حسان خان

لائبریرین
اتابک نُصرت‌الدین ابوبکر کی مدح میں کہی گئی رباعی:
(رباعی)
شاها ز تو کارِ مُلک و دین بانسَق است
دریا ز خجالتِ کفت در عرَق است
در عهدِ تو رافضی و سُنّی با هم
کردند موافقت که بوبکر حق است

(ظهیر فاریابی)
اے شاہ! تمہارے باعث کارِ مُلک و دیں مُنظّم و مُرتّب ہے۔۔۔ بحر تمہارے کفِ کرم کی شرمندگی سے پسینے میں ہے۔۔۔ تمہارے عہد میں رافِضی و سُنّی نے باہم مُوافقت کر لی کہ 'ابوبکر' حق ہے۔ (یہاں 'ابوبکر' سے اتابک ابوبکر مُراد ہے۔)

× مصرعِ ثانی کے یہ مُتون بھی نظر آئے ہیں:
وز عدلِ تو جانِ فتنه اندر رمَق است
اور تمہارے عدل کے باعث فتنہ آخری سانسیں لے رہا ہے

وز عدلِ تو جانِ فتنه‌جو بی‌رمَق است
اور تمہارے عدل کے باعث فتنہ جُو کی جان بے رمَق ہے
 

حسان خان

لائبریرین
(قطعه)
مثنوی گرچه سُنّتِ شعر است
من غزل فرضِ عَین می‌دانم
پنج‌بَیتی که دل‌پذیر بُوَد
بهتر از خمسَتَین می‌دانم

(سیفی بُخاری)
مثنوی اگرچہ شاعری کی سُنّت (رسم) ہے، لیکن میں غزل کو فرضِ عین جانتا ہوں۔۔۔ جو پنج بَیتی [غزل] دل پذیر ہو، اُس کو خمسَتَین سے بہتر جانتا ہوں۔

× 'خمسَتَین' سے نظامی گنجوی اور امیر خُسرو کے پانچ پانچ مثنویوں کے مجموعے مُراد ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر عاشق شاهِدی گُزیده‌ست
ما جُز تو ندیده‌ایم یارا

(مولانا جلال‌الدین رومی)
ہر عاشق نے کسی معشوق کو مُنتخَب کر لیا ہے۔۔۔ [لیکن] اے یار! ہم نے تمہارے بجز [کسی کو] نہیں دیکھا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«بهارستانِ جامی» سے ایک رباعی:
(رباعی)
آنی تو که از نامِ تو می‌بارد عشق
وز نامه و پیغامِ تو می‌بارد عشق
عاشق گردد هر که به کُویت گُذَرد
آری، ز در و بامِ تو می‌بارد عشق

(عبدالرحمٰن جامی)
تم وہ ہو کہ تمہارے نام سے عشق برستا ہے۔۔۔ اور تمہارے نامہ و پیغام سے عشق برستا ہے۔۔۔ جو بھی شخص تمہارے کُوچے سے گُذرے، عاشق ہو جائے۔۔۔ ہاں! تمہارے در و بام سے عشق برستا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسی اہلِ فضل کی وفات پر کہی گئی رِثائی بیت میں مسعود سعد سلمان لاہوری کہتے ہیں:
چُنان بِگِریَم بر تو که هیچ کس نگِریست
که هیچ وقت به فضْلِ تو هیچ کس ناید

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
میں تم پر اِس طرح گِریہ کروں [گا] کہ [جیسا] کسی بھی شخص نے گِریہ نہ کیا ہو گا، کیونکہ [اب] کسی بھی وقت تمہارے [جیسے] علم و فضْل و کمال والا کوئی بھی شخص نہیں آئے گا۔

پس نوِشت: مصرعِ ثانی کا شاید یہ مفہوم ہو:
کیونکہ کوئی بھی شخص کسی بھی وقت تمہارے علم و فضْل و کمال تک نہیں آئے (پہنچے) گا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
روز تا شب ز غم دل‌افگارم
همه شب تا به روز بیدارم

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
روز کے وقت میں شب تک غم کے باعث دل افگار [رہتا] ہوں۔۔۔ [اور] میں کُل شب روز [ہونے] تک بیدار [رہتا] ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قیدِ زندان میں کہی گئی ایک بیت:
دلم ز محنت خون گشت و خون همی‌گِریَم
همه شب از غمِ عَورات و اندُهِ اطفال

(مسعود سعد سلمان لاهوری)
میرا دل رنج سے خون ہو گیا [ہے] اور میں تمام شب [اپنی] عورتوں کے غم اور [اپنے] اطفال کے اندوہ کے باعث خون روتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا مبادا نورِ عشقش در دلم خاموش گردد
می‌زند آتش به جان، برقِ نگاهش گاه‌گاهی

(بهاءالدین محمد عبدی)
اُس کی برقِ نگاہ گاہے گاہے جان پر آتش مارتی رہتی ہے، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس کے عشق کا نُور میرے دل میں خاموش ہو جائے۔
 
آخری تدوین:
عزمِ دیدارِ تو دارد جانِ بر لب آمده
بازگردد یا برآید چیست فرمان شما


لب پر آئی جان آپ کے دیدار کا عزم رکھتی ہے، واپس ہو جائے یا باہر آ جائے؟ آپ کا کیا فرمان ہے؟

خواجہ حافظ شیرازی
 
آخری تدوین:
شمشیر نگہ، تیرِ مِژہ ، قاتلِ خلقے
غارت گر و برباد دہِ حاصلِ خلقے
مشہورِ جہاں، فِتنۂ جاں ، مقبلِ خلقے
تنگ شکرے ، چُوں شکرے ، در دِل خلقے
شوخے ، نمکینے ، چوں نمک ، شور جہانے

کیا اُس کی میں تعریف کہوں حُسنِ اَدا کی
ہے خَتم دو عالم کی اُسی شوخ پہ خُوبی
پِھر مِثلِ نَظیرؔ اُس بُتِ رَعنا سے لَگا جی
بے زُلفِ رُخ و لعلِ لَبِ اُو شُدہ سَعدیؔ
آہے و بُخارے و غُبارے و دُخانے

حضرت شیخ سعدیؔ شیرازی علیہ رحمہ
 

حسان خان

لائبریرین
خونِ گُل‌رنگِ شهیدان از دلِ خاکِ سیاه
گر نمی‌جوشید، گُلشن لالهٔ احمر نداشت

(بهاءالدین محمد عبدی)
اگر شہیدوں کا خُونِ گُل رنگ جوش کھا کر خاکِ سیاہ کے قلب سے بیرون نہ آ جاتا تو گُلشن میں لالۂ سُرخ نہ ہوتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کُشته گر با تیغِ اعدایِ دنی گردم چه باک
چونکه باشد خون‌بهایم طلعتِ ابْهایِ عشق

(عبّاس‌علی بینِش شیرازی)
اگر میں پست دُشمنوں کی تیغ سے کُشتہ ہو جاؤں تو کیا خوف و پروا؟۔۔۔ کیونکہ میرا خوں بہا (دِیت) عشق کا چہرۂ روشن تر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بہائی شاعر عبّاس‌علی بینِش شیرازی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
چون حُسین در ارضِ طف گردم شهیدِ راهِ دوست
تا بِریزم خون و جان و دل به پیشِ پایِ عشق

(عبّاس‌علی بینِش شیرازی)
میں حُسین کی مانند سرزمینِ کربلا میں شہیدِ راہِ دوست ہو جاؤں تاکہ عشق کے قدموں پر خون و جان و دل بہا دوں (قُربان کر دوں)۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہائی شاعر عبّاس‌علی بینِش شیرازی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
عیسیٰ‌آسا مُنقطِع گردم ز لذّاتِ جهان
تا کنم سیرِ سما با مرْکبِ پویایِ عشق

(عبّاس‌علی بینِش شیرازی)
میں عیسیٰ کی مانند لذّاتِ دُنیا سے مُنقطِع ہو جاؤں تا کہ عشق کی رواں سواری کے ساتھ آسمان کی سَیر کروں۔
× مرْکب = جس چیز پر سوار ہوا جائے؛ اکثر «اسْپ» کے معنی میں مُستعمَل ہوا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
با شُکوه و فرِّ جمشید و فریدونم چه کار
من که خاکم پیشِ پایِ مُرشِد و مولایِ عشق

(عبّاس‌علی بینِش شیرازی)
مجھ کو جمشید و فریدون کی شوکت و جلال سے کیا کام؟۔۔۔ [کہ] میں تو مُرشِد و مولائے عشق کے قدموں کے پیش میں خاک ہوں۔
× جمشید و فریدون = ایران کے اساطیری پادشاہوں کے نام
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بہائی شاعر عبّاس‌علی بینِش شیرازی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
می‌کنم فرعونِ جهل و ظَنّ و موهومات را
غرقِ دریا با عصا و با یدِ بیضایِ عشق

(عبّاس‌علی بینِش شیرازی)
میں جہل و گُمان و مَوہومات کے فرعون کو عشق کے عصا و یدِ بَیضا کے ساتھ بحر میں غرق کر دیتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا که نخْلِ قدِ آن خُسروِ شیرین‌گُفتار
جلوه‌گر شد برِ ما مَیثمِ تمّار شدیم

(ابوالحسن میرزا حیرت طهرانی)
جیسے ہی اُس خُسرَوِ شیریں گُفتار کا نخْلِ قد ہمارے پیش میں جلوہ گر ہوا، ہم مَیثمِ تمّار ہو گئے۔

مَیثمِ تمّار = حضرتِ علی کے ایک صحابی کا نام جن کو روایات کے مطابق دار پر یا نخْل (درختِ خُرما) پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا تھا۔ شاعر کہہ رہے ہیں کہ جیسے ہی محبوب کا قدِ زیبا جلوہ گر ہوا، ہم اُس پر مِثلِ مَیثمِ تمّار شہید ہو گئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو دو مُرغِ دلاویزی به تنگِ هم شدیم افسوس
هُمایِ من پریدی و مرا بی بال و پر کردی

(شهریار تبریزی)
دو دِلاویز پرندوں کے طرح ہم ایک دوسرے سے چسپاں ہوئے (یعنی ہم نے ایک دوسرے کو سختی سے آغوش میں لیا)۔۔ [لیکن] افسوس، اے میرے ہُما، کہ تم پرواز کر گئے اور مجھے تم نے بے بال و پر کر دیا۔

× «تنگِ هم» گُفتاری عِبارت ہے جس کا مفہوم «باہم چسپیدہ، ایک دوسرے کے بِسیار نزدیک» وغیرہ ہے۔ شہریار تبریزی کی فارسی شاعری پر گُفتاری تہرانی زبان کا اثر تھا۔

شهریار تبریزی کی مندرجۂ بالا فارسی بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ:

شهریار تبریزی کی مندرجۂ بالا فارسی بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ:
ایکی قوش تک قوجاقلاشدېق، محببتله، فقط افسوس،
هۆمایېم، سن سحر اوچدون، منی بی‌بال و پر ائتدین.

(نورالله پُورشریف)
دو پرندوں کی طرح ہم نے محبّت کے ساتھ ایک دوسرے کو آغوش میں لیا، لیکن افسوس، اے میرے ہُما، کہ تم صُبح کے وقت پرواز کر گئے، [اور] مجھے تم نے بے بال و پر کر دیا۔

İki quş tək qucaqlaşdıq, məhəbbətlə, fəqət əfsus,
Hümayım, sən səhər uçdun, məni bibalü pər etdin.
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تو کز چشم و دلِ مردُم گُریزانی چه می‌دانی
حدیثِ اشک و آهِ من بِرو از باد و باران پُرس

(شهریار تبریزی)
تم تو مردُم کے چشم و دل سے گُریزاں ہو، تم کیا جانو گے؟۔۔۔ جاؤ میرے اشک و آہ کی حدیث باد و باراں سے پُوچھو۔

× یہ اِس دھاگے میں میرا چار ہزارواں مُراسلہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به چشمِ مُدّعی جانان جمالِ خویش ننْماید
چراغ از اهلِ خلوت گیر و راز از رازداران پُرس

(شهریار تبریزی)
محبوب اپنا جمال مُدّعی (رقیب و بدخواہ) کی چشم پر ظاہر نہیں کرتا۔۔۔ [یہ] چراغ اہلِ خلوَت سے لو اور [یہ] راز رازداروں سے پُوچھو۔
 
Top