آتش حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا - حیدر علی آتش

کاشفی

محفلین
غزل
(حیدر علی آتش)

حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا

دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا

چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا

کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل
بند آنکھیں ہوگئیں، آئینہ حیراں رہ گیا

کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا

شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل
سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا
 

فرخ منظور

لائبریرین
خوبصورت غزل شئیر کرنے کا شکریہ کاشفی صاحب۔ میرے خیال میں اس شعر میں فرد مایہ کی بجائے فر و مایہ ہونا چاہیے۔
دوستی نبھتی نہیں ہرگز
فرد مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا
 

کاشفی

محفلین
خوبصورت غزل شئیر کرنے کا شکریہ کاشفی صاحب۔ میرے خیال میں اس شعر میں فرد مایہ کی بجائے فر و مایہ ہونا چاہیے۔
دوستی نبھتی نہیں ہرگز
فرد مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا

شکریہ بیحد آپ درست فرما رہے ہیں۔۔تصیح کے لیئے شکریہ بیحد۔۔
 
Top