محمد وارث

لائبریرین
تا عشقِ بُتاں ساختہ دیوانۂ خویشم
اندیشۂ خویش و غمِ بیگانہ ندارم


ابوالفیض فیضی دکنی

چونکہ عشقِ بُتاں نے مجھے اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے اس لیے نہ مجھے اپنی کوئی فکر ہے اور نہ ہی بیگانوں کا کوئی غم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو سیلیم و چو جوییم همه سویِ تو پوییم
که منزل‌گهِ هر سیل به دریاست خدایا

(مولانا جلال‌الدین رومی)
ہم سیلاب کی مانند ہیں اور نہر کی مانند ہیں، اور سب تمہاری جانب رواں دواں ہیں۔۔۔۔ کیونکہ، اے خدا، ہر سیلاب کی منزل گاہ دریا میں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جز نالہ مکن کارِ دگر جامی ازیں پس
باشد کہ ز صد نالہ یکے کارگر آید


مولانا عبدالرحمن جامی

اے جامی، اِس کے بعد (عاشق ہونے کے بعد) نالہ و زاری و آہ و فغاں کے علاوہ کوئی دوسرا کام مت کر، کہ اِن سو سو نالوں میں سے کوئی ایک تو کارگر ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
باده دور از رویِ وَی نارد نشاطم، ای رفیق
زانکه آبِ زندگی بی او چو زهرِ قاتل است

(امیر علی‌شیر نوایی)
اے رفیق! اُس کے چہرے سے دور، شراب مجھے نشاط نہیں دیتی۔۔۔ کیونکہ آبِ حیات اُس کے بغیر زہرِ قاتل کی مانند ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
لُطف و کرمت نیز کُشنده‌ست، نه تنها
اربابِ وفا جان دِهد از ناز و عِتابت

(امیر علی‌شیر نوایی)
اربابِ وفا فقط تمہارے ناز و عِتاب کے باعث جان نہیں دیتے، [بلکہ] تمہارا لُطف و کرم بھی قاتل و مُہلِک ہے۔
 
مگر دیوانه خواهم شد در این سودا که شب تا روز
سخن با ماه می‌گویم پری در خواب می‌بینم
(حافظ شیرازی)

میں اس عشق میں شاید دیوانہ ہوجاؤں گا کہ شب تا روز میں ماہ(چاند) سے گفتگو کرتا ہوں اور خواب میں پری دیکھتا ہوں
 

حسان خان

لائبریرین
فضولی ایستر ایسن اِزدیادِ رُتبهٔ فضل
دیارِ رومو گؤزت، ترکِ خاکِ بغداد ائت
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! اگر تم [اپنے] رُتبۂ فضیلت میں اضافے کے خواہشمند ہو تو دیارِ رُوم کی راہ دیکھو اور خاکِ بغداد کو ترک کر دو۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Füzuli, istər isən izdiyadi-rütbeyi-fəzl,
Diyari-Rumu gözət, tərki-xaki-Bağdad et!


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Fuzûlî ister isen izdiyâd-ı rütbe-i fazl
Diyâr-ı Rûm'u gözet terk-i hâk-i Bağdâd et


× چند جگہوں میں 'دیارِ رومو گؤزت' کی بجائے 'دیارِ روم گؤزت' بھی نظر آیا ہے، لیکن ہر دو صورتوں میں مصرعے کے وزن اور معنی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ:
چو خواهی فضیلت فزاید تُرا
بگو ترکِ بغداد و رو سویِ روم

(یحییٰ خان‌محمدی آذری)
اگر تم چاہو کہ تمہاری فضلیت میں اضافہ ہو جائے تو تم بغداد کو تَرک کہہ دو اور دیارِ رُوم کی جانب چلے جاؤ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خُمخانہ ایست ہر بُنِ مُو، مستی ام مپرس
ایں بادہ در پیالۂ من از سبوئے کیست


نُورالدین ظہوری ترشیزی

میرے رُوئیں روئیں میں میخانہ ہے، میری مستی کا عالم نہ پُوچھ، (لیکن اگر بتا سکتا ہے تو یہ بتا کہ) میرے جام میں‌ یہ شراب کس کے سبو کی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
جهان باشد چو دریایی که پیدا نیست پایانش
حوادث موجِ غلتانش مصایب جوشِ توفانش

(خلیل‌الله خلیلی)
دنیا ایک ایسے بحر کی مانند ہے کہ جس کا اختتام ظاہر نہیں ہے۔۔۔ حوادث اُس [بحر] کی موجِ غلطاں ہیں، [اور] مصائب اُس [بحر] کا جوشِ طوفاں ہیں۔

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
افغان شاعر خلیل‌الله خلیلی ایک نظم میں خود کے وطن افغانستان کو مُخاطَب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
به جایِ موج، خون می‌جوشد از انهارِ خندانت
به جایِ لاله، رُوید رنج، از طرفِ بیابانت

(خلیل‌الله خلیلی)
[اے میرے وطنِ افغانستان!] تمہارے خنداں دریاؤں سے موج کی بجائے خون اُبلتا ہے۔۔۔ تمہارے بیابان کے اطراف سے گُلِ لالہ کی بجائے رنج اُگتا ہے۔

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
اِلٰهی! راه دادی دیگران را
که بِکْشایند رازِ آسمان را
ز راه واماندگان را هم تکانی
که بِگْذارند این خوابِ گران را

(خلیل‌الله خلیلی)
اے خدا! تم نے دیگروں کو راہ عطا کی، کہ تاکہ وہ آسمان کے راز کو مُنکشِف کر لیں۔۔۔ [اب ذرا] راہ سے دور رہ جانے والوں کو بھی اِک حرَکت دو تاکہ وہ اِس خوابِ گراں کو تَرک کر دیں۔

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(دوبیتی)
خداوندا! دلم را بینِش آموز
چراغِ مُرده‌ام را تابش آموز
به بُلبُل یاد دادی نغمهٔ صبح
مرا هم در دلِ شب نالِش آموز

(خلیل‌الله خلیلی)
اے خداوند! میرے دل کو بینِش و بصیرت سکھاؤ۔۔۔ میرے چراغِ مُردہ کو تابش سکھاؤ۔۔۔ تم نے بُلبُل کو نغمۂ صبح سکھایا۔۔۔ مجھے بھی نصف شب کے وقت نالہ [کرنا] سکھاؤ۔

× شاعر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حدیثِ عشق به اهلِ هوَس چه می‌گویی
به چشمِ مور مکَش سُرمهٔ سلیمانی

(علامه اقبال لاهوری)
داستانِ عشق، اہلِ ہوَس سے کس لیے کہتے ہو؟ چیونٹی کی چشم میں سُرمۂ سُلیمانی مت کھینچو۔

× لُغت نامۂ دہخدا کے مطابق سُرمۂ سُلیمان/سُرمۂ سُلیمانی اُس سُرمے کو کہتے ہیں جس کو چشم پر کھینچنے سے عالَم کی مخفی چیزیں عیاناً نظر آنے لگتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زمانه باز برافروخت آتشِ نمرود
که آشکار شود جوهرِ مسلمانی

(علامه اقبال لاهوری)
زمانے نے دوبارہ آتشِ نمرود مُشتعِل کی ہے تاکہ مسلمانی کے جوہر آشکار ہو جائیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیر ابواحمد محمد بن محمود غزنوی کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے می فرُّخی سیستانی ایک جا فرماتے ہیں:
چون مرا بُویهٔ درگاهِ تو خیزد چه کنم
رهی آموز رهی را و ازین غم بِرهان

(فرُّخی سیستانی)
جب مجھ میں تمہاری درگاہ کی آرزو اُٹھے تو میں کیا کروں؟۔۔۔ [مجھ] غُلام کو کوئی راہ سِکھاؤ اور اِس غم سے نجات دے دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
مردُمان را خِرد و رای بِدان داد خدای
تا بِدانند بد از نیک و سُرود از قرآن

(فرُّخی سیستانی)
مردُم کو خدا نے عقل و فکر اِس لیے دی ہے تاکہ وہ بد و نیک اور نغمہ و قُرآن کے درمیان فرق کر سکیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نو روز و نو بہار و مے و دلبرے خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست


ظہیر الدین بابر

نو روز ہے، نو بہار ہے، مے ہے، خوبصورت محبوب ہے، بابر بس عیش کی سعی ہی میں لگا رہ کہ دنیا دوبارہ نہیں ہے۔
افغان محقِّق دکتور عبدالاحمد جاوید نے اپنی کتاب 'نوروزِ خوش‌آیین' میں لکھا ہے کہ یہ بیت ظہیرالدین بابر کی نہیں، بلکہ ابوالقاسم بابر میرزا بن بایسُنغُر بیگ بن شاہرخ میرزا بن تیمورِ لنگ کی ہے۔

پس نوشت: دانشگاہِ پنجاب، لاهور کے پرفسور دکتر محمد باقر نے بھی اپنے مقالے 'این شعر از کدام بابر است؟' میں شعری تذکروں کے شواہد کی بِنا پر یہ گمان ظاہر کیا ہے یہ بیت غلطی سے ظہیرالدین محمد بابر سے منسوب ہو گئی ہے، ورنہ یہ درحقیقت ابوالقاسم بابر میرزا کی بیت ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
حالِ قتیلِ خستہ جاں تاچند پُرسی از کساں
رخسارِ زردِ اُو ببیں، مژگانِ نمناکش نگر


قتیل لاہوری

تُو قتیل خستہ جان کا حال آخر کب تک لوگوں سے پُوچھے گا؟ اُس کے زرد رُخساروں کو دیکھ، اُس کی نمناک پلکوں پر ذرا نظر کر۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی شاعری میں نسوار کا ذکر:

افغان فارسی گو شاعر صوفی غلام نبی عشقری کو اِمرارِ معاش کے لیے ۱۳۰۹هش/۱۹۳۰ء میں کابل کے 'گُذرِ سنگ‌تراشی' میں نسوار فروشی کی دُکان کھولنی پڑ گئی تھی۔ وہ اِس بارے میں کہتے ہیں:

از گردشِ زمانه و اِدبار روزگار
سوداگرِ خریطهٔ نسوار هم شدم

(صوفی غلام نبی عشقری)
گردشِ زمانہ اور بدبختیِ عصر کے باعث میں کیسۂ نسوار کا سوداگر بھی ہو گیا۔
× کِیسہ = بیگ

ادیبم لیک نسوارِ دهن را
ز بی‌قدری به کابل می‌فروشم

(صوفی غلام نبی عشقری)
[اگرچہ] میں ادیب ہوں، لیکن بے قدری کے باعث کابُل میں نسوارِ دہن فروخت کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مرا شورِ جنون از پندِ ناصح کم نمی‌گردد
چه امکان است راهِ شعله بندد مُشتِ خاشاکی

(جُنیدالله حاذق)
ناصح کی نصیحت سے میرا شورِ جنوں کم نہیں ہوتا۔۔۔ یہ کب ممکن ہے اِک مُشت بھر خس و خاشاک شُعلے کی راہ روک سکیں؟

----------------
یہ اِس دھاگے میں میرا تین ہزارواں مراسلہ ہے۔
 
Top