وہ کہہ اٹھا: جس نے ایسا باریک لکھا ہے آ کر خود ہی پڑھ بھی دے۔

محاورے کے طور پر رائج ہوتے ہوتے یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جوڑ دیا گیا اور ویسے ہی کتابوں میں آ گیا۔ اور بات وہیں پہنچی کہ


مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ تاہم ایک اور ضمنی الجھن پیدا ہو رہی ہے کہ "پڑھے خود آ" کیا تکنیکی اعتبار سے درست ہے؟ اس کی جگہ پڑھے خود آپ یا پڑھے خود آن یا اس طرح کا جملہ بہتر نہ رہے گا؟ تاہم لکھے موسٰی پڑھے خدا سے مجھے کبھی بھی تسلی نہیں ہوئی اور میں نے ہرممکن کوشش کی ہے کہ اس محاورے کے استعمال سے بچوں
 

شمشاد

لائبریرین
پرانے وقتوں میں لوگ اور خاص کر دیہاتوں کے لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنے تمام خطوط گاؤں کے منشی سے لکھواتے اور پڑھواتے تھے۔
ایسا ہی کوئی منشی رہا ہو گا جس نے مُو (مُو فارسی کا لفظ ہے، جس کا مطلب بال ہے) سا باریک لکھا ہو گا۔ اس کا لکھا ہوا خط کسی دوسرے گاؤں پہنچا ہو گا تو وہاں کے منشی سے پڑھا نہیں گیا ہو گا۔ اسی نے کہا ہو گا کہ یہ خط جس گاؤں سے آیا ہے اسی گاؤں سے لکھنے والے کو بلوا کر اسی سے پڑھواؤ۔

اسی پر محاورہ بن گیا کہ "لکھے مُو سا، پڑھ خود آ"

اور روانی میں پڑھنے والے "مُو سا" کو موسیٰ اور "خود آ" کو خدا میں تبدیل کر گئے اور وہی زبان زد عام ہو گیا۔
 
مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ تاہم ایک اور ضمنی الجھن پیدا ہو رہی ہے کہ "پڑھے خود آ" کیا تکنیکی اعتبار سے درست ہے؟ اس کی جگہ پڑھے خود آپ یا پڑھے خود آن یا اس طرح کا جملہ بہتر نہ رہے گا؟​

محاورے عوامی لہجوں سے پھوٹا کرتے ہیں، بلکہ ’’تھے‘‘ کہنا چاہئے کہ اب تو کچھ بھی نہیں پھوٹتا۔ جیسا شمشاد صاحب نے کہا، رائج وہ ہوا جو روانی میں آ گیا۔

قیصرانی صاحب۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
محاوَرَہ: جب ایک یا کئی لفظ مصدر سے مل کر حقیقی معنیٰ سے متجاوز ہو کر کچھ اور معانی دیں اُس کو محاورہ کہتے ہیں۔
مثلاً: آگ پانی میں لگانا: یعنی مزاج کو بھڑکا دینا، جہاں لڑائی ہوتی ہو وہاں لڑائی کرادینا،شرارت کرنا، فتنہ اُٹھانا۔
محاورے میں مصدر کے جملہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں۔لیکن اصل محاورے میں کسی قسم کے تصرف کر نے کا اختیار نہیں۔
مثلاً: بجائے "سر سہرا رہنا" کے"سر پر سہرا رہنا" نہیں کہیں گے۔لیکن اگر اہلِ زبان نے کچھ تصرف کر لیا ہو تو جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(نوراللغات جلد:اول، صفحہ: 656)
 

یوسف-2

محفلین
تاہم مجھے یہ بات کچھ بے چین سا کر رہی ہے۔ ’’اہلِ حوالہ‘‘ اس کو چاہے میری کم نظری پر محمول کریں یا جیسے ان کے مزاج میں آئے۔ ’’لکھنا‘‘ کسی بھی نبی کا کام کبھی نہیں رہا۔ اس لکھنا کو یہاں ’’کہنا‘‘ قرار دے بھی لیا جائے تو پھر ’’پڑھنا‘‘ کیا ہوا؟ سننا یا سمجھنا؟ اس محاورے کی غایت قرار دینا ’’ایسی بات جو بہت پیچیدہ ہو مشکل ہو، عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو‘‘ محلِ نظر ہے۔ نبی کا تو منصب یہی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائے۔ میری اس گزارش کی توسیع یوں کر لیجئے ہر آسمانی کتاب جس امت پر نازل کی گئی ان لوگوں کی زبان میں کی گئی، کہ مقصود میں عامۃ الناس اور خواص سب شامل ہیں۔

وہ جو ہے کہ ’’بال جیسا باریک‘‘ لکھا ہوا، کوئی اور سمجھ پائے یا نہیں لکھنے والے کو تو پتہ ہے کہ اس نے کیا لکھا۔ درست یہی بنتا ہے:
’’ لکھے مو سا، پڑھے خود آ ‘‘
اس کے پیچھے ایک کہانی بھی ہے، کسی کا خط آیا، وہ اتنا باریک لکھا تھا کہ پڑھا نہیں جاتا تھا، جس نے خط پڑھے کی کوشش کی وہ کہہ اٹھا: جس نے ایسا باریک لکھا ہے آ کر خود ہی پڑھ بھی دے۔

محاورے کے طور پر رائج ہوتے ہوتے یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جوڑ دیا گیا اور ویسے ہی کتابوں میں آ گیا۔ اور بات وہیں پہنچی کہ


جناب کی بات سے مجھے صد فیصد اتفاق ہے۔ بالکل درست، ایسا ہی ہے
 
اتفاق سے ایک بات پھر سامنے آ گئی۔
لیکن اگر اہلِ زبان نے کچھ تصرف کر لیا ہو تو جائز ہے۔
فارقلیط رحمانی صاحب: جواب نمبر 15

اہلِ زبان کا حقِ تصرف زبان، محاورے وغیرہ میں: اس کی حقیقت کیا ہے؟
تصرف کوئی اہلِ زبان کرے تو بجا، وہی یا اس سے ملتا جلتا تصرف کوئی ’’غیر اہلِ زبان‘‘ کرے تو بے جا؟
اہلِ زبان سے کیا مراد ہے؟ اور غیر اہلِ زبان کون ہیں؟

الف عین ، محمد وارث ، محمد خلیل الرحمٰن ، فاتح ، یوسف-2
براہِ کرم میرے ان سوالوں کو کسی بھی انداز میں طنز وغیرہ پر محمول نہ کیجئے گا۔
گزشتہ دنوں ایک ہی لفظ کے دو معروف لغاتوں میں دو مختلف معانی میں پائے گئے، ایسے میں اردو کا طالب علم کیا کرے؟
 

عثمان

محفلین
پوسٹر والوں کا مسئلہ زبان ، تلفظ ، محاورہ وغیرہ ہے ہی نہیں۔
بلکہ ان کا اصل غم پوسٹر میں موجود مذکورہ جملے سے واضح ہے: " یہ کہنا اور سمجھنا بلکل غلط اور گناہ ہے۔"
لہذا آپ جتنے مرضی مستند حوالے دیتے رہیں ، ان کا غم نہیں ٹلنے کا۔ :):):)
 

یوسف-2

محفلین
اہلِ زبان سے کیا مراد ہے؟ اور غیر اہلِ زبان کون ہیں؟
بلا شبہ ابتدا میں صرف اُنہی لوگوں کو ”اہلِ زبان“ کہا جاتا تھا،جن کی مادری زبان اردو تھی اور وہ ”اردو ماحول“ میں نسل در نسل اردو سنتے اور بولتے چلے آئے تھے۔ لیکن جب اردو کو ایسے لوگوں نے بھی ”اپنا“ لیا، جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی اور ان لوگوں میں اردو کے ایسے ایسے ادیب، شاعر، اساتذہ اور ماہر لسانیات پیدا ہونے لگے، جو مروجہ ”اہلِ زبان“ کے ہم پلہ ہی نہیں بلکہ اس سے بہتربھی تھے تو اردو زبان و ادب کے ان ادباء، شعراء، اساتذہ اور سنجیدہ طالب علموں کو ”غیر اہلِ زبان“ کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ میری ناقص رائے میں (جو اب اتنی بھی ناقص نہیں ہے :) ) جو اپنے آپ کو اردو زبان کا ”اہل“ ثابت کردے، وہ ”اہلِ زبان“ ہے، خواہ اُس کی مادری زبان اردو نہ بھی ہو۔ اور اسے بھی اردو زبان سے متعلق وہ تمام ”حقوق“ (جیسے تصرف وغیرہ) حاصل ہونگے، جو مادری زبان والے اہلِ زبان کو بائی ڈیفالٹ حاصل تھے یا ہیں۔ میرے کہنے کامطلب یہ ہے کہ:
  1. جو اپنے آپ کو (پڑھنے، لکھنے، درس و تدریس وغیرہ کے ذریعہ) اردو زبان کا ”اہل“ ثابت کردے، وہ ”اہل زبان“ ہے۔ اہلِ زبان کی ”اہلیت“ کا اُس کی مادری زبان سے کوئی تعلق نہیں۔
  2. ”اردو بولنے والےعوام الناس“ میں ایسے لوگوں کی زبان زیادہ درست یا فصیح ہونے کا امکان ہوگا، جن کی مادری زبان اردو ہے۔
  3. البتہ ”اردو اسپیکنگ“ عوام الناس کو اردو زبان کے علماء و فضلاء پر(خواہ اِن کی مادری زبان اردو نہ بھی ہو) کسی بھی قسم کی برتری، فوقیت یا خصوصی حقوق حاصل ہونے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔
 

الف عین

لائبریرین
اتفاق سے محفل میں جب یہ بحث چلی تھی تو خود مجھے تعجب ہوا تھا کہ یہ کیا محاورہ ہے؟ اس لئے کہ بچپن سے ہم اسے ’لکھیں موسیٰ پڑھیں عیسیٰ‘ سنتے آئے تھے۔ لیکن جب لغات کے حوالے سے احباب نے ثابت کیا تو مان لینے کے علاوہ چارہ نہیں تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اپنے ’منہ میاں اہل زبان‘ بھی ضروری نہیں کہ دوسرے اہلِ زبان کے نزدیک اہلِ زبان ہو!!
 
Top