تا غره‌یِ کمال نسازد قناعتت
بیدل ز خلق منتِ احسان قبول‌ کن
(بیدل دهلوی)

تاکہ قناعت تجھے (قانع ہونے کے) کمال پر مغرور نہ کردے، اس لئے اے بیدل! تو مخلوق سے احسان اٹھانے کی نیکی کو قبول کر لیا کر۔

مترجم: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
سخت دشوار است منظورِ خلایق زیستن
با همه زشتی اگر در پیش‌ِخود خوبم بس است
(بیدل دهلوی)
شاعر کہتا ہے کہ ساری مخلوق کا منظورِ نظر رہ کر جینا ناممکن بات ہے۔ اس لئے اگر ان تمام عیوب کے باوجود میں اپنی نگاہ میں اچھا ہوں، تو میرے لیے یہی بات کافی ہے جو بات کسی دوسرے انسان کے نزدیک مستحسن نہ ہو، وہ اسے عیب تصور کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ دنیا کی نظر میں میں بدصورت ہی سہی ، لیکن ابھی تک اپنی نظر میں تو خوب‌صورت ہوں۔ دنیا والے اپنا نقطہء نظر مجھ پر کیوں ٹھونستے ہیں، میں ان کی مرضی کے مطابق نہ جی سکتا ہوں اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ مجھے معیوب اور بدصورت ہی سمجھتے رہیں۔

شارح: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
بیدل به وضعِ خلق محال‌ست زیستن
بیگانگی اگر نشود آشنایِ ما
(بیدل دهلوی)
اے بیدل! مخلوق کی وضع کے مطابق تو جینا امرِ محال ہے، اگر بےگانگی سے ہماری آشنائی نہ ہوتی تو حیاتِ انسانی ایک عذاب سے کم نہ ہوتی۔

مترجم: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
به‌خیالِ چشم‌ِ که می‌زند قدحِ جنون دلِ تنگِ ما
که هزار میکده می‌دود به رکاب‌ِگردشِ رنگِ ما
(بیدل دهلوی)
ہمارا یہ چھوٹا سا دل کس کی آنکھ کے خیال میں جنون و مستی کے پیالے پیے ہوئے ہے کہ ہمارے رنگ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ہزاروں مےخانوں دوڑے چلے آرہے ہیں۔

مترجم: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
آخری تدوین:
جهانی نظر بر رخت دوخته‌ست
تو ای گل به سویِ که رو کرده‌ای؟
(بیدل دهلوی)
اے پھول! ایک دنیا نے اپنی نظریں تیرے چہرہء زیبا پر جما رکھی ہیں، مگر ہر وقت تیرا چہرہ آسمان کی طرف متوجہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مظاہر نے تجھے اپنا مرکز ِ التفات بنایا ہوا ہے، مگر تیرا قبلہء نگاہ کسی کا نادیدہ حُسن ہے۔

مترجم : نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
چنان ز دهر سبک‌بار بایدت رفتن
که بارِ نقشِ قدم هم به‌خاک نگذاری
(بیدل دهلوی)
اے مخاطب! تجھے دنیا سے اس طرح ہلکا پھلکا ہو کر گزرنا چاہیے کہ تُو مٹی پر اپنے نقشِ قدم کا بوجھ بھی باقی نہ چھوڑے۔

مترجم : نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
تمام شوقیم لیک غافل‌ که دل به راه‌ِ که می‌خرامد
جگربه داغ‌ِ که می‌نشیند؟ نفس به آه‌ِ که می‌خرامد

ہم سراپا شوق ہیں، لیکن ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ دل کس کی راہ میں محوِ خرام ہے؟ جگر کس کا داغ لئے بیٹھا ہے اور سانس کس کی محبت میں آہ بھر رہی ہے؟

غبارِ هر ذره می‌فروشد به حیرت آیینه‌یِ تپیدن
َرمِ غزالانِ این بیابان پیِ نگاه‌ِ که می‌خرامد

ہر ذرے کا غبار حیرت کو سوز و تپش کا آئینہ فراہم کرتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس بیاباں کے ہرنوں کا رَم کس کی نگاہ کی خاطر خرام‌پذیر ہے؟

ز رنگ‌ِ گل تا بهارِ سنبل شکست دارد دماغِ نازی
درین‌ گلستان ندانم امروز کج‌کلاهِ که می‌خرامد

رنگِ گل سے لے کر سنبل کی بہار تک سارے سلسلہٰ ناز و انداز کو حواس‌باختہ کر رہا ہے، میں نہیں جانتا کہ اس گلستانِ ہستی میں آج کس کی ذاتِ لَم یزل کا کج‌کلاہ خراماں ہے؟

نگه به هرجا رسد چو شبنم زشرم می‌باید آب‌ گشتن
اگر بداند که بی‌محابا به جلوه‌گاهِ که می‌خرامد

نگہ جس مقام پر بھی ٹھہرے، اُس پر لازم ہے کہ وہ شبنم کی طرح شرم سے پانی پانی ہو جائے، اگر وہ یہ جان لے کس جلوہ‌گاہ میں بےدھڑک سیر کر رہی ہے؟

مگر ز چشمش غلط نگاهی فتاد بر حال زارِ بیدل
وگرنه آن برقِ بی‌نیازی پیِ گیاهِ که می‌خرامد
(بیدل دهلوی)
ممکن ہے کہ وہ محبوب اپنی آنکھ سے بیدل کے حال کی فریاد پر کوئی اچٹتی نگاہ ڈال دے، ورنہ وہ برقِ بےنیازی کس کی گھاس کی سیرابی کے لئے گرتی ہے؟


مترجم : نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
آخری تدوین:
ادب نه‌کسبِ عبادت ، نه سعیِ حق‌طلبی‌ست
به‌غیرِ خاک شدن هرچه هست بی‌ادبی‌ست
(بیدل دهلوی)
ادب زیادہ عبادت کرنے اور حق‌طلبی کی کوشش کا نام نہیں کیونکہ صوفیائے کرام کے نزدیک مٹی ہوجانے کے سوا جو کچھ بھی ہے، وہ دائرہء بےادبی میں داخل ہے۔

مترجم: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
من نمی‌گویم به‌کلی ازتعلق‌ها برآ
اندکی زین دردِ سر آزاد باید زیستن
(بیدل دهلوی)
میں یہ نہیں کہتا کہ تو مکمل طور پر دنیوی علائق کو تَرک کر، لیکن کچھ دیر کے لئے اس دردِ سر سے آزاد ہو کر بھی انسان کو جینا چاہیے۔

مترجم: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
آخر ز فقر بر سرِ دنیا‌ زدیم پا
خلقی‌ به جاه تکیه زد وما زدیم پا
(بیدل دهلوی)
ہم نے فقر و غنا کی وجہ سے دنیا کے سر پر لات ماردی۔ ایک دنیا نے مال و جاہ کے ساتھ تکیہ لگایا، یعنی اس کے حوالے سے خود کو متعارف کرانا چاہا، مگر ہم نے اُس چیز کو لات ماردی، جسے لوگوں نے اپنے لئے تکیہء تعارف بنا رکھا تھا۔

مترجم: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
گر نه منظورِکرم بخششِ عبرت باشد
چه خیال است که دولت به اراذل بخشند
(بیدل دهلوی)
ترجمہ:
اگر خداوندِ عالم کا اپنے کرم سے عبرت دلانا مقصود نہ ہو، تو کمینہ‌مزاج اور رذیل‌فطرت لوگوں کو دولت دینے کی کیا تُک بنتی ہے؟
تشریح:
بیدل کا مطلب یہ ہے کہ قدرت امیرزادوں، نواب‌زادوں اور وڈیروں کی کمینگی فطرت اور خسّتِ طبع عبرت حاصل کرنے کے لئے اُنہیں دولت اور بےپناہ مال و اسباب ہر قسم کی نعمتوں سے نوازتی ہے تاکہ وہ سب کچھ حاصل کر کے بُخل کریں، امساکِ زر کریں، سائلوں سے آنکھیں چرائیں اور لوگ ان کی کمینہ حرکتوں سے عبرت حاصل کرکے ایثار در آغوشِ غربت و افلاس میں زندگی گزارنے کو فوقیت دیں۔

مترجم و شارح: نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 
ماوراءالنہری شاعر نقیب خان طغرل احراری کی ایک غزل ترجمے کے ساتھ۔

آن روزِ وعده‌یِ تو سر آمد نیامدی
نخلِ امید با ثمر آمد، نیامدی

تیرا وہ وعدہ کیا ہوا دن (یعنی وہ دن جب تو نے وصال کا وعدہ دیا تھا) اختتام کو پہنچا، تو نہیں آیا۔ امید کا درخت ثمرآور ہوگیا، تو نہیں آیا۔

در انتظارِ وعده‌ات اندر رهِ بخارا
مدِ نگه ز دیده برآمد، نیامدی

بخارا کے راستے میں تیرے وعدے کے انتظار میں میری آنکھوں سے مدِ نگاہ باہر آگئی، لیکن تو نہیں آیا۔
وضاحت: مد کے دو معنی ہیں:۔
1) دریا کے پانی کا زیادہ ہونا (جیسا کہ لفظ مد و جزر میں مستعمل ہے)۔ اگر یہ معنی مراد لیا جائے تو پھر اس شعر کا مطلب یہ بنتا ہے کہ میرے اشکوں کا سیلاب میری آنکھوں سے بیرون آگیا ہے لیکن تو نہیں آیا۔
2)قوتِ نظر کی انتہا۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دُورترین فاصلہ ،جہاں تک میری نگاہ دیکھ سکتی ہے، وہاں تک میں نے اپنی آنکھیں تمہارے دیدار پر لگا رکھی تھیں لیکن تیرے انتظار کی طوالت کی وجہ سے میرے مشاہدے کی قوت میری آنکھوں سے نکل آئی (ختم ہوگئی) ، تو نہیں آیا۔

گفتی که می‌روم به سمرقند نزدِ تو
بالله محلِ نیشکر آمد، نیامدی

تو نے کہا کہ میں سمرقند میں تیرے نزدیک جا رہا ہوں۔ سوگند بہ خدا! نَےشَکر ۔(گَنے) کا وقت آگیا ہے، تو نہیں آیا۔

بهرِ نثارِ مقدمت ای گلشنِ سخن!
جان از تنِ فسرده برآمد، نیامدی

اے گلشنِ سخن! تیرے ورود پر قربان ہونے کے لئے جان افسردہ جسم سے نکل آئی، تو نہیں آیا۔

با طغرل از نویدِ تو عنقا پیام داد
با گوشم از وی این خبر آمد، نیامدی
(نقیب طغرل احراری)
طغرل کو عنقا نے تیرے ۔(آنے کی) خوش‌خبری کا پیغام دیا اور میرے کانوں کو اُسی (عنقا) سے یہ خبر پہنچی، تو نہیں آیا۔


اس غزل کو تاجیکستانی خوانندے افضل‌شاہ شادیف اور دمیربک عالموف کی آواز میں سنیں:۔
 
آخری تدوین:
امروز مرزا غالب دہلوی کے زادروز کے موقع پر:

نرنجم گر به‌صورت از گدایان بوده‌ام غالب
به دارالملکِ معنی می‌کنم فرمان‌روایی‌ها
(مرزاغالب دهلوی)
غالب! اگر میری ظاہری زندگی فقیروں کی سی ہے تو مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں۔میں باطنی طور پر ایک ایسا شہنشاہ ہوں جو روحانی دارالسلطنت کا تاجدار ہے۔
صورت اور معنی میں تضاد ہے۔ اور اسی طرح گدا اور فرمان‌روا کے الفاظ میں ہے۔چنانچہ اس شعر میں صنعتِ تضاد پائی جاتی ہے۔


مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفی تبسم
 
بیدل ستم است رفضیانِ خودسر
دارند ز ما توقعِ فحش و نظر
حاشا که شود به فحش و بهتانی چند
فرزندِ علی دشمنِ بوبکر و عمر

(بیدل دهلوی)
بیدل یہ تو ستم کی بات ہے کہ خودسر اور دیوانے رافضی ہم سے فحش‌کلامی اور ناپاکیِ نظر کی توقع رکھتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ چند لوگوں کی فحش‌گوئی اور الزام‌تراشی کے بدلے علی رضی اللہ عنہ کا کوئی بیٹا ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کا دشمن بن جائے۔

مترجم : نصیر الدین نصیر
کتاب: محیطِ ادب
 

بسکه ابرِ رحمتِ او شُست و شُویم می‌کند
از غمِ تردامنی خاطر نیالاید مرا

(خواجه میر درد)
اُس کا ابرِ رحمت اِتنا زیادہ مجھے شُست و شُو کرتا ہے کہ تر دامنی کے غم سے میرا ذہن و قلب آلودہ نہیں ہوتا۔
× شُست و شُو = دھونا، دُهلائی
السلام وعلیکم حسان صاحب
فارسی کا ایک نعتیہ کلام ہے
غریبم یا رسول اللہ غریبم
ندارم در جہاں جز تو حبیبِم
یہ کلام مکمل مل سکتا ہے اور یہ کس کا کلام ہے
بہت نوازش ہوگی اگر آپ یا کسی اور نے اس کے بارے میں معلومات دی۔جزاک اللہ
 
السلام وعلیکم حسان صاحب
فارسی کا ایک نعتیہ کلام ہے
غریبم یا رسول اللہ غریبم
ندارم در جہاں جز تو حبیبِم
یہ کلام مکمل مل سکتا ہے اور یہ کس کا کلام ہے
بہت نوازش ہوگی اگر آپ یا کسی اور نے اس کے بارے میں معلومات دی۔جزاک اللہ
یہ الحاقی نعت مولانا جامی کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے جبکہ اس کے اسلوب سے لگتا ہے کہ یہ فارسی کے کسی مبتدی کا کہا ہوا کلام ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر تلاش کر کے اس کا پورا متن دیکھ سکتے ہیں۔ میں اس کے متن اور ترجمے کی یہاں اشتراک‌گذاری کرنے سے گریز کروں گا کیونکہ ایسا پست کلام پھر جامی سے منسوب ہوجائےگا، جو کہ مجھے منظور نہیں۔
 
من به اندازه ی غم های دلم پیر شدم
از تظاهر به جوان بودن خود سیر شدم
عقل می خواست که بعد از تو جوان باشم و شاد
من ولی با غمِ عشق تو زمین گیر شدم
ترجمہ اور شاعر کا نام ؟
 
من به اندازه ی غم های دلم پیر شدم
از تظاهر به جوان بودن خود سیر شدم
عقل می خواست که بعد از تو جوان باشم و شاد
من ولی با غمِ عشق تو زمین گیر شدم
ترجمہ اور شاعر کا نام ؟
من به اندازه‌یِ غم‌هایِ دلم پیر شدم
از تظاهر به جوان بودنِ خود سیر شدم
عقل می‌خواست که بعد از تو جوان باشم و شاد
من ولی با غمِ عشقِ تو زمین‌گیر شدم

(امیر قلی‌زاده "گمنام")
میں اپنے دل کے غموں کے جتنا پیر(بوڑھا) ہوگیا ہوں۔ اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنے سے میں سیر ہوگیا ہوں ۔(یعنی اکتا گیا اور تھک گیا ہوں)۔ عقل چاہتی تھی کہ تیرے بعد شاد و جوان رہوں، لیکن میں تیرے غمِ عشق کی وجہ سے نحیف اور ناتوان ہوگیا ہوں۔
 

Shaikh Ahmed

محفلین
چراغ راکہ ایزد برفر زد
کسے کش تف زند ریشش بسوزد
وہ چراغ جسے روشن خدا کرے
کوئی اس پر پھونک مارے تو اسی کی ڈاڈھی جل جائے گی۔
(نامعلوم)
اگر کسی کو شاعر کے نام کا علم ہو تو ضرور مطلع فرمائیں !
 
Top