حضرت عیسٰی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا گیا یا ۔۔۔۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
جب كوئى تاريخ كى بات كرتا ہے تو قرآن كريم اور اسلام كے عقائد بھی ايك مكمل تاريخ ركھتے ہيں اور بائبل سے زيادہ مستند جس كى شہادت غير مسلم محققين بھی دے چکے ہيں۔
ميرے يہ تينوں سوالات "صرف قرآن " اور تاريخ سے متعلق ہيں۔ او ر سوال نمبر دو كا جو جواب فاروق سرور خان صاحب نے ديا ہے اس كو ديكھیے ۔ كيا كوئى يہودى اور عيسائى يا تاريخى مصادر سے ثابت كر سكتا ہے کہ مسيح عليه السلام بڑھاپے ميں فوت ہوئے؟ (جناب خان صاحب اابراہيمى اديان Abrahamic Religions كى تمام كتابيں اس دعوے پر ہنستی نظر آتى ہيں )

جناب خان صاحب برائے مہربانى ان آيات كريمہ كا مطلب سمجھا ديجیے۔

قرآن كريم كہتا ہے: اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے۔۔۔۔
اس آيت كا كيا مطلب ہے؟ اہل كتاب يہ ايمان لائيں گے يا لا چکے؟ اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا نصارى ان پر ايمان لا چکے؟ تاريخ كيا كہتی ہے؟

اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو قرآن كريم ان كو قيامت كى نشانى كيوں کہہ رہا ہے؟ زمانى اعتبار سے تو وہ نبي آخر الزماں حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تھے ؟ پھر وہ قيامت كى نشانى كيسے ہوئے؟

اميد ہے ايك طالبہ علم كو قرآن فہمى ميں مدد دينے ميں بخل نہ كريں گے۔
والسلام

-قرآن كريم كہتا ہے: اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لاچکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواه ہوں گے۔۔۔۔
اس آيت كا كيا مطلب ہے؟ اہل كتاب يہ ايمان لائيں گے يا لا چکے؟ اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا نصارى ان پر ايمان لا چکے؟ تاريخ كيا كہتی ہے؟


اس آیت سے یہ معانی اخذ کرنے میں کہ -- عیسی علیہ السلام آئیں گے اور کوئی بھی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا کہ وہ ان پر ایمان نا لایا ہو ---اس میں کچھ قباحتیں ہیں۔ پہلی قباحت یہ ہے کہ حضرت عیسی کی موت پر یقین رکھنے والے اہل کتاب موجود ہیں، دوسری قباحت یہ کہ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے آسمان میں جانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان کو خدا کا بیٹا بھی مانتے ہیں اور ایسی ہی حالت میں مر بھی جاتے ہیں۔ ان کو ہم کس گنتی میں ڈالیں؟ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی اور ان کی والدہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اور ایسے اہل کتاب مر بھی گئے ہیں۔ تو " کوئی بھی ایسا اہل کتاب نہیں ہوگا" اس تناظر میں درست نہیں رہتا۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے اہل کتاب مردہ ہو چکے ہیں جو ایمان نہیں لائے۔


2-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
نا ان کو قتل کیا گیا اور نا ہی ان کو مصلوب کیا گیا۔ قرآں حکیم گواہی دیتا ہے کہ جناب بوڑھی عمر میں بھی دعوت دیں گے۔۔۔ لہذا جناب کی وفات اس عمر کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس بارے میں معلومات فراہم کرنے والی آیات بعد میں۔


3-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو قرآن كريم ان كو قيامت كى نشانى كيوں کہہ رہا ہے؟ زمانى اعتبار سے تو وہ نبي آخر الزماں حضرت محمد مصطفى صلى الله عليه وسلم سے پہلے آئے تھے ؟ پھر وہ قيامت كى نشانى كيسے ہوئے؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ وقت کے فاصلے کے سنگ میل "واقعات" کی شکل میں ہوتے ہیں۔ یہ "ایونٹس" یا واقعات وقت کے فاصلے کا تعین کرتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو قیامت کی نشانی ڈیکلئر کرتے ہیں۔ یہ نشانی آچکی ہے ۔۔۔
قرآن حکیم کے بیانات اور نشانیوں کے بعد قیامت کی کسی مزید نشانی کا کسی انسان کو پتہ ہے؟؟؟۔ اس بارے میں قرآن کی آیات کے حوالے بعد میں ۔ کہ قیامت کی آنے والی نشانیوں کے بارے میں قرآن حکیم کیا تعین کرتا ہے ۔؟؟؟ اس سے موضوع تبدیل ہوجائے گا۔ لہذا کوئی ریفرنس فراہم کرنے سے احتراز کررہا ہوں۔

والسلام
 
خواہر محترم ،

ترجمہ ، لفظ با لفظ آپ کے سامنے کیا ہے ۔ آپ کو اس ترجمے میں جو بھی گرامر کی غلطی نظر آتی ہے وہ بتائیے۔۔۔ تاکہ اس پر بات ہوسکے۔ جن مترجمین کے ترجمے کی آپ بات کررہی ہیں ان کی وکالت کے بجائے ان کو لے آئیے تاکہ ان سے بات ہوسکے۔ مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ اپنا نکتہ پیش کیجئے ، سوالات سے گریز کیجئے۔ نا تو آُپ کسی کٹہرے میں کھڑی ہیں اور نا ہی میں۔ میں اپنا نکتہ نظر مکمل سپورٹ سے کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ ایک بار پھر مؤدبانہ عرض ہے کہ مکمل دلیل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر پیش کیجئے۔

مجھ سے سوالات کے جوابات کی توقع نہیں رکھئے۔ ترجمے کا ایک ایک حصہ آپ کے سامنے ہے۔ جو خامی ہے وہ دلائیل کے ساتھ سامنے لائیے۔ کسی لغت سے یا خود قرآن حکیم سے ثابت کیجئے کہ “ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ“ حال کا صیغہ ہے یا کہ مستقبل کا صیغہ؟

اگر ترجمے کی خرابی سامنے لاتی ہیں تو پھر اس پر مزید بات کرتے ہیں ۔۔۔

مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ کسی بھی سوال کے انتظار میں نا رہئیے۔۔ میرا مؤقف اپ نے دیکھ لیا، اپنا مؤقف پیش کیجئے ۔ ہم سب کو پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوگی۔

میں بھی ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ قرآن کی کون سی آیات زندہ آسمان میں جانے اور زندہ آسمان سے واپس آنے کو صراحت سے بیان کرتی ہیں۔

ایک طرف تو صراحت سے “ اس کی موت“ اور “اس کی وفات “ کے معانی بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دوسری طرف کوئی ایسی ایت نہیں پیش کی جاتی جس میں صراحت سے “زندہ آسمان میں جانے“ اور “زندہ آسمان سے آنے “ کے بارے میں بتایا گیا ہو۔

والسلام
 

سویدا

محفلین
فعل مضارع میں حال واستقبال دونوں کا معنی موجود ہوتا ہے
عربی گرامر میں حال کے لیے علیحدہ اور استقبال کے لیے علیحدہ صیغہ استعمال نہیں ہوتا۔
سیاق سباق کو دیکھ کر حال واستقبال کا فیصلہ کیا جاتا ہے
 

سویدا

محفلین
اور یہاں سیاق وسباق دیکھ کر کہ آگے ”قبل موتہ“ کا لفظ موجود ہے مستقبل کا معنی لیا جائے گا اور اس کی تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے اس لیے بھی استقبال کا معنی لیا جائے گا
ورنہ تو آپ عربی گرامر میں کہیں یہ دکھا دیجیے کہ حال کے لیے الگ اور استقبال کے لیے الگ صیغہ استعمال ہوا ہو
 
بہت ہی شکریہ سویدا۔۔

ہم بات کرر ہے ہیں “ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ“ کے درست معانی کی ۔۔۔

آپ کا نکتہ بہت ہی جاندار ہے۔ اور درست ہے۔ کہ قبل موتہ سے پتہ چلتا ہے کہ آیا کہ یہ حال کا صیغہ ہے یا مستقبل کا صیغہ ہے۔

1۔ اگر یہ موت مستقبل میں ہوگی تو اس سے پہلے ہر اہل کتاب ان پر ایمان لے آئے گا۔ تو یہ مستقبل کا صیغہ ہے
2۔ اگر یہ موت ماضی میں ہوگئی تو اس وقت کا ہر اہل کتاب اس امر پر ایمان لا چکا کہ “ نا وہ مصلوب کئے گئے اور نا ہی قتل کئے گئے“ بلکہ مصلوب ہونے کے واقع کے بعد زندہ تھے۔


4:159 وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر وہ ضرور ایمان لے آئے اِس (امر) پر اُس (عیسی) کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔

یہی ترجمہ احمد رضا خان صاحب نے بھی کیا ہے۔
کوئی کتابی ایسا نہیں جو اُس کی موت سے پہلے اِس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا

یہی ترجمہ شاکر نے بھی کیا ہے ۔
And there is not one of the followers of the Book but most certainly believes in this before his death, and on the day of resurrection he (Isa) shall be a witness against them.

ان تراجم میں بھی یومنن کا ترجمہ مستقبل میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ حال کے صیغے کا کیا گیا ہے۔

حقیقت:
یہ کہنا کہ اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہوگا جو حضرت عیسی کی موت سے پہلے حضرت عیسی پر ایمان نا لے آئے گا ۔۔۔ بالکل بھی درست نہیں۔ یہ کس امر پر ایمان کی بات ہورہی ہے؟ “مصلوب اور قتل نا ہونے“ پر؟ یا پھر یہودیوں کے حضرت عیسی پر ایمان لانے پر؟

1۔ آج حقیقت ہے کہ عیسائی تو حضرت عیسی پر ایمان رکھتے ہیں لیکن یہودی حضرت عیسی پر ایمان نہیں رکھتے ۔۔۔ فرض کیجئے کسی بھی وجہ سے یہ تمام یہودی آج عیسائی ہوجائیں تو کیا یہ آج کے لئے کافی ہے؟؟؟؟؟؟ کیا آج رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی؟؟؟؟ لہذا آج رسول اکرم کے نبی بننے کے بعد اس بات کی اہمیت ہی نہیں رہ گئی کہ “محض حضرت عیسی علیہ السلام“ پر ایمان رکھنا ایک مقصد ہے۔

2۔ ان آیات میں بات ہورہی ہے “ نا مصلوب کئے گئے اور نا ہی قتل کئے گئے “ کے بارے میں ۔۔۔۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر ہر اہل کتاب کا ایمان ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام “مبینہ مصلوب“ ہونے کے واقعے کے بعد زندہ تھے۔ یہودی ان کے قتل سے انکار کرتے ہیں اور عیسائی ان کے زندہ ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔

لہذا یہ کہنا کہ ان کی موت سے پہلے ہر اہل کتاب ان کے زندہ ہونے پر یقین رکھتا تھا۔۔۔ بالکل درست ہے۔

یہ بات طے ہے کہ یہ آیت کسی بھی طور یہ طے نہیں کرتی کہ موت مستقبل میں واقع ہوگی۔ بلکہ صرف یہ طے پاتا ہے کہ اس موت سے پہلے سب اہل کتاب “اس امر“ پر ایمان لے آئے تھے جو سابقہ دو آیات میں فراہم کیا گیا ہے ۔

کیا حضرت عیسی کی موت مستقبل میں واقع ہوگی؟؟؟؟ اس کا جواب صرف اور صرف اس مستقبل کے آنے کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے ۔ تو کیا قرآں حکیم مسقبل میں حضرت عیسی علیہ السلام کے “زمین پر دوبارہ زندہ واپس آنے اور پھر وفات“ کے بارے میں “مستقبل سے پیچھے دیکھ کر“ بتاتا ہے؟؟؟

اس سوال کا جواب قران حکیم فراہم کرتا ہے۔۔۔۔ ؟؟؟؟ ان آیات کا حوالہ آئندہ مراسلے میں ایک بار پھر۔

والسلام
 
مداخلت کی معذرت
میرا خیال ہے کہ اپ سب لوگ عربی اہل زبان نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا اسان حل ہے کہ کسی مستند عربی عالم دین سے جاکر پوچھ لیں وہ جو کہہ مان لیں۔
خوامخواہ شک پیدا کرنا اور تراجم کے مطالب خود نکالنے سے گمراہی کا خدشہ ہے-
 
تراجم کو خود سے سمجھنا ، ہم پر فرض ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمہ اصولوں سے انحراف کیا جائے؟ دوسروں سے پوچھیں تو وہ اپنے عقیدے کے مطابق جواب دیتے ہیں۔ لہذا درست معانی سمجھنا کوئی برا کام نہیں ۔ خاص طور پر جب کہ ایسے ہی مزید تراجم موجود ہوں۔

قرآن حکیم منفی فعل مضارع کی بہت سے مثالیں اور تراجم پیش کرتا ہے ۔ ہم ان کو بھی دیکھیں گے ۔ مستقبل میں ہونے والی موت کے بارے میں قران کی آیات آئندہ مراسلے میں ۔۔ انشاء اللہ۔
 

arifkarim

معطل
مداخلت کی معذرت
میرا خیال ہے کہ اپ سب لوگ عربی اہل زبان نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا اسان حل ہے کہ کسی مستند عربی عالم دین سے جاکر پوچھ لیں وہ جو کہہ مان لیں۔
خوامخواہ شک پیدا کرنا اور تراجم کے مطالب خود نکالنے سے گمراہی کا خدشہ ہے-
مستند عربی دان وہی مطلب نکالتے ہیں جو گزشتہ دھاگوں میں حیات عیسیٰؑ والے موضوع پر ذیر بحث آیا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آنحضورؐ کے زمانہ کے مسلمان آیا عیسیٰؑ کو زندہ مانتے تھے یا فوت شدہ؟ واقعہ معراج میں صاف لکھا ہے کہ آپؐ نے وہاں حضرت عیسیٰؑ سے بھی ملاقات کی اور تمام گزشتہ انبیاء کرام نے آپؑ کے پیچھے نماز ادا کی۔ آیا یہ واقعہ جسمانی تھا یا روحانی و کشفی، بہرحال تمام گزرجانے والے انبیاء کرام میں حضرت عیسیٰؑ بھی شامل تھے اور یوں اس تاریخی اسلامی واقعہ سے آپؑ کی اسلامی عقائد کے مطابق جسمانی وفات ثابت ہو جاتی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_view_of_Jesus'_death
 
تراجم کو خود سے سمجھنا ، ہم پر فرض ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمہ اصولوں سے انحراف کیا جائے؟ دوسروں سے پوچھیں تو وہ اپنے عقیدے کے مطابق جواب دیتے ہیں۔ لہذا درست معانی سمجھنا کوئی برا کام نہیں ۔ خاص طور پر جب کہ ایسے ہی مزید تراجم موجود ہوں۔

قرآن حکیم منفی فعل مضارع کی بہت سے مثالیں اور تراجم پیش کرتا ہے ۔ ہم ان کو بھی دیکھیں گے ۔ مستقبل میں ہونے والی موت کے بارے میں قران کی آیات آئندہ مراسلے میں ۔۔ انشاء اللہ۔
بلکل فرض ہے ۔ یہ بنیادی سوال ہے کہ کوئی بھی مسئلہ اس ہی سے سمجھا جائے گا جو ان مسائل کا ماہر ہو۔ نہ کہ ہر ایرا خیرا دوسروں کو سمجھانے کی بات کرے۔ یہی مسلمہ اصول ہے۔
سیدھی سے بات ہے کہ عربی اپ کی زبان نہیں۔ اگر ہم کو عربی کی بات سمجھ نہیں ارہی تو اہل زبان سے پوچھ لیں۔ اسی طرح اگر قرآن سمجھ نہیں ارہا تو مستند عالم سے پوچھ لیں۔ اس کی بات مان لیں یہی دنیا میں مسلمہ اصول ہے۔
میں ایک ریویو پیپر لکھنا چاہ رہا تھا۔ جب وہ پیپر ایک مستند جرنل میں شائع کرنے کے لیے جمع کیا تو اس جرنل کی پہلی ریکوارمنٹ یہ تھی کہ مصنف کے کم از کم پانچ پیپر اسی مضمون میں جس میں ریویو لکھا ہے پہلے سے کسی مستند جرنل میں شائع ہوں۔ پھر وہ میرے پیپر کی عصرانہ تنقید کے لیے ہم عصر ماہر کو بھیجیں گے۔
جب معمولی دنیاوی علم کے لیے اتنی شرائط ہیں تو افاقی علم کے لیے مزید شرائط ہونی چاہیں۔ یہ تو مسلمہ بات ہے۔
بہتر ہے کہ اپ سب لوگوں کو الجھانے کے بجائے کسی مستند عربی عالم دین سے رجوع کرکے اپنی الجھن درست کریں۔ ورنہ پر گمراہی پھیلانے کا ذریع بنیں گے خدانہ خواستہ۔ اپنی بھی عاقبت خراب دوسرں کی بھی۔ دھرا عذاب
 
مجھ سے سوالات کے جوابات کی توقع نہیں رکھئے۔
شكريہ ... اس طرح كم از كم اتنا تو علم ہوا كہ جناب صرف قرآن كريم كے خودساختہ معانى منوانا چاہتے ہيں ليكن بلا دليل ... يعنى تقليد محض... سوالات كى ، دليل مانگنے كى اجازت نہيں!
ميں نے اس دھاگے ميں جناب سے گفتگو کے دوران كسى نقظہ نظر كى حمايت نہيں کی بلكہ بعض آيات قرآنيه كے متعلق جناب كے مزعزمہ مفاہيم كو سمجھنے کے ليے سوالات كيے ہيں ۔ اب اس صاف انكار كا مطلب يہ ہے کہ جناب اس "قرآن فہمى" كو خود تك محصور رکھنا چاہتے ہيں ، حالانکہ اگر یہ خير ہے تو اسے عام كرنا چاہیے۔ بہر حال ايك آخرى كوشش كے طور پر ميرى درخواست ہے کہ جناب اپنا ترجمہ قرآن (خواه مكمل ہے خواه ادھورا ) عنايت فرمائيں تا كہ فقيره الى الله اس كا طالب علمانہ مطالعه كر سکے۔
 
جب كوئى تاريخ كى بات كرتا ہے تو قرآن كريم اور اسلام كے عقائد بھی ايك مكمل تاريخ ركھتے ہيں اور بائبل سے زيادہ مستند جس كى شہادت غير مسلم محققين بھی دے چکے ہيں۔
ميرے يہ تينوں سوالات "صرف قرآن " اور تاريخ سے متعلق ہيں۔ او ر سوال نمبر دو كا جو جواب فاروق سرور خان صاحب نے ديا ہے اس كو ديكھیے ۔ كيا كوئى يہودى اور عيسائى يا تاريخى مصادر سے ثابت كر سكتا ہے کہ مسيح عليه السلام بڑھاپے ميں فوت ہوئے؟ (جناب خان صاحب اابراہيمى اديان Abrahamic Religions كى تمام كتابيں اس دعوے پر ہنستی نظر آتى ہيں )
اصل پیغام ارسال کردہ از: فاروق سرور خان
2-اگر بقول آپ کے عيسى عليہ السلام وفات پا چکے ہيں تو كيا وہ بوڑھے ہو كر فوت ہوئے تھے يا جوانى ميں؟
نا ان کو قتل کیا گیا اور نا ہی ان کو مصلوب کیا گیا۔ قرآں حکیم گواہی دیتا ہے کہ جناب بوڑھی عمر میں بھی دعوت دیں گے۔۔۔ لہذا جناب کی وفات اس عمر کے بعد ہی ممکن ہے۔ اس بارے میں معلومات فراہم کرنے والی آیات بعد میں۔

خان صاحب كيا آپ تاريخ عالم كى كسى مستند كتاب كا حوالہ دے سکتے ہيں جو اس بات كى شهادت دے کہ سيدنا عيسى عليه السلام بوڑھے ہو كر فوت ہوئے ؟
آپ کے " ترجمه قرآن " پر يہ تاريخى اعتراض اٹھے گا ، پيش بندى كر ليجیے ۔ :)
 
بلکل فرض ہے ۔ یہ بنیادی سوال ہے کہ کوئی بھی مسئلہ اس ہی سے سمجھا جائے گا جو ان مسائل کا ماہر ہو۔ نہ کہ ہر ایرا خیرا دوسروں کو سمجھانے کی بات کرے۔ یہی مسلمہ اصول ہے۔
جب معمولی دنیاوی علم کے لیے اتنی شرائط ہیں تو افاقی علم کے لیے مزید شرائط ہونی چاہیں۔ یہ تو مسلمہ بات ہے۔
بہتر ہے کہ اپ سب لوگوں کو الجھانے کے بجائے کسی مستند عربی عالم دین سے رجوع کرکے اپنی الجھن درست کریں۔ ورنہ پر گمراہی پھیلانے کا ذریع بنیں گے خدانہ خواستہ۔ اپنی بھی عاقبت خراب دوسرں کی بھی۔ دھرا عذاب

جزاك الله خيرا ، يہی بات علامہ محمد اقبال رحمه الله نے بھى فرمائی ہے۔ جاننے و الے جانتے ہيں علامہ كا " ملائيت " سے كوئى تعلق نہ تھا :)
۔۔۔ بعض ايسے لوگ بھی مسلمانوں ميں پائے جاتے ہیں جو نہ عربي زبان وادب ميں خاطر خواہ استعداد رکھتے ہیں ، نہ عرب كے قديم علمى سرمايہ پر ان کی نگاہ ہے ، نہ قرآن كريم كو ٹھیک طور پر سمجھ سکتے ہیں مگر اپنی اس علمى تہی مائيگی کے باوجود قرآن كريم كے ترجمہ اور تفسير كى كوشش فرماتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب ( اقبال ) كو اس قسم كى باتوں سے بڑی اذيت ہوتی تھی ، وہ اپنی متانت ، سنجيدگی اور عالى ظرفي كے باوجود اس غم كوچھپا نہ سکے ، ايك بار فرما ہی دیا : ۔۔۔ قرآن كريم اس اعتبار سے بڑا ہی مظلوم صحيفہ ہےكہ جسے ذنيا ميں اور كوئى كام نہیں ملتا وہ اس كے ترجمہ وتفسير ميں مصروف ہو جاتا ہے حالاں کہ یہ نہایت ہی نازك اور محتاط ذمہ دارى ہے ۔
__________ اقتباس از : روز گارِ فقير ، تاليف: فقير سيد وحيد الدين _________​

ملا ملا كا شور مچا كر "قرآن فہمی" کے نام پر كلام الہی كے مفاہيم ميں تحريف كرنے كا اجازت نامہ حاصل كر لينا نا ممكن ہے ۔ اس تحريف كا راستہ ملائيت نہيں "اصول تحقيق" نے روك رکھا ہے !
 
حضرت عیسی کے زندہ اٹھائے جانے کے بارے اہل علم احباب نے قراآن و حدیث سے جامع دلائل دئے مگر دوستوں یہ سب کچھ ان لوگوں پر بے اثر ہیں جن کے دل و دماغ پر تالے پڑ چکے اور گلے میں لونت کے طعوق ۔۔۔۔۔ جناب عیسی علیہ اسلام زندہ اٹھائے گئے یا نہیں اس بحث سے قادیانیوں کے اس دعوے کا کیا تعلق بنتا ہے کہ اب عیسی وفات پا گئے سو اب مرزا صاحب عیسی بن گئے ہیں؟ وہ قراآنی دلائل کو نہیں مانتے لیکن جو لطیفہ نما دلیل وہ اپنے عیسی ہونے کے حوالے سے دیتے ہیں وہ آپ سب پڑھیں ،کھل کر ہنسیں اور پر لعنت اللہ علی الکاذبین کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزا صاحب اپنی مسخرانہ تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
” مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخری کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اسی الہام کے جو سب سے آخر میں براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ ۵۵۶ پر درج ہیں مجھے مریم سے عیسی بنایا گیا۔ پس اس طور میں عیسی ابن مریم ٹھہرا ”
حوالہ : کشتی نوح صفحہ نمبر ۴۷ ۔ مندرجہ خزاین جلد ۱۹ صفحہ ۵۰ از مرزا قادیانی
اب قادیانی حضرات یہ بتائیں کہ کیا ایسا پاگل شیطان القلم نعوذ باللہ کوئی مہدی یا مسیح ہونے کے لائق تھا؟ ان کم عقلوں سے یہ پوچھا جائے کہ اگر ان کے عقیدے کے مطابق اگر عیسی علیہ اسلام انتقال کر چکے ہیں تو بھی ان کی وفات کا مرزا کے مہدی یا مسیح موعود ہونے سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قادیانی حضرات بتائیں کہ اگر گاوں کا چوھدری مر جائے تو گاوں کوئی میراثی اٹھ کر یہ دعوی کر دے کہ چونکہ اب چوھدری مر گیا سو میں اب چوھدری ہوں تو کون اسے چوھدری مانے گا جب تک وہ چوھدری ہنے کا اہل نہ ہو؟ ۔۔۔۔۔۔ سو حضرت عیسی علیہ اسلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کی قرآنی دلیلوں سے پہلے قادیانیوں سے مرزا صاحب کے مسخرانہ کردار اور اہلیت پر تو بات کی جائے کہ کیا کوئی جھوٹا ، بد صورت، بھینگا شخص مہدی اور مسیح ہونے کے لائق تھا جس نے جو لکھا مستند جھوٹ لکھا، جس کی قلم ساری زندگی نبیوں رسولوں صحابہ اور اہل بیت کی گستاخی میں گذر گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی تحریریں اور شاعری غلیظ زبان سے بھری پڑی ہے اور جس کی ہر بات ہر دعی اس کے زندی اور عبرتناک موت کے بعد جھوٹا ثابت ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی گالی باز مسخرہ عہدہ ِمہدیت یا مسیح موعود کے قابل ہو سکتا ہے؟ اللہ ان قادیانی ھضرات کو عقل فہم اور توفیق توبہ دے ۔۔ آمین
 
حیرت ہے کہ مرزا صاحب جس عیسی علیہ اسلام کے ثانی ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہیں کے بارے اتنی غلیظ زبان بولتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی صحیح الدماغ انسان اللہ کے کسی سچے نبی کے بارے ایسی زبان بول کر بھی ساحب ایمان کہلائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین
نمبر١ آپ کا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناء کار اور کسبی
عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )
نمبر ٢ مسیح (علیہ السلام ) کا چال چلن کیا تھا ، ایک کھاؤ پیو ، نہ زاہد ، نہ عابد نہ حق کا پرستار ، متکبر ، خود بین ، خدائی کا دعویٰ کرنے والا ۔ (مکتوبات احمدیہ صفحہ نمبر ٢١ تا ٢٤ جلد ٣)
نمبر ٣ یورپ کے لوگوںکو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے ۔ (کشتی نوح حاشیہ ص ٧٥ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

؟
نمبر ٤ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو ۔ اس سے بہتر غلام احمد ہے۔ (دافع البلاء ص ٢٠)
نمبر ٥ عیسیٰ کو گالی دینے ، بد زبانی کرنے اور جھوٹ بولنے کی عادت تھی اور چور بھی تھے ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ص ٥،٦)
نمبر ٦ یسوع اسلیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکتا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور خراب چلن ، نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتداء ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کادعویٰ شراب خوری کا ایک بد نتیجہ ہے۔ (ست بچن ، حاشیہ ، صفحہ ١٧٢، مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی )
ارے بھائی کونسی ویڈیو لوڈ کرو گے ابِ؟؟؟؟؟؟
 
مرزا صاحب خود کو مریم کا بیٹا قرار دیتے ہیں کہ وہ خود مریم بنے اور پھر حاملہ ہو کر خود عیسی بن کر پیدا ہو گئے ۔۔۔۔۔۔
مرزا صاحب اپنی مسخرانہ تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
” مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخری کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اسی الہام کے جو سب سے آخر میں براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ ۵۵۶ پر درج ہیں مجھے مریم سے عیسی بنایا گیا۔ پس اس طور میں عیسی ابن مریم ٹھہرا ”
حوالہ : کشتی نوح صفحہ نمبر ۴۷ ۔ مندرجہ خزاین جلد ۱۹ صفحہ ۵۰ از مرزا قادیانی
لیکن پھر اپنی اسی ماں بی بی مریم کی اور ان کے خاندان کو گالیاں دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی سحیح الدماغ شخص اپنی ماں کو گالیاں دے کر بھی مہدی اور مسیح ہونے کا دعوی کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔؟ قادیانی بتائیں کہ اگر وہ اپنی ماں کو ایسا کہیں تو کیا کہلائے جائیں گے؟
مرزا صاحب فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
(حضرت عیسیٰ علیہ السلام )خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناء کار اور کسبی
عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم ، حاشیہ ص ٧ مصنفہ غلام احمد قادیانی )

استغفرللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس صرف اتنا کہوں گا کہ وہ ایک مسخرہ تھا ۔۔۔۔۔سو مرتے وقت اس کے مونہہ سے بھی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ سے گندی جاری تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ قادیانی ھضرات کو عقل اور توفیق توبہ دے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top