حسان خان

لائبریرین
آغا جی، پتہ ہی نہیں چلا خوب صورت لگتے گئے لکھتا گیا ایک ایک شعرکرکےتولکھاہے آیندہ آپ کا(خیال )رکھوں گا !
ایک ہی وقت میں کئی اشعار شریک کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ قاری کی دلچسپی ذرا کم ہو جاتی ہے۔ اگر ایک دو اشعار ہی ہوں تو قاری اُنہیں زیادہ توجہ سے خوانتا (پڑھتا) ہے۔
علاوہ بریں، مکمل غزل شریک کرنے کے لیے ایک نیا دھاگا کھول کر اُس میں غزل ارسال کرنا زیادہ مناسب رہتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تمامِ عمر مستِ باده بودم، ای خوشا یک بار
شدم مستِ دو چشمِ مستِ تو بی‌باده، بی‌باده
(لایق شیرعلی)

میں تمام عمر مستِ شراب تھا، لیکن اے خوشا، کہ ایک بار میں بے شراب ہی تمہاری دو مست چشموں کا مست ہو گیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ سعدی شیرازی

سودے نبوَد فراخنایی بر و دوش
گر آدمی ای ترا خرد باید و ہوش
گاو از من و تو فراخ تر دارد چشم
خر از من و تو دراز تر دارد گوش


سینے اور شانوں (جسم) کے چوڑے چکلے ہونے سے فائدہ نہیں ہوتا، اگر تُو انسان ہے تو پھر تجھے عقل مند اور ہوش مند ہونا چاہیے، (کیونکہ اگر جسم ہی معیار ہوتا تو پھر) گائے کی آنکھیں، میری اور تیری آنکھوں سے زیادہ بڑی ہیں اور گدھے کے کان، میرے اور تیرے کانوں سے زیادہ بڑے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
چشم تنگ مرددنیاداررا
یاقناعت پُرکندیاخاک گور
۔
دنیا دارانسان کی تنگ آنکھ کو
یا تو قناعت بھر سکتی ہے یاپھر قبر کی خاک۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر کہ را اسرار حق آموختند
مہر کردند و دہانش دوختند

۔
جن کو بھی راز حق سے آشنا کر دیا گیا
ان کے دہن کو سی دیا گیا اور مہر لگا دی گئی
 

ضیاءالقمر

محفلین
باز آ کہ کار خود بہ نگاہت سپردہ ایم
مارا خجل ز تفرقہء مہر و کیں شناس

غالب
معشوق سے خطاب کر کے کہتا ہے ،آ کہ ہم نے اپنا معاملہ تیری نگاہ ہی پر چھوڑ دیا ہے،
وہ نگاہ مہر آلود ہو یا خشم آلود ہمارے لیے دونوں انداز برابر ہیں (کیونکہ دونوں کا اپنا اپناحسن ہے)اور ہم محبت و کینہ (مہر و کین) سے بے نیاز ہو گئے ہیں اور مہر و کیں میں امتیاز کرنے پر نادم ہیں ۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
دانهٔ سنگِ وطن را به کریملن ندهم
خارِ این باغ و چمن را به واشنگتن ندهم
بوتهٔ خار ازین خاک به جرمن ندهم
به خدا جان بدهم خاک به لندن ندهم
من که افغانم و اسلام بُوَد آیینم
نه به انگلیس غلام و نه فدایِ چینم
(محمد رحیم شیدا)

میں اپنے وطن کا ایک دانۂ سنگ بھی کریملن (ماسکو) کو نہ دوں؛ میں اِس باغ و چمن کا خار واشنگتن کو نہ دوں؛ میں اِس خاک میں سے بُوتۂ خار (خار کی جھاڑی) جرمن کو نہ دوں؛ بہ خدا، میں جان دے دوں، لیکن وطن کی خاک لندن کو نہ دوں؛ میں کہ افغان ہوں اور اسلام میرا دین ہے، نہ میں انگریز کا غلام ہوں اور نہ چین پر فدا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هزار لعنت و نفرین برای من بادا
اگر ز کف بِگُذارم لِوایِ آزادی
(زمان فیروز)

اگر میں [اپنے] دست سے آزادی کا پرچم چھوڑ دوں تو مجھ پر ہزار لعنت و نفرین ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
شد برقعِ رویِ چو مهت زلفِ شب‌آسا
سُبحٰانَ قَدِيرٍ جَعَلَ اللَّيلَ لِبٰاسا
(عبدالرحمٰن جامی)

[تمہاری] شب جیسی زلف تمہارے ماہ جیسے چہرے کا برقع بن گئی؛ پاک ہے وہ ربِّ قدیر جس نے شب کو پوشاک بنایا۔

× اِس شعر میں سورۂ نباء کی آیت ۱۰ کی جانب اشارہ ہے:
"وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا"
ترجمہ: اور ہم نے شب کو پردہ و پوشِش بنایا۔
 
رباعی

بیدل بدو روزہ عمر مغرور مشو
بنیاد تو نیستی است معمور مشو
ہرچند ابدال و قطب و غوث خوانند
اے خاکی بایں غبار مسرور مشو

(بیدل دھلوی)


اے بیدل! دو دن کی زندگی پر مغرور نہ ہو، تیری بنیاد عدم (نہ ہونا) ہے، آباد نہ ہو اگرچہ تجھے لوگ ابدال، قطب اور غوث کہتے ہیں، اے مٹی سے وجود پانے والے اس غبار پر خوش نہ ہو۔
 
چوں حباب آئینہ از خاموشی روشن است
لب بھم بستن چراغ عافیت را روغن است

(بیدل دھلوی)


بلبلے کی طرح آئینہ (وجود) خاموشی کی بدولت روشن ہے۔ ہونٹ بند رکھنا، عافیت کےچراغ کے لئے تیل کی مانند ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز هفتاد و دو ملّت کرد جامی رُو به عشقِ تو
بلی عاشق ندارد مذهبی جز ترکِ مذهب‌ها
(عبدالرحمٰن جامی)

جامی نے اپنا رُخ ہفتاد و دو مسلکوں سے موڑ کر تمہارے عشق کی جانب کر لیا؛ ہاں! عاشق کا بجز ترکِ مذاہب کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم که به هجر از دل شوقِ تو شود زایل
فِی الْهَجْرِ مَضیٰ عُمْرِی وَالشَّوقُ کَمٰا کانا
(عبدالرحمٰن جامی)

میں نے کہا تھا کہ ہجر کے سبب دل سے تمہارا شوق زائل ہو جائے گا۔۔۔ ہجر میں میری عمر گذر گئی لیکن شوق اُسی طرح موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

ضیاءالقمر

محفلین
؂کعبہ مقصود گر باشد ہزاراں سالہ راہ
نیم گامے ہم نباشد شوق چوں راہبر شود

کعبہ مقصود ہزار برس کی راہ کے فاصلہ پر کیوں نہ ہو ۔
اگر شوق تیرا راہبر ہو جائے تو وہ نصف قدم کے برابر نہیں ہے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
؂ راز دار تو و بدنام کن گردش چرخ
ہم سپاس از تو وہم شکوہ ز اختر دارم

غالبؔ
خدا سے کہتا ہے کہ میں اس راز سے واقف ہوں کہ جو تکلیف مجھے پہنچتی ہے وہ تیری طرف سے ہے
(اور اس میں کچھ مصلحت ہوتی ہے)۔لیکن آسمان (اختر)کو بدنام کرتا ہے۔ میں دراصل تیرا احسان مند ہوں اور
بظاہر ستارے کا شکوہ کرنے والا ۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
بیاورید گر این جا بُوَد زبان‌دانی
غریبِ شهر سخن‌های گفتنی دارد
(غالب دهلوی)

بیاورید: (از مصدرِ آوردن: لانا) لاؤ، نکال کر لاؤ۔ بیاورید گر این جا بُوَد: یہاں (کوئی مائی کا لعل ہو تو) اسے نکال کر لاؤ۔ زبان‌دانی: کوئی زبان داں، کوئی ایسا شخص جو زبان کی باریکیوں سے واقف ہو۔ غریب: اجنبی، پردیسی، مسافر۔ گفتنی: (از مصدرِ گفتن: کہنا) کہنے کے قابل۔ یہاں مصدرِ 'گفتن' میں حرفِ 'ی' اظہارِ لیاقت کے لیے ہے۔
یہاں اگر کوئی زبان داں موجود ہو تو اسے نکال کر لاؤ اگرچہ یہ مسافر تمہارے شہر میں اجنبی ہے مگر اس کے پاس ایسے پتے کی باتیں ہیں جو تمہیں بتانے کے قابل ہیں۔
توضیح: بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی موقعے پر غالب کسی ایسی محفل میں پہنچ گئے جہاں سب فارسی داں تھے۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ شخص جس کی مادری زبان فارسی نہیں ہے ہمارے ہم پلہ کیسے ہو سکتا ہے مگر غالب نے سرِ محفل ان کو للکارا کہ اگرچہ میں تمہارے درمیان اجنبی ہوں مگر میں فارسی زبان کے وہ آداب و رموز جانتا ہوں جس سے تم واقف نہیں ہو۔ اگر تم میں کوئی واقعی زبان دانی کا مدعی ہو تو میرے مقابل لاؤ تاکہ میں اسے وہ نکتے بتا سکوں جو کسی زبان داں کو آنے چاہییں۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
جوهرِ طبعم درخشان است لیک
روزم اندر ابر پنهان می‌رود
(غالب دهلوی)

جوهرِ طبع: ذاتی خصوصیت، انسان کی باطنی شخصیت۔ جوهرِ طبعم: میری طبیعت کا جوہر، میری فطرتِ ذاتی، (میری استعدادِ شعر گوئی)۔ درخشان: (از مصدرِ درخشیدن: چمکنا) روشن، تابان۔ لیک: لیکن۔ روز: دن، مگر غالب نے اس شعر میں بہ معنیِ خورشید و آفتاب استعمال کیا ہے۔ روزم: (لفظی معنی) میرا دن، (اصطلاحی معنی) میرا بخت، میری تقدیر۔ ابر: بادل۔ پنهان: پوشیدہ، چھپا ہوا۔
اگرچہ میری طبیعت کا جوہر (استعدادِ شعر گوئی) روشن و تاباں ہے لیکن میری تقدیر کا روزِ روشن بادلوں میں پوشیدہ گذر جاتا ہے۔
توضیح: میرزا غالب اس بات سے بخوبی باخبر تھے کہ وہ جس دور میں پیدا ہوئے ہیں وہ ان کے لیے قطعی ناموزوں و ناسازگار ہے۔ اگر وہ عہدِ اکبری (۱۵۵۶-۱۶۰۵) سے دورِ شاہجہانی (۱۶۲۸-۱۶۶۱) کے درمیان پیدا ہوئے ہوتے تو ان کا شمار غزالی مشہدی، عرفی شیرازی، نظیری نیشابوری، کلیم کاشانی اور صائب تبریزی جیسے شعراء کی صف میں ہوتا۔
مغلوں کے عہدِ حکومت میں ایرانی اور تورانی امراء کے درمیان ہمیشہ سیاسی چشمک رہی جو ان کے زوال کے ساتھ ادب میں بھی سرایت کرنے لگی۔ غالب تُرک تھے وہ اپنے آبا و اجداد کی طرح اسی اسلوب میں شعر کہتے جو ماوراءالنہر یعنی غالب کے آبائی وطن میں مروّج تھا۔ اس کے برعکس ایرانی امراء اس مکتب کی پیروی کرتے جو اصفہان میں رائج تھا۔ اور بعد میں لکھنؤ منتقل ہو گیا۔ غالب جس زمانے میں زندہ رہے اس وقت ایرانی امراء کا طوطی بول رہا تھا اسی لیے انہوں نے غالب کے اسلوبِ ماوراءالنہری کو پسند کی نگاہ سے نہ دیکھا جس کا غالب نے اس شعر میں شکوہ کیا ہے البتہ وہ امراء جو ماوراءالنہری اسلوبِ شعر گوئی کو پسند کرتے تھے انہوں نے حیدرآباد میں حکومت قائم کر لی۔ اگر غالب نے اس دیار کا سفر اختیار کر لیا ہوتا تو یقیناً ان کی وہاں ایسی ہی قدر و منزلت ہوتی جیسے داغ دہلوی کی ہوئی۔
(مترجم و شارح: یونس جعفری)
 

حسان خان

لائبریرین
جهان خون‌ریز‌بنیاد است هشدار
سرِ سال از مُحرّم آفریدند
(بیدل دهلوی)

دنیا کی بنیاد خوں ریز ہے، ہوشیار رہو!۔۔۔ سال کے سر (آغاز) کو ماہِ محرّم سے خلق کیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بگذر ز غنا تا نشوی دشمنِ احباب
اول سبقِ حاصلِ زر ترکِ سلام است


ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل

دولت حاصل کرنے کا خیال چھوڑ دے تا کہ تُو دوستوں کا دشمن نہ بن جائے، کیونکہ دولت کا پہلا سبق یہ ہے کہ دوستوں کو سلام کرنا ترک کر دے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
؂رفت برما آچہ خود ما خواستیم
وایہ از سلطاں بہ غوغا خواستیم

غالبؔ
ہم پر وہی کچھ گزرا جو ہم خود چاہتے تھے،بادشاہ سے شور غوغا کر کے اپنی حاجت چاہی۔انسانوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ عطیہ الہی ہے۔اللہ کی رحمت جس کو جس طرح چاہے نواز ے اور بے استحقاق دے۔ہم نے اپنی بھر پور خواہشوں کو پورا کرنے کا تقاضا کیا اور محروم رہے۔ہم اپنی محرومیوں کے خود ہی ذمہ دار ہیں
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
Top