سیما علی

لائبریرین
گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو
کہ آں آوارہ ءِ کوئے بتاں، آوارہ تر بادا
امیر خسرو

اگر اے زاہد تو میرے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو میرے لئے یہ کہہ کہ کوئے بتاں کا آوارہ ،اور زیادہ آوارہ ہو جائے
 

سیما علی

لائبریرین
دلِ من پارہ گشت از غم نہ زانگو نہ کہ بہ گردد
اگر جاناں بدیں شاد است ، یا رب پارہ تر بادا
میرا دل غم سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے اور اس طرح بھی نہیں کہ وہ ٹھیک ہو جائے ،اگر جاناں اسی طرح خوش ہے تو یار میرا دل اور پارہ پارہ ہوجائے
 

سیما علی

لائبریرین
ہمہ گویند کز خونخوارریش خلقے بجاں آمد
من ایں گویم کہ بہرِ جانِ من خانخوارہ تر بادا
سبھی کہتے ہیں کہ اس کی خونخواری سے خلق کی جان تنگ ہوگئی ہے میں یہ کہتا ہوں کہ میری جان کے لئے اور زیادہ خونخوار ہو جائے
 

سیما علی

لائبریرین
چو با تر دامنی خود کرد خسرو با دو چشمِ تر
بہ آبِ چشمِ مثگاں دامش ہموارہ تر بادا
اے خسرو ! تیری دو بھیگی ہوئی آنکھوں نے تر دامنی کو اپنی عادت بنا لیا ہے تو تیرا دامن آنکھوں کے آنسوؤں سے اور زیادہ بھیگ جائے
 
عقل پرسید که دشوارتر از کشتن چیست
عشق فرمود فراق از همه دشوارتر است
(فروغی بسطامی)
عقل نے پوچھا کہ قتل کرنے سے دشوار تر کیا ہے؟ عشق نے فرمایا کہ جدائی سب چیزوں سے زیادہ دشوار ہے۔
 
برصغیرِ پاک و ہند میں تحریکِ خاکسار کے بنیان‌گذار علامہ عنایت اللہ مشرقی بھی اوائلِ جوانی میں فارسی میں شعرسرائی کرتے تھے۔ ان کی کتاب ’’خریطہ‘‘ ان کے فارسی اشعار پر مشتمل ہیں۔ذیل کی فارسی رباعی انہوں نے ۱۹۰۲ میں لکھی تھی۔

ای آنکه به‌یادِ تو از یاد شدیم
در خانه‌یِ زنجیرِ تو آزاد شدیم
به هوایِ تو بسا رنگِ محبت دیدیم
برباد شدیم و باز آباد شدیم

(علامه عنایت الله مشرقی)
اے وہ کہ تیری یاد میں ہم فراموش ہوگئے۔ تیری زنجیر کے خانے (یا گھر) میں آزاد ہوگئے۔ تیری خواہش میں بہت رنگِ محبت ہم نے دیکھے۔ ہم برباد ہوئے اور پھر آباد ہوگئے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
آن‌ها که سبق ز شمع آموخته‌اند
خود سوخته و بزم برافروخته‌اند
وین شمع‌رخان ز گرمیِ رونقِ حسن
افروخته خود را و مرا سوخته‌اند

(علامه عنایت الله مشرقی)
وہ لوگ، جنہوں نے شمع سے سبق سیکھا ہے، خود جل گئے اور بزم کو روشن کرگئے۔ اور ان شمع‌رخوں (معشوقوں) نے گرمیِ رونقِ حُسن سے خود کو روشن کیا اور مجھے جلا دیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
برصغیرِ پاک و ہند میں تحریکِ خاکسار کے بنیان‌گذار علامہ عنایت اللہ مشرقی بھی اوائلِ جوانی میں فارسی میں شعرسرائی کرتے تھے۔ ان کی کتاب ’’خریطہ‘‘ ان کے فارسی اشعار پر مشتمل ہیں۔ذیل کی فارسی رباعی انہوں نے ۱۹۰۲ میں لکھی تھی۔

ای آنکه به‌یادِ تو از یاد شدیم
در خانه‌یِ زنجیرِ تو آزاد شدیم
به هوایِ تو بسا رنگِ محبت دیدیم
برباد شدیم و باز آزاد شدیم

(علامه عنایت الله مشرقی)
اے وہ کہ تیری یاد میں ہم فراموش ہوگئے۔ تیری زنجیر کے خانے (یا گھر) میں آزاد ہوگئے۔ تیری خواہش میں بہت رنگِ محبت ہم نے دیکھے۔ ہم برباد ہوئے اور پھر آباد ہوگئے۔
آخری مصرعے میں قافیہ شاید "آباد" ہوگا، آزاد لکھا گیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آخری مصرعے میں قافیہ شاید "آباد" ہوگا، آزاد لکھا گیا ہے۔
نشان‌دہی کرنے کا شکریہ وارث بھائی۔ بالکل، یہاں آباد ہی لکھا ہوا تھا، جسے سو ءِ تفاہم سے میں نے آزاد لکھ دیا
اصل مراسلے (9,568) میں تصحیح کر دی گئی ہے ۔ شکریہ
 
یاربّ به‌جز تو کس خریدارم نیست
در بنده‌نوازیِ تو گفتارم نیست
پیشت چو سبک شوم گران می‌ارزم
یعنی که ز عریانیِ خود عارم نیست

(علامه عنایت الله مشرقی)
یارب! تیرے بجز میرا کوئی خریدار نہیں ہے۔تیری بندہ‌نوازی میں مجھے کوئی کلام نہیں ہے۔تیرے حضور میں اگر میں بےقیمت و بےوزن ہوجاوٗں تو (درحقیقت) میں گراں‌قیمت ہوجاتا ہوں، یعنی کہ مجھے اپنی عریانی سے کوئی عار نہیں ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آه که تار و پود آن ، رفت به باد عاشقی
جامهءتقوہ ای که من در ہمه عمر بافتم
ہاتف اصفہانی

جس تقوے کی خلعت کو میں عمر بھر بنتا رہا
عشق کی آندھی نے اسے (لمحہ بھر میں ) تار تار کر دیا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دل رہاندن زدست تو مشکل
جان فشاندن به پائے تو آسان
ہاتف اصفہانی
تیرے ہاتھوں سے دل کو چھڑانا تو مشکل ہے
لیکن تیرے قدموں میں جان رکھ دینا آسان ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خزفی بود که از ساحل دریا چیدیم
دانهٔ گوهر یکتا نه تو داری و نه من
اقبال لاہوری

جو پتھر ہم ساحل سے چنتے پھرے وہ سب ٹھیکرے نکلے
اصل نایاب موتی تو نہ تیرے پاس ہے نہ میرے پاس
 
عمرها در کعبه و بت‌خانه می‌نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانایِ راز آید برون

(علامه اقبالِ لاهوری)
زندگی مدتِ دراز تک کعبہ و بت‌خانہ میں گریہ و زاری کرتی رہی ہے۔ تب جا کر بزمِ عشق سے ایک دانائے راز باہر نکلتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
این همه جنگ و جدل حاصل کوته‌نظریست
گر نظر پاک کنی، کعبه و بتخانه یکی است
عماد خراسانی

جو بھی لڑائی جھگڑا ہے وہ بصیرت کافقدان ہے
اگر نگاہ شفاف ہو تو کعبہ و بتخانہ بھی ایک ہی ہے
 

سیما علی

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
هیچ غم نیست که نسبت به جنونم دادند
بهر ایں یک دو نفس، عاقل و فرزانه یکی است
عماد خراسانی

کچھ غم نہیں انہوں نے کہ مجھے دیوانوں میں شمار کر دیا
دو گھڑی کی تو بات ہے پھر عاقل و دیوانہ سب برابر ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہر کسی قصه‌ای شوقش به زبانی گوید
چون نکو می‌نگرم حاصل افسانه یکی است
عماد خراسانی

(اس دنیا میں ) ہر کوئی اپنی دلچسپی کی کہانی اپنی زبان میں سناتا ہے
لیکن اگر گہرائی سے دیکھتا ہوں تو ہر کہانی کا حاصل ایک ہی ہوتا ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
در اندرون من خسته دل ندانم کیست
که من خموشم و او در فغان و در غوغاست

لسان الغیب

نہ جانے کون ہے جو مجھ خستہ دل کے اندر رہتا ہے
کہ میں خاموش بھی ہوتا ہوں تو وہ آہ وزاری کرتا رہتا ہے ۔
 
Top