دلِ مایوس را تسکین به مردن می‌توان دادن
چه امید است آخر خضر، ادریس و مسیحا را
(مرزا غالب دهلوی)
دلِ مایوس کو مرجانے ہی سے تسکین دی جاسکتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ آخر خضر، ادریس اور مسیحا کس امید پر بیٹھتے ہیں۔ان کی زندگی جاویدانی ہے، کبھی مایوس ہوئے تو کیا کریں گے۔موت تو آنے کی نہیں۔

مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جان ز تن بردی و در جانی ہنوز
درد ہا دادی ،و درمانی ہنوز
امیر خسرو

تو ہماری جان لیکر بھی ہماری جان میں ہے
تو ہمیں درد دے کر بھی ہمارا درمان ہے ۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
شکوۂ بیہودہ از ناسازیٔ گردوں مکن
این جراحت را بہ شمشیر زباں افزوں مکن

صائب تبریزی
فلک کی نامساعدی کا لاحاصل شکوہ بہ کر
کہ اپنے زخم کو زبان کی شمشیر سے بڑھانا اچھا نہیں
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
چارۂ بیماریٔ دل را ، زافلاطوں مجویٔ
زیں طبیب خام درد خویش را افزوں مکن

صائب تبریزی
اپنے درد دل کی کی دوا فلسفہ و منطق میں تلاش نہ کر
اس نیم حکیم سے اپنے مرض کو بڑھا نا اچھا نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
می نشیند زود در گل کشتی سنگین رکاب
تکیه بر سیم و زر بسیار چون قارون مکن

صائب تبریزی
جس کشتی کے رکاب پتھر سے بھاری ہوں وہ جلد ڈوب جاتی ہے
اس طرح قاروں کی طرح بھاری خزانوں پر بھروسہ کرنا اچھا نہیں
 
چو گشت مدرسہ میخانہ زان لبِ میگون
عجب مدار ز جامی اگر مدرس شد


اب جبکہ ان لبانِ میگوں کی وساطت سے مدرسہ میخانے میں تبدیل ہو چکا تو تعجب نہ کرو اگر جامی مدرس بن گیا۔

مولانا نور الدین جامی
 
آخری تدوین:
دهر ناامن چنان گشته که چون مردمِ چشم
تا درِ خانه نبندم نبرد خواب مرا
(غنی کشمیری)
زمانہ ایسا ناامن ہوگیا ہے کہ مردمِ چشم ( آنکھ کی پُتلی) کی مانند جب تک میں گھر کا دروازہ بند نا کروں، مجھے نیند نہیں آتی۔

دفع شد وسواسِ خاطر از نمازِ باحضور
ما بدستِ بسته وا کردیم قفلِ بسته را
(غنی کشمیری)
دل کے وسوسے نمازِ باحضور کے ذریعے دفع ہوئے۔ ہم نے دستِ بستہ (بند ہاتھ یعنی دعا طلب ہاتھوں سے) قفلِ بستہ (بند تالا) کھولا ہے۔
 
زمامِ کشتیِ دل تا کسی نداده به عشقت
خبر ز جنبش ِدریایِ اضطراب ندارد
(محتشم کاشانی)

جب تک کوئی اپنے دل کی کشتی کا زمام تیرے عشق کو نہ دے، اسے اضطراب کے سمندر کی جنبش کی خبر نہیں ہوتی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نالهٔ حزينت کو ؟، آه آتشينت کو؟
لاف عشقبازي چند، عشق را نشانيهاست
صائب تبریزی

تمہارے غم کے نالے کہاں ہیں اور تمہاری آتشیں آہیں کہاں ہیں ؟
عشق کی شیخیاں کب تک ؟ عشق تو اپنی نشانیوں سے ثابت ہو تا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جان و دل سپر سازم پيش ناوک نازت
شست غمزه را بگشا وقت شخ کمانيهاست

صائب تبریزی

میں تیرے تیر کے سامنے اپنے سینے اور دل کو سپر بنالتیا ہوں ۔
تو بھی اپنے غمزے کا نشانہ باندھ لے کہ یہ نشانہ بازی کی مہارت دکھانے کا وقت ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کم از يک دم زدن ما را اگر در ديده خواب آيد
غم عشقت بجنباند به گوش اندر جرس ما را
انوری ابیوردی
اگر ایک لمحے کو ہماری آنکھوں میں نیند کا جھونکا آجاتا ہے
تو تیرے عشق کا غم ہمارے کانوں میں گھنٹی بجانے لگتا ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اي روي تو چو روز دليل موحدان
وي موي تو چنان چوشب ملحد از لحد
رودکی سمرقندی

تیرا روشن چہرہ موحّدین کے لیے دن کی روشنی کی مانند دلیل ہے ۔
اور تیر ی سیاہ زلف ملحدین کی لحد کی شب کے مانند تاریک ہے ۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تا چشم باز کرد،خدا دید دیدہ ور
اول ببیند آئینہ ، آئینہ ساز را

جب آنکھ رکھنے والا آنکھ کھولتا ہے تو خدا کو دیکھتا ہے ،
جیسے آئینہ کی نظر پہلے پہل اپنے بنانے والے پر پڑتی ہے
 
تا چشم باز کرد،خدا دید دیدہ ور
اول ببیند آئینہ ، آئینہ ساز را

جب آنکھ رکھنے والا آنکھ کھولتا ہے تو خدا کو دیکھتا ہے ،
جیسے آئینہ کی نظر پہلے پہل اپنے بنانے والے پر پڑتی ہے
محمد وارث صاحب کے نزدیک اس شعر کے شاعر افتخار دولت آبادی ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے یہ اپنی پرانی ڈائری میں نا معلوم کے ساتھ لکھا ہوا نظر آیا تو میں نے یہاں تلاش کیا اور جب نہیں ملا تو شریک کردیا۔شعر اچھا لگا بہت ۔ شکریہ
 
تنهاتر از آن لک لکِ پیرم امشب
وامانده و زخمی و اسیرم امشب
دیگر بروید, راحتم بگذارید
تا سر بگذارم و بمیرم امشب

(بیژن ارژن)
میں اِمشَب (آج رات) بوڑھے کی اُس لَک لَک (بےہودہ باتوں) سے زیادہ تنہا ہوں۔ میں امشب حیران و سرگرداں، زخمی اور اسیر ہوں۔ پس ، تم سب جاوّ اور مجھے آرام کرنے دو تاکہ میں سر رکھوں اور امشب مرجاوّں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہیچ چیزے خود بہ خود چیزی نہ شد
ہیچ آہن خود بہ خود تیغی نہ شد

مولیٰنا
کوئی چیز ،خود بہ خود ہی چیز نہیں بن جایا کرتی
اور کوئی لوہا خود بہ خود ہی تلوار نہیں بن جاتا
 
ہیچ چیزے خود بہ خود چیزی نہ شد
ہیچ آہن خود بہ خود تیغی نہ شد

مولیٰنا
کوئی چیز ،خود بہ خود ہی چیز نہیں بن جایا کرتی
اور کوئی لوہا خود بہ خود ہی تلوار نہیں بن جاتا
مولوی رومی کے مستند کلام میں یہ شعر موجود نہیں۔ الحاقی شعر ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مولوی رومی کے مستند کلام میں یہ شعر موجود نہیں۔ الحاقی شعر ہے۔
لگتا ہے ایسا کلام کافی کثرت سے موجود اور مشہور ہے ۔
ہر لحظہ بشکل آن بت عیار برامد دل برد و نہاں شد یاپھر شاید رواں شد۔۔۔ الخ
یہ والا بھی مولینا سے منسوب ہے ۔ کیا یہ بھی یوں ہی ہے ؟
 
Top