لگتا ہے ایسا کلام کافی کثرت سے موجود اور مشہور ہے ۔
ہر لحظہ بشکل آن بت عیار برامد دل برد و نہاں شد یاپھر شاید رواں شد۔۔۔ الخ
یہ والا بھی مولینا سے منسوب ہے ۔ کیا یہ بھی یوں ہی ہے ؟
جی بالکل، یہ بھی غلط منسوب ہے۔ جامی، رومی، سعدی اور حافظ وغیرہ سے ایسے بہت سے الحاقی اشعار منسوب ہیں ۔ اسی طرح سعدی سے بھی چند مشہور اشعار منسوب ہیں، جیسے در جوانی توبہ کردن شیوہء پیغمبری است، پھر اسی طرح سعدیا شیرازیا پندے مدہ کم زاد را وغیرہ وغیرہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی بالکل، یہ بھی غلط منسوب ہے۔ جامی، رومی، سعدی اور حافظ وغیرہ سے ایسے بہت سے الحاقی اشعار منسوب ہیں ۔ اسی طرح سعدی سے بھی چند مشہور اشعار منسوب ہیں، جیسے در جوانی توبہ کردن شیوہء پیغمبری است، پھر اسی طرح سعدیا شیرازیا پندے مدہ کم زاد را وغیرہ وغیرہ
لگتا ہے ایسا کلام کافی کثرت سے موجود اور مشہور ہے ۔
ہر لحظہ بشکل آن بت عیار برامد دل برد و نہاں شد یاپھر شاید رواں شد۔۔۔ الخ
یہ والا بھی مولینا سے منسوب ہے ۔ کیا یہ بھی یوں ہی ہے ؟

اس سلسلے میں ایک مضمون نظر سے گزرا ۔اس کے مطابق شمس مشرقی کی شاعری ہے ۔
 
رسد به گوشِ من آواز هر دم از لبِ گور
بیا که خاک ز شوقِ تو چشم در راه است
(غنی کشمیری)
میرے گوش (کان) میں ہر لمحے لبِ گور (قبر کے کنارے) سے آواز آتی ہے کہ آ جا! کہ خاک (مٹی) تیرے عشق کی وجہ سے چشم بہ راہ ہے۔
 
بسیار خوب۔ سپاسِ بےکراں!
اس کے لئے شمسِ مشرقی کا دیوان ڈھونڈنا پڑے گا۔ انٹرنیٹ پر کاپی رائٹ کی صورت میں دیوانِ شمسِ مشرقی مل نہیں رہا۔ اگر ملا تو ضرور اشتراک گذاری کروں گا۔
 
همچو آتش روشن از من بود شمعِ هر مزار
من که مردم کس چراغی بر سرِ خاکم نسوخت
(غنی کشمیری)
آتش کی مانند مجھ سے ہر مزار کی شمع روشن تھی۔جب میں مرگیا، کسی نے بھی میری خاک پر چراغ نہیں جلایا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نہ با صحرا سرے دارم نہ با گلزار سودائی
بہر جا می روم از خویش می بالد تماشائی

ابولمعانی مرزا


نہ مجھے صحرا( کی ویرانیوں) کا کچھ خیال ہے نہ مجھے گل وگلزار ( کی رونق ہی )کی کوئی دھن ہے ۔
میں جہاں چلا جاؤں ، میرے تماشے کے مناظر ،خود میری اپنی ذات سے پیدا ہو تے ہیں ۔
 
آخری تدوین:
نهان شد شمع در فانوس و بی‌تاب است پروانه
به تقریبی دکانِ خویش خوبان گرم می‌سازند
(غنی کشمیری)
شمع (معشوق) فانوس میں نہاں ہوگئی اور پروانہ (عاشق) بےتاب ہے۔ خوباں ایک ہی تقریب میں اپنی دکان گرم (یعنی پُر رونق) کرتے ہیں۔

ضعیفند آن‌چنان دل‌بستگانِ چشمِ بیمارش
که چون مژگان اگر خیزند از پا باز می‌افتند
(غنی کشمیری)
اس کی چشمِ بیمار (یعنی نیم‌بستہ چشم ) کے دل‌دادگان اس قدر ضعیف اور کمزور ہیں کہ پلکوں کی مانند، جب وہ اٹھتے ہیں تو دوبارہ گِر جاتے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سنگ هم به حال من‌ گریه‌ گر کند بر جاست
بی‌تو زنده‌ام یعنی ، مرگ بی‌اجل دارم

ابولمعانی مرزاعبدالقادر بیدل

اگر پتھر بھی میرے حال پر روئیں تو حیرت کی بات نہیں
کیونکہ میں تمہارے بن زندہ ہوں اور بے موت مردہ ہوں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قدحی دارم بر کف به خدا تا تو نیایی
هله تا روز قیامت نه بنوشم نه بریزم

مولینا

میں ہاتھ میں پیالہ تھامے کھڑا ہوں اور بخدا جب تک تو یہاں آنہ جائے
ہر گز تب نہ میں یہ جام پیوں گا اور نہ ہی یہ جام زمین پر گراؤں کروں گا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سحرم روی چو ماهت شب من زلف سیاهت
به خدا بی‌رخ و زلفت نه بخسبم نه بخیزم
مولینا

تیرا ماہ جیسا رخ میری صبح ،اور تیری سیاہ زلف میری شب ہے ۔
واللہ !میں تیرے رخ و زلف کے بنا نہ میں اٹھتا ہوں نہ سوتا ہوں ،
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہ کہ با نور چراغ تہ دامان سازیم
طاقت جلوۂ سینا نہ تو داری و نہ من
اقبال

ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ ہم کسی چراغ کے سائے میں بیٹھ جائیں
کیونکہ جلوء طور سیناء کی تاب لانا نہ تو تیرے بس کی بات ہے نہ میرے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ترک سود و سودا کن قطع هر تمنا کن
مي خور و طرب ها کن من هم اين عمل دارم
ابولمعانی مرزاعبدالقادر بیدل

نفع و نقصان اور خوہشات کے جنون کو چھوڑ دو
بس می نوشی کی موج کرو میں خود بھی یہی کرتا ہوں
 
گر کسی مَی نخرد، غم مخور! ای باده‌فروش
این متاعی‌ست که چون کهنه شود، بیش‌بهاست
(غنی کشمیری)
اے مَےفروش! اگر کوئی (تجھ سے) شراب نہیں خریدتا تو غم مت کر! یہ (شراب) وہ متاع ہے کہ جب یہ پرانی ہوجائے تو گراں بہا ہوجاتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
چہ نیرنگ است بیدل برق دیرستان الفت را
کہ من می سوزم و بوئے تو می آید ز داغ من
ابو المعانی مرزا بیدل
عشق کے عالم کی بجلیوں کے بھی کیا کیا عجیب جلوے ہیں
کہ وجود تو میرا جلتا ہے اور میرے داغ سے بو تیری آتی ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر چيز در شكستن فرياد می برآرد
اما شكست دلها ہرگز صدا ندارد

غلام‌نبی عَشقَری


ہر شے کے ٹوٹنے پر فریاد کی صدا آتی ہے
لیکن دل کے ٹوٹنے پر کوئی صدا نہیں آتی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نزد طبيب رفتم خنديده اينچنين گفت
درد تو درد عشق است هرگز دوا ندارد
غلام‌نبی عَشقَری

میں طبیب کے پاس لے کر گیا تو اس نے ہنس کریوں کہا
یہ درد تو عشق کا دردہے اور اس کی کوئی دوا نہیں ہوا کرتی
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
با صد ہزار جلوہ برون آمدی کہ من
با صد ہزار چشم تماشا کنم ترا
فروغی بسطامی

تم ہزاروں جلوے لے کر سامنے آئے اور میں
ہزاروں آنکھوں سے ہی تمہارا منظر دیکھتا ہوں
 
اگر داری دلِ سختی ، محبت نرم می‌سازد
نهنگِ عشق در دم می‌گدازد استخوان‌ها را
(حزین لاهیجی)
اگر تو کوئی سخت دل رکھتا ہے تو محبت اسے نرم کر دیتا ہے۔ عشق کا نہنگ (مگرمچھ) بَیَک دم استخوانوں (ہڈیوں) کو پگھلا دیتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
من از بی قدری خار سر دیوار دانستم
که ناکس کس نمی گردد از این بالانشینیها

صائب تبریزی


میں نے دیوار کے لگے کانٹوں سے یہ جان لیا کہ
اونچی جگہ بیٹھ جانے سے کوئی معزز نہیں ہوجاتا


یہ شعر کچھ مختلف الفاظ میں بھی مل رہا ہے۔ من از روئیدن خار ۔۔۔الخ
 
آخری تدوین:
من از بی قدری خار سر دیوار دانستم
که ناکس کس نمی گردد از این بالانشینیها

صائب تبریزی


میں نے دیوار کے لگے کانٹوں سے یہ جان لیا کہ
اونچی جگہ بیٹھ جانے سے کوئی معزز نہیں ہوجاتا


یہ شعر کچھ مختلف الفاظ میں بھی مل رہا ہے۔ من از روئیدنن خار ۔۔۔الخ
اس ویبسائٹ کے مطابق، یہ شعر صائب یا بیدل کا نہیں بلکہ افغانستانی شاعر مولانا حسرت کا ہے، جس کا آخری مصرع یوں ہے:
که ناکس کس نمی‌گردد از این بالا جهیدن‌ها
 
Top