محمد وارث

لائبریرین
عمر ہا عیبِ دوستاں گُفتی
وصفِ خود ساعتے ز دشمن پُرس


نظیری نیشاپوری

ساری زندگی تُو نے دوستوں کے عیب ہی بیان کیے ہیں، کبھی کسی وقت کسی دشمن سے اپنے وصف بھی پُوچھ۔
 

یاز

محفلین
ہم عفااللہ ز صباکز تو پیامے آدرد
ورنہ درکس نہ رسیدیم کہ درکوئے تو بود
(حافظ شیرازی)

خدا صبا کو بخشے جو تیری جانب سے پیام لائی، ورنہ ہماری کسی ایسے شخص تک رسائی نہ تھی جو تیرے کوچے میں تھا۔
 
در آں نفس کہ بِمِیرم در آرزوئے تو باشَم
بَداں امید دِہَم جاں کہ خاکِ کوئے تو باشم
بہ وقتِ صبحِ قیامت کہ سر زِ خاک بر آرَم
بہ گفت و گوئے تو خیزَم بہ جست و جوئے تو باشم
(شیخ سعدی شیرازی)


جس وقت میں مروں تیری آرزو میں رہوں
اسی امید پر جان دوں کہ تیرے کوچے کی خاک رہوں
صبحِ قیامت کے وقت کہ جب خاک سے سر اُٹھاوں
تیری گفتگو کی بدولت (سر) اٹھاوں اور تیری جستجو میں رہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اے کہ می گوئی، "چرا جامے بجانے می خری؟"
ایں سخن با ساقیِ ما گو کہ ارزاں کردہ است


بابا فغانی شیرازی

اے تُو کہ جوکہتا ہے کہ، "تُو ایک جام اپنی جان کے بدلے میں کیوں خریدتا ہے؟"، یہ بات ہمارے ساقی سے پوچھ کہ اُسی نے سستی کر دی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
طفلی و دامان مادر خوش بہشتے بودہ است
چوں بپائے خود رواں گشتیم سر گرداں شدیم

سر سید احمد خان
بچپن کا زمانہ اور ماں کی آغوش ،جنت کا زمانہ تھا
جب سے اپنے پاؤں پر چلے، سرگرداں ہی رہے
 

محمد وارث

لائبریرین
دو چشمم فرشِ آں منزل کہ سازی جلوہ گہ آنجا
بہر جا پا نہی خواہم کہ باشم خاکِ رہ آنجا


اہلی شیرازی

میری دونوں آنکھیں اُس منزل کا فرش (بن جائیں) کہ جس جگہ تُو اپنی جلوہ گاہ بنائے، اور جس جس جگہ بھی تُو اپنے پاؤں رکھے، میں چاہتا ہوں کہ میں اُس جگہ راستے کی خاک بن جاؤں۔
 

یاز

محفلین
ترکِ دنیا ہر کہ کرد از زُہدِ خویش
بیش آمد پیشِ اُو دنیا ز پیش
(مولانا رومی)

جس نے اپنے زہد کی وجہ سے دنیا کو چھوڑ دیا، اس کے سامنے دنیا پہلے سے بھی زیادہ آتی ہے
 

حسان خان

لائبریرین
یا رب تو آشنا را مهلت ده و سلامت
چندان که بازبیند دیدارِ آشنا را
(سعدی شیرازی)

یا رب! تو آشنا کو اتنی مہلت اور عافیت دے کہ وہ (اپنے) آشنا کا دیدار دوبارہ دیکھ لے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به خون‌بهای منت کس مطالبت نکند
حلال باشد خونی که دوستان ریزند
(سعدی شیرازی)

کوئی تم سے میرے خوں بہا کا مطالبہ نہ کرے۔۔۔ (کیونکہ) جو خون دوست بہاتے ہیں وہ حلال ہوتا ہے۔
× 'خون‌بهای مَنَت' میں 'ت' ضمیرِ متصلِ مفعولی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حَرفی‌ست حرفِ عشق که هرچند بر زبان
تکرار می‌کنیم و مکرّر ‌نمی‌شود
(ابوالفیض فیضی)

حرفِ عشق ایک ایسا حرف ہے کہ اگرچہ ہم زبان پر (اُس کی) تکرار کرتے ہیں لیکن وہ (پھر بھی) مکرّر نہیں ہوتا۔
(یعنی ہر بار نیا اور تکرار نشدہ معلوم ہوتا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
یک شرر از عینِ عشق دوش پدیدار شد
طای طریقت بسوخت عقل نگونسار شد
(عطّار نیشابوری)

عشق کے عین کا ایک شرر گذشتہ شب ظاہر ہوا؛ (جس سے) طریقت کی طا جل گئی اور عقل نگوں سار ہو گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
ساقیا بده جامی زان شرابِ روحانی
تا دمی برآسایم زین حجابِ جسمانی
(شیخ بهایی)

اے ساقی! اُس روحانی شراب کا ایک جام تھماؤ تاکہ میں کچھ دم اِس جسمانی حجاب سے استراحت پا لوں۔

بهرِ امتحان ای دوست گر طلب کنی جان را
آنچنان برافشانم کز طلب خجل مانی
(شیخ بهایی)

اے دوست! اگر امتحان کے لیے تم میری جان طلب کرو تو میں اِس طرح نثار کروں گا کہ تم (اپنی) طلب سے شرمندہ رہ جاؤ گے۔

دین و دل به یک دیدن باختیم و خُرسندیم
در قُمارِ عشق ای دل کَی بوَد پشیمانی؟
(شیخ بهایی)

ہم نے ایک دیدار کے عوض دین و دل گنوا دیے اور (پھر بھی) ہم خوش ہیں۔۔۔ اے دل! عشق کے قمار میں کب (کوئی) پشیمانی ہوتی ہے؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
جنسِ دیں را چہ کساد آمدہ عرفی درپیش
کہ بجز مردہ ز حافظ نخرد قرآں را


عرفی شیرازی

عرفی، جنسِ دین پر کیسا مندی کا زمانہ آ گیا ہے کہ مُردے کے علاوہ، (قرآن بیچنے والے) حافظ سے کوئی بھی قرآن نہیں خریدتا۔ (یعنی قرآن صرف مرگ پر پڑھنے کے لیے رہ گیا ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
من در بیانِ وصفِ تو حیران بمانده‌ام
حدّی‌ست حسن را و تو از حد گذشته‌ای
(سعدی شیرازی)

میں تمہارے وصف کے بیان میں حیران رہ گیا ہوں، (کیونکہ) حُسن کی ایک حد ہے اور تم حد سے گذر چکے ہو۔
 

Ali.Alvin

محفلین
اندازے سے ترجمہ کر رہا ہوں اگر کوئی غلطی ہو تو نشاندہی کر دیں -
(میں) جس راہ پر بھی چلتا ہوں زندگی کا غبار میرے آڑے آتا ہے - یارب ایسی خاکِ پریشاں کو مجھےکب تک برداشت کرنا پڑے گا-
حضور عرض کر چکا ہوں کہ فارسی میں درک بالکل بھی نہیں ہے، فارسی شعر کے ساتھ ترجمہ نہ ہو تو نا واقفیت کے مزے لوٹتا ہوں اور ترجمہ میسر آ جائے تو دو آتشہ ہو جاتی ہے۔

یہ قطعہ اقبال کی کتاب ارمغانِ حجاز میں ہے اور اس کا عنوان "بہ یارانِ طریق" ہے۔ ترجمہ


ہم مشربوں سے

آؤ تا کہ اس امت کے (بگڑے ہوئے) کام سنواریں، زندگی کی بازی مردانہ وار کھیلیں۔ شہر کی مسجد میں اس طرح نالہ و فریاد کریں کہ کے مُلّا کے سینے میں دل کو گداز کر دیں۔


واہ واہ واہ، سبحان اللہ سبحان اللہ۔ لا جواب کلام ہے اقبال کا۔
واقعی ماشاءاللہ
 

Ali.Alvin

محفلین
اینجا چہ کنم ازکہ بگیرم خبرت را
از دست تو و ناز تو فریاد کجایی
دانم کی مرا بی خبری می کُشد آخر
دیوانہ شدم خانہ ات آباد کجایی
 

Ali.Alvin

محفلین

Ali.Alvin

محفلین
چہ لازم با خرد ہم خانہ بودن
دو روزے می تواں دیوانہ بودن


(مرزا عبدالقادر بیدل)

کیا ضروری ہے کہ ہر وقت عقل کے ساتھ ہی رہا جائے (عقل کی بات ہی سنی جائے)، دو روز دیوانہ بن کر بھی رہنا چاہیئے۔

اور اسی شعر کا پر تو اقبال کے اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اس شعر کا ترجمہ اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ کیا لازم ہے کہ ہمیشہ عقل کے ساتھ گھر میں ہی رہے دو روز کر سکتے ہوں کہ دیوانہ بن جاو اور دیوانہ بن کر رہو کچھ دن
 

حسان خان

لائبریرین
اینجا چہ کنم ازکہ بگیرم خبرت را
از دست تو و ناز تو فریاد کجایی
دانم کی مرا بی خبری می کُشد آخر
دیوانہ شدم خانہ ات آباد کجایی
اینجا چه کنم؟ از که بگیرم خبرت را؟
از دستِ تو و نازِ تو فریاد، کجایی؟

دانم که مرا بی‌خبری می‌کشد آخر
دیوانه شدم، خانه‌ات آباد، کجایی؟

شاعرہ: پریناز جہانگیر عصر


ترجمہ:
میں یہاں کیا کروں؟ کس سے تمہاری خبر حاصل کروں؟
تمہارے ہاتھوں اور تمہارے ناز سے فریاد ! تم کہاں ہو؟

میں جانتی ہوں کہ مجھے بے خبری آخر مار ڈالے گی
میں دیوانی ہو گئی - تمہارا خانہ آباد رہے - تم کہاں ہو؟

برادر، اس دھاگے میں فارسی اشعار کو اردو ترجمے کے ساتھ شریک کرنے کی روایت ہے۔
 
Top