من کر بر سر نمی نہادم گل
بار بر سر نہاد و گفتا جُل

(امیر خسرو)


اگرچہ میں نے اپنے سر پر کبھی پھول بھی نہیں رکھا، انہوں نے میرے سر پر بھاری وزن (توبرا) رکھ دیا اور مجھے کہا آگے چلو۔

”جُل“ ملتانی زبان میں چلنے کو کہتے ہیں دراصل یہ فعل امر ہے۔ امیر خسرو کی فارسی شاعری میں ملتانی سرائیکی زبان کی آمیزش کے حوالے سے ان کا معروف ترین شعر ہے جو انکی مغلوں کے ہاتھوں اسیری کے حوالے سے ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک امیر خسرو ہی وہ پہلے ہندوستانی شاعر ہیں جنھوں نے ملتانی زبان میں تصرف کرکے اردو زبان کو ایک بنیاد فراہم کی۔
(امیر خسرو کا ہندوی کلام از گوپی چند نارنگ)
 
چنیں بداں کہ ز امسال درحد مولتاں
شکست میمنہ مومن از کف کفار

واقعہ است ایں یا بلا از آسماں پدید
آفت است ایں باقیامت در جہاں آمد پدید

مجلس یاراں پریشاں شد چو برگ گل زباد
برگ ریزی گوئی اندر بوستاں آمد پدید

بس کہ آب چشم خلقےشد رواں از چارسو
پنج آب دیگر اندر مولتاں آمد پدید

امیر خسرو ۔۔۔ مرثیہ ”حکم الحکم“


تم نے کچھ سنا ہے کہ اس سال ملتان کے قریب مسلمانوں کا میمنہ کفار کے حملے سے کیسے ٹوٹ گیا، یہ کوئی واقعہ تھا یا کوئی بلا آسمان سے ظاہر ہوئی یا دنیا میں قیامت برپا ہو گئی ہے، دوستوں کی بزم اس طرح منتشر ہو گئی جیسے ہوا سے پھول کی پنکھڑی، گویا باغ میں خزاں آ گئی، چاروں طرف ایک دنیا کی آنکھوں سے اس طرح آنسو بہنے لگے کہ ملتان کی سرزمین پر خون کے پانچ اور دریا بہنے لگے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرا خود نیست یارائے سوال آخر چہ می گوئی
اگر پرسد گناہِ من کسے روزِ شمار از تو


صائب تبریزی

مجھے خود سوال کرنے کی جرات اور حوصلہ تو نہیں ہے، لیکن آخر تُو کیا بھی جواب دے گا، اگر کسی نے قیامت کے دن تجھ سے پوچھ لیا کہ میرا گناہ کیا تھا؟
 

حسان خان

لائبریرین
هَی! چه می‌گویم اگر این است وضعِ روزگار
دفترِ اشعار بابِ سوختن خواهد شدن
(غالب دهلوی)

هَی!: (حرفِ تنبیہ و آگاہی) ہائیں!، ارے!۔ وضعِ روزگار: زمانے کی حالت۔ دفتر: جُزوہ۔ دفترِ اشعار: مجموعۂ کلام۔ باب: لائق، قابل، شائستہ۔ سوختن: جلانا۔
ہائیں! یہ میں کیا کہہ رہا ہوں، اگر زمانے کی حالت یہی ہے تو شعری مجموعہ جلانے کے قابل ہونا چاہیے۔
توضیح: میرزا غالب زمانے کی ناقدرشناسی کا شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر لیل و نہار اسی طرح گذرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب کہ شاعر کا دیوان بس اس قابل ہی رہ جائے گا کہ اسے نذرِ آتش کر دیا جائے۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
نه از مِهر است گر بر داستانم می‌نهد گوشی
همان از نکته‌چینی خیزدش ذوقِ شنیدن هم
(غالب دهلوی)

مِهر: محبت، تعلق۔ داستانم: میری داستان، میری کہانی۔ نهد گوشی: گوش می‌نهد: (از مصدرِ نہادن) کان دھرتا ہے، توجہ سے سنتا ہے۔ همان: وہی۔ نکته‌چینی: (از مصدرِ چیدن: چننا) عیب جوئی، ہر معمولی بات پر اعتراض۔ خیزَدَش: (از مصدرِ خیزیدن: ابھرنا، اگنا) ابھرتا ہے، پیدا ہوتا ہے۔ شنیدن: سننا۔
یہ محبت کی وجہ سے نہیں ہے کہ وہ میری داستان کان لگا کر سنتا ہے بلکہ اسی عیب جوئی کی وجہ سے ہی اس میں سننے کا اشتیاق ابھرتا ہے۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 
رباعی

یا رب بدو نور دیدۂ پیغمبر
یعنی دو چراغ دودمان حیدر
بر حال ما من بعین عنایت بنگر
دارم نظر اینکه من نیفتم ز نظر


(خواجہ شاہ محمد نقشبند بخاری)


اے رب کریم! حضور رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم کے دو نور نظر یعنی دو چراغان خاندان حضرت علی حیدر کرار رضی الله عنہ (امام حسن و امام حسین رضوان الله علیہم اجمعین) کے صدقے میرے حال پر نظر کرم فرما۔ میں امید رکھتا ہوں کہ تو مجھے اپنی نظروں سے نہیں گرائے گا یعنی اپنی نظر کرم میں ہی رکھے گا۔
 
آخری تدوین:
رباعی

یا رب به رسالت رسول الثقلین
یا رب به غزا کنندهٔ بدر و حنین
عصیان مرا دو حصه کن در عرصات
نیمی به حسن ببخش و نیمی به حسین


(ابو سعید ابوالخیر)


اے میرے رب! رسول الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے واسطے سے، اے میرے رب! بدر و حنین کے غزوات کے قائد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے، میرے گناہوں کے دو حصے کر کے ایک حصہ بطفیل حسن رضی اللہ عنہ اور ایک حصہ بوسیلہ حسین رضی اللہ عنہ بخش دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دل است همچو حسین و فراق همچو یزید
شهید گشته دو صد ره به دشتِ کرب و بلا
(مولانا جلال‌الدین رومی)

[میرا] دل حسین کی مانند ہے اور فراق یزید کی مانند؛ وہ دشتِ کرب و بلا میں دو سو بار شہید ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز سوزِ شوق دلِ من همی‌زند عللا
که بُوک دررسدش از جنابِ وصل صلا
(مولانا جلال‌الدین رومی)

میرا دل سوزِ اشتیاق کے باعث فریاد کرتا رہتا ہے؛ اِس امید میں کہ شاید اُس تک وصل کی درگاہ سے کوئی دعوتی ندا پہنچ جائے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
نشستن بر سرِ راہِ تحیر عالمے دارد
کہ ھر کس می رود از خویش میگردد دو چارِ ما

غالبؔ
"از خویش رفتن"اپنے آپ سے بیگانہ ہو جانا۔بے خود ہو جانا۔
ہم راہِ حیرت میں بیٹھےہیں اور اس عالم میں ہونا بھی عجب کیفیت رکھتا ہے۔جو شخص بھی اپنے آپ سے بیگانہ ہو کر یہاں سے گزرتا ہے
اُس کی ہم سے ضرور ملاقات ہو جاتی ہے۔(تمام درد مند لوگ باطنی طور پر ایک دوسرے کے آشنا ہو تے ہیں)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
من مستِ خرابات نمازے کہ گذارم
بانگے نہ قیامے نہ ،رکوعے نہ سجودے
بو علی -
جو نمازمیں میخانے میں ادا کرتا ہوں۔
اس کی نہ کوئی اذان ہے نہ کوئی قیام نہ کوئی رکوع نہ کوئی سجود۔
 

حسان خان

لائبریرین
نشستن بر سرِ راہِ تحیر عالمے دارد
کہ ھر کس می رود از خویش میگردد دو چارِ ما

غالبؔ
"از خویش رفتن"اپنے آپ سے بیگانہ ہو جانا۔بے خود ہو جانا۔
ہم راہِ حیرت میں بیٹھےہیں اور اس عالم میں ہونا بھی عجب کیفیت رکھتا ہے۔جو شخص بھی اپنے آپ سے بیگانہ ہو کر یہاں سے گزرتا ہے
اُس کی ہم سے ضرور ملاقات ہو جاتی ہے۔(تمام درد مند لوگ باطنی طور پر ایک دوسرے کے آشنا ہو تے ہیں)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
آقائے ضیاءالقمر، آپ میرزا غالب کے اشعار شریک کر کے ایک بہت احسن کام سرانجام دے رہے ہیں۔ لا شَکَّ فِیهِ! لیکن ایک درخواست ہے کہ آپ ہر جا مترجم و شارح کے طور پر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام کا بھی ذکر کر دیا کیجیے۔ میں اِس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ صوفی تبسم میرزا غالب کی فارسی غزلیات کا اردو ترجمہ و شرح کر کے فارسی ادبیات کی ایسی خدمت کر گئے ہیں کہ زیب دیتا ہے کہ اُن کا نام بار بار لکھا جائے اور اُن کی قدردانی کی جائے۔
 
آخری تدوین:

ضیاءالقمر

محفلین
آقائے ضیاءالقمر، آپ میرزا غالب کے اشعار شریک کر کے ایک بہت احسن کام سرانجام دے رہے ہیں۔ لا شَکٌّ فِیهِ! لیکن ایک درخواست ہے کہ آپ ہر جا مترجم و شارح کے طور پر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام کا بھی ذکر کر دیا کیجیے۔ میں اِس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ صوفی تبسم میرزا غالب کی فارسی غزلیات کا اردو ترجمہ و شرح کر کے فارسی ادبیات کی ایسی خدمت کر گئے ہیں کہ زیب دیتا ہے کہ اُن کا نام بار بار لکھا جائے اور اُن کی قدردانی کی جائے۔
پڑے بغیر آپ اصلاح فرما رہے ہیں میں نے تو ہروہ انتخاب جس میں مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب تھے درج کیا ہے اب یہ پتا نہیں کیا معاملہ ہے کہ وہ آپ نہیں دیکھ پا رہے۔:)
جو اقتباس آپ نے لیا ہے اُس میں بھی درج ہے!
کیا میں شاعر کا نام لکھ رہا ہوں کے وہ بھی نہیں لکھ رہا؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از آبِ دیده صد ره طوفانِ نوح دیدم
وز لوحِ سینه نقشت هرگز نگشت زایل
(حافظ شیرازی)
میں نے [اپنے] آبِ چشم کے باعث صد بار طوفانِ نوح دیکھا، [لیکن میرے] سینے کی لوح سے تمہارا نقش ہرگز زائل نہ ہوا۔

"یعنی بعد از آن که از مرتبهٔ قربت، روی به بادیهٔ غربت آوردم، و قدم از صومعهٔ شادکامی بیرون نهاده، ساکنِ غمکدهٔ بدنامی شدم، از آبِ دیده و گریهٔ چشم، صد ره و مرتبه طوفانِ نوح دیدم. اما صد شکر که از لوحِ سینهٔ من نقشِ خیال، و مثالِ جمالِ تو هرگز نگشت زایل؛ و الّا در دیده[ای] که آب طغیان کند و طوفانی نماید، نقش نمی‌ماند."

(ماخذ: شرحِ عرفانیِ غزل‌هایِ حافظ، ابوالحسن عبدالرحمان ختمی لاهوری، مجلّدِ سوم، ص ۲۱۰۱)

ترجمہ: "یعنی قربت کے مرتبے سے دوری کے صحرا کی جانب رخ کر لینے، اور شادکامی کی خانقاہ سے قدم بیرون رکھ کر بدنامی کے غم کدے میں ساکن ہو جانے کے بعد، میں نے آبِ دیدہ اور گریۂ چشم کے باعث صد بار و مرتبہ طوفانِ نوح دیکھا۔ لیکن صد شکر کہ میرے سینے کی لوح سے تمہارے خیال کا نقش اور تمہارے جمال کی تصویر ہرگز زائل نہ ہوئی؛ وگرنہ کسی چشم میں جب آب طُغیان و طوفان کرتا ہے تو نقش باقی نہیں رہتا۔"


لاہور سے تعلق رکھنے والے کتنے ادب دوست افراد جانتے ہیں کہ اُن کے ایک سَلَف 'ختمی لاہوری' نے فارسی میں دیوانِ حافظ شیرازی کی ہزاروں صفحات پر مشتمل عرفانی شرح لکھی تھی؟
 
آخری تدوین:
بادصبا چو از رخ او زلف در ربود
ابر سیاہ کشادہ شد و آفتاب کرد

(امیر خسرو)
باد صبا کے جھونکے نے اس محبوب کے چہرے سے زلف کو ہٹا دیا تو گویا بادل ہٹ گئے اور سورج نکل آیا ۔
 
خوش آن زمان که به رویش نظر نهفته کنم
چو سوی من نگر د او نظر بگردانم
(امیر خسرو)
وہ کیا ہی اچھا وقت ہوتا ہے جب میں چوری نظروں سے اسے دیکھتا ہوں لیکن جب وہ میری طرف دیکھتا ہے تو میں نظریں نیچے کرلیتا ہوں ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آن کس که یادِ او نکنی در هزار سال
روزی هزار بار ترا یاد می‌کند
(خواجه آصفی)

جس شخص کو تم ہزار سال میں [ایک بار بھی] یاد نہیں کرتے، وہ تمہیں ایک روز میں ہزار بار یاد کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
در وادیِ عشق دل چو بنهاد قدم
گفتم که مرو کاین ره محو است و عدم
نشنید و چو دید در ره آثارِ فنا
شد نادم و این زمان چه سودش ز نَدَم
(شیخ ابوالوفا خوارَزمی)

دل نے جب وادیِ عشق میں قدم رکھا تو میں نے کہا کہ مت جاؤ، کہ یہ راہ محو و عدم ہے۔ اُس نے نہ سنا، اور جب راہ میں آثارِ فنا دیکھے تو وہ نادم ہو گیا، لیکن اب اِس وقت اُسے ندامت سے کیا فائدہ؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اے در نظرِ نازِ تو سلطان و گدا ہیچ
آیا خبرت ہست ز حالِ دلِ ما، ہیچ


شیخ علی حزیں لاھیجی

اے کہ تیری نظرِ ناز میں بادشاہ اور فقیر دونوں کی حیثیت کچھ بھی نہیں، (اِس کے باوجود) کیا تجھے ہمارے دلِ زار کے حال کی بھی کچھ خبر ہے یا نہیں؟
 
Top