نیرنگ خیال

لائبریرین
راستی، راستائی اور راستینی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ ایک پُر آشوب زمانہ ہے۔ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ دلیلوں پر درہمی کی اُفتاد پڑی ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی دستاویز درست کی ہے اور کجی، کج رائی اور کج روی کا دستور جاری کیا گیا ہے۔ جو سمجھانے والے تھے، وہ اپنے افادات کی مجلسوں میں بُرائی سمجھا رہے ہیں۔ بُرائی سوچی جا رہی ہے اور بُرا چاہا جا رہا ہے۔ خیال اور مقال کی فضا اس قدر زہرناک کبھی نہ ہوئی تھی۔ انسانی رشتے اتنے کم زور کبھی نہ پڑے تھے۔

ایک اور فتنہ برپا ہوا ہے، وہ ادھوری سچائیوں کا فتنہ ہے۔ اس نے انسانیت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک آنکھ، ایک کان، اور ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے۔ یہی وہ انسانیت ہے جس کے باعث اس دور میں ہماری تاریخ کے سب سے بدترین واقعات ظہور میں آئے ہیں۔ گمان گزرتا ہے کہ یہ انسانوں کی نہیں، نسناسوں کی دنیا ہے اور ہم سب نسناس ہیں، جسے دیکھو وہ غیر انسانی لہجے میں بولتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔

سماعتوں پر شیطانی شطحیات نے قبضہ جما لیا ہے۔ یہاں جو بھی کان دھر کر سُن رہا ہے، وہ کانوں کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سو، چاہیے کہ ایسے میں نیک سماعتیں اعتزال اختیار کریں۔ اپنی نیتوں کی نیکی پر سختی سے قائم رہو اور اس کی ہر حال میں حفاظت کرو کہ تمہارے پاس یہی ایک متاع باقی رہ گئی ہے اور یہی تمہاری سب سے قیمتی متاع بھی ہے۔
نفرتوں کی گرم بازاری اور محبتوں کی قحط سالی میں دُکھی انسانیت کے دُکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس بیمار کے تیمارداروں اور غم گساروں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اچھائی اور برائی میں ایک عجیب معاملت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ناموں کا آپس میں تبادلہ کر لیا ہے۔ اب ہر چیز اپنی ضد نظر آتی ہے۔ علم، جہل پر ریجھ گیا تھا اور جہل، علم کے خطاب پر بُری طرح لوٹ پوٹ تھا۔ سو، دونوں ہی نے ایثار سے کام لیا۔

انسان کو اس دور میں وہ وہ منفعتیں حاصل ہوئی ہیں جن پر ہر دور کا انسان رشک کرے۔ پر اس دور کا خسارہ بھی اس قدر ہی شدید ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کے اس انبوہ میں خود انسان ناپید ہوگیا ہے۔ جس مزاج اور جس قماش کی دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس کا حال تو یہی ہے اور یہی ہونا بھی تھا۔ کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟ اندرائن کے پیڑ سے کیا کبھی انگور کے خوشے بھی توڑے گئے ہیں؟

عالمی ڈائجسٹ، نومبر1971
(یہی انشائیہ سسپنس اگست 2001 میں "بڑا خسارہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔)
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
اسی لئے میں اکیسویں صدی کو جھوٹ کی صدی کہتا ہوں ۔ ہر طرف جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ سچ کو سچ ثابت کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے ۔
 

الشفاء

لائبریرین
رُت پریم کے گانن کی اب بیت چکی طاہر
اِس اجڑی نگریا میں کیا بات کرو ہو۔۔۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
رُت پیار کے گانن کی اب بیت چکی طاہر
اِس اجڑی نگریا سے کیا بات کرو ہو۔۔۔
طاہر کون سے شاعر ہیں؟

ایک آنکھ، ایک کان، اور ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے۔۔۔۔۔۔
بالکل
 

سارہ خان

محفلین
نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی دستاویز درست کی ہے اور کجی، کج رائی اور کج روی کا دستور جاری کیا گیا ہے۔ جو سمجھانے والے تھے، وہ اپنے افادات کی مجلسوں میں بُرائی سمجھا رہے ہیں۔ بُرائی سوچی جا رہی ہے اور بُرا چاہا جا رہا ہے۔ خیال اور مقال کی فضا اس قدر زہرناک کبھی نہ ہوئی تھی۔ انسانی رشتے اتنے کم زور کبھی نہ پڑے تھے۔
 
Top