آپ نے جو لکھا وہ ایک حساس دل کی آواز ہے۔ جو ہر دردناک حقیقت پر بےحس ہونے سے انکار کرتی ہے۔ یہ بجا طور پر قابلِ قدر ہے کہ ہم اس نوع کے واقعات پر چونکنے کی صلاحیت کھونا نہیں چاہتے۔ اگر ہم دل میں برا جاننا چھوڑ دیں تو بے حسی عام ہوسکتی ہے اور پھر معاشرے کا شعور مکمل زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
تاہم، میں یہاں ایک اور پہلو پیش کرنا چاہتا ہوں ،جیسا کہ میں نے
نیرنگ خیال کی تحریر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک دوسرے زاویئے سے بھی اس واقعہ کو دیکھ رہا ہوں ۔ نہ بطور انکار، نہ بطور تردید، بلکہ
بطور تجزیہ اور صرف تجزیہ۔
حادثے لمحوں میں نہیں ہوتے۔ وہ عشروں، بلکہ صدیوں کی تہذیبی، نفسیاتی اور معاشرتی تشکیل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، وہ صدیوں سے
اجتماعی طور پر سسٹم زدہ ہے۔ یہ سسٹم صرف عورت پر جبر نہیں کرتا ،بلکہ مرد پر بھی ایک خاص کردار، روّیے اور توقعات مسلط کرتا ہے۔ جہاں عورت کو چُپ، صبر، قربانی کا آئکن بنایا گیا، تو وہاں مرد کو غیرت، خاندان کی عزت، سرد مہری کا پیکر بنا دیا گیا ہے۔
وہ مرد جو بیٹی کی لاش لینے سے انکار کرتا ہے ۔ وہ اپنی جگہ ظالم سہی ، لیکن وہ بھی ایک مخصوص نفسیاتی اور سماجی ذہن سازی کی پیداوار ہے۔ ہم صرف عورت کی مظلومیت کو دیکھتے ہیں، مگر شاید یہ نہیں دیکھتے کہ
یہ ظلم ایک پوری مشینری ہے جس میں کہیں جہالت ہے، کہیں ناکامیوں کا بوجھ، کہیں بدنامی کا خوف، کہیں مذہب یا روایت اور کہیں رسم و رواج کی ناقص تفہیم ہے۔
اور جو خواتین شو بزنس کا انتخاب کرتی ہے ۔وہ بھی سادہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ اکثر یہ بغاوت ہوتی ہے، گھر کے بے سکون ماحول سے، کسی ناکامی یا تضحیک سے، یا صرف ایک خواب کی تعبیر کے لیے۔ لیکن اس شعبے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہاں
چمک دمک سے زیادہ دھند اور گرد و جالا ہے۔ یہاں تعلقات کی حیثیت ،وقتی جسم کی قیمت میں تولی جاتی ہے، اور عورت کی عزت اکثر پہلے قدم پر نیلام ہو جاتی ہے۔ پھر جب شہرت ڈھلتی ہے، تو تنہائی، محرومی اور ندامت کے سائے طویل ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ صبا قمر کو میں نے اس معاملے میں کہیں بہت تلخ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔
میں کسی صورت مرحومہ کے کردار یا فیصلوں پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ
یہ سب کچھ صرف مرد کی زیادتی نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام کا بگاڑ ہے - جس میں ہم سب (خواہ مرد ہوں یا عورت) کہیں نہ کہیں شریکِ جرم بھی ہیں اور متاثر بھی واقع ہوئے ہیں ۔
اس لیے ہمیں فقط مرد بمقابلہ عورت کے بیانیے سے ہٹ کر
سسٹم بمقابلہ انسانیت کے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ ظلم صرف صنفی نہیں ہوتا ، فکری اور ادارتی بھی ہے۔ ہم اگر واقعی زنجیر توڑنا چاہتے ہیں تو پہلے زنجیر کی
ماہیت کو سمجھنا ہوگا ۔ ورنہ ہم پرانی زنجیریں توڑنے کی جستجو میں اور مذید نئی زنجیریں گھڑتے رہیں گے۔
آپ نے لکھا،ہم دنیا کو نہیں بدل سکتے، یہ آٹھ بلین انسانوں نے کہا!
تو شاید جواب یہ ہے،
ہم خود کو تو بدل سکتے ہیں ! بس یہی کافی ہے کہ ایک کڑی ہم نہ بنیں۔یہی شعور، یہی بیداری، تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔ اور مکمل بیداری ، مکمل شعور اپنے ارتقاء کے عمل سے گذرتا ہے ۔ اور اپنا پورا وقت لیتا ہے ۔