آں عزم بلند آور آں سوزِجگر آور
شمشیر پدر خواہی بازوئے پدر آور

ترجمہ!

وہ یعنی پہلے مجاہدین والا بلند ارادو اختیار کر اور ان جیسا جوش و جذبہ پیدا کر
اگر تجھے باپ کی تلوار کی خواہش ہے تو باپ جیسے بازو یعنی طاقت پیدا کر
 
بندہ پروردگارم امت احمدﷺ نبی
دوست دار چہار یارم تابع اولاد علیؑ
مزہب حنفیہ دارم ملت حضرت خلیلؑ
خاکپائے غوث اعظم زیر سایہ ہر ولی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جوں رزق جان خاصان خدا ست،
کے زبوں ہمچو تو گیج گدا ست۔

(حضرت جلال الدین رومی رح)

ترجمہ: بھوک ، خاصان خدا کا رزق ہے۔ وہ تجھ جیسے احمق فقیر کے قابو میں کہاں؟
طارق بھائی۔
یہاں پہلا لفظ "جوع" ہوگا غالبا"۔۔۔بمعنی بھوک۔
جوع رزق جانِ خاصانِ خدا ست
اور دوسرا مصرع بھی کتابت کی کچھ نظر ثانی چاہتا ہے ۔ شعر بہر حال لاجواب ہے ۔
 

طارق حیات

محفلین
رہنمائی کا شکریہ۔ طالب علم سمجھ کر غلطیوں کو معاف فرمادیجے گا۔ سیکھنا مقصود ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔
 

طارق حیات

محفلین
بکوش اے سالک رہ رو کہ تا گردی ز خود فارغ
چواز خودرستہ گردی باشی از ہر نیک و بد
چو خورشید جلوہ گر دو بچشم جان
با حدیّت رسی باشی ز ایہام عدد فارغ

(حضرت قادر بخش بیدل رح)

ترجمہ: اے سالک، کوشش کر اور سیدھا راستہ چل تاکہ تم اپنے آپ سے فارغ ہوجاؤ۔ جب تم اپنے آپ سے چھوٹ جاؤ گے تو نیک و بد سے فارغ ہوجاؤگے۔ جب زندگی کی آنکھ میں حقیقت کا سورج جلوہ دکھائےگا تو تم احدیت تک پہنچ جاؤگے اور تعداد کے وہم سے فارغ ہوجاؤگے۔
 

طارق حیات

محفلین
نحن اقرب شنود از قرب خدا دور مباش،
ہمچو خفاش ازاں جلوہ مہجور مباش۔

(حضرت قادر بخش بیدل رح)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ سے نحن اقرب کی کیفیت میں دور مت جا اور چمگادڑ کی طرح اس کے جلوے کو مت چھوڑ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
در دام غمت چوں مرغ وحشی
می پیچم و سخت تر شود دام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غالبا سعدی کا ہے۔
منظوم ترجمہ
ہوں گرفتار دام ِ غم میں ترے
جتنا مچلوں یہ سخت ہو اتنا
راقم
 

حسان خان

لائبریرین
اگر آن گبرِ افرنجی به دست آرد دلِ ما را
به خالِ هندویش بخشم سِتنبول و قلاتا را
(سلطان محمد فاتح 'عونی')

اگر وہ کافرِ فرنگی ہمارے دل کو [اپنے] تصرُّف میں لے لے تو میں اُس کے سیاہ خال کے عِوض میں استانبول و قلاتا [جیسے شہر] بخش دوں۔
 
آخری تدوین:

طارق حیات

محفلین
عقل گرداند کہ دل در بندِ زلفش چوں خوش است
عاقلاں دیوانہ گردند از پئے زنجیر مَا

(حافظ شیرازی)

اگر عقل کو یہ معلوم ہوتا کہ دلِ محبوب کی زلف کا قیدی ہوکے اتنا خوش ہے تو عقلمند لوگ اس زنجیر میں گرفتار ہونے کو دیوانے ہو اٹھتے۔
 

طارق حیات

محفلین
چہ باد است ایں نمی دانم کہ جام دل بہ یک جرعہ
چناں از زنگ صافی شد، کہ دیدم یار را در وے

(حضرت معین الدین چشتی)

یہ شراب کیا ہے، میں نہیں جانتا سوا اس کے ایک قطرے نے زنگ آلود شیشہِ دل کو صاف کردیا۔ اتنا صاف کہ میں نے اس محبوب کے روئے مبارک کا دیدار کرلیا۔
 

طارق حیات

محفلین
عشق معراج است سوئے بام سلطان ازل
از رخ عاشق فرو خواں قصہ معراج را

(دیوانِ شمس تبریز)

عشق حقیقی ہی درگاہ ایزدی میں باریابی دلاتا ہے۔ یہ منزل حاصل کرنے کا زینہ ہے۔ اگر معراج کی داستانِ حقیقی پڑھنا ہے تو کسی عاشق صادق کے چہرے پر نظر جماؤ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
چہ باد است ایں نمی دانم کہ جام دل بہ یک جرعہ
چناں از زنگ صافی شد، کہ دیدم یار را در وے

(حضرت معین الدین چشتی)

یہ شراب کیا ہے، میں نہیں جانتا سوا اس کے ایک قطرے نے زنگ آلود شیشہِ دل کو صاف کردیا۔ اتنا صاف کہ میں نے اس محبوب کے روئے مبارک کا دیدار کرلیا۔
جرعہ ایک گھونٹ کو نہیں کہتے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی صاحب تو پھر جرعہ کسے کہتے ہیں ؟ ۔
پہلا مصرعہ درست نہیں لکھا گیا اور اسی لیے وزن بھی وزن ٹھیک نہیں۔
باد ہوا کو کہتے ہیں ۔ جبکہ بادہ شراب ہوتی ہے۔
پوسٹ میں جرعہ کا ترجمہ قطرہ لکھا ہوا ہے تو میں نے اس لئے سوال کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ جرعہ گھونٹ کو کہتے ہیں۔ سوالیہ نشان بھی لگا دیا :) تاہم آپ احباب بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیا درست ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہلاکِ خنجرِ آں قاتلم کہ خونِ مرا
چناں بریخت کہ یک قطرہ بر زمیں نہ چکید

(غیرتی شیرازی)

میں ایسے قاتل کے خنجر کا ہلاک شدہ ہوں کہ جب میرا خون بہایا گیا تو ایک قطرہ بھی زمین پر نہ ٹپکا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فارغی شیرازی کے دو اشعار، دربارِ اکبری کے مؤرخ ملا عبدالقادر بدایونی کی کتاب "منتخب التواریخ" سے۔

جنوں آں عقد ہا در عشق بکشایَد بہ آسانی
کہ با صد گونہ محنت عقلِ دعویدار نکشایَد

جنوں، عشق میں، ایسے ایسے عقدے بہ آسانی وا کر دیتا ہے کہ ان گرہوں اور اسرار کو کھولنے کی دعویدار عقل، سخت محنت اور عرق ریزی کے بعد بھی نہیں کھولتی۔

بشرطے، فارغی، در خدمتِ آں بُت کمر بستہ
کہ تا روزِ قیامت از میاں زنّار نکشایَد

فارغی اس شرط اور عزم کے ساتھ اُس بت کی خدمت میں کمر بستہ ہے کہ روزِ قیامت تک اپنی کمر سے زنار نہیں کھولنے والا۔
 

منصور آفاق

محفلین
سلطان باہو کے فارسی اشعار اور ان کا ترجمہ

نجاتِ مردم ِ جاں لا الہ الا اللہ
کَلید ِ قفل جناں لا الہ الا اللہ

چہ خوف آتش دوزخ چہ باک دیو لعین
وَرا کہ کرد بیاں لا الہ الا اللہ

1۔نہ بود ملک نہ عالم نہ دور چرخ کبود
کہ بود امن و اماں لا الہ الا اللہ

1۔یہ شعر کلید توحید کلاں میں اسی طرح درج ہے جیسے اوپر درج کیا گیا ہے مگر محک الفقر کلاں میں کچھ یوں درج ہے ۔
نہ بود ملک دوعالم نہ دورِ چرخ کبود
کہ بود دور ِ اماں لا الہ الا اللہ
میرے خیال کے مطابق کلید توحید کلاں میں شامل الفاظ درست ہیں ۔ان الفاظ کے ساتھ اس شعر میں تمام شاعرانہ خوبیاں دکھائی دیتی ہے ۔معنی آفرینی نظر آتی ہے ۔خاص طور پر پہلے میں ’ملک ‘ کے بعد دوبارہ ’’نہ ‘‘ کے استعمال سے مصرعہ کی بندش نہ صرف بہتر ہے بلکہ مفہوم کے اعتبار سے بھی شعر ارفع ہو جاتا ہے ۔ اور دوسرے میں جہاں دورِ اماں ‘‘ لگایا گیا ہے اس سے امن و اماں مفہوم میں بھی بہتر ہے اورچونکہ اوپر کے مصرعے میں ’’دورِ چرخ کبود‘‘ موجود ہے اس لئے نیچے پھردور کا لفظ شاعرانہ حسن کو مجروح کرتا ہے ۔جہاں تک اس شعر کے مفہوم کا تعلق ہے تو وہ اتنا وسیع ہے کہ مجھے اس ایک شعر کا ترجمہ تین اشعار میں کرنا پڑاہے۔



نجاتِ خلقتِ جاں لا الہ الا اللہ
کلید ِ باغِ جناں لا الہ الا اللہ

یہ خوفِ آتشِ دوزخ یہ خطرہ ئ ابلیس
وہاں کہاں کہ جہاں لا الہ الا اللہ

بگاڑ سکتی ہے کیا اس کا چرخ کی گردش
ہے جس کی جائے اماں لا الہ الا اللہ

یہ جائیدادِ جہاں کچھ نہیں ہے اس کیلئے
ہے جس کے دل میں نہاں لا الہ الا اللہ

یہ کائنات یہ عالم نہیں وہاں باہو
جہاں جہاں پہ عیاں لا الہ الا اللہ
 

حسان خان

لائبریرین
از هر کرانه تیر دعا کرده‌ام روان
باشد کز آن میانه یکی کارگر شود
(حافظ)

میں نے ہر گوشے سے دعاؤں کے تیر سادھ دیے ہیں؛ کاش/شاید ان میں سے کوئی ایک کارگر ہو جائے (یعنی دعا قبول ہو جائے)
 

منصور آفاق

محفلین
کشتگانِ خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است​
محترمی بہت خوب ۔۔

شاید یہی وہ شعر ہے جس کے سماع کے وقت خواجہ بختیار کاکی علیہ الرحمۃ کی روح مبارک سفر آخرت پر روانہ ہوئی تھی ۔۔ تین دن سماع جاری رہا تھا ۔ پہلے شعر پر آپ پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی جب کہ دوسرے شعر پر آپ ہوش میں آجاتے ۔۔
لیکن یہ شعر کس شاعر کا ہے ؟ ہنوز یہ سوال باقی ہے ۔۔
جناب والا ۔ یہ شعر سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کا ہے ان کی کتاب عین الفقر میں موجود ہے​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بس دیده کہ شد در انتظارت
دریا ۔ و نمی‌ رسد بہ ساقت

میری آنکھیں (اگر چہ) تیرے انتظار میں دریا ہو گئیں (لیکن وہ دریا) جو تیری ساق سے اوپر نہ چڑھ سکا ۔
 
Top