محمد وارث

لائبریرین
بیمارِ عشق را ز مسیحا چہ فائدہ
دارد لبِ تو فائدہ، اما چہ فائدہ


نادم گیلانی

بیمارِ عشق کو مسیحا و طبیب سے کیا بھی فائدہ؟ تیرے لب بھی فائدہ رکھتے ہیں، ہاں مگر (ہمیں) کیا فائدہ؟
 

حسان خان

لائبریرین
به هر شهری هزاران ماه‌رو دیدم ولی زآن‌ها
به آن چشمت قسم، چشمانِ خود را دوختم بی تو

(ابوالقاسم لاهوتی)
میں نے ہر ایک شہر میں ہزاروں ماہ رُو دیکھے۔۔۔ لیکن، تمہاری اُس چشم کی قسم!، کہ تمہارے بغیر میں نے اپنی چشموں کو بند کر لیا اور اُن [ماہ رُوؤں] کی جانب نہ دیکھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تنها نه من از عشقِ رُخت شُهرهٔ شهرم
صاحب‌نظری نیست که افسانه نکردی

(فُروغی بسطامی)
فقط میں ہی تمہارے چہرے کے عشق کے سبب شُہر‌هٔ شہر نہیں ہو‌ں، [بلکہ ایسا] کوئی صاحبِ نظر نہیں ہے کہ جس کو تم نے افسانے [کی طرح مشہور] نہ کر دیا ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صد حیف کہ ما پیرِ جہاندیدہ نبودیم
روزے کہ رسیدیم بہ ایامِ جوانی


واعظ قزوینی

صد حیف کہ ہم جہاندیدہ، گرم و سرد چشیدہ، تجربہ کار بزرگ نہ تھے، اُن دنوں کہ جب ہم نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دستِ آن شیخ بِبوسید که تکفیرم کرد
مُحتسِب را بِنوازید که زنجیرم کرد
(روح‌الله خُمینی)

اُس شیخ کے دست کو بوسہ دیجیے کہ جس نے میری تکفیر کی۔۔۔ اُس مُحستِب پر نوازش کیجیے کہ جس نے مجھ کو زنجیر میں کیا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
دانی کہ از چہ خندم، از ہمتِ بلندم
زیرا بہ شہرِ عشقت، بر عاشقاں امیرم


مولانا رُومی

کیا تُو جانتا ہے کہ میں کس وجہ سے مسکراتا ہوں؟ اپنی بلند ہمتی کی وجہ سے! اور اسی وجہ سے میں تیرے شہرِ عشق میں سب عاشقوں کا حاکم اور امیر ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسی نیک بیند به هر دو سرای
که نیکی رسانَد به خَلقِ خُدای

(سعدی شیرازی)
وہ شخص [ہی] دونوں جہاں میں نیک و خوب دیکھتا ہے کہ جو [دنیا میں] خَلقِ خدا کو نیکی و خوبی پہنچاتا ہے (یعنی خَلقِ خُدا کے ساتھ نیکی کرتا ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
علّامہ اقبال 'اَسرارِ خودی' کی ایک بیت میں مولانا عبدالرحمٰن جامی کی سِتائش میں کہتے ہیں:
کُشتهٔ اندازِ مُلّا جامی‌ام
نظم و نثرِ او علاجِ خامی‌ام

(علّامه اقبال لاهوری)
میں مُلّا جامی کی طرز کا قتیل ہوں۔۔۔ اُن کی نظم و نثر میری خامی کا علاج ہے۔

× بیتِ ہٰذا میں علّامہ اقبال نے لفظِ 'انداز' کو اُس کے اردو میں متداول معنی میں استعمال کیا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
صرصر چہ در خرابئ من اضطراب داشت
بر شاخِ گُل نہ بُود گراں آشیانِ من


شیخ علی حزیں لاھیجی

تُند و تیز ہوا میری خرابی کے لیے کس قدر بے چینی و بے قراری و اضطراب میں تھی، شاخِ گُل پر میرا آشیانہ اتنا بھاری تو نہ تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سخت می‌ترسم که آخر نارسایی‌هایِ شرم
تشنه‌ام بیرون از آن چاهِ زنخدان آورَد
(صائب تبریزی)

مجھے شدید خوف ہے کہ شرم و حیا کی نارسائیاں آخرِ کار مجھ کو اُس چاہِ زنَخداں سے تشنہ [ہی] بیرون لے آئیں گی۔
× چاہِ زنَخداں = محبوب کے زنَخدان (ٹھوڑی) کو چاہ (کنوئیں) سے تشبیہ دی گئی ہے۔ 'ٹھوڑی کا کنواں'
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ایں شرفم بس کہ شوی مشتری
ہیچ مدہ قیمتِ کالائے من


نظیری نیشاپوری

میرے لیے یہ شرف ہی بہت ہے کہ تُو خریدار بنے، تُو میرے مال و متاع و ساز و سامان کی کوئی بھی قیمت ادا نہ کر۔
 

حسان خان

لائبریرین
ماهِ نو در فلک از دستِ غمش شد به دو نیم
خمِ ابرویِ تو اعجازِ پیمبر دارد
(فُروغی بسطامی)

فلک پر ماہِ نو اُس کے غم کے ہاتھوں دو نیم ہو گیا۔۔۔ تمہارے ابرو کا خَم، رسول کا مُعجِزہ رکھتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دوست بی‌پروا، فلک بی‌رحم، دوران بی‌سکون
درد چۏخ، هم‌درد یۏخ، دشمن قوی، طالع زبون
(محمد فضولی بغدادی)
دوست بے پروا ہے، فلک بے رحم ہے، دوران (گردشِ زمانہ) بے سکون ہے؛
درد بِسیار ہے، ہمدرد [کوئی] نہیں ہے، دشمن قوی ہے، اور بخت زبوں ہے۔

Dust bipərva, fələk birəhm, dövran bisükun
Dərd çox, həmdərd yox, düşmən qəvi, tale’ zəbun
محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ:
دوست بی‌پروا، فلک بی‌رحم، دوران بی‌سکون
غم فُزون، هم‌درد کُو، دشمن قوی، طالع زبون

(محمد عارف)
دوست بے پروا ہے، فلک بے رحم ہے، دوران (گردشِ زمانہ) بے سکون ہے؛
غم فراواں ہے، ہمدرد کہاں ہے؟، دشمن قوی ہے، اور بخت زبوں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مُردن و حشرم گر از بُوئے تو نیست
ذرہ ذرہ خاکِ من مُشکیں چراست؟


درویش ناصر بخاری

میرا مرنا اور حشر اگر تمھاری خوشبو کی وجہ سے نہیں ہے تو پھر میری خاک کا ذرہ ذرہ اس طرح مُشکبار کیوں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
گر نمی‌کُشت مرا، خلق نمی‌دانستند
که دم از عشق زدن این همه کَیفر دارد
(فُروغی بسطامی)

اگر وہ مجھ کو قتل نہ کرتا تو مردُم نہ جانتے کہ عشق کا دعویٰ کرنے کی اِتنی زیادہ پاداش ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حضرتِ حُسین بن علی کی مدح میں کہی گئی ایک بیت:
دست‌خالی برنمی‌گردد دعا از روضه‌اش
سایلان را آستانش کعبهٔ حاجت‌رواست

(صائب تبریزی)
دُعا اُن کے رَوضے سے خالی دست واپس نہیں آتی۔۔۔ سائلوں کے لیے اُن کا آستان کعبۂ حاجت روا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از اوحدالدین انوری ابیوردی

مے نوش کُنم و لیک مستی نکنم
الا بہ قدح دراز دستی نکنم
دانی غرضم ز مے پرستی چہ بوَد
تا ہم چو تو خویشتن پرستی نکنم


مے نوشی کرتا ہوں لیکن مستی نہیں کرتا، سوائے جام اُٹھانے کے اور کوئی بھی دراز دستی نہیں کرتا۔ کیا تُو جانتا ہے کہ مے نوشی سے میری غرض کیا ہے؟ وہ یہ کہ مے نوشی سے بے خود ہو جاؤں اور تیری طرح خود پرستی نہ کروں۔
 

حسان خان

لائبریرین
خُرّم آن خانه که باشد چون تو مهمانی در او
مُقبِل آن کِشوَر که او را چون تو سُلطانی بُوَد
(فخرالدین عراقی)

شاد و خُرّم ہے وہ خانہ (گھر) کہ جس میں تم جیسا کوئی مہمان ہو۔۔۔ خوش بخت ہے وہ مُلک کہ جس کا تم جیسا کوئی سُلطان ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
قېلدې پیدا حُکمِ تقویمِ کُهن گُل دفتری
آچدېلار تا چهرهٔ دل‌دارېمې نقّاش‌لار
(صائب تبریزی)

جب نقّاشوں نے میرے دلدار کا چہرہ کھولا (یعنی ظاہر کیا) تو دفترِ گل تقویمِ کُہن کی مانند ہو گیا۔
(یعنی چہرۂ معشوق نے گُل کی زیبائی کو بے آبرو و بے قیمت کر دیا۔)
× دفتر = ڈائری × تقویم = کیلینڈر

Qıldı peyda hökmi-təqvimi-kühən gül dəftəri
Açdılar ta çöhrei-dildarımı nəqqaşlar

مهِ ناشُسته‌رُو کَی رُتبهٔ دل‌دارِ من دارد؟
که با آن تازگی گُل حُکمِ تقویمِ کُهن دارد

(صائب تبریزی)
ناشُستہ چہرے والا قمر کب میرے دل دار کا رُتبہ رکھتا ہے؟۔۔۔ کہ گُل [بھی اپنی] اُس تازگی کے باوجود [میرے یار کے پیش میں] تقویمِ کُہنہ [کی مانند بے قدر] ہے۔
× تقویم = کیلنڈر
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دلم زآتشِ غم چُنان می‌گُدازد
که شَکَّر در آبِ روان می‌گُدازد

(کمال‌الدین اسماعیل اصفهانی)
میرا دل آتشِ غم سے اِس طرح پِگھل رہا ہے، جس طرح آبِ رواں میں شَکَر پِگھل جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top