طارق شاہ

محفلین
پند نامہ
داغ دہلوی

اپنے شاگردوں کی مجھ کو ہے ہدایت منظور
کہ سمجھ لیں وہ تہِ دل سے بجا و بے جا

چست بندش ہو، نہ ہو سُست، یہی خُوبی ہے
وہ فصاحت سے گِرا، شعر میں جو حرف دبا

عربی، فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں
حرفِ علت کا بُرا اِن میں ہے گرنا، دبنا

الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
پھر بھی الفاظ میں اُردو کے یہ گِرنا ہے رَوا

جس میں گنجلک نہ ہو تھوڑی بھی صراحت ہے وہی
وہ کنایہ ہے جو تصریح سے بھی ہو اولیٰ

ہے یہ تعقیعد بُری بھی مگر اچھی ہے کہیں
ہو جو بندِش میں مُناسب، تو نہیں عیب ذرا

شعر میں حشو و زواید بھی بُرے ہوتے ہیں
ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچّھا

جو کسی شعر میں ایطائے جلی آتی ہے
وہ بڑا عیب ہے، کہتے ہیں اِسے بے معنیٰ

اِستعارہ جو مزے کا ہو، مزے کی تشبیہ
اُس میں اِک لُطف ہے، اُس کہنے کا کیا ہی کہنا

اِصطلاح اچھی، مثال اچھی ہو، بندش اچّھی
روزمرّہ بھی بہت صاف، فصاحت سے بھرا

ہے اضافت بھی ضرُوری، مگر ایسی تو نہ ہو
ایک مصرعے میں جو ہو چار جگہ سے بھی سَوا

عطف کا بھی ہے یہی حال یہی صُورت ہے
وہ بھی آئے مُتواتر تو نہایت ہے بُرا

لف و نشر آئے مُرتّب، تو بہت اچّھا ہے
اور ہو غیر مُرتّب تو نہیں ہے بے جا

شعر میں آئے جو اِبہام کسی موقع پر!
کیفیت اُس میں ہے، وہ بھی ہے نہایت اچّھا

جو نہ مرغُوبِ طبیعت ہو، بُری ہے وہ ردِیف
شعر بے لُطف، اگر قافیہ ہو بے ڈھنگا

ایک مِصرعے میں ہو تم، دُوسرے مِصرعے میں ہو توُ
یہ شُتر گربہ ہے، میں نے بھی اِسے ترک کِیا

چند بحریں مُتَعارِف ہیں فقط اُردو میں
فارسی میں، عَرَبی میں ہیں مگر اور سَوا

پند نامہ جو کہا داغ نے، بیکار نہیں
کام کا قطعہ ہے یہ، وقت پہ کام آئے گا

داغ دہلوی
**********
 
Top