حسان خان

لائبریرین
صد شُکر که ما پیروِ اصحابِ رسولیم
در شرع دِگر راه‌نما را نشِناسیم

(ابوالفیض فیضی)
صد شُکر کہ ہم اصحابِ رسول کے پَیرَو ہیں۔۔۔ ہم شریعت میں [کسی] دیگر راہنما کو نہیں پہچانتے۔
 
آخری تدوین:

دائم

محفلین
مولوی رومی کی غزل کا ایک شعر۔

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست


کل (ایک) شیخ چراغ لیئے سارے شہر کے گرد گھوما کیا (اور کہتا رہا) کہ میں شیطانوں اور درندوں سے ملول ہوں اور کسی انسان کا آزرو مند ہوں۔


دی - گزرا ہوا کل
کز - کہ از کا مخفف
دد - درندہ
 

حسان خان

لائبریرین
ز بس در هجرِ تو ضَعفید بند است
به یک مویی دلِ دروایِ عاشق

(طرزی افشار)
عاشق کا دلِ آشُفتہ و سرگشتہ و مُعلّق تمہارے ہجر میں اِتنا زیادہ کمزور ہو گیا کہ وہ [تمہارے] ایک تارِ مُو سے بندھا ہوا ہے۔
× مُو = بال

بیت کا یہ متن بھی نظر آیا ہے:

ز بس در هجرِ تو ضَعفیده بند است
به یک مویی دلِ شیدایِ عاشق

(طرزی افشار)
عاشق کا دلِ شَیدا تمہارے ہجر میں اِتنا زیادہ کمزور ہو گیا ہے کہ وہ [تمہارے] ایک تارِ مُو سے بندھا ہوا ہے۔
× مُو = بال
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نُورِ حُبِّ علی مجو زان عَین
که نبیند کمالِ ذی‌النُّورَین

(فضل‌الله بن روزبِهان خُنجی)
اُس چشم سے حُبِّ علی کا نُور مت تلاش کرو کہ جو ذوالنُّورَین (حضرتِ عُثمان) کا کمال نہ دیکھتی ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
منِ درویش را کُشتی بہ غمزہ
کرم کردی، الہی زندہ باشی


امیر خسرو

مجھ درویش کو تُو نے اپنے ناز و ادا و غمزہ و عشوہ و دلربائی و کرشمہ سے مار ڈالا، تُو نے کرم کیا، اللہ کرے کہ تُو (ہمیشہ) زندہ رہے (اور اِسی طرح درویشوں پر اپنا کرم کرتا رہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز بیدادِ تو حرفِ مِهر را نام و نشان گم شد
کتابِ حُسن را جُزوِ محبّت از میان گم شد

(نظیری نیشابوری)
تمہارے ظُلم و سِتم سے حَرفِ محبّت کا نام و نشاں گُم ہو گیا۔۔۔ کتابِ حُسن کا جُزوِ محبّت [کتاب میں سے] معدوم و گُم ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز جوشِ بُوالهَوَس گِردِ دلت عاشق نمی‌گردد
طُفیلی جمع شد چندان که جایِ میهمان گم شد

(نظیری نیشابوری)
بُوالْہَوَسوں کے غَوغا و ہنگامہ کے باعث عاشق تمہارے دل کے گِرد نہیں گھومتا (یعنی تمہارے دل میں عاشق کا خیال نہیں آتا)۔۔۔ بِن بُلائے افراد اِس قدر جمع ہوئے کہ مہمان کی جگہ گُم ہو گئی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چُنان وقتِ شکایت از نگاهش مضطرب گشتم
که مضمونِ سُخن صد بار از دل تا زبان گم شد

(نظیری نیشابوری)
میں شکایت کے وقت اُس کی نگاہ سے اِس طرح مُضطرِب ہو گیا کہ دل سے زبان تک آتے آتے مضمونِ سُخن صد بار گُم ہو گیا۔
 
شدی تا باعثِ آرامِ جان، آرامِ جان گم شد
حدیثِ نامِ تو تا بر زبان آمد زبان گم شد
(پطرس بخاری)

میری جان کا اطمينان گم ہوگیا جب تو میری آرامِ جاں کا باعث ہوا
تیرے نام کی باتیں جب زبان پر آئیں تو زبان گم ہوگئی (یعنے بیان کرنا ناممکن ہے)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز آزاده‌طبعی نکرده‌ست هرگز
قلم را کلامم عصایِ گدایی

(محمد قُلی سلیم تهرانی)
[میری] آزادہ طبعی کے باعث میرے کلام نے قلم کو ہرگز عصائے گدائی نہیں بنایا ہے۔
(یعنی میں نے اپنے قلم اور اپنی شاعری کو گدائیِ مال کے لیے ہرگز استعمال نہیں کیا ہے۔)
 

بابا سیرؔ مرحوم فارسی کے شاعر کا تعارف اور چند اشعار کا اردو ترجمہ و تشریح جو کہ مولانگاہ نگاہؔ نے کیا ہے۔ بابا سیرؔ مرحوم شمالی پاکستان اور خصوصاۤ چترال کی محبوب ترین عوامی شخصیت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزا محمد سیرؔ معروف بابا سیرؔ ایوبی نسل کے محمد بیگے قوم کے چشم و چراغ تھے۔بابا سیرؔ کے والد کا نام دوست محمد لال تھا۔ بابا سیرؔ کی ولادت کی ٹھیک تاریخ معلوم نہیں۔ البتہ اُن کی زندگی کا زمانہ محترم شاہ ثانی معروف بہ شاہ کٹور ثانی یا چھوٹا کٹور کا عہد حکومت تھا۔دوست محمد لال نے اپنے فرزند کا نام محمد سیرؔ رکھا،جوکھوار لہجے کے مطابق محمد سیار بھی بولا اور لکھا جاتا ہے۔"سیار" سیار عربی زبان میں سیاح اور گھومنے والے کو کہا جاتا ہے جو بعد میں بابا سیرؔ پر صادق آیا اور انہوں مختلف دیار کی سیر کی یعنی اسم بامسمی نکلا اُس زمانے میں لکھاری انسان کو مرزا کہا جاتا تھا۔اس لیے تعلیم یافتہ ہونے کے ناتے محمد سیرؔ کو مرزا محمد سیرؔ بھی کہا جانے لگا۔مرزا محمد سیار نے شاعری میں سیرؔ تخلص کو اپنایا۔
اُن کے والد بزرگوار دوست محمد لال علم و فضل کی دولت سے مالا مال تھے اور صوفی منش بزرگ شاعر تھے۔کہتے ہیں اُن کے فارسی اشعار آج کل بھی محمد قبیلے کے اہل خاندان میں پائے جاتے ہیں۔ دوست محمد لال اعلٰی درجے کے خوش نویس اور خطاط تھے اور مختلف شعراء اپنے اشعار کی خوش خطی اُن ہی سے کراتے تھے۔
بابا سیرؔ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اور اُس کے بعد چترال کے دیگر علاقوں میں موجود علماء کے حلقہ تلمذ میں شمولیت کر کے فیض یاب ہوئے۔اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے دور دراز کے علاقوں میں مختلف صوفیاء اور علماء کے چشمہ ہائے فیوض و برکات کے میزاب میں نہایا۔بابا سیرؔ کے حالات و واقعات تواتر سے کسی کو ٹھیک طرح معلوم نہیں۔اُن کے قبیلے کے اکابرین اور زبورِ علم سے آراستہ حضرات کے بقول انھوں نے علومِ فارسی کے حصول کے لیے سمرقند بخارا میں بھی عارضی سکونت اختیار کی اور اس کے بعد عربی تعلیم کے لیے بغداد بھی گئے وہ بغداد کی عظیم درسگاہ میں تقریباۤ دو سال مقیم رہے۔وہاں سے واپسی پر انھوں نے کئی بار سرھند کا سفر بھی کیا اور آخری مغل دور کے بزرگ شاعر ناصر علی سرھندی سے بھی فیض یاب ہوئے۔اس طرح علم و ادب کی دولت سے مالا مال ہو کر وطن واپس آئے۔چترال میں سکونت کے دوران میں بھی انھوں نے کئی بار ہندوستان کا سفر کیا ۔تعلیم اور سیاحت کی تکمیل سے واپسی پر بابا سیرؔ نے چترال کے ایک گاؤں شوگرام میں سکونت اختیار کی۔اگرچہ وراثت میں موضع کوشٹ میں بھی ان کی بڑی جائیداد تھی۔تاہم گوشہ نشینی کے لیے شوگرام کو مستقل سکونت کے لیے مناسب گردانا۔اُن کی آخری آرام گاہ اسی گاؤں میں زیارت گاہَ خاص و عام ہے۔
بابا سیرؔ شمشیر زن،شہسوار،تیراک،شاعر ادیب،مؤرخ،تیر انداز اور دستی مصنوعات میں کمال رکھتے تھے۔
بابا سیرؔ کی عمر کے متعلق ٹھیک طرح معلوم نہیں کہ انھوں نے کتنی عمر پائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند اشعار ترجمہ اور تشریح کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔ان کے کلام کا ترجمہ مولانا نگاہ نگاہؔ نے کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الٰہی ذرہ از مہرِ عشق انداز در دلہا
کہ بینائی بود در ظلمت ایں خانہ مشکلہا

ترجمہ
اے اللہ! آفتاب عشق سے ایک ذرہ دلوں میں ڈال دے تا کہ مشکلات سے بھرے اس تاریک گھر میں دیکھنے کی طاقت پیدا ہو سکے۔

تشریح
بابا سیرؔ بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتے ہے کہ خدا وند لیزال دلوں میں اپنے عشق کے جذبے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ان میں فہم و ادراک اور خدا شناسی کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔
کیونکہ بغیر جذبہ عشق الٰہی کے انسانی دل ایک ایسے تاریک گھر کی مانند ہے، کہ جس میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ گویا جذبہ عشق اس تاریکی میں چراغ کا کام دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمی باشد صفائی در شبستانِ وجودِ من
بکن روشن دلم را از کرم چون شمعِ محفلہا

ترجمہ
میرے وجود(جسم) کی خوابگاہ میں صفائی نہیں آ سکتی تو ہی میرے دل کو شمعِ محفل کی طرح اپنے کرم سے روشن فرما۔

تشریح
انسانی جسم روشن دل کے بغیر ایک ایسی خوابگاہ ہے کہ جس میں کوئی محفلِ زندگی نہیں سج سکتی۔یعنی روشن دل ہی جسم کے لیے باعث نجات ہوتا ہے،اور روشن دل کا بخشنا بھی خالق کا ہی کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا عتگاہِ زہدم را مسوز از برقِ عصیانم
زفیض ابرِ رحمت خانہ ام پُر کن ز حاصلہا

ترجمہ
میرے زہد و تقویٰ کی کھیتی کو گناہوں کی بجلی سے نہ جلا اور اپنی رحمت کے فیوض و برکات سے مرے گھر کو بھر دے۔

تشریح

بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے سالہا سال کی عبادتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ زہد و تقویٰ میں مداومت اور تسلسل شرط ہے۔اس لیے بابا سیرؔ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! مجھ سے آپ کی مہربانی اور رحمت سے کوئی ایسا گناہ سر زد نہ ہونے پائے کہ جس کی بنا پر میری عبادات غارت ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
تُرکِیَوی شاعر «احمد امْری یئتکین‌‏» کی ایک دُعائیہ بیت:
سعادت تُرا دائماً یار باد
مُعِینت خداوندِ غفّار باد

(احمد امری یئتکین)
سعادت دائماً تمہاری یار ہو!۔۔۔ تمہارا یاور خُدواندِ غفّار ہو!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تُرکِیَوی شاعر «احمد امْری یئتکین‌‏» کی ایک دُعائیہ بیت:
تنت از غُبارِ الم دور باد
دِلت هر زمان مخزنِ نور باد

(احمد امری یئتکین)
تمہارا تن غُبارِ الم سے دُور رہے!۔۔۔ تمہارا دِل ہر وقت مخزنِ نُور رہے!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تُرکِیَوی شاعر «احمد امْری یئتکین‌‏» کی ایک دُعائیہ بیت:
یاورت بادا دمادم عَونِ حق
حافظت بادا جنابِ مُستَعان

(احمد امری یئتکین)
حق تعالیٰ کی مدد ہر دم تمہاری یاور ہو!۔۔۔ جنابِ مُستَعان تمہارا مُحافظ ہو!
× «مُستَعان» خدا کا ایک نام ہے، جس کا معنی «وہ شخص یا ذات جس سے مدد چاہی جائے» ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تُرکِیَوی شاعر «احمد امْری یئتکین‌‏» کی ایک فارسی آمیختہ تُرکی بیت:
قدرِ شعری شاعرِ ماهر بیلیر
'قدرِ زر زرگر شِناسد' هر زمان

(احمد امری یئتکین)
شاعری کی قدر کو شاعرِ ماہر [ہی] جانتا ہے۔۔۔ زر کی قدر کو ہمیشہ زرگر [ہی] پہچانتا ہے۔

× «هر زمان» تُرکی میں «ہمیشہ» کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔

Kadr-i şiiri şair-i mahir bilir
'Kadr-i zer zerger şinased' her zaman
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی 'ساقی‌نامه' میں فرماتے ہیں:
مَی‌ای دِه که گیرد خِرد نور از او
نه آن مَی که گردد خِرد دور از او

(محمد فضولی بغدادی)
[اے ساقی! مجھ کو] وہ شراب دو کہ جس سے عقل نُور حاصل کرے۔۔۔ وہ شراب نہیں کہ جس [کی وجہ] سے عقل دُور ہو جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی 'ساقی‌نامه' میں فرماتے ہیں:
بِیا ساقی آن نشئهٔ پُرکمال
که کامل از او می‌شود اهلِ حال

(محمد فضولی بغدادی)
اے ساقی! وہ نشۂ پُرکمال لے آؤ کہ جس سے اہلِ حال کامل ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما از تو جداییم به صورت، نه به معنی
چون فاصلهٔ بیت بُوَد فاصلهٔ ما

(صائب تبریزی)
ہم تم سے صورتاً جُدا ہیں، معنائاً نہیں (یعنی ہم صِرف ظاہراً جُدا ہیں، باطناً اور حقیقتاً نہیں)۔۔۔ ہمارا فاصِلہ ایسا ہے کہ جیسے بَیت [کے دو مصرعوں] کے درمیان فاصِلہ ہوتا ہے۔
(یعنی جس طرح کسی بَیت کے دو مصرعوں کے درمیان ظاہری طور پر تو جُدائی و فاصِلہ ہوتا ہے، لیکن دونوں میں معنائاً اتّحاد ہوتا ہے، اُسی طرح ہم ظاہراً جدا ہیں، لیکن حقیقتاً ایک ہی ہیں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
خلیفۂ عُثمانی سلطان سُلیمان قانونی کے پِسر شہزادہ بایزید متخلّص بہ 'شاہی' کی ایک فارسی بیت:
عاشقان در کُویِ تو دیدارِ تو دارند طلب
هیچ ایشان را هوایِ جنّت و رضوان نیست

(شه‌زاده بایزید 'شاهی')
عاشقاں تمہارے کُوچے میں تمہارے دیدار کی جستجو رکھتے ہیں۔۔۔ اُن کو جنّت و باغِ رِضواں کی ذرا آرزو نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
Top